علم دین اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ،رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)
قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے ،اور جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہے وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں ۔
علم دین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺکا صرف یہی فرمان کافی ہے کہ “بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “جس ذات کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں اکٹھا کر دی اس ذات نے خودکومعلم کے طور پر پیش کیا ،اس سے تعلیم و تعلم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور خود اللہ رب العزت قرآن مقدس میں علم اور اہل علم کی شان بیان فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربی ہے ترجمہ:تم فرمادو :کیا برابرہیں جاننے والے اور انجان؟”(پارہ /۲۳ آیت /۹)
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا،درجے بلند فرمائے گا”۔(پارہ /۲۸ آیت /۱۱ سورۂ مجادلہ ) نیز ارشاد فرما یا :ترجمہ:”اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں “۔(سورۂ فاطر آیت/۲۸)
ان مذکورہ آیات کریمہ سے علم اور اہل علم کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے اور اس علم سے صرف علم شرعی مراد ہے جس کے حصول پر ثواب اور اہل علم کی عظمت کا وعدہ کیا گیا ہے نہ کہ دنیاوی علم (شرح ریاض الصالحین ج/۴ص۳)
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے علم میں اضافہ کے لئے گویا دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے “۔(پارہ /۱۶ رکوع /۱۴) اگر علم سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے بھی مانگنے کا حکم دیا جاتا ،جیسا کہ اس آیت ِکریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اس آیت ِکریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے،اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺکو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا”۔(فتح الباری شرح بخاری ج/۱ص/۱۳۰)
کتنا علم سیکھنا ضروری ہے؟: حضور نبی اکرم ﷺنے تو علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا”علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے (مشکوٰۃ شریف ص/۳۴)
لیکن کتنا اور کون سا علم سیکھنا فرض ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کر سکے ۔اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی کریم کی اطاعت کر سکے اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کرسکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم ہو اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہو تاکہ ان سے بچاجا سکے ،اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے ،حلال و حرام میں فرق ہو سکے، اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے لازم ہے جو درسگاہوں میں پڑھ کر ،مسجدوں و دینی جلسوں میں سنکر،علماء کی صحبت اختیار کرکے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔اب یہ والدین اور سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی علم سیکھنے کے لئے مدرسوں میں بھیجیں ۔
علم دین کی فرضیت میں کیا حکمت ہے: ہر مسلمان مرد و عورت پر علم کے فرض کرنے کی حکمت کیا ہے اسے امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے سمجھیں آپ تحریر فرماتے ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے ،اور میں علم کے بغیر ان کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتا (۲) خدائے تعالی ٰ نے مجھے گناہوں سے دور رہنے کا حکم دیا اور میں علم کے بغیر اس سے بچ نہیں سکتا (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر مجھ پر لازم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر ان کا شکر نہیں ادا کر سکتا (۴) خدائے تعالیٰ نے مجھے مخلوق کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر انصاف نہیں کر سکتا (۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے بلا و مصیبت پر صبر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر اس پر صبر نہیں کر سکتا (۶)خدائے تعالیٰ نے مجھے شیطان سے دشمنی کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر اس سے دشمنی نہیں کرسکتا،(علم اور علماء ص/۴۱،بحوالہ تفسیر کبیر ج/۱ص/۲۷۸)
پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص پر چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق عائد کیئے ہیں (۱) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد ،ان دونوں حقوق کی ادائیگی بغیر علم کے ممکن نہیں ،اس لئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا “علم کا حاصل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”
حضرت ملاّ علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ شارحین حدیث نے فرمایا کہ “علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ پر ضروری ہے ۔جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت،اس کے رسول کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا ،اس لئے کہ ان چیزوں کا علم فرض عین ہے (علم اور علماء ص/۲۲ بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج/۱ص/۲۳۳)
اور اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ”اس حدیث میں علم سے مراد وہ علم ہے جو مسلمانوں کو وقت پر ضروری ہے ،جیسے جب اسلام میں داخل ہوا تو اس پر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچاننا اور سرکار اقدس ﷺکی نبوت کو جاننا واجب ہو گیا ،اور جب نماز کا وقت آگیا تو اس پر نماز کے احکام کا جاننا واجب ہوگیا،اور جب ماہ رمضان آگیا تو روزہ کے احکام کا سیکھنا ضروری ہوگیا ،اور جب مالک نصاب ہوگیا تو زکوٰۃ کے مسائل کا جاننا واجب ہو گیا، اور اگر مالک نصاب ہونے سے پہلے مر گیا اور زکوٰۃ کے مسائل نہ سیکھا تو گناہ گار نہ ہوا ،اور جب عورت سے نکاح کیا تو حیض و نفاس وغیرہ جتنے مسائل کا میاں بیوی سے تعلق ہے مسلمان پر جاننا واجب ہو جاتا ہے ،اور اسی پر باقی مسائل و احکام کو قیاس کرلیں (ایضاص/۲۲/۲۳ بحوالہ اشعۃ اللمعات ج/۱ص/۱۶۱)
علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا: علم دین کی تحصیل کی جانب رغبت دلاتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :ترجمہ”علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں ملک چین جانا پڑے “(کنز العمال ج/۱ص۸۹ ،جامع صغیر ص/۷۲)
یعنی علم حاصل کرنے کے لئے چاہے جس قدر دشوار سفر کرنا پڑے اس سے منہ نہ موڑو اسی حدیث رسول کے پیش نظر صحابۂ کرام نے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ملکوں کا سفر فرمایا اور علم میں کمال پیدا کیا ،بعد میں بزرگوں نے بھی صحابۂ کرام کے نقوش ِقدم پر پوری پوری پیروی کی ،سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحصیل علم کے لئے متعدد مرتبہ مکہ شریف ومدینہ شریف اور بصرہ تشریف لے گئے ۔
سیدنا غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عین جوانی کے عالم میں تحصیل علم کے لئے جیلان سے بغداد تشریف لے گئے ،طرح طرح کی صعوبتوں کا سامنا کیا،فاقہ کی نوبت بھی آئی مگر تحصیل علم میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں فرمائی، حضور سیدنا خواجہ غریب نواز اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں بیس برس تک کسب علم کرتے رہے ۔یہ ہے ہمارے بزرگوں کی تعلیمی تڑپ اور ان کی نگاہ میں تعلیم کی اہمیت مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بزرگوں کی محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں ،دامن نہ چھوڑنے کے نعرے بھی لگاتے ہیں مگر باقاعدہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے، بزرگوں سے اصلی محبت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنائیں اور اسی ڈگر کو اپنائیں جس پر چل کر انہوں نے زندگی گزاری۔
طالب علم کا مقام و مرتبہ: بلا شبہ عالم کا مقام و مرتبہ تو مسلم ہے ۔مگر طالب علم کی شان یہ ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”جوشخص علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتاہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لئے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں (مشکوٰۃ ص/۳۴)
اس بارے میں ایک اور حدیث ملاحظہ کریں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺنے فرمایا :”جو شخص علم کی تلاش میں راستہ چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس پر جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے ،اور جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد، مدرسہ یا خانقاہ میں جمع ہوتی ہے اور قرآن کو پڑھتی اور پڑھاتی ہے تو ان پر خدا کی تسکین نازل ہوتی ہے ،خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی ٰ ان لوگوں کا ذکر ان میں فرشتوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں (مشکوٰۃ ص /۳۳)
دیکھیئے یہاں قرآن و سنت کے علم کی تلاش میں نکلنے والے شخص( طالب علم) کی شان کہ وہ طلب علم کے لئے زمین پر چل رہا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمانوں پر جنت میں راستہ بنا رہا ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ اللہ رب العزت طلب علم کرنے والوں کو فرشتوں کے درمیان یاد فرماتا ہے اور فرشتے طلبہ کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں ،اس سے بڑی فضیلت اورکیا ہوسکتی ہے ؟جب شاگرد یعنی طالب علم کا مقام و مرتبہ یہ ہے تو اسے پڑھانے والے کا کیا مقام ہوگا ۔
علم دین کی فضیلت اور اسکو حاصل کرنے کی ترغیب نیز علمائے کرام کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں حضور رحمت عالم ﷺکی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جن میں سے کچھ اہم حدیثیں بالاختصار درج کر رہے ہیں جن سے علم و علماء کی اہمیت باقاعدہ واضح ہو جائے گی !
علم و علماء کی فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں
(۱)حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تعلیم لیں اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیں “۔(سنن دارمی ج/۲ص/۴۳۷ بیروت ،بخاری ج/۲ص/ ۷۵۲ مشکوٰۃ ص/۱۸۳)
(۲) حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے” (بخاری ج/۱ص/۱۴)
(۳)حضرت ابو عمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “نبی رحمت ﷺکے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک محض عابد تھا اور دوسرا عالم تو رسول مکرم ﷺنے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ،اور رسول پاک ﷺنے ارشاد فرمایا بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چینوٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں ضرور صلوٰۃ (دعائے رحمت)بھیجتی ہیں اس متعلم پر جو لوگوں کو نیک بات بتاتا ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۴)
(۴)حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ “جو علم کی طلب میں نکلا وہ واپسی تک خدا کی راہ میں ہوتاہے” ۔(ایضا)
(۵)حضور اقدس ﷺنے فرمایا کہ” جو علم حصل کرتاہے تواس کا یہ عمل اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے “(ایضا)
(۶) حضرت واثلہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جو طلب علم میں چلا پھر علم حاصل کر لیا تو اس کو دوہرا ثواب ہے اور جو ناکام رہا (یعنی نہیں پہنچا یا پہنچ کر تکمیل ِعلم نہ کر سکا )اس کو بھی ایک ثواب ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶ ،دارمی ج/۱ص/۹۷)
(۷)حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺمسجد میں دو مجلسوں پر گزر ے اور فرمایا: ”دونوں بہتر ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے ،رہے یہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہیں ۔کہ اگر اللہ چاہے ان کو عطا کرے اور چاہے نہ عطا کرے ،لیکن وہ لوگ جو دین کی بات سیکھ رہےہیں اور (ان میں سے کچھ )جاہلوں کو سکھا رہے ہیں ۔تو یہ افضل ہے اور میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں !پھر سرکار انہیں میں تشریف فرما ہو گئے “(مشکوٰۃ ص/۳۶،دارمی ج/۱ص/۹۹)
(۸) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور انور ﷺنے (صحابہ سے )پوچھا :کہ کیا تم جانتے ہو بڑا سخی کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول جانیں ،حضور نے فرمایا:اللہ بڑا سخی ہے ،پھر آدمیوں میں بڑا سخی میں ہوں اور میرے بعد بڑا سخی وہ ہے جو علم سیکھے پھر اسے پھیلائے ۔وہ قیامت کے دن اکیلا یا فرمایا ایک جماعت ہوکر جائے گا ۔(مشکوٰۃ ص/۳۶)یعنی اس کا مقام مکمل ایک جماعت کے برابر ہوگا ،یا ایک جماعت کے ساتھ آئے گا جن کا یہ پیشوا ہوگا۔
(۹) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:علم دین سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض (فرض احکام یا علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،اس لئے کہ میں رخصت ہونے والا ہوں اور عنقریب علم اٹھتا چلا جائے گا اور کتنے سر چڑھتے جائیں گے ۔یہاں تک کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑیں گے تو ان کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہ ملے گا (مشکوٰۃ ص/۳۸)
(۱۰) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ “دین کا علم حاصل کرنا اللہ کے نزدیک نماز ،روزہ،حج اور جہاد سے افضل ہے” (کنز العمال ج/۱۰ ص/۷۵)
(۱۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایاکہ “رات میں ایک گھڑی علم کا پڑھنا و پڑھانا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶)
(۱۲)حضرت ابو زر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ”اگر کسی طالب علم کو طلب علم کی حالت میں موت آجائے تو وہ شہید ہے” (کنز العمال ج/۱۰ص/۷)
(۱۳)حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ” بہترین عبادت علم حاصل کرنا ہے” (ایضا ص/۱۰)
(۱۴)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور احمد مختار ﷺنے فرمایا”عالم دین بنو یا طالب علم بنو ،یا عالم دین کی بات سننے والا بنو ،یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچوا مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤگے”۔(کنز العمال ج/۱۰ص/۸۲)
(۱۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ “رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل کٹ جاتا ہے مگر تین عمل کا ثواب برابر جاری رہتا ہے (۱) صدقۂ جاریہ (۲)وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے(۳)نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے “(مشکوٰۃ ص/۳۲)
صدقۂ جاریہ سے مراد ہے مسجد و مدرسہ بنوانا یا زمین اور کتابیں وغیرہ وقف کرنا اور علم سے مراد ہے دینی کتابیں تصنیف کرنا اور اچھے شاگردوں کو چھوڑ جانا جن سے دینی فیضان جاری رہے ،اور باپ نے اگر اپنی اولاد کو نیک بنایا تو وہ اسکے لئے دعائے خیر کریں یا نہ کریں باپ کو بہر حال ثواب ملے گا ۔
علمائے دین کی تعظیم کرو:۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عالموں کی عزت و تعظیم کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں تو جس نے ان کی عزت کی تحقیق کہ اس نے اللہ و رسول کی عزت کی (کنز العمال ج/۱۰ص/۸۵)
علمائے دین کی پیروی کرو:۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عالم دین کی پیروی کرو اس لئے کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں (ایضاًص/۷۷)
علماءکی توہین کرنے والا قیامت میں ذلیل و رسوا ہوگا:۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جس نے عالم کی توہین کی تحقیق کہ اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی یقینا اس نے جبرئیل امین کی توہین کی اور جس نے جبرئیل کی توہین کی تحقیق کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو رُسوا کرے گا “۔(تفسیر ِکبیر ج/۱ص/۲۸۱)
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سرکاراقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ” علماء کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھُلا ہوا منافق “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ص/۱۴۰)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ ﷺنے فرمایا”جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں” (ایضا)
اور حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “جس نے عالم کو حقیر سمجھا اس نے اپنے دین کو ہلاک کیا “(تفسیرِ کبیر ج/۱ص/۲۸۳)
علما ء کی توہین پر کس قدر سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں اس کے باوجود اگر ہم علماء کی تعظیم و تکریم نہ کریں اور ان کی توہین کے در پے (پیچھے پڑے )رہیں تو ہم اپنا انجام خود سوچ لیں ۔مجدددین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”عالم دین سے بلا وجہ بغض رکھنے میں بھی خوف کفر ہے اگر چہ اہانت نہ کرے “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ ص/۵۷۱)
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہے کہ “اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیاوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے ،گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے،اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب ،خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے” (ایضاص/۱۴۰)
اور فقیہ اعظم ہند صدر الشریعہ علامہ امجد علی ا عظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ” علم دین اور علماء کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالم دین ہے کفر ہے” ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم دین مصطفیٰ ﷺکی عظمت و اہمیت سمجھنے اور علمائے کرام کی عزت و تکریم کرنے اور ان کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے! آمین۔