WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives June 2022

کہیں ہمارے اندر یہ برائیاں تو نہیں؟از:(حافظ) برکت علی قادری مدرس شعبۂ حفظ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

آج جس ماحول اور معاشرہ میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اسلامی طرزِ زندگی سے تعلق نہایت ہی کمزور ہو چکا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے خیالات،احساسات، اخلاقیات، معاملات، عبادات، غرض کی ہر شعبۂ زندگی میں ابتری و بدحالی نظر آتی ہے، آج ہم کہنے کے تو مسلمان ہیں مگر الا ماشاء اللہ ہماری اکثریت دین اسلام سے بے بہرہ ہے،خاص طور پر عمل کے میدان میں تو ہم انتہائی پیچھے ہیں،کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اسلام سے رشتہ صرف نام کی حدتک رہ گیا ہے- گزشتہ امتوں میں جو برائیاں انفرادی طور پر پائی جاتی تھیں آج بدقسمتی سے وہ تمام برائیاں اجتماعی و انفرادی دونوں طریقے پر موجود ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمانہ بھر کے لیے ایک مسلمان کا کردار اسلام کی خوبیوں کا آئینہ ہوتا، لیکن افسوس کے ساتھ آج اس حقیقت کے اعتراف سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ ہم مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اسلام پر بھی لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں حالانکہ کسی بھی مسلمان کی بد اعمالیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام تو ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کی سخت تاکید و تلقین کرتا ہے آئییے ہم آپ کے سامنے کچھ اہم برائیاں پیش کرتے ہیں کہ اگر خدا نہ خواستہ ہم ان برائیوں و بیماریوں میں مبتلا ہوں تو ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں-

کہیں ہمارے اندر یہ بیماریوں تو نہیں؟ ★ نماز نہ پڑھنا، نماز میں کوتاہی کرنا، سنت کے خلاف پڑھنا، گانے گانا،گانا سننا-★جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا-★ غیبت کرنا یا غیبت سننا-★دوسروں پر ناحق تہمت لگانا،کسی کو بلا وجہ بدنام کرنا-★اپنے عیبوں کو خوبی سمجھنا اور اپنے عیبوں اور گناہوں کے لئے جواز تلاش کرنا و بہانے بنانا-★ دوسروں کے عیوب تلاش کرنا، دوسروں کے عیبوں کی تاک میں رہنا- ★رزق کے حصول میں بے پرواہی کرنا،حلال و حرام میں تمیز نہ کرنا- ★چغلی کرنا، چغلی سننا، چغلی پر عمل کرنا، ایک دوسرے میں نفرت پیدا کرنا، لوگوں کے درمیان آپس میں پھوٹ ڈالنا- ★ ایک دوسرے پر جادو وسحر کرنا یا کروانا- ★رشوت کو گفٹ کے نام لینا دینا- ★ٹی وی پر فحش پروگرام دیکھنا، ٹی وی دیکھنے والے کو معاشرے کا اعلیٰ فرد تصور کرنا یا معزز سمجھنا- ★سنت سے نفرت کرنا، سنت پر چلنے والوں کو بےوقوف اور کم تر سمجھنا، حقارت سے دیکھنا، خلاف سنت کام کرنے والوں کو معزز سمجھنا، یہود ونصاریٰ کے طریقوں کو اچھا سمجھنا، اس کی قدر کرنا- ★غیروں کے لباس وکلچر کی مشابہت اختیار کرنا، داڑھی نہ رکھنا، داڑھی منڈانے والوں کو معزز اور انہیں خوب صورت سمجھنا-★گناہ کو گناہ نہ سمجھنا، اعلانیہ گناہ کرنا اور اس پر فخر کرنا، سنت پر عمل کرنے سے گھبرانا یا شرمانا-★کسی سے حسد کرنا ،بغض،حسد اور کینہ رکھنا- ★کھڑے ہو کر پانی پینا یا کھاناکھانا-★والدین کی نافرمانی کرنا، والدین کو جاہل و بےوقوف سمجھنا، ان کو حقارت سے دیکھنا، بیوی کا غلام بننا-★بد نظری کرنا، نا محرم عورتوں کو دیکھنا، نا محرم مردوں کو دیکھنا، اپنے بدن کی نمائش کرنا، غیر محرم کا دل لبھانا یا اسے متوجہ کرنا- ★پردہ نہ کرنا، باریک لباس پہننا، تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین سمجھنا، با پردہ عورت اور باحیا لباس پہننے والیوں کو بیوقوف، جاہل اور حقیر سمجھنا-★دھوکہ دینا اور دھوکے باز کو عقل مند سمجھنا-★اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بےوقوف اور گھٹیا سمجھنا- ★ڈانس سیکھنے سیکھانے پر فخر کرنا، اپنے کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا-
جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج اور اچھی صحت کے لیےاچھی غزا اورصاف پانی و ہواضروری ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی نہایت ضروری ہے مثال کے طور پر آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ان گناہوں کو آپ سوئیاں تصور کریں پھر ان سوئیوں سے انڈے میں سوراخ کریں تو کیا پھر بھی انڈہ صحیح سالم رہے گا؟ ظاہر ہے کی ہرگز نہیں یا کسی آدمی کو کینسر، شوگر،ٹی بی، یرقان، نزلہ زکام اور بخار ہو تو کیا وہ پھر بھی اپنے آپ کو صحت مند تصور کرے گا؟ ہرگز نہیں،اس لیے آج بھی وقت ہے! آئیں ہم سب اپنے گناہوں سے توبہ کر کے نیک کاموں کی انجام دہی میں لگ جائیں تاکہ ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے اور یہی حکم ربی بھی ہے، جیسا کہ فرمان خداوندی ہے، اور سب مل کر توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ’ (سورۃ النور)
اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم سچی توبہ کریں اور پھر توبہ پر قائم رہیں، اللہ کے خوف کو ہمیشہ پانی جیسا ضروری سمجھیں، استغفار کو اپنا لباس سمجھیں،موت کو حاضر سمجھیں، دنیا کو معمولی، دارالعمل اور مسافر خانہ سمجھیں، اور سنت کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدس سمجھیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت قرآن کو اپنا سانس سمجھیں، زبان سے ذکر کریں اور دل و دماغ سے غور و فکر کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ قرآن وسنت کا خوبصورت گلدستہ ہمارے ہاتھوں سے گر جائے، اپنے گناہوں پر روتے رہیں،معافی مانگتے رہیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں، تعوذ اور لاحول پڑھتے رہیں، استغفار اور مغفرت طلب کرتے رہیں، اور استغفار پر مشتمل ذکر بھی کریں، زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، تاکہ ہمارے اعمال پر درود شریف کی خوشبو کا چھڑکاؤ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھیں پھر دیکھیں کی ارحم الراحمین دونوں جہانوں کی خوشیاں دیتا ہے کہ نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو” آپ بتائیں جب ہمارے گھروں میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے قہر و عضب کا بھرا ہوا ٹرک ٹی وی موجود ہے جس میں ہم فحش پروگرام دیکھتے رہتے ہیں تو اللہ کی رحمت کی امید کیسے رکھیں گے؟ کیا آگ اور پانی کی دوستی ممکن ہے؟ اسی گھر میں ٹی وی یا موبائل پر غلط پروگرامات بھی چل رہے ہیں اور اسی گھر میں دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں ہاۓ افسوس! ہر گھر میں کتنی پریشانیاں ہیں پریشانیوں کی وجہ سے ہر آدمی کا دم گھٹ رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایمان میں بے برکتی کا ڈاکو ٹی وی اور دیگر خرافات کو ہم گھر سے نہیں نکالتے!
آج کے مسلمانوں کو ٹی وی ناچ گانے اور غیر شرعی چیزوں سے محبت ہے’اگر کسی آدمی سے بولو کے رات کو دو بجے اٹھ جاؤ اور دو رکعت نفل پڑھ لو تو شاید ہی اس کے لئے وہ تیار ہو جائے، ماں کو گھر سے نکال دو اس کے لئے تیار ہے مگر کسی کو کہ دو کہ ٹی وی کو گھر سے نکال دو یا جو بھی بداعمالیاں ہے یا غلط باتوں کے ہم مرتکب ہیں ان کو چھوڑ دو اور اس سے توبہ کر لو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہمیں اور اس دور کے لوگوں کو باقاعدہ اپنی موت کا یقین نہیں-[افسوس صد افسوس]
ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی بداعمالیوں سے خود کو اور اپنے بال بچوں اور رشتے داروں کو بچانے کی کوشش کریں اور یہی اللہ رب العزت کے فرمان کا مطلب بھی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”تم لوگ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ”
اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین!)

والدین کے ساتھ حسن سلوک کا صلہ اوران کی نافرمانی کاانجام: احادیث کی روشنی میں،،از: (علامہ پیر) سید نور اللہ شاہ بخاری

(مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

والدین رشتے میں ہمارے ماں باپ ہوتے ہیں۔ رشتوں کو اگر دیکھا جائے تو رشتے دو طرح کے بنتے ہیں، ایک روحانی دوسرے جسمانی ۔

روحانی رشتہ جس کو ہم ایمانی رشتہ بھی کہتے ہیں یہ ایک محبتوں کا کنکشن ہوتاہے۔ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوام بخشا ہے جو قیامت کے دن بھی باقی رہے گا جس کی شہادت اللہ کا کلام دیتاہے۔ :﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾(سورۃ:۴۳،آیت:۶۷) گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، مگر پرہیزگار۔(کنزالایمان) یعنی جس دن ساری دوستیاں، محبتیں اور رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی اس دن بھی یہ کنکشن اور محبتوں کا جڑاؤ باقی رہنے والا ہے اور کام آنے والا بھی۔ جن عظیم ہستیوں کے ساتھ ہمارا یہ روحانی رشتہ اور محبتوں کا کنکشن ہے وہانبیائے کرام، صحابۂ کرام، اہل بیت اطہار اور صالحین و اولیائے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی جماعت ہے۔

اِن سبھی محبتوں،عشق کے کنکشنوں کا محور و مرکز ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اعلیٰ صفات ہے۔ ہمارے سبھی روحانی رشتے ہمارے آقا و مولیٰ نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ہیں۔ اگر کوئی وہاں سے کٹ گیا تو جہان سے ہی کٹ گیااورساتھ ہی ساتھ ہمارے یہاں سےبھی کٹ گیا۔ اس لیے کہ ان رشتوں کی اصل اور جڑ ذاتِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ و الثنا ہے ۔جیسے کسی درخت کی شاخیں ، پتے ،پھول اور پھل اس لیے ہرے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کا کنکشن درخت کی جڑ کے ساتھ بناہوا ہوتاہے، جس وقت ان کا وہ کنکشن جڑ سے کٹ جاتاہے تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔بالکل اسی طرح محبوب رب العالمین سید المرسلین ﷺ اصل کائنات ہیں جب جس وقت بھی اگر کسی کا کنکشن آپ ﷺ کی ذات سے کٹ جاتاہے ، تو وہ ہر طرح اور ہر سمت سے کٹ جاتاہےپھر اس کا کنکشن شیطان کے ساتھ تو ہوسکتاہے مگر ایک مومن کے ساتھ نہیں ہوسکتاچاہے وہ پیر ہو یا کوئی فقیر، جو ہمارے نبی کریم ﷺ کا نہیں وہ ہمارابھی نہیں۔

کیونکہ بات ہورہی ہے رشتۂ روحانی کی جس کو ہم رشتۂ ایمانی بھی کہتے ہیں، اور ایمان کی اصل محبت مصطفیٰ ﷺ ہے۔جب کوئی ذات مصطفیٰ ﷺ سے کٹا تو اب وہ مؤمن ہی نہیں رہا، جب مؤمن نہیں ہے تو سبھی ایمانی و روحانی رشتے بھی از خود ختم ہوجاتے ہیں۔

اب آتے ہیں جسمانی رشتہ کی جانب : جسمانی رشتے کے محور والدین ہوتے ہیں۔ چچا اس لیے چچا ہے کہ وہ ہمارے والد کا بھائی ہے، پھوپھی اس لیے پھوپھی ہے کہ وہ ہمارے والد کی بہن ہے، اسی طرح مامو اس لیے مامو ہے کہ وہ ہماری والدہ کا بھائی ہے، خالہ اس لیے خالہ ہے کہ وہ ہماری ماں کی بہن ہے ، اسی طریقہ سے ساری رشتہ داریاں بنتی ہیں جن کا سبب صرف ہمارے والدین کریمین ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی ہمارے والدین سے کٹ جاتاہے تو وہ ہم سے بھی کٹ جانا چاہیے، ورنہ ہم خود والدین سے کٹ جائیں گے، اور جو اصل سے کٹ جاتاہے ، وہ کہیں کا نہیں رہتا۔

اس لیے اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے والدین سے اچھا سلوک کرکے ان کے ساتھ جُڑے رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی عظمت و اہمیت کو اپنی لاریب کتاب میں اس طرح اُجاگر فرماتاہے۔ارشاداتِ باری تعالیٰ: ﴿لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃالبقر:۸۳)ترجمہ: ’کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو‘۔ (کنزالایمان)﴿وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِا لْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃ النساء:۳۶) ترجمہ: ’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو‘۔ (کنزالایمان)﴿وَقَضیٰ رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾(سورۃلاسراء:۲۳) ترجمہ: ’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘۔ (کنزالایمان)

مندرجہ بالا آیاتِ بیّنات میں اللہ رب العزت نے اپنی عبادات کے بعد جس اہم امر کا سب سے پہلے حکم صادر فرمایاہے وہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کرناہے۔کتبِ احادیث والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک،ان کی خدمت اور ان کا ادب و احترام کرنے کی فضیلت، اور ان کی نافرمانی کی وعیدوں سےبھری پڑی ہیں، ان میں سے چند احادیث کریمہ ھدیۂ قارئین ہیں۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت اور اس کا اجر

۱:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟فرمایا:”اَلصَّلوٰۃُ عَلٰی وَقْتِھَا“وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کونسا؟ فرمایا:”ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ“ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ عرض کیا: پھر کونسا؟ فرمایا:”اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ“ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں مجھے یہ بتایا اور اگر مزید عرض کرتا تو اور بتاتے۔(الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲، کتاب الادب،ص۸۸۲،م قدیمی کتب خانہ کراچی)

۲:حضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں ہجرت اور جہاد پر آپ سے بیعت کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے اجر کا طالب ہوں، (آقاکریم ﷺنے) دریافت فرمایا: ’کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟‘اس نے عرض کیا: جی ہاں! دونوں زندہ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’کیا تو اللہ تعالیٰ سے اجر کا طلب گار ہے؟‘ اس نے عرض کیا :جی ہاں!آپ (ﷺ) نے فرمایا:”فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَیْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا“اپنے ماں باپ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے اچھا سلوک کرو۔(الصحیح لمسلم،ج:۶،کتاب البر و الصلۃ ص:۴۱۱،رقم:۲۶۳۱، م دار التاصید، بیروت)

۳:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’تین آدمی جارہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا، چنانچہ وہ ایک پہاڑ کے غار میں چھُپ گئے، پہاڑ کے اوپری حصے سے ایک بہت بڑا پتھر غار کے مُنہ پرآ گرا اور وہ(لوگ غار کے اندر) بند ہوگئے، چنانچہ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کوئی ایسا نیک عمل دیکھو جو تم نے محض اللہ کے لیے کیا ہواور اس کے وسیلے سے دعا کرو، شاید کہ اللہ ہمیں کشادگی عطا فرمائے، ان میں سے ایک نے کہا:”اَللّٰھُمَّ اِنَّہٗ کَانَ لِی وَالِدَانِ شَیْخاَنِ کَبِیرَانِ ، وَلِی صِبْیَۃٌ صِغَارٌ، کُنْتُ اَرْعٰی عَلَیھِمْ، فَاِذَا رُحْتُ عَلَیْھِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأتُ بِوَالِدَیَّ اَسْقِیْھِمَا قَبْلَ وَلَدِی، وَاِنَّہٗ نَأَی بِیَ الشَّجَرُ یَوْمًا،فَمَا اَتَیْتُ حَتّٰی اَمْسَیْتُ فَوَجَدْتُھُمَاقَدْ نَامَا “اے اللہ! میرے انتہائی عمر رسیدہ اور بوڑھے والدین تھے نیزمیرے بچے چھوٹے چھوٹے تھے، میں اُن کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا، جب میں شام کو واپس آتا تو ان کے لیے بکریوں کا دودھ نکالتا اور بچوں سے پہلے والدین کو پلاتا تھا، ایک دن جنگل میں دور نکل گیااورشام ہوگئی، جب واپس لوٹا تو وہ دونوں سوچکے تھے، ”فَحَلَبْتُ کَمَا کُنْتُ اَحْلَبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُؤُوسِھِمَا اَکْرَہُ اَنْ اُوقِظَھُمَامِنْ نَوْمِھِمَا، وَ اَکْرَہُ اَنْ اَبْدَاَ بِالصِبْیَۃِ قَبْلَھُمَا، “میں ہمیشہ کی طرح دودھ لیکر آیا اور ان دونوں کے سرہانے کھڑا ہوگیا، میں نے انہیں نیند سے جگانا پسند نہ کیا اور مجھے ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی اچھا نہ لگتاتھا”وَ الصِّبْیَۃُ یَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَیَّ، فَلَمْ یَزَلْ ذَالِکَ دَأْبِی وَدَأْبَھُمْ حَتّٰی طَلَعَ الْفَجْرُ،“، اور بچے میرے پیروں میں رات بھر روتے رہےحتٰی کہ صبح ہونے تک میں اور وہ اسی حال میں رہے ”فَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنِّیْ فَعَلْتُ ذَالِکَ ابْتِغَاءَ وَجْھِکَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَۃً نَری مِنَ السَّماءَ“ یا اللہ! تو جانتاہے اگر میں نے یہ کام فقط تیری رضا کی خاطر کیاہے تو ہمارے لیے کشادگی عطا فرما تاکہ ہم آسمان تو دیکھ سکیں۔ ”فَفَرَجَ اللہُ لَھُمْ فُرْجَۃً حَتّٰی یَرَوْنَ مِنْھَا السَّمَاء“(الی آخر الحدیث)پس اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو تھوڑاسا ہٹادیا کہ اس میں سے اُنہیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ (الجامع الصحیح للبخاری ج:۲ کتاب الادب، باب اجابۃ دعاءِ مَن بَرَّ وَالدیہ،ص:۸۸۳)

مگر ابھی بھی وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے یہاں تک کہ بقیہ دونوں ساتھیوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کے ذریعہ سے دعا کی، اور وہ پتھر کی چٹان مکمل طور پر غار کے مُنہ سے ہٹ گئی اور وہ باہر نکلے۔

۴:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”مَنْ سَرَّہُ اَنْ یُمَدَّ لَہُ فِی عُمُرِہٖ وَیُزَادَ فِی رِزْقِہٖ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ“ جو چاہتاہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کے رزق میں زیادتی ہو، تو اس کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک و صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، فی بر الوالدین،رقم:۱۶، ص:۲۱۷، دارالکتب علمیہ، بیروت)

۵:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”مَنْ بَرَّوَالِدَیْہِ طُوْبٰی لَہٗ زَادَ اللہُ فِی عُمُرِہٖ“جو شخص والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہے اس کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمادےگا۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، فی بر الوالدین،رقم:۱۷، ص:۲۱۷، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

طوبیٰ جنت میں ایک بہت بڑے درخت کا نام بھی ہے، والدین کی خدمت کرنے والے کو اس کا سایہ بقدر خدمت نصیب ہوگا۔(حاشیہ :الترغیب و الترھیب)

۶:حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی ِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! (ﷺ) میں جہاد میں شرکت کا ارادہ کرکے آپ سے مشورہ طلب کرنے آیاہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ھَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ“ کیا تمہاری والدہ ہے؟اس نے عرض کیا :جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا:”فَالْزَمْھَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِھَا“تم ان کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے پیروں کے پاس ہے۔ (مشکوۃ المصابیح للتبریزی، ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۱۹ ص:۴۳۴مکتبہ رحمانیہ لاھور)

۷:حضرت عمر بن مرہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! ﷺ میں یہ گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، میں پانچ نمازیں پڑھتاہوں، میں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتاہوں، اور رمضان کے روزے رکھتاہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ مَّاتَ عَلٰی ھٰذا کَانَ مَعَ النَّبِیِّیْن وَ الصِّدِقِیْنَ وَ الشُھَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ھٰکَذَا“جس شخص کو اس حالت پر موت آجائےوہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اورشھداء کے ساتھ اس طرح ہوگا۔ (نبی کریم ﷺ نے) اپنی دو اُنگلیاں ملا کر یہ بات ارشاد فرمائی”مَالَمْ یَعُقَّ وَالِدَیْہِ“ بشرطیکہ وہ اپنے ماں باپ کا نافرمان نہ ہو۔ (المسند لاحمدبن حنبل ج:۴، کتاب البرو الصلۃ، باب : بر الوالدین،ص:۱۵۰ رقم:۵۴۷۱)

جو لوگ اپنے والدین کی خدمت اورضرورت پر دھیان نہ دے کرلوگوں کے درمیان بڑے نیک بنے پھرتے ہیں انہیں مذکورہ حدیث پر غور کرنا چاہیے، کہ کوئی بندہ صوم و صلوٰۃ کا کتنا بھی پابند کیوں نہ ہو مگر اس سے ماں باپ کی خدمت میں اگر معمولی چوک ہوگئی تو ساری عبادتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، قیامت کے دن اسے کافی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ اس لیے اپنے والدین کی خدمت پر خوب خوب دھیان دیں۔

والدین کے نافرمان کا انجام:

۸:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”رَغِمَ اَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفُثُمَّ رَغِمَ اَنْفُ“ ’اس کی ناک خاک آلود ہو،پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو‘عرض کیا گیایا رسول اللہ !(ﷺ) وہ کون شخص ہے؟(جس کی ناک خاک آلود ہو) فرمایا: ”مَنْ اَدْرَکَ اَبْوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِاَحَدَھُمَا اَوْ کِلَیْھِمَافَلَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔“جس نے اپنے ماں باپ دونوں میں سے ایک، یا دونوں کو بُڑھاپے میں پایااور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہوسکا۔(الصحیح لمسلم،ج:۶،کتاب البر و الصلۃ ص:۴۱۵،رقم:۲۶۳۳، دار التاصید، بیروت)

۹:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”رِضَی الرَّبِّ فِیْ رِضَی الْوَالِدِ وَ سَخْطُ الرَّبِّ فِی سَخْطِ الْوَالِدِ“ اللہ رب العزت کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہےاور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی،ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۰۷ ص:۴۳۳،)

۱۰:حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نبیِکریم ﷺ کی خدمت اقدس میں موجود تھے کہ ایک شخص حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: ایک نوجوان حالتِ نزع میں ہے اسے کہاجاتاہے کہ’ لا الہ الا اللہ ‘ پڑھ مگر نہیں پڑھ سکتا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دریافت فرمایا:”کَانَ یُصَلِّی؟“نماز پرھتاتھا؟ عرض کی گئی: جی ہاں! اللہ کے رسول ﷺ اُٹھے ، آپ ﷺ کے ساتھ ہم بھی اُٹھے ، آقا کریم ﷺ اس نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:”قُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کہو: ’لاالہ الا اللہ‘اس نے عرض کی میں کہہ نہیں سکتا، فرمایا:”لِمَ؟“ کیوں نہیں کہہ سکتا؟عرض کی گئی: یہ اپنی ماں کی نافرمانی کرتاتھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اَحَیَّۃٌ وَالِدَتَہٗ؟“کیا اس کی ماں زندہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا :جی ہاں! آقاکریم ﷺ نےفرمایا:”اُدْعُوْھَا“ اسکو بلاؤ۔ (والدہ کو بلایا گیا) وہ خدمت میں حاضر ہوئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”ھٰذَا اِبْنُکَ؟“ یہ تمہارا بیٹا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اَرَیْتِ لَوْ اُجِّجَتْ نَارٌ ضَخْمَۃٌ، فَقِیْلَ لَکِ: اِنْ شَفِعْتَ لَہٗ خَلَّیْنَا عَنْہُ، وَاِلَّا حَرَّکْنَاہُ بِھٰذِہِ النَّارِ، اَکُنْتِ تَشْفَعِیْنَ لَہٗ؟“کیا خیال ہے تمہارا؟ اگر بہت بڑی آگ بھڑکائی جائے اور تمہیں کہا جائے کہ تم اگر اس کی سفارش کرو تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں ورنہ اس آگ میں اسے جلا ڈالیں گے، تو کیا تم اس کی سفارش کروگی؟ (یا جل جانے دوگی؟)۔ ماں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ﷺ (ایسی حالت میں تو ضرور) میں اس کی سفارش کروں گی۔ ارشاد فرمایا:”فَاشْھِدِی اللہَ وَاشْھِدِیْنِی قَدْ رَضِیْتِ عَنْہُ“پھر اللہ تعالیٰ کو اور مجھے گواہ بنا کر کہو کہ تم اس سے راضی ہوگئی ہو۔وہ عرض کرنے لگی : یا اللہ (عزوجل)میں تجھے اور تیرے رسول(ﷺ) کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں یقینًا اپنے بیٹے سے راضی ہوگئی ہوں۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا: ”یَا غُلَامُ قُلْ“اے نو جوان کہہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ،وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ رَسُوْلُہٗ“اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ، میں گواہی دیتاہوں کہ بیشک محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ (والدہ کی معافی کے بعد حضور کے ارشاد پر اسے کلمۂ شہادت کی توفیق حاصل ہوئی)تو اس نے یہ الفاظ دہرائے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَنْقَذَہُ بِیْ مِنَ النَّارِ“تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے وسیلہ سے اس نوجوان کو دوزخ کی آگ سے بچالیا۔الترغیب و الترھیب للمنذری،ج۳، الترھیب من عقوق الوالدین، رقم:۱۶، ص:۲۲۶، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

۱۱:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَمَنَّانٌ وَّ لَا عَاقٌ وَّ لَا مُدْمِنُ خَمْرٍ“جنت میں داخل نہیں ہوگا، احسان جتانے والا، والدین کا نا فرمان، اور مستقل شراب پینے والا۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی ج:۲، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثانی،رقم:۴۷۱۳، ص:۴۳۳)

۱۲:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہےفرماتے ہیں:اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”ثَلَاثٌ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَ لَا یَنْظُرُاللہُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اَلْعَاقُ وَالِدَیْہِ،وَالْمِرَأَۃُالْمُتَرَجِّلَۃُ الْمُتَشَبِّھَۃُ بِالرِّجَالِ،وَالدَّیُوْثُ“تین ایسے افراد ہیں کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت فرمائےگا:والدین کا نافرمان، اور وہ عورت جوچال ڈھال لباس وغیرہ میں مردوں کی مشابہت کرتی ہے،اوردیوث(بےغیرت) ”وَ ثَلَاثَۃٌ لَا یَنْظُرُاللہُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:اَلْعَاقُ بِوَالِدَیْہِ،وَمُدْمِنُ الْخَمَرِ،وَ الْمَنَّانُ بِمَااَعْطیٰ“اور وہ تین شخص جن پر اللہ تبارک و تعالیٰ نظرِ رحمت نہیں فرمائےگا:والدین کا نافرمان،اور شراب پر ہمیشگی کرنے والا، اورکسی کو کچھ دے کر احسان جتانے والا۔(المسند لاحمدبن حنبل،رقم:۶۱۸۰،ص۴۷۲، بیت الافکار الدولیہ،سعودیہ)

۱۳:حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”کُلُّ الذُّنُوْبِ یُؤَخِّرُ اللہُ مَاشَاءَ مِنْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، اِلَّا عُقُوْقَ الْوَالِدَیْنِ، فَاِنَّ اللہَ تَعَالَیٰ یُعَجِّلُہٗ لِصَاحِبِہٖ فِیْ الْحَیَاۃِ قَبْلَ الْمَمَاتِ“سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت تک مؤخر رکھتاہے، مگر ماں باپ کے ستانے کی سزا مرنے سے پہلے زندگی میں (بھی) دیتاہے۔(المستدرک للحاکم،ج:۴، البر وصلۃ، رقم:۷۲۶۳، ص:۱۷۲،دار الکتب العلمیہ، بیروت )

۱۴:حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”ثَلٰثۃٌ لَایُقَبِّلُ اللہُ مِنْھُمْ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، عَاقٌ، وَمَنَانٌ، وَ مُکَذِّبٌ بِقَدْرٍ“ تین شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ ان کے نفل قبول فرماتاہے اور نہ فرض۔ ماں باپ کا نافرمان، صدقہ دے کر احسان جتانے والا،اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔(جامع الاحادیث للامام احمدرضا البریلوی، ج۴،ص:۱۹۳، رقم:۲۳۳۹، بحوالہ:مجمع الزوائد للھیثمی، ۷/۲۰۶)

۱۵:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ،مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ،مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ“ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے،ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے،ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے۔(جامع الاحادیث للامام احمد رضا البریلوی، ج۴،ص۱۹۳، رقم:۲۳۴۰)

۱۶:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول ﷺتشریف لائےاور ہم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”یَامَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ اِتَّقُوْا اللہَ، وَصِلُوْا اَرْحَامَکُمْ ، فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ ثَوَابٍ اَسْرَعَ مِنْ صِلَۃِ الرَّحْمِ، وَاِیَّاکُمْ وَا لْبَغْیَ،فَاِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ عُقُوْبَۃٍ اَسْرَعَ مِنْ عُقُوْبَۃِ الْبَغْیِ، وَاِیَّاکُمْ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَاِنَّ رِیحَ الْجَنَّۃِ تُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ اَلْفِ عَامٍ، وَاللہِ لَا یَجِدُھَا عَاقٌ، وَلَا قَاطِعُ رَحِمٍ، وَلَا شَیْخٌ زَانٍ، وَلَا جَارٌ اِزَارہُ خُیَلَاءَ اِنَّمَا الْکِبْرِیَاءُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“(الی آخر الحدیث)اے جماعتِ مسلمین! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اپنے رشتےداروں سے صلہ رحمی کرو، کیونکہ صلہ رحمی کے ثواب سے جلدی ملنے والا اور کوئی ثواب نہیں۔ ظلم(کرنے) سے بچو کیونکہ ظلم کی سزا سے جلدی ملنے والی اور کوئی سزا نہیں۔ اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے سے بچو کیونکہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی دوری سے محسوس کی جا سکتی ہے، اللہ کی قسم والدین کا نافرمان، رشتے توڑنے والا، بوڑھا زانی، اور تکبر سےتہبند لٹکا کر چلنے والا اس (ایک ہزار سال کی دوری سے محسوس کی جانے والی جنت کی خوشبو کوبھی) نہ پاسکیں گے۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری، ج:۳، الترھیب من عقوق الوالدین،ص:۲۲۵، رقم:۱۴)

۱۷:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ اَصْبَحَ مُطِیْعًا لِلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَ مَنْ اَصْبَحَ عَاصِیًا لِلّٰہِ فِیْ وَالِدَیْہِ اَصْبَحَ لَہٗ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ اِنْ کَانَ وَاحِداً فَوَاحِداً“جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور والدین کی فرمانبرداری میں صبح کرےتو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اگر ایک ہوتو ایک (دروازہ)، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اپنے والدین کی نافرمانی میں صبح کرے تو اس کے لیے جہنم کےدو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اگر ایک ہو تو ایک دروازہ۔ ایک آدمی نے عرض کیا اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”وَاِنْ ظَلَمَاہُ وَاِنْ ظَلَمَاہُوَاِنْ ظَلَمَاہُ“اگرچہ وہ ظلم کریں،اگرچہ وہ ظلم کریں،اگرچہ وہ ظلم کریں۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی، کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ،الفصل الثالث،رقم:۴۷۲۳، ص:۴۳۵)

۱۸:حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ“کیا میں تمہیں بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ ہم نے عرض کیا: جی ہاں(ضرورفرمائیں) یارسول اللہ!ﷺ فرمایا:”اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ“(الی آخر الحدیث)اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔(الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲ کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر،ص:۸۸۴)۔

۱۹:حضرت عبید اللہ بن ابوبکر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا، یا کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:”اَلشِّرْکُ بِا اللہِ، وَقَتْلُ نَفْسٍ، وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ،“(الی آخر الحدیث) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی جان کو (ناحق ) قتل کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔(الجامع الصحیح للبخاری، ج:۲ کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر،ص:۸۸۴)

۲۰:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”لَا تَعُقَّنَّ وَالِدَیْکَ وَاِنْ اَمْرَاکَ اَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَ مَالِکَ“اپنے ماں باپ کی نافرمانی مت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو اپنے گھربار کو چھوڑ دے۔۔(المسند لاحمد بن حنبل،۵/۱۹۹،رقم:۸۴۹۵، دار القلم، دمشق)

۲۱:حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اَطَعْ وَالِدَیْکَ وَ اَنْ اَخْرَجَاکَ مِنْ مَالِکَ وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ھُوَ لَکَ“ اپنے ماں باپ اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے تیرے مال سے نکال دیں، اور ہر اس چیز سے جو تیری ہے۔(جامع الاحادیث، ج:۴، کتاب الادب/حقوق الوالدین،ص:۱۹۱، رقم:۲۳۳۶بحوالہ: الدرمنثور للسیوطی،۴/۱۸۳)

ماں باپ کے حقوق اولاد پر

۲۲:حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ﷺ بیٹے پر ماں باپ کے کیا حق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”ھُمَا جَنَّتُکَ وَ نَارُکَ“ وہ تیرے لیے جنت اور دوزخ ہیں۔ (السنن لابن ماجہ کتاب الادب، باب بر الوالدین،ص:۸۳۰ رقم:۳۶۶۲، دار الفکر بیروت، لبنان)

یعنی اگر تو اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے گا اور ان کی خدمت کرے گا تو وہ تیرے لیے جنت کا ذریعہ بن جائیں گے، اور اگر تو اُن کی نافرمانی کرتا رہے گا اور ان کی خدمت کرکے ان کو خوش نہیں رکھےگا، تو تیرا ٹھکانا دوزخ ہے۔

۲۳:حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:”اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ، فَاَضَعْ ذَالِکَ الْبَابَ اَوِ احْفَظَہٗ“ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے ، اب تیری مرضی اسے گرادے یا اسے قائم رکھے۔ (السنن لابن ماجہ،کتاب الادب باب برالوالدین، ص:۸۳۰،رقم:۳۶۶۳دار الفکر بیروت، لبنان)

۲۴:حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِاُمَّھَاتِکُمْ“بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے۔ (راوی کا بیان ہے) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرمائی(پھر فرمایا:) ”اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِآبَائِکُمْ“بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے، (پھر فرمایا:) ” اِنَّ اللہَ یُوْصِیْکُمْ بِالْاَقْرَبِ فَالْاَقْرَبِ“اللہ تعالیٰ تمہیں قریب سے قریب رشتے داروں کےساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتاہے۔ (السنن لابن ماجہ کتاب الادب،باب بر الوادین،ص:۸۳۰، رقم:۳۶۶۱دار الفکر بیروت، لبنان)

۲۵:ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کاہے؟ فرمایا:”زَوْجُھَا“ اس کے شوہر کا، میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا:”اُمُّہٗ“ اس کی ماں کا۔(المستدرک للحاکم، ج:۴، البرو الصلۃ، رقم:۷۲۴۴، ص۱۶۷، دار الکتب علمیۃ)

۲۶:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھنے لگا: میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اُمُّکَ“ تیری ماں، عرض کیا: پھر کون؟فرمایا:”پھر تمہاری ماں“ عرض کیا :پھر کون؟ فرمایا:”پھر تمہاری ماں“ عرض کیا:پھر کون؟ فرمایا:”پھر تمہارا باپ“۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الادب،۸۸۳)

۲۷:حضرت ابن سلامۃ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ،اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ،اُوْصِیْ اِمْراً بِاُمِّہٖ، (ثَلَاثاً)اُوْصِیْ اِمْرَاً بِاَبِیْہِ، اُصِیْ اِمْرَاً بَمَوْلَاہُ الَّذِیْ یَلِیْہِ، وَاِنْ کَانَ عَلَیْہِ مِنْہُ اَذًی یُؤْذِیہِ“میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، میں آدمی کو وصیت کرتاہوں اس کی ماں کے حق میں، (راوی کا بیان ہے ) یہ بات آپ ﷺ نے تین بار دہرائی، )میں آدمی کو اس کے باپ کے حق میں وصیت کرتاہوں، میں آدمی کو (ماتحت) غلام کے بارے میں وصیت کرتاہوں (کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہے) چاہے وہ اس کے لیے کسی ایذا کا سبب بنے ہوں۔(السنن لابن ماجہ کتاب الادب، باب بر الوادین، ص:۸۲۹، رقم:۳۶۵۷دار الفکر بیروت، لبنان)

مذکورہ بالا تینو حدیثوں سے پتہ چلا کہ ماں کے حقوق اولاد پر باپ کے حقوق سے زیادہ ہیں۔ اس کو مزید سمجھنے کے لیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح نظرِ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں:’مگر اس زیادتی کے یہ معنی ہیں کہ خدمت دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے، مثلاً سو روپے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانع تفضیل مادر نہیں تو باپ کو پچیس دے اور ماں کو پچہتر، یا ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو، یا دونوں سفر سے آئے ہیں، پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھر باپ کے، وعلی ہذالقیاس۔ نہ یہ کہ اگر والدین میں باہم تنازع ہوتو ماں کا ساتھ دے کر معاذ اللہ باپ کے درپئے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے، یا اسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملاکر بات کرے، یہ سب باتیں حرام ہیں اور اللہ عزوجل کی معصیت۔ اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں نہ ماں کی اطاعت نہ باپ کی۔ تو اسے ماں باپ میں کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں، وہ دونوں اس کی جنت و نار ہیں، جسے ایذا دےگا دوزخ کا مستحق ہوگا۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔۔ معصیت خالق میں کسی کی اطاعت نہیں، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار پہونچائے اور یہ نہیں مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں ان کی ایسی ناراضیاں کچھ قابل لحاظ نہ ہوں گی کہ ان کی نری زیادتی ہے۔ کہ اس سےاللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے جس کی مثالیں ہم لکھ آئے۔ اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقاہے۔(فتاوی رضویہ، ج:۲۴، ص:۳۹۵،رضافاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور)

۲۸:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے فرمایا:”یَافُلَانُ مَنْ ھٰذا مَعَکَ؟“ تیرے ساتھ یہ کون شخص ہے؟ اس نے عرض کیا: میرا باپ ہے۔ ارشاد فرمایا:”فَلَا تَمْشِ اَمَامَہٗ، وَلَا تَجْلِسْ قَبْلَہٗ، وَلَا تُدْعُہٗ بِاِسْمِہٖ، وَلَا تَسْتَسِبَّ لَہٗ“ تو اس کے آگے مت چلنا، اور نہ اس سے پہلے بیٹھنا، اور نہ اس کو نام لے کر بلانا، اور نہ اس کے لیے نازیبا الفاظ بولو۔(مجمع الزوائد للھیثمی، ج۱۶،کتاب البروالصلۃ، باب باجاء فی البر و حق الوالدین، ص:۴۶۷،رقم:۱۳۴۱۷،دارالمنھاج،سعودیہ)

۲۹:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ !ﷺ میں مال و عیال والاآدمی ہوں اور میرے باپ میرا سب مال لے لینا چاہتے ہیں۔تو فرمایا:”اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ“تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کاہے۔(السنن لابن ماجہ، کتاب التجارات باب ماللرجل من مال ولدہٖ،ص:۵۳۱،رقم:۲۲۹۱،دار الفکر بیروت، لبنان)

۳۰:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ !ﷺ میں مال و عیال والاآدمی ہوں اور میرے باپ میرا سب مال لے لینا چاہتے ہیں۔(تو ہم اور ہمارے بال بچے کیا کھائیں گے؟ اور ہمارا گزربسر کیسے ہوگا؟)سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اُدْعُہْ لِیَہْ“ اپنے باپ کو میری بارگاہ میں لاؤ، جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے فرمایا تمہارا یہ بیٹا کہتا ہےکہ تم اس کا مال لے لینا چاہتے ہو؟ ( یہ کیا معاملہ ہے؟)

اُس نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس سے دریافت فرمائیےکہ میں وہ مال لے کر کیا کرتاہوں؟ اس کی پھوپھیوں یا دوسرے قرابت داروں پر خرچ کرتاہوں یا اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ چلاتاہوں؟ اتنے میں طائرسدرہ حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ یا رسو ل اللہ! یہ بڑے میاں اپنے دل میں کچھ اشعار بھی مرتب کر کے لائے ہیں جن کو ابھی ان کے کانوں نے بھی نہیں سناہے، وحی پاکر حضور سید عالم ﷺ نے ان سے فرمایاتم نے اپنے دل میں جو اشعار کہے ہیں وہ مجھے سناؤ، بڑے میاں عرض کرنے لگے، یارسول اللہ! ہمیشہ آپ کے معجزات سے اللہ تعالیٰ ہمارے دل کا نور یقین بڑھاتا رہتاہے۔ پھر اشعار سنائے:

غَذَوْتُکَ مَوْلُوْداً وعَلَتْکَ یَافِعًا تُعَلُّ بِمَا اَجْنِی عَلَیْکَ وَتُنْھَلٗ

اِذَا لَیْلَۃٌ ضَاقَتْکَ بِالسُّقْمِ لَمْ اَبِتْ لِسُقْمِکَ اِلَّا سَاھِراً اَتَملْمَلٗ

تَخَافُ الرَّدٰی نَفْسِی عَلَیْکَ وَ اِنَّھَا لِتَعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ حَتْمٌ مُّوَکَّلٗ

کَاَنِّیْ اَنَا الْمَطْرُوْقُ دُوْنَکَ بِالَّذِیْ طُرِقْتَ بِہٖ دُوْنی فَعَیْنَایَ تَھْمَلٗ

فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَ الْغَایَۃَ الَّتِیْ اِلَیْکَ مَدٰی مَاکُنْتُ فِیْکَ اُؤَمِّلٗ

جَعَلْتَ جَزَائِیْ غِلْظَۃً وَ فَظَاظَۃً کَاَنَّکَ اَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلٗ

فَلَیْتَکَ اِذَالَمْ تَرَعْ حَقَّ اُبُوَّتِیْ کَمَا یَفْعَلُ الْجَارُ الْمُجَاوِرُ تَفْعَلٗ

وَاَوْ لَیْتَنِیْ حَقَّ الْجَوَارِ وَ لَمْ تَکُنْ عَلَیَّ بِمَالِیْ دُوْنَ مَالِکَ تَبْخَلٗ

1 ) اے بیٹے! جب سے تو پیدا ہوا تیرے لیے غذا فراہم کی اور تیرے باشعور ہونے تک تیرے نان و نفقہ کا بار اُٹھایا تو برابر میری کمائی سے مستفید ہوتا رہا اور پروان چڑھتارہا۔

2) جب کوئی رات بیماری کا غم لے کر تجھ پر آتی تو میں تیری ناسازیِ طبع و بیماری کےکے باعث رات بھر جاگ جاگ کر بڑی بے چینی و بے قراری سے صبح کرتا۔

3)میرا جی تیرے موت کے اندیشے سے ڈرتا رہتا حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ موت یقینی ہےاور سب پر مُسلط کی گئی ہے۔

4)میری آنکھیں اس طرح زارو قطار رو روکر آنسو بہاتیں کہ جیسے وہ بیماری جو رات میں تجھے ہوئی تھی تجھے نہیں بلکہ مجھے ہوئی تھی۔

5) میں نے تجھے اتنی شفقت اور پیار کے ساتھ دکھ اٹھا اٹھا کر پالا، پوسا اور جب تو پروان چڑھا اور عمر کی اس منزل کو پہونچا جس میں مجھے امید لگی ہوئی تھی کہ اس عمر کا ہوکر تو میرے کام آئےگا۔

6)تو اس کے بدلے میں تو میرے ساتھ سختی اور بد خلقی سے پیش آیا گویا میرے اوپر تیرا ہی فضل و احسان ہے۔

7) اے کاش! جب تو نے حق پدری کا لحاظ نہ کیا تو کم از کم وہی سلوک کرتا جو ہمسایہ کرتاہے۔

8)تونے مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور مجھ پر اس مال کو خرچ کرنے میں بخیلی نہ کرتا جو اصل میں تیرا نہیں میرا ہی ہے۔

بوڑھے کے یہ درد بھرے اشعار سن کر حضور رحمت عالم ﷺ روپڑے اور بیٹے کا گریبان پکڑ کر ارشاد فرمایا:”فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبیْکَ“ جا تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔(جامع الاحادیث ج:۴ کتاب الادب باب حقوق والدین، ص:۱۹۴، رقم:۲۳۴۳،وایضا ؛ حقوق الوالدین ص۲۰،خطیب البراہین صوفی نظام الدین بحوالہ: نصب الرایہ احادیث الھدایہ، ج:۳، ص۳۳۷،مجلس علمی پاکستان)

۳۱:حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا یارسول اللہ! ﷺ میں نے اپنی والدہ کو اپنے کندہوں پر اُٹھاکر ایسےگرم پتھروں پر دو میل تک سفر کرتا رہا جن پر اگر گوشتکا ٹکڑا ڈالا جائے تو وہ بھون جائےگا۔ تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا؟ اللہ کے حبیب ﷺ نے فرمایا:”لَعَلَّہُ اَنْ یَّکُوْنَ لِطَلْقَۃٍ وَاحِدَۃٍ“شاید کہ (تیرا یہ عمل تیری پیدائش کے وقت جو درد کے جھٹکے تیری ماں نے سہے ان میں سے )ایک جھٹکے کا بدلہ ہوجائے۔(مجمع الزوائد للھیثمی، ج:۱۶،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی البر و حق الوالدین،رقم۱۳۴۱۵، ص:۴۶۶)

والدین کے وہ حقوق جو ان کے انتقال کے بعد اولاد پر عائد ہوتے ہیں

۳۲:حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بدری صحابی ہیں روایت فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انصار میں سے ایک شخص حاضرِ بارگاہ ہوکر عرض کرنے لگا: یارسول اللہ! ﷺ کیامیرے والدین کی طرف سے ان کے انتقال کے بعد مجھ پر کچھ نیکیاں باقی ہیں جو میں ان کے لیے کروں؟۔ فرمایا: ”نَعَمْ خِصَالٌ اَرْبَعَۃٌ: اَلصَّلَاۃُ عَلَیْھِمَا، وَالْاِسْتِغْفَارُ لَھُمَا، وَاِنْفَاذُ عَھْدِھِمَا، وَ اِکْرَامُ صَدِیْقِھِمَا، وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لَا رَحِمَ لَکَ اِلَّا مِنْ قِبَلِھِمَا، فَھُوَ الَّذِیْ بَقِیَ عَلَیْکَ مِنْ بِرِّھِمَا بَعَدَمَوْتِھِمَا“ہاں چار چیزیں ہیں: ان پر نمازِ جنازہ پڑھنا، ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا، ان کے زندگی میں کیئے ہوئے عہد پورے کرنا، اور ان دونوں کے دوستوں(باپ کے دوستوں ماں کی سہیلیوں) کا عزت و احترام کرنااور ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن سے رشتہ ان کی وجہ سے قائم ہوا۔ (المسند لاحمدبن حنبل ج۴ البروصلۃ، ص:۱۵۳ رقم:۵۴۸۱،دارالقلم دمشق)

۳۳:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّصِلَّ اَبَاہُ فِیْ قَبَرِہٖ فَلِیَصِلَّ اِخْوَانُ اَبِیْہِ مِنْ بَعَدِہٖ“ جو شخص چاہے کہ باپ کی قبر میں اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، وہ باپ کے بعد اس کے عزیزوں اور دوستوں سے نیک برتاؤ کرے۔ (جامع الاحادیث ج ۴ کتاب الادب/ حقوق الوالدین، ص:۲۱۱ رقم:۲۳۷۶)

۳۴:حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَا عَلیٰ اَحَدِکُمْ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّتَصَدَّقَ لِلّٰہِ صَدَقَۃً تَطَوُّعًا اَنْ یَجْعَلَھَاعَنْ وَالِدَیْہِ اِذَاکَانَ مُسْلِمَیْنَ فَیَکُوْنُ لِوَالِدَیْہِ اَجْرُھَا وَلَہٗ مِثْلُ اُجُوْرِھِمَا بَعْدَ اَنْ لَا یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمَا شَیْئًا“جب تم میں سے کوئی شخص صدقۂ نافلہ کا ارادہ کرے ، تو اس میں اپنے والدین کی طرف سےنیت کرے بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں۔ ان دونوں کو اس کا ثواب پہونچےگا اور اسے ان دونوں کے ثواب کے برابر ملےگا۔ اور ان کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(جامع الاحادیث ج:۳،کتاب الجنائز،ص۸۶، رقم:۱۱۷۱)

۳۵:حضرت ابو اسید مالک بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اِسْتِغْفَارُ الْوَلَدِ لِاَبِیْہِ بَعَدَ الْمَوْتِ مِنَ الْبِرِّ“ اولاد کا اپنے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا حسنِ سلوک سے ہے۔( کنز العمال للمتقی ج۱۶، باب۸ فی بر الوادین، رقم:۴۵۴۴۹،ص۴۶۳،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

۳۶:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِیْ الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! اَنَّیْ لِیْ ھٰذِہٖ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ“اللہ عزوجل اپنے نیک بندے کے جنت میں درجات بلند فرمائےگا ، تو وہ بندہ عرض کرتاہے یارب! یہ میرے لیے (اتنے انعامات کیوں؟) تو اس سے کہا جائےگا: تیرے بیٹے کے تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی وجہ سے۔(المسندلاحمدبن حنبل،ج:۴، کتاب البروصلۃ، باب برالوالدین، رقم:۵۴۷۰،ص:۱۵۰دارالقلم، دمشق)

۳۷:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”اِذَا تَرَکَ الْعَبْدُ دُعَاءَ لِلْوَالِدَیْنِ فَاِنَّہٗ یَنْقَطِعُ عَنْہُ الرِّزْقَ“آدمی جب ماں باپ کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے ، تو اس کا رزق قطع ہو جاتاہے۔(جامع الاحادیث ج:۴، ص:۲۰۶، بحوالہ: کنز العمال للمتقی ج۱۶، باب فی بر الدین، ص:۴۸۲، رقم:۴۵۵۵۶، م مؤسسۃ الرساۃ، بیروت)

ماں باپ کی طرف سے حج کرنا

۳۸:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ اَبِیْہِ اَوْ اُمِّہٖ فَقَدْ قَضیٰ عَنْہُ حَجَّتُہٗ، وَکَانَ لَہٗ فَضَلُ عَشَرَ حَجَجٍ“جس شخص نے اپنے والد کی طرف سے یا ماں کی طرف سے حج کیا اس کا حج ادا ہوجاتاہے اور اس کو دس حجوں کا ثواب ہوتاہے۔(کنزالعمال ج:۱۶، ص:۴۶۸، رقم:۴۵۴۸۴، م مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

۳۹:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَیْہِ اَوْ قَضیٰ عَنْھُمَا مَغْرُمًا بَعَثَہُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامۃِ مَعَ الْاَبْرَارِ“جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا یا ان کا قرض چکایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو نیکوں کے ساتھ اُٹھائے گا۔ (کنزالعمال ج:۱۶، ص:۴۶۸، رقم:۴۵۴۸۵، م مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

۴۰حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَیْہِ تُقَبَّلُ مِنْہُ وَ مِنْھُمَا، تُبْشِرُ بِہٖ اَرْوَاحُھُمَا فِیْ السَّمَاءِ وَ کُتِبَ عِنْدَاللہِ بَرًّا“جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرتاہے، تو وہ حج اس کی طرف سے اور ان دونوں (ماں باپ) کی طرف سے قبول کیا جاتاہے، اور ان دونوں کی روحیں آسمان میں اس سے خوش ہوتی ہیں، اور یہ شخص اللہ عزوجل کے نزدیک ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔ (جامع الاحادیث کتاب الادب/ حقوق الوالدین،ج:۴، ص:۲۰۸،رقم:۲۳۶۸ بحوالہ السنن للدارقطنی۲/۲۷۲)

۴۱:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَیْہِ بَعَدَ وَفَاتِھِمَا، کَتَبَ اللہُ لَہٗ عِتْقًا مِّنَ النَّارِ، وَکَانَ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْھُمَا اَجْرُ حَجَّۃٍ تَامَۃٍ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمَا شَیئٌ“ جو اپنے والدین کے انتقال کے بعد ان کی طرف سے حج کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دیتاہے، اور ان دونوں(والدین جن کی طرف سے حج کیا) پورے حج کا ثواب عطا فرماتاہےبغیر کوئی کمی کیے۔(شعب الایمان،ج:۶، باب فی بر الوالدین،فصل فی حق الولدین بعد موتھما، ص:۲۰۵، رقم:۷۹۱۲، م دارالکتب علمیہ،بیروت)

جمعہ کے دن ماں باپ کی قبروں کی زیارت کرنا

۴۲:حضرت محمد بن نعمان نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:”مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبْوَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ یَوْمِ جُمْعَۃِ ، غَفِرَ لَہٗ وَ کُتِبَ بَرًّا“ جو اپنے والدین دونوں یا ایک کی قبر کی ہر جمعہ کو زیارت کرے اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور اس کو (اپنے والدین کے ساتھ) نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔(مشکوۃ المصابیح للتبریزی ج۲، کتاب جنائز، باب زیارۃ القبور، ص:۲۶۲، رقم:۱۷۶۸، م مکتب البشری، کراتشی)

۴۳:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبْوَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ یَوْمِ جُمْعَۃِ مَرَّۃً ، غَفَرَ اللہُ وَ کُتِبَ بَرَّہُ“ جو اپنے ماں باپ کی یا ان میں سے ایک کے قبر کی ہر جمعہ کے دن زیارت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے(گناہ) معاف کرے، اور اس کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا لکھا جاتاہے۔(جامع الاحادیث ج۴، ص۲۰۹، رقم:۲۳۷۲ بحوالہ مجمع الزوائد للھیثمی، ۸/۱۳۷)

۴۴:امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ زَارَ قَبْرَ والِدَیْہِ اَوْ اَحْدُھُمَافِیْ کُلِّ جُمْعَۃٍ فَقَرَأَ عِنْدَہٗ یٰسین غَفرَ اللہُ لَہٗ بِعَدَدِ کُلِّ حَرَفٍ مِنْھَا“جوشخص ہر جمعہ کو والدین یا ایک کی زیارتِ قبر کرے وہاں یٰسین شریف پڑھے، یٰسین شریف میں جتنے حرف ہیں ان سب کی گنتی کے برابر اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت فرمائے۔ (جامع الاحادیث ج۴، کتاب الادب/ حقوق الوالدین،ص:۲۱۰ رقم:۲۳۷۴، بحوالہ اتحاف سادۃ للزبیدی۱۰/۳۹۳،الجامع الصغیر للسیوطی ۲/۵۲۸)

دعا ہے کہ : اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو اپنے محبوب کریم ﷺ کے مذکورہ فرامین پر عمل کرکے اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہٖ اجمعین ۔

غزل۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہو رہا ہے حال ابتر کیا بتاؤں میرے یار
وقت کا رہزن ہے رہبر کیا بتاؤں میرے یار

کب نوازیں گے وہ آکر میرے قلب تار کو
سونا سونا دل کا منظر کیا بتاؤں میرے یار

ڈھا دیا نفرت کے بلڈوزر نے اس کو ایک دن‌
اب کہاں الفت کا دفتر کیا بتاؤں میرے یار

جس کی اک آواز پر لبیک کہہ دیں سب عوام
اب کہاں ہے ایسا لیڈر کیا بتاؤں میرے یار

فیل ہونے کو ہے کڈنی معشیت کی ہر طرف
ڈھونڈیے اب جلد ڈونر کیا بتاؤں میرے یار

جس شجر سے خدشہ تھا زہریلے کانٹوں کا ہمیں
بن رہا ہے وہ تناور کیا بتاؤں میرے یار

خود پسندی کا زمانہ ہے یہ “عینی” ، ہر بشر
کہہ رہا ہے خود کو برتر کیا بتاؤں میرے یار
۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت مصطفیٰﷺبزمِ تاجُ الشَ٘رِیعَہ،،از ✒ کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا شریف


نقشِ غم دل سے مٹانے کے لیے
ان کی رحمت ہے ہنسانے کے لیے


میں ہوں صہباۓ محبت میں حضور
عصرِ قسمت پھر سے پانے کے لیے


روغنِ عشق و محبت چاہیے
دل کو فرقت میں جلانے کے لیے


عرشِ دل پر جلوہ فرمائیں حضور
فرش سے ہم کو اٹھانے کے لیے


بلبلِ تخییل رہتی ہے مدام
گلشنِ مدحت میں دانے کے لیے


پھر چلی بادِ ثنائے مصطفیٰ
گلستانِ دل کھلانے کے لیے


ماہِ طیبہ کی ثنا لکھیں مدام
مطلعِ مدحت پہ چھانے کے لیے


یادِ جانِ حسن میں کھو جائیے
دل کا آئینہ سجانے کے لیے


آیۂ قرآن ہے لا ترفعوا
آپ کی عظمت بتانے کے لیے


نقشِ پاۓ ناز کو انجم کریں
راہِ جنت جگمگانے کے لیے


سیرِ طیبہ کے لیے بلوائیے
عرض ہے معراج پانے کے لیے


درد کے موتی عطا ہوں یا نبی
چرخِ مژگاں پر اگانے کے لیے


عرشِ قسمت وجد میں آۓ اگر
آئیں وہ جلوہ دکھانے کے لیے


زندگی ان پر نچھاور کیجیے
زندگی کا لطف پانے کے لیے


نعت خوانی پر نہ مل پایا ثواب
ہم نے درہم جب سنانے کے لیے


آپ کا سارا زمانہ ہے حضور
آپ ہیں سارے زمانے کے لیے


رکھیے نقشِ گنبدِ خضریٰ کلیم
طیبہ آنکھوں کو بنانے کے لیے


از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف

نعت شہہ عالمین ﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا شریف

مہِ چرخ یوں ضوفشاں ہے، نہیں ہے
جوابِ رخِ جانِ جاں ہے ، نہیں ہے

ترے نام سے جب رواں ہے مسلسل
یہ جوۓ نَفَس رائیگاں ہے، نہیں ہے

مرے طائرِ جاں! یہ چہکار کیسی
مدینہ ترا آشیاں ہے ، نہیں ہے

ترے حسن کےآگے پھرکس کی ہستی
وہ جو نازِ شیشہ گَرَاں ہے ،نہیں ہے

الگ شان ہے ان کی ، ان کے علاوہ
کوئی برسرِ لامکاں ہے ، نہیں ہے

مری چشمِ تر ہے نگاہوں میں ان کی
ادھوری مری داستاں ہے ، نہیں ہے

یتیماً فاٰوی ، اے دُرِ٘ یگانہ !
ترے جیسا کوئی کہاں ہے، نہیں ہے

سراجاً منیرا لقب ہے کسی کا
کہیں ایسا شمعِ جہاں ہے، نہیں ہے

مدینہ ہے رشکِ جناں ، اس کے آگے
کوئی گلستاں گلستاں ہے، نہیں ہے

کہاں جائیں مجرم اے جاؤک والے
کوئی اور جاۓ اماں ہے، نہیں ہے

یہ سب ہے کرم افصحِ دوجہاں کا
کلیم! آپ سحرِ بیاں ہے، نہیں ہے

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف

برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہے، ازقلم: شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاءپوجانگر ، میراروڈ ممبئی

اس وقت ملک میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ایک خاص نظریہ ہے جسے ملک کے تمام طبقات پر مسلط کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہے یہ وہ نظریہ ہے جو ملک کو ایک مرتبہ پھر غلامی کی زنجیر میں جکڑ سکتا ہے اس کی سد باب کے لئے ہمیں مسلسل برادران وطن کے رابطے میں رہنے ہوں گے ، انہیں بھیانک مستقبل سے آگاہ کرنا ہوگا کہ اگر ملک میں اسی طرح کا ماحول رہا تو آج ہمارے مکانات منہدم کئے جارہے ہیں تو کل چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بناکر آپ کے بھی مکانات تباہ کئے جاسکتے ہیں چونکہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ظلم میں یقین رکھتا ہے ، اس کی حکومت انسانی خون کو پانی بناکر بنائی جاتی ہے ، وہ نعشوں پر اپنی حکومتی بنیاد مظبوط کرتے ہیں ، ایسی حکومتی نظام کاحصہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے مذہب کی آڑ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ آج کیا ہورہا ہے یہی نا کہ ایک کمیونٹی کے گنے چنے لوگ جو خود کو ہندوت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے پر مصر ہے اسے ملک کے لئے اچھی نوید نہیں کہی جاسکتی ہے اس پالیسی کی جتنی مذمت کی جاۓ کم ہے ۔ یوپی ملک کی ایک بڑی ریاست ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت ایک ہی قسم کی غلطی پر ایک کمیونٹی کا آشیانہ بلڈوژر سے تباہ و برباد کردیتی ہے تو دوسری طرف اسی غلطی پر دوسررے کمیونٹی پر مقدمہ بھی درج نہیں کیاجاتا ہے یہ دو رخی پالیسی ملک کے جمہوری آئین کو کھوکھلا کررہی ہے اس لئے بین المذاہب ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بہت ضروری ہے تاکہ سیاسی نیتاؤں کی طرف سے اسلام ، مسلمان ، مساجد ، مدارس اور مسلم تنظیموں کے تعلق سے جو زہر برادران وطن کو پلائی جاتی رہی ہے اس کا تریاق ممکن ہو ۔ آپ اخبار ، شوسل میڈیا کا مطالعہ کریں تو بخوبی معلوم ہوجاۓ گا کہ براداران وطن کا ایک بڑا طبقہ پیغمبر اعظم حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام امن کے معترف ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس کسی نے بھی پیغمر اعظم علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے اس کی ہستی ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگئی ، روۓ زمین پر اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

ہمارے ان علماء کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے جو آۓ دن ٹیلی ویژن پر ڈیبیٹ میں شامل ہوکر اسلام کی بنیادی اصول کی دھجیاں اڑانے میں لگے ہیں بعض وقت غیروں کی طرف سے ایسی باتیں بھی پوچھی جاتی ہیں جن کا ان کے پاس قرآنی یا منطقی جواب نہیں ہوتا پھر اپنی جہالت پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ حضرات بھی جو مسلمانوں کی طرف سے خود ساختہ ترجمان بن کر ڈیبیٹ کررہے ہوتے ہیں وہ چیخنے چلانے ، بے سروپا کی باتیں کرنے لگتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی سخت بدنامی ہوتی ہے ۔ اسلام ہمیشہ تبلیغی کوششوں ، حسن کلام ، آفاقی تعلیمات کے ذریعہ ہی فروغ پاتا آرہا ہے ۔
اس وقت ملک کی جو حالت ہے اس پراگندہ ماحول میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے اوریہ کام جو علماۓ ملت اسلامیہ ہیں ان کے سروں پر ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے افراد تک اسلام کو کس نوعیت سے پیش کرتے ہیں یہ بہت اہم ہے ، کسی جرم پر سزا کا اختیار حاکم وقت کا کام ہے ناگوار باتوں پراحتجاج ہمارا جمہوری حق ہے مگر نعرہ تکبیر کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر ، راستوں کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر حملہ ، آگ زنی ، سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا یہ اہل اسلام کا شعار نہیں رہاہے ۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو ہر ایک کے ساتھ مساوات کا درس دیتا ہے یہی وقت ہے کہ ہم ان اہم پیغامات کو عام کرکے دوسروں کے لئے بھی اسلام میں داخلے کو یقینی بنائیں ! دشمنوں کو لئے بھی ہدایت کی دعائیں کرنا یہ ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ رہاہے ہم انہیں کے لاۓ ہوۓ دین برحق کا داعی ہیں اس کا خیال بہرحال ہمیں رکھنا ہوگا جبھی ہم اسلام کا ایک اچھا مبلغ و داعی کہلانے کا مستحق ہیں ۔
ترسیل فکر: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی
19/ جون 2022ء

نعت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

ناموس مصطفیٰ پہ کریں جان ہم فدا
شہکار کبریا پہ کریں جان ہم فدا

اصحاب مصطفی’ کا یہی تھا حسیں شعار
عشق شہ ہدی’ پہ کریں جان ہم فدا

جس نے یہ کائنات کا نقشہ بدل دیا
اک ایسے رہنما پہ کریں جان ہم فدا

تعلیم جس نے دی ہے مساوات کی ہمیں
اس کے ہر اک کہا پہ کریں جان ہم فدا

گستاخی کا جواب خدا خود عطا کرے
محبوب کبریا پہ کریں جان ہم فدا

اسریٰ میں کی تھی شہ نے امامت نبیوں کی
سردار انبیاء پہ کریں جان ہم فدا

گستاخ سے یہ کہہ دو سبھوں نے یہی کہا
“عینی” شہ ہدی’ پہ کریں جان ہم فدا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

جمہوری ملک میں یوگی حکومت کا طریقہ جابرانہ اور ملک کو شرمسار کردینے جیسا ہے، ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضویصدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاءپوجانگر ، میراروڈ ممبئی

ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی

جس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نام دیاجاتاہے وہ ملک ہمارا بھارت ہے ، مختلف قبائل و مذاہب کے لوگ مختلف تہذیب و ثقافت ، الگ الگ زبانوں میں گفتتگو کرنے کے باوجود گنگا جمنی تہذیب کے لئے دنیا میں ہمارا ملک ابتک اپنا وقار بحال کیا ہوا تھا ، لیکن جب سے بی ، جے پی پارٹی اقتدار میں آئی ہے جیسے ملک کو کسی کی نظر بد لگ گئی ہو ۔ ملک کا ہر شعبہ تعصب کا شکار ہے ، قانون کی بالادستی جیسے ختم ہوچکی ہو ، جسے مرضی ہوئی ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر شری رام کا نعرہ لگاتے ہوۓ قتل کردیا ، جب جی چاہا تخریبی بیان کے ذریعہ ملک کا امن و امان چھین لیا ، اگر دوسری کمیونٹی کی طرف سے ذرا ردعمل سامنے آیا کہ پولیس گولیوں سے لااینڈ آڈر کو بحال کرنے میں لگ گئی ، ادھر یوگی حکومت ہے کہ بلڈوژر سے نشان زد کرکے اپنے حریف کا آشیانہ تباہ و برباد کردیا ، خود ساختہ بابا کو کیا پتہ کہ آشیانہ بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں جسے آپ چند منٹوں میں زمیں بوس کردیتے ہو ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو وہ یقینا بہت قریب ہے ، اس کی گرفت بہت سخت ہے کہیں تمہیں غریبوں کی آہیں جلاکر بھسم نہ کردیں ، حکومت کب اور کس کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے ، تخت پر آج تم براجمان ہو تو کل کوئی اور ۔ حکومت کرنے کا جو طریقہ یوگی نے اپنا یا ہے اس کے وہ خود بھی بہت جلد شکار ہوں گے ، بس چند دنوں کی بات ہے ، پارٹی بدلی کہ تمام آڈر بے معنیٰ ہوکر رہ جائیں گے ، یہ ابلیسی احکام اسی وقت تک جاری ہوتے رہیں گے جبتک ملک کے نوجوان فریب میں مبتلا ہیں جہاں فریب کا چشمہ اترا کہ اس جابر حکومت کو پناہ لینا بھی مشکل ہوجاۓ گا ، حکومتیں جبھی رہتی ہیں جب انصاف زندہ ہوتا ہے ، غیر منصف حکومتیں چند دنوں میں ہی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔
ملک کا ایک بڑا طبقہ یوگی حکومت کی اس جابرانہ پالیسی سے خفا ہے ، جمہوری ملک میں اس طرح کا شاہی فرمان کسی طرح روا نہیں ، کاروائیوں کے نام پر ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ، ان کے برسوں محنت سے بنائے گئے آشیانہ کو بلڈوژر سے مسمار کردینا ، پولیس کو پرامن احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے کا حکم صادر کرنا ، پولیس کی گرفت میں آئے نوجوانوں کو پولیس چوکی میں زدوکوب کرنا یہ سب ایک کمزور حکومت کی پہچان ہے ، ان حرکتوں پر ملک کی عدلیہ کو سخت رخ اختیار کرنا ہوگا ، ورنہ یادرکھیں آنے والی نسلیں ہمیں اور آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ آج دنیا میں بی ، جےپی پارٹی کے ورکرژ اور نیتاؤں کے بیان سے ملک جس طرح شرمسار ہوا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اس لئے ملک کے تمام مذاہب کے نوجوانوں ، مذہبی و سیاسی قائدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک جمہوریت سے آمریت کی طرف تو نہیں جارہی ہے ؟ اگر واقعی آمریت کا بول بالا ہورہاہے تو ہمیں ہرحال میں یکجہتی کا نمونہ پیش کرنا ہوگا ، ظالم حکمراں کا خاتمہ ہمارا مذہبی و جمہوری حق ہے ، گورنمنٹ کی ان تمام غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی ورنہ کل اس غلط پالیسی کے شکار ہم بھی ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے انصاف پسند وکلاء کو سپریم کورٹ میں بلڈوژر کے غیر آئینی استعمال پر قدغن لگانے کے لئے پٹیشن داخل کرنے ہوں گے۔
بیرون ممالک ملک کی شبیہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے ممالک ہمارے نوجوانوں کے لئےاپنے ملک میں انٹری بند کردیں یہ کہہ کر کہ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں جہاں مذہبی تشدد کی بنیاد پر انسانی جانیں روا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی اچھی شبیہ کے لئے ہماری مرکزی گورنمنٹ کو چاہئیے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساویانہ کردار ادا کریں تاکہ ملک میں جو آمریت کا ماحول ہے اس کا خاتمہ یقینی ہو ۔
ترسیل فکر: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی سیتامڑھی بہار
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی
بدھ / 14/ذی القعدہ 1443ھ
15/ جون / 2022 ء

غزل۔۔جو حق ھے اس کو جہاں میں دکھا کے دم لینگے،،از: سید خادم رسول عینی

جو حق ھے اس کو جہاں میں دکھا کے دم لینگے
حدیث سرور دیں کی سنا کے دم لینگے

ہمارے ہند کو اسلاف نے سنوارا ہے
تمام ملک میں توحید لاکے دم لینگے

اچھل رہے ہیں بہت ، اپنا عزم ہے اب یہ
کہ باطلوں کے سروں کو جھکاکے دم لینگے

نہیں ہے وقت ابھی سونے کا ، رہو تیار
اے میری قوم ؟ تمھیں ہم جگا کے دم لینگے

کرم کے گل سے نوازیں گے ایک دن آقا
تمام کرب کو ہم بھی تھکا کے دم لینگے

محبتوں کے جو شعلے ہیں ان کے ہی دم سے
منافرت کے گھروں کو جلا کے دم لینگے

رلا رہے ہیں یہ طفلان قوم کو کتنا
ہم اہل ظلم کو” عینی “رلا کے دم لینگے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

گستاخان نبیﷺ کو سخت سزا ملنی چاہیے، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور مغربی بنگال


آج ملک عزیز ہندوستان میں سید المرسلین رحمة اللعٰلمین، وجہ تخلیق کائنات حضور اقدس ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ اور آپ علیہ السلام پر طرح طرح کے الزامات اور گستاخیاں کرکے ملک کے امن و سکون کو پامال کیا جا رہا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی ملعون حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتا رہتا ہے تقریبا ایک سال پہلے ملعون نرسمہا نند سرسوتی نے حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کی اور اپنے ساتھ حکومت کی حمایت کی وجہ سے ان کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ،اور پھر حال ہی میں بی جے پی پارٹی کی ایک لیڈر ملعونہ نوپور شرما اور نوین کمار نے نبی علیہ السلام کی شان میں ایسے گندے الفاظ ادا کی جسے میں اپنے قلم سے لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتا اس گستاخی سے صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا ہے
ہم حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جہاں بے زبان جانوروں کے لیے بھی قانون بنایا گیا ہے کہ جب انہیں کوئی بلاوجہ تکلیف پہنچاۓ تو اس کے ساتھ سخت کاروائی کی جاتی ہے بہت سے ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ جانوروں کو بلا وجہ تکلیف دینے کی وجہ سے بڑی شخصیتوں کو بھی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،تو جن اشتعال انگیز بیانات سے تمام مسلمانوں کوقلبی تکلیف پہنچایا جاتا ہے ملک کی فضا کو خراب کیا جاتا ہے ان کے خلاف کیوں نہیں قانونی کاروائی کی جاتی؟ان کو سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ڈالا جاتا؟لیکن افسوس حکومت ایسے لوگوں کو سزا دینے کے بجائے ان کے ساتھ قانونی کاروائی کے بجاۓ ان کو حکومت حفاظت کے لیے سکوریٹی تعینات کرتی ہے تاکہ وہ اسی طرح بھڑکاؤ بیانات دیتے رہے اور حکومت اپنی سیاست کی روٹی سیکھتی رہے
اب ان لوگوں کیلئے اہانت رسول ﷺ کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا نہایت ہی آسان ہوگیا کیوں کہ بی جے پی حکومت ان کی حفاظت کیلئے تو سکوریٹی مہیا کرہی رہی ہے
نوپور شرما اور نوین کمار کی گستاخی پر جب عرب ممالک قطر،کویت،دبئی،سعودی عربیہ وغیرہ ممالک نے شدت سے احتجاج کیا اور ہندوستان کے پروڈکٹ کا بھی بائیکاٹ کیا تو حکومت نے صرف دل بہلانے کیلئے ان دونوں کو اپنی پارٹی سے نکال دیا
جن کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جگہ جگہ دنگے فساد برپا ہوۓ آۓ دن احتجاج ہو رہے ہیں ناجانے کتنے سارے نقصانات ہوئے اتنے بڑے مجرموں کیلئے کیا یہ معمولی سزا کافی ہے؟ ہرگز نہیں،ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نوپور شرما،نوین کمار اور جو بھی نبی علیہ السلام کی شان میں ادنیٰ گستاخی کرے تعزیرات ہند کے تحت ان کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ دوبارہ کوئ آقا علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت نہ کرے
اور مسلم قیادتوں سے بھی یہی اپیل ہے کہ آپ کے پاس سیاسی طاقت ہے تو محض اپنی ذات کیلۓ وہ طاقت استعمال نہ کرے بلکہ اپنے نبی ﷺکی ناموس کی حفاظت کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کیجئے کیونکہ حضور علیہ السلام کی ناموس اور محبت تمام اشیاء سے معزز و محترم اور اہم ہے بلکہ ڈاکٹر اقبال کی زبان میں یوں کہیئے
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
ہو اگر خامی اسی میں تو سب کچھ نامکمل ہے