WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

جامعہ امام احمدرضاباسنی میں سہ روزہ علمی مسابقہ بحسن وخوبی اختتام پزیر…رپورٹ: احمد رضا بن عبدالواحد منڈلمتعلم: جامعہ امام احمد رضا تاج الشریعہ نگر، کمہاری روڈ، باسنی، ضلع:ناگور شریف(راجستھان)


بلاشبہ جامعہ امام احمد رضا باسنی ناگور اپنی علمی،ادبی راہوں پر گام زن ہے اور تعلیمی میدان میں اپنے جوہر بکھیر رہا ہے جس میں طلبہ میں صلاحیت پیدا کرنے اور علمی و ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے ہر طرح کے اقدام کیے جا رہے ہیں اسی سلسلے کا ایک قدم نحوی، فقہی، سیرتی، تقریر و قرأت اور حفظ قرآن پرمشتمل سہ روزہ مسابقه عمل میں آیا
15، 16، 17,جمادی الاولیٰ 1444ھ بمطابق 10، 11، 12، دسمبر 2022ء بروز ہفتہ، اتور، پیر کو منعقد ہوا جس کی صدارت شیخ الجامعہ حضرت علامہ و مولانا حافظ نصیر احمد رضوی مد ظلہ العالی نے فرمائی اور جملہ اساتذہ کرام زینت محفل رہے –
پہلے دن تقریر و قراءت کا مقابلہ ہوا جس میں 3 گروپ(الف، ب، ج) کے 31 طلبہ نے participate کیا جس میں طلبہ تقریر و قراءت کے جوہر دکھاتے اور اپنے مظاہرہ کے مطابق نمبر حاصل کرتے-
دوسرے دن نحوی، فقہی، اور سیرتی مقابلہ ہوا اس میں درس نظامی کے جملہ طلبہ نے شرکت کی جوکہ چار گروپ میں تقسیم کے گئے تھے اس مقابلہ کا طریقہ یہ تھا کہ خفیہ چِٹھیوں کی شکل میں سوالات پہلے ہی مرتب کر لیے گئے تھے طلبہ یکے بعد دیگرے اپنے اپنے مقررہ وقت پر اسٹیج پر آتے اور انہیں جو پرچی دی جاتی اس کو پڑھ کر اپنی معلومات کے مطابق مائک میں جواب دیتے اس کا طریقۂ کار (رول) یہ تھا کہ ہر ایک کو 30 second جواب شروع کرنے کو ملتے پھر اختیاری پر جواب پورا کرنا ہوتا اگر کوئی طالب علم تیس سیکنڈ second میں جواب شروع نہ کر پاتا تو اس سوال میں وہ ناکام سمجھا جاتا اسی طرز پر یہ مقابلہ اختتام پزیر ہوا-
تیسرے دن حفظ قرآن کا مقابلہ ہوا جس میں درجہ حفظ کے تمام طلبہ چار گروپ میں بٹے ہوئے تھے اس مقابلہ کا وہی طریقہ تھا جو گزشتہ مقابلوں کا تھا بس اتنا فرق تھا کہ اس میں تیس second کی جگہ پینتالیس second دیے گئے تھے اس نوعیت سے یہ مقابلہ بھی پورا ہوا –
مقابلہ کے دو دن بعد اول، دوم ، سوم، پوزیشن پر آنے والے طلبہ کو انعامات سے نواز نے- اجراء کوپن اور مفتی اعظم راجستھان بلاک کی سنگ بنیاد کے لیے بموقع عرس حجۃ الاسلام جامعہ کے وسیع میدان میں ایک جلسے کا انعقاد ہوا جس کی صدارت حضور مفتی اعظم باسنی نے فرمائی اور بحیثیت مہمان خصوصی حضرت مثنی میاں رضوی رونق بزم ہوئے اور جامعہ ھذا کے جملہ اساتذۂ کرام و دیگر علماء نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے محفل میں چار چاند لگا دییے
تلاوت کلام اللہ سے جلسے کا آغاز ہوا بعدہ طلبہ جامعہ نے حمد ، نعت، تقریر اور مکالمہ پیش کیے حضرت مثنی میاں نے سیرت حضور حجۃ الاسلام کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی- اس کے بعد علماءکرام نے اپنے اپنے تأثرات پیش کیے اور ہر گروپ سے اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات و اکرامات اور داد و تحسین سے نوازا گیا –
پھر حضور مفتی اعظم باسنی حضرت مفتی ولی محمد صاحب رضوی کے دست پاک سے کوپن 786 کا اجرا ہوا آپ کے دست مبارک کی برکت یہ ہوئی کے فی الفور تقریا 400 کوپن خرید لیے گئے اور آپ نے قوم کو یک جہت ہونے اور جماعت رضاۓ مصطفی سے جڑنے کی نصیحت کی، پھر درود و سلام اور دعا پر یہ محفل اختتام پزیر ہوئی –
محفل کے بعد علماء ذوی الاحترام کے مقدس ہاتھوں سے مفتی اعظم راجستھان بلاک کا سنگ بنیادرکھاگیا-

حضرت صدرالعلما علامہ تحسین رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول… ازقلم: شیر مہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


تحسین میاں واقعی تحسین میاں ہیں

میرے استاذ، میرے مر شد ، میرے آقا ، میرے ہادی حضرت صدرالعلما تحسین رضا خاں بریلوی عشق رسول کی دولتوں سے خوب مالا مال تھے ۔۱۹۹۴ ء میں [راقم الحروف ] جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف میں زیر تعلیم تھا اور حضرت صدرالعلما جامعہ کے شیخ الحدیث کے منصب پر فا ئز تھے ۔اس وجہ سے فقیر کو حضرت سے درس حدیث کا شرف حاصل رہا ،طالب علمی کا زمانہ بھی بڑا پرکیف ہوتا ہے ۔شخصیت شنا سی کی صلاحیت سے آشنائی نہیں ہوتی ۔
یقین جا نئیے !علم و عمل ، تقویٰ و طہارت ، ذکاوت وفراست ، تبلیغ و دعوت اور اتباع رسول میں حضرت صدرالعلما اپنے سابقہ محدثین کی یاد گار تھے ۔حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی لکھتے ہیں :’’ آپ معمولات کے بے انتہا پابند تھے ،سنتوں کا اہتمام اور عشق رسول کا جذبۂ شوق آپ کو وراثت میں ملا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند کے زیر سایہ آپ نے فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دیا ، مگر افسوس وہ علمی اور فقہی ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ۔ شہرت پسندی اور جاہ طلبی سے آپ زندگی بھر کنارہ کش رہے ،ملکی سیاست سے بھی عملا آپ کا کبھی کوئی تعلق نہ رہا ۔ کم گو اور تخلیہ پسند تھے ،نماز با جما عت کے سخت پابند تھے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں شریعت مصطفیٰ کی عملی تصویر تھے ۔‘‘
[ تجلیات رضا بریلی کا ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص۲۵۹ ]
مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظا می رضوی مہتمم کتب خا نہ جامعہ نظامیہ حیدرآبادی لکھتے ہیں :
جن کی تمام تر زندگی عشق شۂ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے علم و عمل اور شر یعت وطر یقت کے فروغ میں گزری اور متاع حیات کی آخری سانسیں بھی اسی میدان کی لالا زاری کی شاہد عدل بن گئیں اسم تحسین ، جسم تحسین ، قال تحسین ،حال تحسین ،فکر تحسین ، اقدار تحسین ، اذکار تحسین ، اعمال تحسین ، افعال تحسین ، اقوال تحسین ، تزکیہ تحسین ، تصفیہ تحسین ، تحقیق تحسین ، تدقیق تحسین ، تفسیر تحسین ، تحدیث تحسین ، اخلا ق تحسین ، اشفا ق تحسین ،حضر تحسین ، سفر تحسین ، حیات تحسین ، ممات تحسین الغرض! امام عشق و محبت کی نسبت نے ہر زاویۂ حیات کو لباس حسن میں ملبوس کر کے جگمگ جگمگ روشن روشن بنادیا تھا ، بریلی سے طلوع ہونے والے اس سورج کا غروب ناگپور میں ہوا لیکن ڈوبتے ڈوبتے بھی یہ سورج اپنے پیچھے ہزارہا ستاروں کی انجمن کو منور و تاباں کر گیا جو کرۂ ارضی پر مختلف اسالیب و اشکال میں ضیاپاشی کررہے ہیں ۔
(سالنامہ تجلیات رضا ، شما رہ ۶، صدرالعلما محد ث بر یلوی نمبر ،ص، ۴ ۳۲؍۳۲۵،امام احمد رضا اکیڈمی بریلی )
حضرت صدرالعلما علیہ الرحمہ کی اتباع سنت اور اسوۂ رسول پر عمل کا آنکھو دیکھا حال مولانا غلام شرف الدین رضوی مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ نائے گاؤں ناندیڑ مہاراشٹرا لکھتے ہیں :
حضور صدرالعلما سے ملا قات کی چہرۂ پر انور کی زیارت سے ہم لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اتنے میں میزبان نے دستر خوان بچھا دیا صدرالعلما دستر خوان پر تشریف لائے اور چار زانو بیٹھ گئے راقم الحروف حضور والا کے بغل میں بیٹھا تھا دستر خوان پر موجودہ حضرات صدر العلما کے چہرۂ پر انوار سے شرفیاب ہورہے تھے سب کی نگاہیں نبیرۂ اعلیٰ حضرت ہم شبیہ مفتی اعظم حضور صدرالعلما پر جمی ہوئی تھی جب میزبان نے روٹی اور سالن دستر خوان پر لا کر رکھا تو اس وقت بھی صدر العلما چار زانو ہی بیٹھے رہے میں اپنے تئیں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ حضور کمزور ہیں ، ضعیف ہیں لگتا ہے کھا نا چار زانو ہی بیٹھ کر تناول فرمائیں گے ، لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب صدرالعلما علیہ الرحمہ کے ہا تھ میں روٹی پہنچی تو آپ نے فوراً داہنے پیر کو کھڑا کر دیا اور اس طر یقے پر بیٹھ گئے جس طرح اللہ کے حبیب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر کھانا تناول فرما تے تھے ، اتبا ع سنت مصطفیٰ کا یہ حال دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس پیرانہ سالی اور کمزوری کے عالم میں بھی گوارا نہیں کہ سنت مصطفیٰ چھوٹ جائے ۔ اب ہر باشعور انسان یہ اندزاہ لگا سکتا ہے کہ جن کی اتباع سنت کا یہ حال ہے تو فرائض و واجبات پر پابندی کا کیا عالم ہوگا ۔
(ایضاً، ص ۳۲۹؍۳۳۰)
حضرت صدرالعلما کے عشق رسول کے حوالے سے حضرت مو لا نا شکور احمد رضوی لکھتے ہیں : افعال واقوال بلکہ جمیع احوال میں مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا مظہر تھے ۔ ساری زندگی پا بندی شریعت اور اتباع رسول میں گزری ۔ سادگی ان کا شعار سنجیدگی اور متانت ان کا شیوہ تھا ۔حسن اخلاق ان کا زیور ۔اور حلم و بردباری ان کا طرۂ امتیاز ۔آپ کی تمام تر ادائیں سنت رسول ﷺ کی آئینہ دار تھی ۔ نماز باجماعت کی پا بندی آپ کی طبیعت میں داخل تھی ۔سوائے کسی شرعی عذر کبھی جما عت تر ک نہ فر ما تے ۔جب با ہر تشریف لے جاتے تو وہاں جلسے کی قیادت و سرپرستی فرماتے ۔مگر نماز فجر با جماعت چھو ٹتی نہ دیکھی گئی ۔جہاں قیام فرماتے مسجد جا کر باجماعت نماز ادا فرماتے ۔آپ کی یہ استقامت اور شریعت کی اطاعت ہزاروں کرامتوں پر بھاری ہے در اصل اتباع رسول ہی ایک بندۂ مومن کی معراج اور قرب خدا کا ذریعہ ہے ۔
بمصطفیٰ بر ساں خو یش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
[تجلیات رضا ،بریلی کا ’ صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ‘‘ص ۲۳۷]
مولانا محمد مظاہر الاسلام رضوی مدرس دارالعلوم حنفیہ سنیہ اسلام پورہ مالیگاؤں لکھتے ہیں :
آپ کبھی ایسا کام نہیں کر تے تھے جو شریعت و طریقت کے خلا ف ہوتے ، رہبرشریعت پیر طریقت حضور صدرالعلما محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی ، جن کی پوری زندگی اتباع رسول میں گزری ، حضور صدرالعلما ہر وقت ہر لمحہ قرآن و حد یث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا تھے ، چو نکہ سچے عاشق رسول وہی ہوتے ہیں جن کی توجہات اپنے آقا و مولیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے مبذول ہو ۔
(ایضاً ،ص ۳۳۵؍۳۳۶)
ڈاکٹر محمد صدر عالم صدیقی دربھنگا بہار لکھتے ہیں :
مختصر یہ کہ آپ نے اپنی زندگی کی ساری توانائی حق اور عدل کے قیام ، بھٹکے ہوئے لوگوں کوصراط مستقیم پر گامزن کرنے اور انسانیت سازی کے لئے صرف کردی آپ کا ماننا تھا کہ
دشمنوں کو بھی بڑھ کر لگاؤ گلے
مصطفیٰ کی طرح سب کی خدمت کرو
آپ ایک سچے عاشق رسول تھے سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور ایسا کیوں نہ ہو بلکہ یہ حقیقت ہے کہ محبت رسول ہی جان ایمان ہے اور ان کی اتباع کے بغیر کوئی بھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔ بقول شاعر
اپنی دولت عشق محمد دنیا کو دکھلانا کیا
سارے جہاں کے راز ہیں دل میں ناداں کو بتلانا کیا
پیا رے نبی کی موہنی صورت پر مرمٹنا جیون ہے
عشق محمد بن دنیا میں جینا اور مر جانا کیا
(ایضاً ، ص ۴۵ ۳)
ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
وطن مالوف: پپرادادن ، سیتامڑھی ، بہار
21/ جمادی الاول 1444ھ
16/ دسمبر 2022 ء)

ضرورت مندوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں..تحریر ، محمد جمال اختر صدف گونڈوی

مذہب اسلا م میں ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں و کمزوروں کی مدد کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے-
پھر وہ چاہے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہو یا پیاسوں کو پانی پلانا-
اسلام کی اسی خوبصورتی کو دیکھ کر اغیار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ جتنی اخوت و انسانیت اسلام میں پائی جاتی ہے دنیا کے کسی مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی،
کیوں کہ پیغمبر اسلام ساری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے،
انہوں نے بلا تفریق قبیلہ و نسل تمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی و بھائی چارہ کا درس دیا،
انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ،
اس ماڈرن دور میں مسلمانوں نے عبادات سے لےکر صدقات و خیرات تک سب ڈیجیٹل کر دیا ہے،
حاجی صاحبان جب حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں پہنچتے ہیں تو حج کے اغراض و مقاصد کو بھول کر پہلے کعبہ کو پیٹھ ایک مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ سیلفی ضرور لیں گے اور وہیں سے تمام رشتہ داروں کو بھیجنا شروع کر دیں گے کہ دیکھ لو ہم نے کعبے کو بھی پیٹھ کے پیچھے کر دیا،
صرف اتنا ہی نہیں اس کے بعد جا بجا فوٹو بازی اور ویڈیو گرافی کرتے ہوئے اسی کیمرے کے ساتھ سارے ارکان حج مکمل کریں گے،
کچھ حاجی تو طواف کے دوران لائیو پروگرام دکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں،
ایسے ہی جب کوئی کسی مجبور کی مدد کرنے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے کیمرے کے سامنے کھڑا کرتا ہے اس کے بعد اسے راشن،کمبل، وغیرہ دیتے ہوئے فوٹو کھنچواتا ہے اور تمام سوشل میڈیا پر عام کرتا ہے،
ذرا سوچیں اس غریب کے رشتے داروں تک جب یہ فوٹو پہنچتی ہوگی تو ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی، اور وہ غریب بیزاری قسطوں میں ذلیل ہوتا ہوگا، جب جب لوگوں کی نظروں سے وہ تصویر گزرتی ہوگی لوگ اس بیچارے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے،
ایسے ہی مسجد و مدرسے میں کوئی صاحب جب کچھ چندہ دیتے ہیں تو بار بار اپنے نام کا مائک سے اعلان کرواکر پورے معاشرے کو بتاتے ہیں کہ ہاں ہم نے آج حاتم طائی کا رکارڈ توڑ دیا ہے،
بلکہ سخاوتوں کے سلسلے میں میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد حاتم طائی سے بڑی میری ہی مزار بننی چاہئے،
کسی غریب کی عزت نفس کو ذلیل کرکے خود کو سخی سمجھنے کی بے وقوفی کرنے والوں کی سوشل میڈیا پر تعریف کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ، انہیں اس مذموم کام سے روکنا چاہئے تھا لیکن
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،

سارے کے سارے ماشاءاللہ ،سبحان اللہ، واہ واہ، بہت خوب، لا جواب، لکھ کر انہیں ان کی غلطیوں سے روکنا اپنی زمہ داری نہیں سمجھتے،
دور عمر رضی اللہ عنہ میں یہ لوگ ہوتے تو انہیں سخاوت کا صحیح سبق مل گیا ہوتا،
ایسے لوگ ہسپتالوں میں اکثر دیکھنے کو مل جائیں گے، جہاں کسی مریض کے پاس دو چار لوگ ایک کیلے کو پکڑ کر باری باری فوٹو کھنچوا رہے ہوتے ہیں،
کچھ تو ایسے ہیں کہ سڑک پر حادثے میں زخمی افراد کی مدد کے بجائے ان کی ویڈیو بناکر شئیر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور زخمی کراہ رہے ہوتے ہیں، اگر بر وقت ان کی مدد کر دی جائے تو زخمیوں کے لئے اتنی دشواری نہ ہو جتنی سارا خون بہ جانے کے بعد ہوتی ہے،
ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگ ذہن میں ایک خیال ضرور لاتے ہیں کہ یہ اسلام کا ماننے والا ہے ضرور یہ اسلامی طریقے کا پابند ہوگا،
مگر افسوس کہ اکثر انڈین مسلم اور انکا کردار دونوں اسلام کے خلاف ہی نظر آتا ہے،
شادیوں کا سارا سسٹم سنت کے خلاف ریاکاری سے بھر پور چل رہا ہے،
وہاں بھی شروع سے آخر تک کیمرے کی پہرے داری میں سارا کام ہوتا ہے،
آج کل تو کوئی غریب دس بار ایسی شادیوں میں جانے کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہاں مغلیہ سلطنت کے واثین کے شہزادوں والے لباس و جوتے کہاں سے لاؤں ، کسی ہسپتال میں عیادت کے لئے جاتے وقت کوئ بھی لفافہ نہیں لے جاتا ہے جب کہ وہاں مریض کو پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،
لیکن شادیوں میں موٹے موٹے لفافے کا زبردست چلن پڑ گیا ہے،
وہاں لفافہ لے جانا نہیں بھولتے ہیں،
کیا یہی ہمارا کلچر تھا؟
افسوس کہ ہر جگہ ریاکاریوں میں ہماری زندگی پھنسی ہوئی ہے اور ہم اس گھناؤنے ماحول سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں،
تحفہ تحائف دینا بھی سنت ہے لیکن جب کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو سب سے پہلے اس کے کھانے کا انتظام کرنا ایک مسلمان کی زمہ داری ہے کسی کی مدد کرنا، کسی کا سہارا بننا ، یا کسی بیمار کے علاج کے لئے روپئے پیسے کا بند و بست کرنا بہت بڑا کام ہے اگر خالص اللہ کے لئے کیا جائے، جب لوگ آپکو مخلص پائیں گے توآپ کے قریب آنا شروع کر دیں گے ،
بلکہ وہ بھی آپ کے اس نیک کام کا حصہ بننا پسند کریں گے اور آہستہ آہستہ آپکے پاس ایک جماعت موجود ہو جائےگی جو دوسروں کی مدد کرنے اور اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے میں آپ کی مددگار ہوگی،
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اچھے وقتوں میں کسی کے ساتھ بھلائی کا کام بہت یاد رکھی جاتی ہے لیکن کسی کے برے وقت میں جب کوئی سہارا بنتا ہے تو وہ انسان تا دم مرگ اپنے اس محسن کو نہیں بھول پاتا ہے، آج کے دور میں لوگ غریب رشتے داروں سے نظریں چراتے ہیں اور بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، کچھ لوگ تو اپنی تقریبات میں غریب رشتے داروں کے لئے الگ انتظام کرنا شروع کر دئیے ہیں یہ چیزیں فقیر کے مشاہدے میں بہت بار آ چکی ہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی دل سے عزت کریں تو آپکو مخلص بننا بہت ضروری ہے ،
لوگ اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانتے جب تک کہ آپ کو نہ مان لیں
اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کو منوائیں، اسلام کے قریب لانے کے لئے اسلام کو منوائیں، عزت و ذلت رب کے ہاتھ میں ہے اس لئے خود کی کوشش سے کوئی عزت دار نہیں ہوتا جب تک کہ اسے رب عزتیں نہ عطا کرے،
اگر آپ کے افعال میں خلوص و للہیت شامل ہے تو ہر حال میں رب آپ کو عزت عطا کرے گا،
سر بلندیوں، نوازشوں کے دروازے آپ پر کھول دےگا،
اگر ایسا نہیں ہے تو ساری زندگی آپ خیرات کرتے رہیں فوٹو کھنچواتے رہیں اس کا کوئ فائدہ نہیں،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بستی میں رات رات گشت کرتے تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا ہے، اور ضرورت مندوں تک ضروری اشیاء خود اپنے کندھوں پہ لاد کر اس کے گھر چپکے سے پہنچاتے تھے،
یہی کام تمام خلفاء کا رہا اور صحابہ کرام نے اسی روش پہ زندگیاں گزار دیں،
بحیثیت امت رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسی طریقے پر چلیں جس پر چل کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کی رضا حاصل کی-

بنے دو جہاں تمہارے لئےازقلم : محمد علاؤ الدین قادری رضوی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا میراروڈ ممبئی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شان و عظمت ہے ا س کامکمل بیا ن خلق خدا کی زبان سے ممکن نہیں سرکار علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مدح و ثنا صاحب قرآن کو ہی زیب ہے کہ وہ خالق حقیقی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اور ساری مخلوق کو آپ ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔            (مواھب لدنیہ ،۲؍۲۷۱؍سیر ت حلبیہ ، ۳؍۴۲۲) 

    اے رضا خو د صاحب قرآں ہے مداح حضور 
    تجھ سے کب ممکن ہے  پھرمد حت رسول اللہ کی 
امام شر ف الدین محمد بن سعید بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ اپنے مشہو ر زما نہ قصیدہ بر دہ شر یف میں فر ما تے ہیں :
        وکیف تدعوا لیٰ الد نیا ضرورۃ من 
        لو لا ہ لم تخرج  الد نیا من     العدم 

اور دنیا کی ضرورت اس مبا رک ہستی کو اپنی طر ف کیسے بلا سکتی ہیں کہ اگر وہ نہ وہو تے تو دنیا عد م سے وجود میں آتی ہی نہیں ۔
احناف کے جید عالم دین حضرت علامہ سید عمر بن احمد آفندی حنفی علیہ الر حمہ مذکورہ شعر کی شر ح میں لکھتے ہیں :کہ شعر میں اس حد یث قدسی کی طر ف اشارہ ہے :لو لا ک لما خلقت الافلاک ۔یعنی اگر آپ نہ ہو تے تو میں آسمانو ں کو پید ا نہ فر ما تا ۔ یہا ں آسمانو ں سے مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو دنیا میں مو جو د ہے یہا ں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے ۔ محدثین میں سے بعض نے رواۃ حد یث کو ضعف سے تعبیر کیا ہے لیکن اس کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہیں یعنی مذکورہ حد یث معنا صحیح ہے ۔ شب معراج جب سر کا ر دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو اللہ سبحا نہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اس وقت محبوب ومحب میں جو با ت ہو ئی وہ گفتگو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ملا حظہ فر ما ئیں ارشاد رب ہوا :انا وانت وما سویٰ ذالک خلقتہ لاجلک ۔ یعنی اے میرے محبوب !میں ہو ں اور تم ہو ،  اس کے سواجو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہا رے لئے پیدا کیا ہے ۔جواب میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خالق کی بارگاہ میں عرض کیا :انا وانت وما سویٰ ذالک ترکتہ لاجلک ۔یعنی اے میرے مالک ! میں ہوں اور تیری ذات پاک ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا ۔
امام بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دنیا ر حمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تا بع ہے ،یہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ر ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے بنا ئی گئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ مبا رک ہستیاں دنیا کے مطیع ہو جا ئیں یا دنیاوی خواہشات ان پر غا لب آجا ئیں ۔    
                            (عصیدۃالشہدۃ شر ح قصیدۃ البر دۃ ، ۱۱۸)
مذکورہ بالا حد یث لولاک کی مختصر تو ضیح اور محد ثین عظام کی روایت کر نے میں جو الفا ظ کے فر ق آئے ہیں وہ یہا ں در ج کئے جا رہے ہیں تا کہ آپ ان تمام مر ویا ت کو بآسانی سمجھ سکیں ،حدیث لو لاک کے اصلی الفا ظ ملا حظہ ہو ں !
حد یث آدم علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا محمد ما خلقتک ۔
تر جمہ :اے آدم ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں تمہیں پیدا نہ کر تا ۔
حد یث عیسیٰ علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لو لا محمد ما خلقت الجنۃ ولا لنار۔
تر جمہ :اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت و دوزخ کو پیدا نہ کر تا۔
حد یث جبر ئیل علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں : لو لا ک ما خلقت الدنیا ۔
تر جمہ :اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا کو پیدا نہ کر تا ۔
حد یث ابن عبا س ر ضی اللہ عنہ کے الفاظ یو ں ہیں :لو لا ک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت الدنیا والنار ۔
تر جمہ : اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت کو پید نہ کر تا اور اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا اور دوزخ کو پیدا نہ کر تا ۔
حدیث علی رضی اللہ عنہ کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا ک ما خلقت ارضی ولا سمائی ، ولا رفعت ھذہ الخضراء ،بسطت ھذہ الغبراء ۔
تر جمہ: اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں اپنی زمین وآسمان کوپیدا نہ کر تا اور نہ میں آسمان کو بلند کر تا اور نہ زمین کو پھیلا تا ۔
و ضا حت : متن حدیث میں کہیں بھی افلاک کا لفظ نہیں ہے اسی لئے بعض محد ثین نے اسے مو ضو ع کہا ہے لیکن محد ثین کی ایک بڑی جما عت نے اس حد یث کے معانی کو صحیح قرار دیا ہے گو معلوم ہوا کہ حد یث کا مفہو م ومقصود اپنے صحیح معنیٰ پر ہے ۔
ذیل میں حد یث لو لاک کے قائلین محد ثین اور علما کے نو ر اعلی نور اقوال نقل کئے جا رہے ہیں جسے پڑ ھ کر آپ شاد کام ضرور ہوں گے ۔
امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ اپنے قصیدہ نعتیہ میں حضور کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    انت الذی لولاک ماخلق امرء   
کلا ولا خلق الوریٰ لو لاک 

ترجمہ : اے محبوب !آپ کی ذات وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہو تے کو ئی شخص پیدا نہ کیا جاتا ،ہاں ہاں ! اگر آپ نہ ہو تے تو تمام مخلوق پیدا نہ ہوتی ۔ (شعر نمبر:۴ )
امام ابن جوزی اپنی کتا ب مولدالعروس میں لکھتے ہیں :فقال اللہ تعالیٰ :تأدب یا قلم او عزتی وجلالی لا لو محمد ما خلقت احدا من خلقی
تر جمہ : اللہ تعالیٰ نے فر ما یا :اے قلم ! ادب کر ، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نہ ہو تے تو میں اپنی مخلوق سے کسی کو پیدا نہ کر تا ۔
(مولد العروس ،ص۱۶)
مو لا نا روم علیہ الرحمۃ حدیث لو لاک کی تشریح میں لکھتے ہیں :
با محمد بودعشق پاک جفت
بہر عشق اورا خدا لولاک گفت
منتہی در عشق چوں اوبود فرد
پس مراوراازانبیا تخصیص کرد
گر نبود ے بہر عشق پاک را
کے وجود ے دادمے افلاک را
تر جمہ :یہ محمد سے مقدس عشق ہی ہے کہ اللہ نے آپ کے بار ے میں لولاک فر مایا ۔
آپ منتہائے عشق اور یکتہ تھے تو جماعت انبیا میں سے آپ کو خا ص کر لیا گیا۔
اگر آپ پاک عشق کے لئے نہ ہو تے تو میں آسمان کو وجود کب عطا کر تا ۔
(مثنوی شریف ، دفتر پنجم ، ص ۲۷۷)
امام ربا نی مجدد الف ثانی حضر ت شیخ احمد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
لو لا ہ لما خلق اللہ سبحا نہ الخلق ولما اظہر الر بوبیۃ ۔
تر جمہ :اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہو تی تو حق سبحانہ وتعالیٰ خلقت کو کبھی پیدا نہ فر ما تا اور اپنی ربو بیت کو ظاہر نہ فر ما تا ۔ (مکتوب ،۴۴:دفتر اول )
شیخ اکمل بہقی وقت قاضی محمد ثنا ء اللہ عثمانی حنفی لکھتے ہیں :
لو لا ک لما خلقت الافلاک ولما اظہر ت الربوبیۃ خص النبی صلی اللہ علیہ وسلم
تر جمہ : حد یث قد سی میں ہے کہ اے محبوب ! اگر تم کو پیدا کر نا نہ ہو تا تو میں افلاک کو پیدا نہ کر تا اپنے ربوبیت کا اظہار نہ کر تا ۔
(التفسیر المظہری ، ج ۱۰، ۳۰۳)
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تو اصل وجود آمدی از نہ نخست
دیگر ہر چہ مو جو د شد فر ع تست
ندانم کدا مے سخن گویمت
کہ والا تری زانچہ من گویمت
ترا عز لولاک تمکین بس است
نثائے تو طہٰ و یسین بس است
ترجمہ : تو سب سے پہلے مخلوق کی جڑ تھی ، اور دوسرا جو کچھ موجود ہے وہ تیری شاخ ہے ،میں نہیں جانتا کہ آپ کی شان میں کیا کہوں،کیونکہ جو کچھ میں کہوں آپ اس سے بالا تر ہیں ، آپ کے واسطے لولاک کی عزت و قعت ، اور آپ کی تعریف طہٰ و یاسین کافی ہے ۔ (بوستا ن، در نعت سر کا ر علیہ افضل الصلوٰۃ ، ص۷)
حضرت شاہ محد ث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ حدیث لولاک کے بارے میں تئیسواں مشاہدہ میں فرماتے ہیں :
میں دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طر ف اللہ تعالیٰ کی ایک خا ص نظر ہے ، اور گو یا یہی وہ نظر جو حاصل مقصود ہے ، آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا فرمانا ’’لو لاک لما خلقت الافلاک ‘‘ (اگر آپ نہ ہو تے تو میں افلاک کو پید اہی نہ کر تا )یہ معلوم کر نے کے لئے میر ے دل میں اس نظر کے لئے بڑا شتیاق پیدا ہوا ، اور مجھے اس نظر سے محبت ہو گئی ، چنا نچہ اس سے یہ ہوا کہ میں آپ کی ذات اقدس سے متصل ہوا ، اور آپ کا اس طرح سے طفیلی بن گیا جیسے جو ہر کا عرض طفیلی ہو تا ہے ، غر ضیکہ میں اس نظر کی طرف متو جہ ہوا ، اور میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنی چاہی ، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خو د اس نظر کا محل توجہ اور مرکز بن گیا ، اس کے بعد میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نظر خا ص اس کے ارادۂ ظہور سے عبارت ہے ، اور اس سلسلے میں ہو تا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شان کو ظاہر کر نے کا ارادہ کر تا ہے وہ اس شان کو پسند کر تا ہے اور اس پر اپنی نظر ڈالتا ہے ۔ اب صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ایک فر د واحد کی شان نہیں ، بلکہ آپ کی شان عبارت ہے ایک عام مبد أ ظہور سے جو عام بنی نوع انسان کے قوالب پر پھیلا ہوا ہے، اور اس طر ح بنی نوع کی حیثیت ایک اور مبدأ ظہور کی ہے جو تمام موجودات پر حاوی ہے ، اس سے ثا بت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مو جودات کی غا یت الغایت اور ظہور وجود کے نقاط کا آخری نقطہ ہیں ، چنا نچہ سمند رکی ہر مو ج کی حر کت اسی لئے ہے کہ آپ تک پہنچے ، اور ہر سیلا ب کو یہی شو ق سمایا ہوا ہے کہ آپ تک اس کی رسائی ہو ، تمہیں چا ہئے کہ اس مسئلہ میں خو ب غورو تدبر کرو ، واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بڑا ہی دقیق ہے ۔
(فیوض الحرمین اردو ، تئیسواں مشاہدہ ، ص ۱۸۷؍۱۸۸)
قا طع شر ک وبد عت رئیس الاسلام والمسلمین اما م اہل سنت اعلیٰ حضرت الحا ج الشاہ مفتی احمد ر ضا خا ں فا ضل بر یلو ی ر حمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :یہ ضرور صحیح ہے کہ اللہ عز وجل نے تما م جہا ن حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے بنا یا اگر حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ۔یہ مضمون احا دیث کثیر ہ سے ثا بت ہے جن کا بیا ن ہما رے رسالہ ’’ تلأ لؤالافلاک بجلال احادیث لو لاک ‘‘ میں ہے ۔خدائی (یعنی مخلوق)کی پیدا ئش بطفیل حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے ۔حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ، حضور تخم وجو د و اصل مو جو د ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔حضرت حق عزجلالہ نے تمام جہا ن کو حضور پر نو ر محبوب اکر م صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطے ، حضور کے صدقے ، حضور کے طفیل میں ہا ں ہا ں لا واللہ ثم باللہ ایک دفع بلا و حصول عطا کیا تما م جہا ن اور اس کا قیا م سب انہیں کے دم قدم سے ہے ۔عالم جس طر ح ابتدائے آفرینش میں ان کا محتا ج تھا ، یو نہی بقا میں بھی ان کا محتا ج ہے ۔آج اگر ان کاقدم درمیان سے نکال لے ابھی ابھی فنا ئے مطلق ہو جا ئے ۔
اس میں اہل ایما ن کو ہر گز ہر گز ترددنہیں کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وجہہ تخلیق کا ئنا ت ہیں جن لو گو ں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ’’قلم‘‘ کو تخلیق اول قرار دیتے ہیں اور حدیث قلم و عر ش پر صحیح اسناد کو دلیل بناتے ہیں انہیں محد ثین سے اگر پو چھ لیا جا ئے کہ خلق خدا میں سب سے افضل و اعلیٰ ذات کو ن ہے ۔؟تو یقین جا نے وہ بغلیں جھانکنا شر وع کر دیں گے ۔وہ بعض علما جو قلم اور عر ش کو خلق خدا میں اول مانتے ہیں وہ شاید اس با ت کو بھو ل جا تے ہیں کہ’’ انوار‘‘ میں سب سے پہلے اگر کسی کے نو ر کا ظہور ہوا ہے تو وہ نو ر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ با ت ہر کس و ناکس پر واضح ہے کہ جسماً نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیا ئے کرام علیہم السلام کے بعد عالم فانی میں حضرت عبد اللہ کے گھر پید ا ہو ئے لیکن نو ر محمدی کا ظہور تما م خلق سے پہلے ہے ۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت پر اگر سب سے زیادہ کسی کے پیٹ میں درد ہو تا ہے تو وہ علما ئے اہل حد یث (غیر مقلد ین)کی جما عت ہے اور وہ اس مسئلہ میں تنہا نہیں ہے بلکہ ان کے ہم نوا علما ئے دیوبند بھی کم نہیں کہ ان حضرات کا منشا ہی یہ ہو تا ہے کہ کسی طر ح نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی کما لا ت و صفات میں تنقیص کا کو ئی پہلو ڈھو نڈ نکالا جا ئے اور وہ اس کو شش میں کبھی تو فرنگیو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں یہا ں انہیں کے علما کی کتا بو ں سے ثا بت
کروں گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق خلق میں سب سے پہلے اور مقدم ہے ۔
غیر مقلد کے بڑے عالم مو لوی سید ممتاز علی ولد سید محمد اعجاز علی صا حب بھو پالی سر رشتدار محکمہ مجسٹریٹی ر یاست بھو پا ل لکھتے ہیں :
زمین و زما ں ، میکن و مکا ں شمس وقمر و اختر و شام و سحر ،کو ہ کاہ از ما ہی تاماہ بطفیل وجود با وجود حضور طہٰ و یس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہور میں آئے ۔وللہ الحمد
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۶)
یہی صا حب نظم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت اول کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ ہے کون، یعنی رسول کریم
اشارے سے جس کے ہوامہ دونیم
اگر اس کو پیدا نہ کرتا خدا
نہ ہوتا وجود زمین وسما
اس کے لئے ہے نزول قرآن
اسی کے سبب خلقت انس و جان
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۴)
غیر مقلد کے مشہور مولوی جناب وحیدالزماں صاحب کے بھی چند اشعار یہاں نقل کئے دیتا ہوں کہ آپ قارئین غیر مقلدوں کے بیان و تحریر میں کس طرح تضاد ہے اس سے بخوبی واقف ہو جائیں کہ ان کے اسناد کے امام اعظم مولوی ناصر الدین البانی ’’حد یث لو لا ک ‘‘کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے متبع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’شہ لولاک ‘‘سے یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
رات دن یہ التجا ہے اس دل غمناک کی
دے مجھے اپنی محبت اور شہ لو لاک کی
یا الہٰی مجھ کو پہنچادے مدینہ پاک میں
خاک ہوکے جاپڑوں کوئے شہ لولاک میں
(وظیفہ نبی با ورادالوحید ، ص ۹۴؍۹۵)
غیر مقلد کے بہت ہی مشہور عالم جسے دنیا نواب صدیق حسن خان بھو پالی کے نا م سے جانتی ہے انہیں بھی یہ اعتراف ہے کہ یوم میثاق سب سے پہلے ’’الست بربکم ‘‘کے جواب میں بلیٰ کہنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جمیع مخلوقات کی تخلیق آپ ہی کے لئے ہو ئی عر ش پر آپ ہی کانام کندہ ہے آسمان اور جنت میں جتنے ملائکہ ہیں وہ ہر ساعت آپ ہی کا ذکر کرتے ہیں مگر یہی وہ تمام با تیں مسلمانو ں کی عام مجلسوں میں بتاتے ہو ئے غیر مقلد کے مولویو ں کو شر م آتی ہے یہا ں ان کی ہی کتاب سے یہ عبا رت نقل کی جارہی ہے پڑ ھیں اور حضورکی اولیت کا نو ر ہر سو عام کریں ! وہ لکھتے ہیں :
سب سے پہلے آپ ہی سے میثا ق لیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی نے الست بر بکم کے جواب میں بلیٰ کہا اور آدم وہ جمیع مخلو قات آپ کے لئے پیداہوئے اور آپ کا نام عر ش پر لکھا گیا اور ہر آسمان و جنت میں بلکہ سائرے ملکوت میں اور ملا ئکہ ہر ساعت آپ کا ذکر کرتے ہیں ۔ (الشما مۃ العنبریہ ، ص ۴۰)
سلفی گروہ کے ایک بڑے اور نامور شاعرو ادیب مو لوی ظفر علی خان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے تما م مخلوقات کی تخلیق کا قائل ہیں جن کے یہا ں آج بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا شر ک اعظم ہے اب قارئین ہی فیصلہ کر یں کہ ’’واسطے اور وسیلے ‘‘میں کیا فر ق ہے جنا ب نے اپنے حواریو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔وہ لکھتے ہیں :
سب کچھ تمہا رے واسطے پیدا کیا گیا
سب غائتوں کی غائت اولیٰ تم ہی تو ہو
(کلیا ت ، حسیات ، ص ۱۰)
عقیدتاًسلفیو ں کے بڑے بھا ئی علما ئے دیوبند کے آرا بھی جا نتے ہیں کہ انہو ں نے ہما رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصود کا ئنا ت اور خلق خد ا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہو نے میں اولیت کے قائل ہیں یا نہیں تو دیوبند کے کچھ علما حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو اول ، آخر ، ظاہر و با طن تسلیم کر تے ہیں بلکہ آپ کی اولیت کو تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے لکھتے ہیں یہی نہیں لو ح و قلم کا وجود بھی تخلیق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی مانتے ہیں دیوبند کے مشہو ر خطیب مو لوی منیر احمد معاویہ لکھتے ہیں :
ہما رے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید ولد آدم فخر رسل افضل الرسل امام الانبیا خا تم الانبیا حضر ت محمد ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کا ئنا ت ہیں ۔ کیو ں ؟ لو لاک لما خلقت الافلاک ۔اس حد یث کا معنی صحیح ہے ۔(خیر الفتاویٰ)
اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو کا ئنا ت کی کو ئی چیز نہ ہوتی ، نہ زمین ہو تی ، نہ آسما ن ہو تے ، نہ ستارے ہو تے ، ،نہ چاند ہو تا، نہ سورج ہو تا ، نہ ہوا ہو تی ، نہ فضا ہو تی ، نہ دریا ہو تے ، نہ سمندر ہو تے ، نہ پہاڑ ہو تے ، نہ پرندے ہو تے ، نہ چر ند ے ہو تے ، نہ درندے ہو تے ،نہ ذر ے ہوتے ، نہ قطر ے ہو تے ، نہ نبا تا ت ہو تے ، نہ جمادات ہو تے ، نہ عر ش ہو تا ، نہ کر سی ہو تی ،نہ لو ح ہو تا ، نہ قلم ہو تا ، نہ آدم ہو تے ، نہ شیش ہو تے ، نہ نو ح ہو تے ، نہ ہو د ہو تے ، نہ صالح ہو تے ، نہ یو نس ہو تے ، نہ ایوب ہو تے ، نہ یعقوب ہو تے ، نہ یو سف ہو تے ، نہ ادریس ہو تے ، نہ ابراہیم ہو تے ، نہ اسمعیل ہو تے ، نہ اسحا ق ہو تے ، نہ موسیٰ ہو تے ، اور نہ زمین و آسمان کی کوئی چیز ہو تی۔
کتاب فطرت کے سر ورق پر جو نا م احمد رقم نہ ہو تا
تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لو ح و قلم نہ ہو تا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات : ھوالاول والآخر والظاہر والباطن ۔(سورۃ الحدید ، ۳ )
جس طر ح اول ، آخر ، ظاہر و باطن ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہیں اسی طر ح اول آخر ظاہر ، با طن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی صفتیں ہیںاس لئے کہ حضور اول ہیں اور بعثت میں آخر ہیں ، حضور ظاہر ہیں کہ ہر چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی ہے ، حضور با طن ہیں کہ باطن میں کمالات رکھنے والے ہیں ۔ (مدراج النبوۃ )
(خطبات منیر ،ص۱۳۷؍۱۳۸)
کراچی پاکستان کے مشہو ر دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع کے بیٹے جناب محمد زکی کیفی حدیث لولاک کا ذکر واقعہ معراج کے اشعار میں یوں کر تے ہیں :
سانس لینے کی فر شتوں کو جہاں تاب نہیں
کون یہ محو تکلم ہے وہاں آج کی رات
آج ہے مثردۂ لولاک لما کی تفسیر
قربت خاص میں ہیں سرور جہاں آج کی رات
(کیفیات ، ص ، ۴۷؍از محمد زکی کیفی، مطبوعہ ، ادارۂ اسلامیات نار کلی لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب صاحب دیوبندی لکھتے ہیں :
طبعی طور پر آفتاب کے سلسلہ میں سب سے پہلے اس کا وجود اور خلقت ہے جس سے اسے اپنے سے متعلقہ مقاصد کی تکمیل کا موقع ملتا ہے ۔ اگر وہ پیدا نہ کیا جا تا تو عالم میں چاندنی اور روشنی کا وجود ہی نہ ہو تا اور کو ئی بھی دنیا کو نہ پہچانتا ، گو یا اس کے نہ آنے کی صورت میں نہ صرف یہی کہ وہ خو د ہی نہ پہچا نا جا تا بلکہ دنیا کی کو ئی چیز بھی نہ پہچانی جا تی ۔ ٹھیک اسی طر ح اس روحا نی آفتا ب (آفتاب نبو ت )کے سلسلہ میں بھی اولاً حضور کی پیدائش ہے اور آپ کا اس نا سوتی عالم میں تشریف لانا ہے ۔اس کو ہم اصطلاحاً ولادت با سعادت یا میلاد شر یف کہتے ہیں ۔اگر آپ دنیا میں تشریف نہ لا تے تو صرف یہی کہ آپ نہ پہچانے جا تے بلکہ عالم کی کو ئی چیز بھی اپنی غر ض و غایت کے لحا ظ سے نہ پہچانی جا تی ۔ محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا ۔ پس جو در جہ علوی آفتا ب میں خلقت کہلاتا ہے اسی کو ہم نے رو حانی آفتاب میں ولادت کہا ہے ۔
(آفتاب نبوت ، ص ۴ ۱۲؍۱۲۵)
یہاں قاری محمد طیب صاحب اپنی بات کہنے میں تھوڑی لچک ، تردد اور خوف سے کام لیا ہے اور حدیث لو لاک کی توضیح و تشریح کر نے میں وہ تیزی نہ لاسکے جو ان کے بڑوں نے حد یث لولاک کی تشریح کر گئے کہا ں آفتا ب سماوی اور کہا ں آفتا ب نبوی ان دونو ں میں تمثیل کی گنجائش کہا ں گو دو نو ں نو ری ہیں لیکن آفتا ب سما وی کا جو نو ر ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے سے ہے ۔دیوبند کے ہی نا شر و مبلغ جناب حمید صدیقی لکھنوی حد یث لولاک پر معنی خیز شعر کہتے ہیں کہ :
شاہ لولاک و خواجہ کونین
محترم محتشم سلام علیک
(نعت نمبر :ص ۷۳۲، حصہ اول ، ماہنامہ الرشید لاہور )
فر قہ دیوبند کے بہت بڑے محد ث و مفتی مو لانا سید حسین احمد مدنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جملہ کمالات عالم عالمیان ، حدیث لولاک اور اول ما خلق اللہ نوری کا اعتراف ان الفاظ میں کر تے ہیں :
ہمارے حضرات اکابر کے اقوال عقائد کو ملاحظہ فر ما ئیے ۔ یہ جملہ حضرات ذات حضور پر نور علیہ السلام کو ہمیشہ سے اور ہمیشہ تک واسطہ فیو ضات الٰہیہ و میزاب ر حمت غیر متنا ہیہ اعتقاد کئے ہو ئے بیٹھے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے ازل سے ابد تک جو جورحمتیں عالم پر ہو ئی ہیں اور ہو ں گی عام ہے کہ وہ نعمت وجو د کی ہو یا اور کسی قسم کی ان سب میں آپ کی ذات پاک ایسی طر ح پر واقع ہو ئی ہے کہ جسیے آفتاب سے نو ر چاند میںآیا ہو اور چاند سے نو ر ہزاروں آئینوں میں ، غر ض کہ حقیقت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیتہ واسطہ جملہ کمالات عالم و عالمیان ہیں ۔ یہی معنی لولاک لما خلقت الافلاک اور اول ما خلق اللہ نوری اور انا نبی الانبیاء وغیرہ کے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب ، ص ۲۳۶)
حدیث لولاک کی صحت پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں :
لولا ک ذرہ زجہاں محمد است
سبحان من یرا ہ چہ شا ن محمد است
سیپا رۂ کلا م الٰہی خدا گواہ !
آں ہم عبارتے ز زبان محمد است
تر جمہ : یہ حدیث ’’لولاک ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جہا ن کا ایک ذرہ ہے ،اللہ ہی کی وہ ذات پا ک ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو جانتی ہے ،کہ آپ کی شان کیا ہے ۔
خدا گواہ ہے کہ کلام الٰہی کے تیسوں سپا رے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نطق اقدس سے ہی ظاہر ہر نے والی عبا رت ہیں ۔
(نعت نمبر : حصہ اول ، ص ۴۱۳، ماہنامہ الرشید لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے بانی مو لا نا قاسم نا ناتوی لکھتے ہیں :
جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو
نصیب ہو تی نہ دولت وجود کی زنہار
طفیل آپ کے ہیں کا ئنا ت کی ہستی
بجا ہے کہیے اگر تم کو مبد أ الآثا ر
لگاتا ہاتھ نہ پتلا کو ابو البشر کے خدا
اگر ظہور نہ ہوتا تمہارا آخر کار
(قصیدۂ بہاریہ ، ص ۱۲)
دوسری جگہ قصائد قاسمی میں مولانا محمد قاسم ناناتوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ نور خدا ‘‘ لکھتے ہیں :
رہا جمال پہ تیرے حجاب بشریت
نجانا کو ن ہے کچھ بھی کسی نے بجز ستار
کہا ں وہ رتبہ کہا ں عقل نارسااپنی
کہا ں وہ نور خدا اور کہاں یہ دیدہ زار
(قصائد قاسمی ، بحوالہ تبلیغی نصاب ، فضائل درود شر یف ،ص۱۲۴)
آخرمیں اس پرنور موضوع پر دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی ملاحظہ کرلیں !
یہ بات قر آن میں نہیں ہے ، البتہ حدیث قدسی میں اس طرح کی بات ملتی ہے کہ آپ نہ ہو تے تو زمین و آسمان کو اور اس پوری کائنات کو پیدا نہ کرتا ، ساری کائنات آپ ہی کی وجہ سے اللہ نے پیدا فرمائی ہے ، ظاہری الفاظ کے متعلق بعض حضرات نے حد یث کو موضوع بتایا ہے مگر بالمعنی یہ حدیث صحیح ہے ۔ (فتویٰ دارالعلوم دیوبند ،جواب نمبر :۱۵۹۸۰۸)
حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فیصلہ کن خبر :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کنت اول النبیین فی الخق وآخرھم فی البعث
میں پیدا ئش کے اعتبار سے تمام نبیوں میں اول ہوں اور بعثت کے لحاظ سے تمام نبیوں میں آخر ہوں ۔
(ابن کثیر ، جلد ۸ ، ص، ۴۸)
اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا مر وی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:
انما بعثت فاتحا خا تما ۔یقینا میں دریا ئے رحمت واکر نے اور سلسلہ نبو ت و ر سالت کو ختم کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ (وروی احمد فی مسندہ ، ج ۳، ص ۳۸۷)
جہاں آپ خلقت و نبو ت کے اعتبار سے اول ہیں اسی طر ح سلسلہ نبوت و رسالت کے خاتم بھی ہیں مفصل بیان آگے آئے گا ۔
نبوت ختم ہے تجھ پر ، رسالت ختم ہے تجھ پر
تیرادیں ارفع و اعلیٰ ، شر یعت ختم ہے تجھ پر
(ارشاد عر شی)
ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی

مجاہد ملت کون ؟از قلم۔ خلیفٸہ حضرت سید تفہیم الاسلام قادری شیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی منیر رضا جامعی قادری چشتی مجیدی مِدناپوری

بندوں کی ہدایت و رہنماٸ کے لۓ ہر زمانے میں انبیاۓ کرام مبعوث ہوتے رہے ، اسی سلسلۂ نور کی آخری کڑی بنکے ہمارے نبی سیدنا مُحَمَّد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تشریف لائے ان کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تولوگوں کی ہدایت ورہنماٸ کی عظیم ذمہ داری دو گرہوں کے سپرد کر دی گٸ ان میں سے ایک تو علماۓ کرام کی مقدس جماعت ہے اور ایک اولیاۓ کرام کا نورانی قافلہ ہے انہیں اولیاۓ کرام میں سے ایک مشہور و معروف نام حضرت مجاھد ملت کا ہے۔
اولیاۓ کرام کے تعلق سےاللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ہے کہ ” سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی غم”۔(پ،11،سورہ یونس)
حضور مجاہد ملت کی ولادت 8/ محرم الحرام 1322ھ بمطابق 22/مارچ 1904ء میں ہوئی۔اور وصال مبارک 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/مارچ 1981ء میں ہوا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی میں سے 28/سالہ زندگی تعلیم و تربیت کے لیے نکال دیۓ جائیں تو 50/سال بچ جاتے ہیں۔یعنی آپ پورے پچاس سال تک پورے آب و تاب کے ساتھ مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور قوم وملت کی فلاح کامیابی کے لئے نمایاں خدمات انجام دیتے رہے، جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک وملت کے لئے خود کو پیش کیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات کے تابندہ نقوش سے خالی ہو۔ آپ کے دینی ملی اور جماعتی درد کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے آپ جس شہر میں جاتے تھے قیام کے لیے کسی مسجد کا انتخاب فرماتے۔ عقیدتمندوں کی جماعت یہ چاہتی کہ حضور کسی کے گھر پرقیام کریں ۔ عقیدتمندوں کو آپ جواب دیتے کہ گھر کے دروازے عموماً دس بجے رات میں بند ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے گھر کے دروازہ ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت قوم کو نہ جانے کس وقت پیش آجائے۔گھر میں قیام کرنے سے صاحب خانہ کو ہمارے لئے پوری پوری رات بیدار رہنا ہوگا اوریہ دقت طلب کام ہے۔ مسجد میں نہ آنے کی پابندی ،نہ جانے کی پابندی، مصلحین امت کی تاریخ میں ایسی مثال بہت کم ملے گی آپ کی اس طرزِ زندگی پر جس قدر غور کیجئے حیرانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اپنی دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات سےایک عالم کو متاثر کیا ہے
بلا شبہ آج عہدکے مصلحین امت کے لیے آپکی زندگی کا ہر لمحہ مشعل راہ ہے،
حضور مجاہد ملت علم و عمل،عشق وعرفان اور ایمان وایقان کی اس منزل رفیع پر فائز تھے جہاں تک رسائی کے لئے بڑے بڑے صاحبان فضل و کمال منتظر کرم ایستادہ رہتے ہیں
علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں،عشق وعرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں،جرات وہمت کی کوئی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔اگر آپکی حیات کے سنہرے اوراق الٹے جائیں،تاریخ کے دفاتر کھنگالے جائیں اور زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ‌آپ کے نقوش یکجا کیے جائیں تو حکمت ودانائی کے درجنوں ابواب مرتب ہوسکتے ہیں، آپکی کتاب حیات کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف وشفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے، حضورمجاہد ملت یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر تھے، حوادث سے الجھتے ہوۓ مقاصد تک پہنچنا انکی فطرت تھی، انکی ذات معمار سنیت بھی تھی اور شعار سنیت بھی۔ زمین پر بیٹھ کر افلاک کی وسعتوں میں ٹہلنا آپ کے معمولات میں داخل تھا۔ آپ کی ذات جماعت اہلسنت کے لیے انعام الہی بھی تھی اوراسرار الہی بھی، آپ کو آپکے عہد نے نہیں سمجھا، آپکو آپکا عہد سمجھ لیتا تو بر صغیر میں آج مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی، جس طرح ماضی میں آپ کے نقوش پا مینارہ نور تھے،اسی طرح آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک مینارہ نور بنے رہیں گے، آج کی قیادت آپکے نقوش حیات کو رہنما بناکر جماعتی مسائل کی بہت ساری پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتی ہے۔آپکی زندگی کے تمام تر نقوش روشن ہیں لیکن ان نقوش کو اپنی حیات کا حصّہ بنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آپکی ذات تاحیات فانوس عشق وعرفان کی صورت میں روشن رہی۔ آپ نے جماعت اہلسنت کو وقار و اعتبار بخشا ہے اسکی کوئی دوسری مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے، باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے آپ سخت مخالف تھے۔
مجاہد ملت کی بیشمار خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مسند درس و تدریس پر بیٹھ کر نہایت قیمتی اور باصلاحیت علماء کی جماعت تیار کی۔ فرقہ باطلہ اور دوسرے مذاہب کے درمیان دین اسلام کی شوکتوں کو اجاگر کیا۔آپکی زندگی کے بیشتر لمحات حمایت حق اور اماتت باطل میں گزرے۔آپ نے قدم قدم پر قوم وملت کو بالغ شعور کا اجالا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ہنر عطاکیا۔آپکی ذات میں درد ملت کو مجسم دیکھا جاسکتا ہے۔
گود سے گور تک کا کوئی لمحہ آپکا خدمت دین متین سے خالی نہیں ملتا۔آپکی زندگی کی ہر سانس سے اتباع شریعت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔جبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں؀
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضور مجاھد ملت نے کبھی ظلم کے خلاف مصلحت سے کام نہ لیا بلکہ حق کی اواز بن کر ہمیشہ گرجتے اور برستے رہے یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر جیل میں ہوتے۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی لئے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے اور ظلم کا سر کچلنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک محاذ کھڑا کررکھا تھا جسے وہ خاکساران حق کا نام دیا تھا
جو نہایت منظم طریقے سے اپنا کام انجام دے رہا تھا
سرکار مجاھد ملت تنہا یہ بوجھ قوم وملت کی سربلندی کے لئے اٹھاتے تھے اور اپنے جیب خاص سے اس صرفے کو انجام دیتے تھے۔
مجاہد ملت جس دور میں اپنے مجاھدانہ کردار وعمل سے ملک وملت کی عظیم خدمات انجام دے رہے تھے اس دور میں سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے علماء وفضلاء صاحبان شریعت وطریقت موجود تھے مگر مجاہد ملت پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی طرح ہر مسئلے کے حل کے لئے تن تنہا میدان میں پہاڑ بنکر کھڑے ہوجاتے۔
مجاھد ملت کے ہم عصر علماء وصاحبان بصیرت منھ بھر بھر کے دعائیں دیتے
اور من ہی من میں اعلیٰ حضرت کا شعر گنگنا اٹھتے۔
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا

रज़ा मस्जिद मीरवानी पोसमा में “ग़ौषुल वरा कॉन्फ्रेंस” अ़ज़ीमुश्शान [भव्य] पैमाने पर मनाया गया रिपोर्टर: (हाफिज) मुहम्मद मुनव्वर अ़ली क़ादरी अनवारीखतीब व इमाम: आ़इशा मस्जिद, इन्द्रा कॉलोनी, बाड़मेर (राजस्थान)


खुसूसी खिताब [संबोधन] अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी ने किया


हर साल की तरह इस साल भी 17/11/2022 ईस्वी गुरुवार को रज़ा मस्जिद मीरवानी, पौषमा, फौगेरा, बाड़मेर,में खिदमते दीन व मिल्लत एजुकेशन एंड फाउंडेशन युवा संगठन मीरवानी पोसमा की निगरानी में व हज़रत सय्यद इक़बाल शाह मटारी की सरपरस्ती,मुस्लिहे क़ौम व मिल्लत हज़रत मौलाना मुहम्मद उ़मर साहब अकबरी व हज़रत मौलाना शेर मुहम्मद उर्फ ​​मियांदाद साहब अकबरी की अध्यक्षता [सदारत] और हज़रत मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी अनवारी के निज़ामत [नेतृत्व] में “ग़ौषुल वरा कॉन्फ्रेंस” बड़ी ही धूमधाम,अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ आयोजित किया गया।

इस कॉन्फ्रेंस [दीनी व मज़हबी प्रोग्राम] की शुरु़आ़त हज़रत मौलाना क़ारी सलाहुद्दीन साहब रहमानी द्वारा कलामे रब्बानी के [तिलावत] से हुई-

निम्नलिखित धार्मिक विद्वानों [उ़ल्मा-ए-किराम] ने एक के बाद एक इस्लाहे मुआ़शरा [ समाज सुधार] इस्लाहे अक़ाइद व इस्लाहे आमाल,अ़ज़मत व शाने औलिया-ए-किराम आदि विषयों पर उत्कृष्ट भाषण दिए व बेहतरीन खिताबात किए-
☆ हज़रत मौलाना कमालुद्दीन साहब सौहरवर्दी सोड़ियार, हज़रत मौलाना मुहम्मद यूसुफ साहब क़ादरी खलीफा जिलानी जमाअ़त, हज़रत मौलाना मुहम्मद हम्ज़ा क़ादरी अनवारी, हज़रत मौलाना बिलाल साहब रिज़्वी, मोलवी मुहम्मद शब्बीर व मोलवी दीन मुहम्मद अनवारी…
जबकि विशेष खिताब [भाषण] दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ के नाज़िमे आला [प्रबंधक] व शैखुल हदीष नूरुल उ़़ल्मा पीरे तरीक़त रहबरे राहे शरीअ़त, हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी सज्जादा नशीन: खानक़ाहे अ़ालिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ ने किया।
उन्होंने अपने खिताब [भाषण] के दौरान लोगों से उनके मन में अल्लाह वहदहु लाशरीक का खौफ [भय] पैदा करने का आग्रह किया। औलिया-ए-किराम,बुज़ुर्गाने दीन, उल्मा-ए-ज़विल एहतिराम और सच्चे लोगों के साथ जुड़ने और खुद सच बोलने व झूट से बचने के लिए कहा, और साथ ही साथ अपने से बड़ों, माँ बाप,वगैरह की खिदमत और उन की तअ़जीम व तकरीम,अपने से छोटों पर प्यार व शफ़्क़त और हर तरह के नेक कामों के करने और बुराइयों से बचने की ताकीद की।
इस दीनी सभा में इन हजरात ने नअ़त व मन्क़बत ख़्वानी करने का शर्फ प्राप्त किया-
मद्दाहे रसूल बुलबुले बागे मदीना हज़रत क़ारी मुहम्मद अ़ताउर्रहमान साहब क़ादरी अनवारी जोधपुर, हज़रत क़ारी अ़ब्दुस्सुब्हान साहब अशफाक़ी जोधपुर, हज़रत क़ारी खादिम हुसैन साहब रिज़्वी, हाफिज़ व क़ारी नवाज़ अ़ली बरकाती, मौलाना मुहम्मद लुक़मान क़ादरी बाड़मेर –

इन हजरात ने इस कॉन्फ्रेंस में विशिष्ट रूप से भाग लिया-
☆ हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही, हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी, मौलाना हाजी अ़ली मुहम्मद साहब नगर, मौलाना मुजीब, मौलाना बाक़िर हुसैन क़ादरी अनवारी, मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान साहब मिस्बाही, मौलाना सद्दाम हुसैन खतीब व इमाम रज़ा मस्जिद मीरवानी पौषमा,मौलाना अ़ब्दुस्सत्तार सिकन्दरी अनवारी, मौलाना मुहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी, मौलाना मुहम्मद हारून, मौलाना अ़ब्दुल मजीद, मौलाना मुराद अ़ली क़ादरी, खलीफा मुहम्मद अनवर, खलीफा अ़ली मुहम्मद क़ादरी, खलीफा अ़ब्दुश् शकूर क़ादरी,जनाब नूर मोहम्मद,जनाब मुहम्मद आदम खान, जनाब साजन खान , जनाब हबीबुल्लाह, उम्मीद अ़ली, मुहम्मद रमज़ान भाई के जी एन ट्रांसपोर्ट कंपनी, मुहम्मद रमज़ान खान, अकबर भाई,व हैदर भाई आदि।

सलातो सलाम और नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह दीनी व मज़हबी जल्सा-ए-ग़ौषे आज़म खतम हुवा।
ध्यान रहे कि जल्से के दौरान, सिल्सिला-ए-आ़लिया क़ादरिया के महान बुजुर्ग शैखे तरीक़त सय्यदी व मुर्शिदी हज़रत पीर सय्यद ताज हुसैन शाह जीलानी क़ादरी पंजतनी मद्दज़िल्लहुन्नूरानी संगरा शरीफ ने अपने अनुयायियों और विश्वासियों (मुरीदीन व मुअ़तक़िदीन) को फोन के माध्यम से नेक कार्यों के उपदेश और सलाह दी,और सभी लोगों को नसीहत करते हुए दुआ़ओं से नवाज़ा।

फिर हज़रत मौलाना अ़ब्दुल मुबीन साहब क़ादरी अनवारी व जनाब रोशन भाई अशफाक़ी व अब्बास भाई ने खिदमते दीन व मिल्लत एजुकेशन एंड फाउंडेशन युवा संगठन मीरवानी पोस्मा की ओर से इस कॉन्फ्रेंस में तशरीफ़ लाने वाले सभी मेहमानों का शुक्रिया अदा किया।

रिपोर्टर: (हाफिज) मुहम्मद मुनव्वर अ़ली क़ादरी अनवारी
खतीब व इमाम: आ़इशा मस्जिद, इन्द्रा कॉलोनी, बाड़मेर (राजस्थान)


निवासी :मु: मीरवानी, पोषमा, पोस्ट: फौगेरा, ज़िला : बाड़मेर
(राजस्थान )

رضامسجد میروانی پوسما میں عظیم الشان پیمانہ پر منایاگیا غوث الوریٰ کانفرنس.. رپورٹ:(حافظ)محمدمنور علی قادری انواری خطیب وامام:عائشہ مسجد،اندرا کالونی،باڑمیر (راجستھان)


خصوصی خطاب علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری نے کیا


حسب سابق امسال بھی رضامسجد میروانی،پوسما، پھُوگیرا،باڑمیر میں خدمت دین وملت ایجوکیشن اینڈ فاؤنڈیشن و نوجوان کمیٹی میروانی پوسما کے زیرنگرانی وزیر اہتمام، حضرت سید اقبال شاہ مٹاری کی سرپرستی،مصلح قوم وملت حضرت مولانا محمدعمر صاحب اکبری و حضرت مولاناشیرمحمد عرف میانداد صاحب اکبری کی صدارت اور طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری کی نظامت میں انتہائی شان وشوکت اور عقیدت واحترام کے ساتھ “غوث الوریٰ کانفرنس” کا انعقاد کیا گیا-
اس کانفرنس کی شروعات حضرت مولانا قاری صلاح الدین صاحب رحمانی کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی-
بعدہ یکے بعد دیگرے مندرجہ ذیل علمائے کرام نے اصلاح معاشرہ،اصلاح عقائد واعمال،عظمت وشان اولیاء کرام وغیرہ جیسے عنوانات پر بہترین خطابات کیے-
☆حضرت مولانا کمال الدین صاحب سہروردی سوڑیار،حضرت مولانا بلال احمد صاحب رضوی،حضرت مولانا محمدیوسف صاحب قادری خلیفہ جیلانی جماعت،حضرت مولانا محمدحمزہ قادری انواری،مولوی محمدشبیر ومولوی دین محمد انواری…
جب کہ خصوصی تقریر مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی مرکزی دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف کے ناظم اعلیٰ وشیخ الحدیث نورالعلماء پیر طریقت رہبرراہ شریعت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی سجادہ نشین: خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤ شریف باڑمیر کی ہوئی-
آپ نے قرآن مقدس کی آیت کریمہ یاایھاالذین آمنوااتقو الله وکونوا مع الصدقین کو اپنی تقریر کا عنوان بناکر لوگوں کو اپنے دلوں میں خشیت ربانی پیدا کرنے اور سچوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید وتلقین کرنے کے ساتھ جہاں آپ نے پیری مریدی کے آداب اور اس کے تقاضے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو حسب معمول ارکان اسلام بالخصوص پابندی ومواظبت کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرنے کی تاکید کی وہیں سبھی شرکاء جلسہ کو اپنے بزرگوں کی تعظیم وتکریم چھوٹوں پر شفقت،جملہ اوامر پر عمل پیرا ہونے ومنہیات سے پرہیز کرنے کی بھی سخت تاکید کی-
اس جلسہ میں ان حضرات نے خصوصیت کے ساتھ نعت ومنقبت خوانی کا شرف حاصل کیا-
مداح رسول حضرت قاری محمد عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور،قاری عبدالسبحان صاحب اشفاقی جودھپور،قاری خادم حسین صاحب رضوی،حافظ و قاری نواز علی برکاتی،مولانا محمدلقمان قادری باڑمیر –
اس کانفرنس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
ادیب شہیر حضرت مولانامحمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاور حسین صاحب قادری، مولاناحاجی علی محمدصاحب نگر، مولانا مجیب،مولاناباقرحسین قادری انواری،مولاناعبدالسبحان صاحب مصباحی،☆مولاناصدام حسین خطیب وامام رضامسجد میروانی پوسما☆مولاناعبدالستار انواری، مولانامحمدعرس سکندری انواری، مولانا محمدہارون، مولاناعبدالمجید، مولانا مراد علی قادری،خلیفہ محمدانور،☆خلیفہ علی محمدقادری، خلیفہ عبدالشکور قادری،جناب محمد آدم خان،جناب ساجن خان،جناب حبیب اللہ،امیدعلی،محمدرمضان بھائی کے جی این ٹرانسپورٹ کمپنی،محمدرمضان خان،حیدرعلی وغیرہم-

صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام کو پہنچا-

واضح رہے کہ دوران جلسہ سلسلۂ قادریہ کے عظیم بزرگ شیخ طریقت سیّدی و مرشدی حضرت پیر سید تاج حسین شاہ جیلانی قادری پنجتنی مدظلہ النورانی سانگرا شریف نے بذریعۂ فون اپنے مریدین ومعتقدین کو وعظ ونصیحت کرنے کے ساتھ خوب خوب دعاؤں سے نوازا-

پھر خدمت دین وملت ایجوکیشن اینڈ فاؤنڈیشن و نوجوان کمیٹی میروانی پوسما کی طرف سے حضرت مولانا عبدالمبین صاحب قادری انواری و عالی جناب روشن بھائی اشفاقی نے سبھی شرکاء جلسہ کا شکریہ اداکیا-

رپورٹ:(حافظ)محمدمنور علی قادری انواری
خطیب وامام:عائشہ مسجد،اندرا کالونی،باڑمیر(راجستھان)


ساکن:میروانی،پوسما،پوسٹ:پھُوگیرا،ضلع:باڑمیر
(راجستھان)

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر.. از:مولاناجمال اختر صدف گونڈوی

اس وقت ملک و بیرون ملک مخالفین اسلام باضابطہ خطرناک منصوبہ بندیوں میں منہمک ہیں اور انکی کوششیں کہیں نہ کہیں ہماری تخریب کاریوں کے اسباب بنتی نظر آئ ہیں،
اندرون ملک سب سے بڑی سازش یہ رچی گئ اور یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ مسلمان ہندوؤں سے نفرت کرتا ہے، جبکہ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہا، چاہے وہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو بنام ہندوستانی سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حامی رہا،
لیکن افسوس کہ خاص طور پر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے غلط استعمال کرواکر ایک خاص طبقے میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا گیا، اور وہ زہر اتنا اثر پزیر ہوا کہ کبھی گاے کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مارا جانے لگا،
پچھلے دنوں حجاب پر خوب شور غوغا مچا کہ حجاب اسلام کا اشینشیل پریکٹس نہیں ہے تو پھر مسلم لڑکیوں کو حجاب کے لئے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ،
افسوس کہ ہم نے اسلام کی صحیح نمائندگی ہی نہیں کی،
ہم نے اسلام کو جسلہ جلوس چادر گاگر نیاز و فاتحہ تک محدود کر رکھا ،
اس سے پہلے بھی تین طلاق پر آواز اٹھی اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوے عدلیہ تک پہنچی ، جہاں طلاق پر باضابطہ قانون بنا دیا گیا، اب تین طلاق دینے والے مسلمان کو تین سال قید ہوگی،
جبکہ سات پھیرے لیکر شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو چھور دینے والوں کے خلاف کوئ قانون نہیں بنا،
اتر پردیش میں مدرسوں کا سروے کرایا گیا اور امداد یافتہ مدارس کو احکام جاری کئے گئے کہ ہماری طے کردہ شرائط پر عمل درآمدگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں،
سرکاری فرمان کے مطابق اب مدرسوں میں جن گن من کے ساتھ ساتھ وہ نصاب بھی شامل درس ہونگے جنکا ماضی میں دور دور تک تصور نہیں تھا،
حالانکہ میں شروع سے اس بات کی وکالت کرتا چلا آیا کہ مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت اپنے نصاب میں ضروری ترمیم ضرور کرنی چاہئے ،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ زبوں حالی کے شکار مدرسوں سے فارغ التحصیل وہ لوگ ہیں جنکو صرف ایک زبان کی تعلیم دی گئ اور وہ اس زبان کو سیکھ کر جب باہر نکلے تو اس زبان کے جانکار و قدردان کی عدم موجودگی و ناقدری سے پریشان در بدری پر مجبور ہوئے اور مناسب کام نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کے شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں،
صرف مسجد و مدرسہ کے لئے ہم نے تعلیم دی کی ہے ،
تو پھر مدارس و مساجد میں بھی اتنی جگہ نہیں کہ ہر سال پانچ ہزار سے زائد فارغین علماء و حفاظ کو ملازمت مل سکے ،
کیونکہ ہمارے یہاں دعوت و تبلیغ کا باضابطہ ادارہ نہیں جہاں سے قابل علماء کی ٹیم الگ الگ شہروں میں اس کام کو انجام دینے کے لئے نکلیں، اور اللہ و رسول کے فرامین پر لوگوں کی توجہ حاصل کریں،
جبکہ دعوت و تبلیغ کے ادارے نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم اسلام کو غیروں میں متعارف نہیں کروا سکے ، اور نہ ہی اسلام کی خواہش کے مطابق اللہ کے بندوں اسلام کی خوبصورتی سمجھا کر انہیں کلمے کی سے آراستہ کر سکے،
اس وقت سب سے زیادہ نو جوان جیلوں بند اپنی رہائی کے لئے پریشان ہیں ، انکا کیس لینے کے لئے ہمارے پاس کوئ ادارہ نہیں اور نہ ہی کوئ ایسی تنظیم ہے جہاں قانون کے جانکاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین کا عمل دخل ہو ،
سیاست میں ہماری موجودگی کوئ معنی نہیں رکھتی ،کیونکہ ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لی اسکا یہ نتیجہ ہوا کہ ہماری آواز جگہ جگہ دبائ جانے لگی ،
حکومت میں ہمارے نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے من چاہا قانون پاس کر لیا گیا،
ہم دو چار احتاج کرکے سرد پڑ گئے ،
جس دن یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا اس دن بھی ہم صرف تماشبین ہونگے اور کچھ نہیں ،
کیونکہ ہم نے ان چیزوں پر زور دیا جن کی اتنی ضرورت نہیں تھی کہ جتنی ضرورت سیاست میں ہمارے نمائندوں کی موجودگی کی،
علماء سیاست نہیں کر سکتے یہ مسلم عوام کی ذاتی رائے ہے،
جبکہ ماضی میں اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر علمائے کرام نے سیاست کی تقدیر بدل کر رکھ دی ،
ملک کی آزادی میں علمائے کرام نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے تاریخ کبھی بلا نہیں سکتی ،
جب غیر پڑھے لکھے مسلم لیڈران قوم کی نمائندگی کا دم بھرتے ہوے سیاسی ایوان میں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ تین طلاق کیا ہے، اسلام میں حجاب کی حیثیت کیا ہے ، ملک کی آزادی میں علمائے کرام کا کردار کیا رہا ، ملک سے محبت کا اسلام میں تصور کیا ہے،
مسلم دانشوروں کی خاموشی بھی شاید اسی وجہ سے ہے کہ جہاں بولنا غیر مفید ہو وہاں خاموش رہنا چاہیئے،
حجاب پر پابندی کی بات کرنے والوں کو جواب دینے کے لئے ہمارے پاس خود کی یونیورسٹی،اسکول ،کالج، ضرور ہونے چاہئیں،
خانقاہوں کے پاس اتنا پیسہ ہے، اور مسلسل آمدنی جاری بھی ہے ، کہ ملک کے ہر بڑے شہروں میں یونیورسٹی،کالج،اسکول بنا سکتے ہیں،
مگر افسوس کہ وہ ساری دولت پر چند خاندان عیش کر رہے ہیں ،
مسلمانوں کی حالات اس وقت تک نہیں درست ہو سکتے جب تک تعلیم میں دنیا کی کامیاب قوموں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں ،
سیاست میں بھی جب تک ہم اپنی نمائندگی درج نہیں کروائیں گے تب تک ہماری آواز اٹھانے والا کوئ نہیں ہوگا،
اب تک بیس سے زیادہ مرتبہ ناموس رسالت پر حملے ہو چکے ہیں ، بعض اوقات لوگوں نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا اور بعض اوقات خاموش تماشائی بنے رہے، ایک ڈری ہوئ قوم کی طرح یہ سب دیکھنا اور اس پر چپ رہنا بھی ایمان کی کمزور علامت ہے،
ملک میں جسکو بھی سستی شہرت چاہئے ہوتی ہے وہ براہ راست ناموس رسالت پر حملہ آور ہو جاتا ہے ، نتیجے میں ہم اپنے غم و غصّے کا اظہار کرکے بد دعائیں کرکے اپنے اپنے گھروں میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں،
ٹی وی پر ہفتوں بحث چلتی ہے ،
چند بجے ہوئے نام نہاد اسلامک اسکالرز شریک بحث ہوتے ہیں اور بچی کچی عزت بھی لٹا کر چلے آتے ہیں،
کہیں نہ کہیں ہم بھی مجرم ہیں کہ ہم اپنے پیغمبر کے کردار کو قوم میں پیش کرنے میں ناکام رہے،
دنیا کام کے ذریعے متاثر ہوتی ہے ہم نے پیغمبر کی زندگی پر کام نہیں کیا جس سے لوگ متاثر ہوں،
اصلاح معاشرہ کے لئے ہم نے صرف رسمی جلسے کئے،
تعلیم کے میدان میں ہم نے صرف مدرسے کھولے ، جو کہ چند نادار مسکین اور کچھ غریب گھروں کے بچوں کو فائیدہ پہنچانے کے لئے پوری قوم کا فطرہ زکوٰۃ مدرسوں میں لگا دیئے ،
مدرسوں میں اگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی تو شاید مدرسے ہماری ترقی میں حد درجہ معاون ثابت ہوتے ، مگر افسوس کہ ہم نے مدرسوں کو صرف مولوی خانہ بنایا ،
ہماری یہاں کسی بھی کام میں اتحاد و باضابطگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام مفید نتیجے تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں ،
مثلاً شادیوں میں جہیز کی لعنت سے بچنے کے لئے بعض خانقاہوں نے اعلان کیا ،لین اس پر اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ لعنت بہت بڑی لعنت بنکر غریب مسلمانوں کے لئے عزاب کی شکل اختیار کر چکی ہے،
ابھی حالیہ دنوں میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے شادی کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ مسلمان ذات برادری سے اوپر اٹھکر شادی کریں،
یہ بہت اچھا اعلان ہے اس سے بہت فائدے ہونگے ذات برادری کی قید سے لوگ باہر آکر من پسند رشتے تلاش کریں گے اور جہیز پر کنٹرول بھی ہوگا،
مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی دیگر خانقاہوں نے اسکا استقبال نہیں کیا ،
جبکہ صرف اسی اعلان پر تمام خانقاہیں متحد ہو جائیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے،
مسلم بچیوں کے گھر فراری و ارتداد کی ایک وجہ جہیز بھی ہے ، کیونکہ جب غریب باپ جہیز کے لالچیوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتےہیں، تو شادی ٹھکرا دی جاتی ہے اور وہ بچی جو کہ بالغ ہے کب تک گھروں میں بیٹھی رہے،
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اپنے اسکول کالج یونیورسٹی نہیں ہیں جہاں لڑکوں سے علاحدگی کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کا انتظام ہو ،
ہماری بچیاں غیروں کے بچوں کے ساتھ پڑھتی ہیں انکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ سب کہیں نہ کہیں واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے بکریوں کو بھیڑیوں کے جھنڈ میں خود ہی بھیجا ہوا ہے ،
انسان کتنی بھی کوشش کر لے فطرت نہیں بدل سکتا ،
فطرت ہمیشہ اپنے راستے کی مسافر رہی ہے،
ہر سال جلسہ جلوس کے نام پر کروڑوں روپے ہمارے معاشرے میں چندہ دے دیا جاتا ہے
اور اس پیسے سے چند گھنٹوں کے رسمی پروگرام جسکا تعلق نہ تو قرآن سے ہوتا ہے نہ حدیث سے ، برباد کر دیے جاتے ہے،
اغیار اس جلوس کے جواب میں اس سے بڑا جلوس نکال کر اسمیں نعرہ لگاتے ہیں اور بھی قابل اعتراض افعال انجام دیتے ہیں ،
جس سے جگہ جگہ فساد کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،
ہمارا سارا عمل سادگی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن ہم اپنے تمام کام بغیر ڈھول نگاڑا و ڈی جے کے کرتے ہی نہیں ،
اس پر ستم یہ کہ قوم کے نوجوان اس ڈی جے پر سر عام رقص کرتے ہوے مذہبی نعرہ بھی لگاتے ہے، لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ انکے مذہب میں ڈی جے ہے یا رقص و سرود یا پھر نعرے بازی،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،

سِيرَتِ غَوثِ اَعظم رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنهُ💎 نویں قِسط 💎✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

آپ کی چند مشہور کرامتیں:

🌅 پیدا ہوتے ہی رمضان شریف کے روزے رکھنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ٨٩ ، طبقات کبری ج ١ ص ١٢٦ ، قلائدالجواہر ص ٣)

🌅 بچپن میں گاۓ سے کلام کرنا.
(📖 قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر ٨٩)

🌅 جیلان سے عرفات کے حاجیوں کو ملاحظہ کرنا.
(📖 قلائد الجواہر فی مناقب عبدالقادر ٨٩)

🌅 فرشتوں کا مکتب تک ساتھ جانا اور آپ کی ولایت کا اعلان کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ٤۸)

🌅 ڈاکوؤں کا اسلام قبول کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ١٦٨)

🌅 نگاہِ کرم سے چور کو قُطب کے درجے پر فائز کر دینا.
(📖 سیرت غوث الثقلین ص ١٣٠)

🌅 عَصا کو چراغ کی طرح روشن کر دینا.
(📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ الخ ص ١٥٠)

🌅 اندھوں کو بینائی عطا کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ١٢٣)

🌅 بیماروں کو شفا یاب کر دینا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ١٢٤)

🌅 مُردوں کو زندہ کر دینا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ١٢٤)

🌅 لاغر اونٹنی کو تیز رفتار بنا دینا.
 (📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٥٣)

🌅 سانپ سے گفتکو کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٦٨)

🌅 جِنوں کا آپ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی بارگاہ میں توبہ کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیۃ الحال … ص ٢٥)

🌅 روشن ضمیری ، یعنی اللہ کی عطا سے دلوں کے حال جان لینا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ٢١١ ـ قلائد الجواہر، ص ٥٧)

🌅 دور دراز مُریدوں کی مدد فرمانا.
(📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم ص ١٩٧)

🌅 مصائب و آلام کا دور فرما دینا.
(📖 بہجۃ الاسرار ص ١٩٧)

🌅 جانوروں کا آپ کی فرمانبرادری کرنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب ص ١٥٣)

🌅 اللہ کی عطا سے اولادِ نرینہ کی دولت عطا کرنا.
(📖 تفریح الخاطر ، ص ١٨)

🌅 بیداری میں حضور سیدِ عالم جانِ رحمت ﷺ کے دیدار کا شرف ملنا.
(📖 بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا من عجائب ص ٥٨)

🌅 تمام اولیاء کرام کا آپ کا قدم اپنی گردنوں پر ہونے کا اقرار کرنا.
(📖 اخبار الاخیار/ شمائم امدادیہ/ سفینہ اولیأ/ قلائدالجواہر/ نزہةالخاطرالفاطر/ فتاویٰ افریقہ)

🌅 ایک ہی وقت میں کئی جگہ پر ظاہر ہو جانا.
(📖 برکاتِ قادریت ص ٤٩)

🌅 اللہ کے حکم سے بارہ سالہ ڈوبی ہوئی بارات کو زندہ کر دینا. وغیرہ
(📖 سلطان الاذکارفی مناقب غوث الابرار)

☝🏻 نوٹ: اعلیٰحضرت امامِ اہلسنت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان سے اس آخر الذکر واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: “اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔”
(📖 فتاوٰی رضویہ جدید ج ٢٩ ص ٦٢٩)

💎 آپ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ کی کرامتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پیدائش سے لے کر وصالِ پُر ملال تک آپ رَضِىَ اللّٰهُ عَنهُ سراپا کرامت تھے۔ بلکہ بعد از وصال بھی آپ کی کرامتیں جاری و ساری ہیں اور اہلِ محبت آج بھی آپ کی کرامتوں سے اور فیض و جُود و کرم سے مُستفیض ہو رہے ہیں۔

کثرتِ کرامات کے ظُہور کی وَجہ:

🌅 جس قدر خَوَارِق حضرت سید محی الدّین جیلانی قدّس اللہ تعالیٰ سِرّہٗ سے ظاہر ہوئے ہیں اس قدر خوارق کسی اور سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس معمّا کا راز ظاہر کردیا اور معلوم ہوا کہ آپ کا عُروج اکثر اولیاء سے بلند تر واقع ہوا ہے اور نزول کی جانب میں مقامِ رُوح تک نیچے اُترے ہیں جو عالمِ اسباب سے بلند تر ہے۔
(📖 مکتوبات امام ربانی، ص ٩٨ ، مکتوب نمبر ٢١٦)

سَابقہ اُمَّتو ں میں بھی آ پ جیسا کوئی نہیں گزرا:

🌅 حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد شریف میں تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ سرورِ کائنات عَلَیہِ اَفضَلُ الصَّلوَاتِ وَالتَّسلِیمَات کی زیارت سے مُشَرَّف ہوا۔ آپ سوار تھے اور آپ کی ایک جانب حضرت مُوسیٰ عَلَیہِ السَّلام تھے ، آپ نے فرمایا:
“یَا مُوْسٰی أَ فِی أُمَّتِکَ رَجُلٌ ھٰکَذَا ؟” اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ کی اُمَّت میں بھی اس شان کا کوئی شخص ہے ؟
تو حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے عرض کیا: “نہیں۔”
اور پھر حضور اکرم ﷺ نے مجھے خلعت پہنائی۔
(📖 قلائد الجواہر، ص ٢٢)  👇🏻

✍🏻  سراج تاباؔنی ـ کلکتہ

  👑 👑 👑 👑 ـ 👑 👑 👑 👑

فَيضَانِ تَاجُ الشَّرِيعَہ علیہ الرحمہ جَارِى ہے

زائرین بغداد کے لئے استقبالیہ جلسہ ، رپورٹر (مولانا) جمال اختر صدف گونڈوی


جمعہ کی نماز کے بعد ایک جلسہ محمدیہ مسجد میں منعقد کیا گیا، جس میں لکھنؤ و دیگر اضلاع کے علمائے کرام نے شرکت کی،
قاری روشن القادری صاحب مینیجر مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ و مولانا اعظم حشمتی صاحب صدر پاسبان وطن فاؤنڈیشن آف انڈیا کو رخصت کرنے آئے علماء کرام نے اپنے اپنے تاثرات پیش کئے ،
مولانا عابد رضا صاحب مڑیاوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ غوثِ اعظم کی وہ بارگاہ ہے جہاں چوروں کو بھی ہدایت مل جاتی ہے انہوں نے غوث اعظم کی زندگی کے حالات پر گفتگو کرتے کئ اہم باتیں کیں اور سفر میں آسانی کے لئے دعائیں بھی مانگی،
گونڈہ سے آے مہمان خصوصی مولانا جمال اختر صدف نے نظامت کے فرائض انجام دئے ،وہیں ساتھ میں مہمان شاعر جمیل گونڈوی نے منقبت غوث اعظم پیش کیا ، قاری روشن القادری صاحب نے بتایا کہ اس بار انشاء اللہ تعالیٰ موے مبارک حضرتِ غوث اعظم کے لئے مکمل کوشش ہے کہ اہل عقیدت کی زیارت کے لئے اپنے ملک میں لایا جاے، قاری روشن القادری مدرسے کے مینیجر ہونے کے ساتھ ساتھ محمدیہ مسجد اکبر نگر کے امام بھی ہیں معاشرے کی اصلاح کے لیے آپکے کارنامے ہمیشہ سرخیوں میں رہے ہیں، مولانا اعظم صاحب حشمتی نے کہا بارگاہ غوث اعظم وہ بارگاہ ہے جہاں اولیائے کرام بھی حاضری کے لئے جاتے ہیں ، انہوں نے غوث اعظم کے قول کو کوڈ کرتے ہوے کہا کہ جو بندہ قادر کا نہیں وہ عبد القادر کا نہیں،
مزید یہ بھی کہا کہ غوثِ الاعظم کی تعلیمات کو عام کرنے اور اسے اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے میں دونوں جہان کی بھلائ ہے،
اس موقع پر مولانا سہیل صاحب استاذ مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ ،
مولانا آفتاب مصباحی صاحب،
مولانا ظہیر عباس صاحب دارالعلوم وارثیہ گومتی نگر
قاری شاہد عالم صاحب مینیجر جامعہ غریب نواز لکھنؤ ،
قاری عثمان عارف صاحب
قاری سرفراز عالم صاحب
قاری مرسلین صاحب
عالم خان صاحب اسماعیلی
قاری شاھد رضا صاحب استاذ مدرسہ اہلسنت نور الاسلام لکھنؤ
کاتب،جناب عبد الرحمن صاحب لکھنؤ
حاجی مشتاق احمد صاحب،
حاجی وسیم صاحب
ڈاکٹر احسن امین صاحب و شہر کے دیگر معززین موجود تھے،
جلسے کے بعد جامعہ الزہراء للبنات میں مولانا اعظم حشمتی صاحب کی طرف سے لنگر غوث اعظم کا انتظام کیا تھا جہاں مہمانوں نے شرکت کی،