WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives July 2022

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

وہ ہیں رسول انور قرآن کہہ رہا ہے
اور آخری پیمبر قرآن کہہ رہا ہے

پڑھ کے تو دیکھ تکویر ، اور اس کی روح تفسیر
ہیں غیب داں پیمبر قرآن کہہ رہا ہے

مزمل و محمد، یسین اور احمد
ہیں وہ حبیب داور قرآن کہہ رہا ہے

قد جاءکم‌ سے ظاہر ہے صاف کس قدر یہ
ہیں نور کے وہ پیکر قرآن کہہ رہا ہے

یوحی’ کی آیت اس کی برہان ، قول رب ہے
قول حبیب داور ، قرآن کہہ رہا ہے

ھے آیت ‌ ید اللہ شاہد ، ھے فعل آقا
فعل خدا کا مظہر قرآن کہہ رہا ہے

لا ترفعو سے سب کو یہ ہوگیا ھے ظاہر
ان کا ادب ھے برتر قرآن کہہ رہا ہے

تطہیر سے ھے ثابت، آل شہ مدینہ
ہیں خوب تر مطہر ، قرآن کہہ رہا ہے

ہم مومنین پر ھے ، بعثت شہ امم کی
احسان رب اکبر ، قرآن کہہ رہا ھے

ھے القلم کی سورۃ برہان اس پہ “عینی”
ان‌ کا ھے خلق برتر قرآن کہہ رہا ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں……پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:عبدالرزاق سہروردی ایٹادوی متعلم: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، گرڈیا،تحصیل:رامسر، ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:”یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ”(۶)
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر وتوضیح مفسرین کرام نے کچھ یوں کی ہے {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا: اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں  بجالا کر، گناہوں  سے باز رہ کر،اپنے گھر والوں  کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں  علم و ادب سکھا کراپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ۔

            یہاں  آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں  اور معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدیدحرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں  جلتی بلکہ ان چیزوں  سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

            مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں  کہ جو جہنمیوں  پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں  اور ان کی طبیعتوں  میں  رحم نہیں ،وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمانوں پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اپنے اہلِ خانہ ورشتہ داروں کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی ان پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں ۔ترغیب کے لئے یہاں اہلِ خانہ کی اسلامی تربیت کرنے اور ان سے احکامِ شرعیہ پر عمل کروانے سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے ،اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔( بخاری)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔( ابو داؤد)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اُٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی (نماز کے لئے) جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللّٰہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھے،پھرنماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے ،اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔( ابو داؤد، کتاب التطوّع، باب قیام اللیل، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۱۳۰۸)

        پانی کے چھینٹے مارنے کی اجازت اُس صورت میں  ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں  خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اہلِ خانہ کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے…مذکورہ خیالات کااظہار مغربی راجستھان کی عظیم و ممتاز دینی درسگاہ" دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان" کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے حضرت پیرمیاں ولایت شاہ بُکیرا شریف کی یاد میں  عیدگاہ میدان ایٹادا،تحصیل سیڑوا،باڑمیر میں 27 ذی الحجہ 1443 ہجری مطابق 27 جولائی 2022 عیسوی بروز بدھ [خمیس کی رات] "سیرت کمیٹی" کے زیراہتمام منعقدہ عظیم الشان "جلسۂ اصلاح معاشرہ" میں خطاب کے دوران کیا-

مزید آپ نےاپنے ناصحانہ خطاب کے دوران یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنے مرشدان طریقت کے نام اور یاد میں مجالس کا انعقاد ضرور کریں مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ ان کی تعلیمات وفرمودات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ان بزرگان دین کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کریں،آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان مجالس کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی لوگ ان مجالس میں اپنے علمائے کرام سے جو مواعظ سنیں ان پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کریں،نماز پنجگانہ باجماعت کی پابندی کریں،اپنے مالوں کی زکوٰة اداکریں،اللہ تعالیٰ نے اگر صاحب استطاعت بنایا ہے تو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں،ماہ رمضان المبارک میں پابندی سے روزے رکھیں حاصل کلام یہ کہ مکمل ارکان اسلام پر عمل کریں، آپ نے اپنے آخری جملوں میں پردہ کے اہتمام اور علاقہ میں پھیلی بدعات وخرافات سے پرہیز کرنے پر خصوصی زور دینے کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت پڑھنے کی تاکید وتلقین کی اور ساتھ ہی سرتاج الصوفیاء والشعراء حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے عارفانہ سندھی اشعار کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہوئے اس کی ایسی فاضلانہ تشریح وتوضیح کی جس سے جلسہ میں موجود علماء وعوام جھوم اٹھے-
آپ کے علاوہ کچھ دوسرے علاقائی علمائے کرام اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے طلبہ نے نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائےکرام شریک رہے-
حضرت مولاناغلام رسول قادری خطیب وامام جامع مسجد ایٹادا،حضرت مولانالعل محمد صاحب سہروردی، حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب سہروردی خطیب وامام جامع مسجد کونرا،حضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی، ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب مصباحی، حضرت قاری محمدحنیف، حضرت مولاناعبیداللہ صاحب،حضرت مولانا خالدرضا صاحب سہروردی انواری تالسر،حضرت مولانا الحاج علم الدین صاحب اشفاقی،حضرت مولانا راناخان صاحب،حضرت مولانا محمدعرس سکندری انواری-حضرت مولانامحمد ابراہیم صاحب گلزاری خطیب وامام:مسجد جھڑپا ومولانا عبدالحکیم صاحب اشفاقی ایٹادا وغیرہم-
نظامت کے فرائض خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ ومولوی محمدنظام الدین انواری ایٹادوی متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے مشترکہ طور پر بحسن وخوبی نبھائی-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء قبلہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

مظلوم شہزادے کی شہادت:ایک عبرت ناک سانحہ : از قلم : خلیل احمد فیضانی

تاریخ عالم کا ورق ورق ہمارے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ونصیحت آموز ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں کبھی بھلایا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت کی صبح تک کوئی ایسا واقعہ رُونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر ظالم انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں لے لے کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے اعتنائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے الم ناک اور درد انگیز واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج کل ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک ا کے چشم و چراغ اور اُن کے ستر، بہتر متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری..یہ ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا بہت ہی مشکل ہے..-
آپ کی مظلومانہ شہادت:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے شدید اصرار پر جب رخت سفر باندھنے کا ارادہ فرمایا حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عباس اور آپ کے بھائی محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنھم نے خیرخواہانہ طور پر آپ کو کوفہ جانے سے روکا۔ مگرچونکہ آپ سفر کا عزم مصمم کرچکے تھے اس لیے یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفرپرروانہ ہوگئے۔ دوران سفر آپ نے اپنے چچازاد برادر مسلم بن عقیل کو قاصد بناکر کوفہ کی طرف بھیجا تاکہ وہاں کے حالات سے آگہی حاصل کریں اور ہمیں مطلع کریں کہ اگر حالات درست ہوں تو ہم یہ سفر اختیار کریں۔ جب مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور آپ کے دست حق پر بیعت کی۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لے آئیں۔ حضرت حسین سفر پر ہی تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے مسلم بن عقیل کو قتل کروادیا ہے۔ یہ خبر سن کر آپ کے رفقاے سفر نے قصاص لئے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
چناں چہ قافلہ روانہ ہوا۔ مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حر بن یزید ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ نمودار ہوا اور اسے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ حضرت حسین کو مع ان کے لشکر کے گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو اسے تنبیہ فرمائی کہ تم نے خود ہی خطوط لکھ کر ہمیں بلوایا تھا، اب دغابازی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ نے تمام خطوط اس کو دکھائے تو حربن یزید نے آپ کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہا : ’’جنگ سے بازرہو! بصورت دیگر قتل کردیئے جاؤگے۔‘‘ یہ سن کرآپ نے نے فرمایا: (میں روانہ ہوتا ہوں اور نوجوان مرد کیلئے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہو) پھر آپ نے دوسرا قاصد روانہ کیا جس کا نام قیس بن مسھر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبر آپ کو ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ بالآخر آپ بہت طویل مسافت طے کرکے 2محرم 60ھ میں میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ ادھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔ جب اس کی آپ سے ملاقات ہوئی تو آمد کا مقصد پوچھا، حضرت حسین نے عمر بن سعد کے سامنے ایک پیشکش کی آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک چیز کواختیار کرلیں:
1: میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تاکہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں۔
2: میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔
3: مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کیا اور ابن زیاد کو یہ پیش کش لکھ بھیجی جس کے نتیجہ میں ابن زیاد نے حکم بھیجا کہ میں صرف ایک بات قبول کرتا ہوں کہ حسین بن علی اپنے پورے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسین کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو اپنے متبعین کو نہایت پرجوش انداز میں خطبہ دیا۔ تمام رفقاء نے وفاداری کا بھرپور یقین دلایا۔ رات تمام حضرات نے اپنے رب کے حضورآہ زاری کرتے ہوئے گزاردی۔ دشمن کے مسلح فوجی ساری رات خیموں کے گرد گھومتے رہے۔ آخر دس محرم کو فجر کی نماز کے بعد حضرت حسین نے اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں جن کی کل تعداد 72تھی۔
میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر بظاہر حاوی ہوا۔ نتیجتاً حضرت حسین کا خیمہ جلادیا گیا۔ دشمنوں نے انتہائی سفاکی اور بےدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جب زرعہ بن شریک نے نواسہ رسول کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمروبن انس نخعی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر تشریف لے آۓ۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے خاتون جنت کے نورنظر کو ذبح کردیا پھر سر مبارک جو منبع انوار و برکات تھا کو تن مبارک سے جدا کردیا۔ اس خون ریز معرکہ میں حضرت حسین کے 72ساتھی شہید اور کوفیوں کے 88 آدمی قتل ہوئے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ حضرت حسین کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے انتہائی گستاخی کرکے چھڑی کے ذریعے نواسہ رسول کے ہونٹوں کو چھیڑ کر جسد خاکی کی توہین کی اور یزید کو لکھ بھیجا کہ میں نے حسین کا سر قلم کردیا ہے۔جنت اپنے سردار کی راہ تک رہی تھی ، دسویں محرم کے ڈھلتے سورج نے انسانیت کی تاریخ کا یہ درناک واقعہ دیکھا جس کو خون سے رنگین دھرتی نے اپنے سینے پر ہمیشہ کیلئے نقش کردیا نوجوانان جنت کے سردار اور خانہ نبوت کے چشم وچراغ نے اپنے خون سے شجر اسلام کو سیراب کرکے انمٹ داستان رقم کی جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے

مسلمانوں پرقرآن مقدس کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں،،از:- محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدّس اللّٰہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی آخری کتاب ہے، جسے انسانیت کی ہدایت کے لئے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل کیا گیا،اس کتاب ہدایت سے انسان استفادہ اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا- حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: “اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب [قرآن مجید] کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کر دے گا”… (مسلم ج/1 ص/ 272)
سر فراز اللّٰہ کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں چنانچہ ابتدائی چند صدیوں میں مسلمان جب ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے، لیکن جب سے مسلمانوں نے قرآن کے احکام پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے- کاش مسلمان دوبارہ قرآن مقدّس سے اپنا رشتہ جوڑتے، تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس ہو جاتی-

قرآن پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا- یہ ایک ایسی تنہا آسمانی کتاب ہے جو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال سے اب تک اسی اصل عربی زبان میں بغیر کسی تحریف و تبدیل کے محفوظ ہے-اس کی تلاوت باعث برکت و ثواب ہے، اس کا سمجھنا رشد و ہدایت کا سبب اور اس کے مطابق عمل کرنا فلاح اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے-

قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جسے کروڑوں انسان روزآنہ کم سے کم پانچ مرتبہ ضرور پڑھتے ہوں، یہ اعجاز صرف اور صرف قرآن مقدّس کو ہی حاصل ہے-
قرآن پر ایمان لانے کا باقاعدہ مطلب یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے،اسے آخری نازل شدہ الہامی کتاب تسلیم کیا جائے،اس کی تعلیمات اور احکامات کو برحق مانتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے-

آئیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر قرآن کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ اور ہم ان کی بجاآوری کہاں تک کر رہے ہیں؟

یوں تو ہم مسلمانوں پر اللّٰہ ربّ العزت کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر ہم اُنہیں شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کر سکتے، اور اگر شکرانِ نعمت کے طور پر زندگی بھر اس کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی وہ ان احسانوں کا بدل نہیں ہو سکتے، چنانچہ اللّٰہ کے احسانوں میں سے ایک عظیم ترین احسان یہ ہے کہ اس نے ہم انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کی خاطر اپنا پیارا کلام اپنے محبوب نبی آخر الزماں صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا-اب ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم پر قرآن شریف کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟… پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے تو اس بات پر غور و فکر کریں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہوسکتی ہے؟ اور پھر بلا تاخیر اس کے لئے لیے سرگرم عمل ہو جائیں- اس لیے کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے، اور اس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی محض قرآن کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہوسکتی-

مسلمانوں پر قرآن مقدّس کے حقوق: جس طرح قرآن مقدّس پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مسلمان قرآن مقدّس کے درج ذیل بنیادی پانچ حقوق ادا کرے!
1: قرآن پر سچے دل سے ایمان رکھے- 2: قرآن کی تلاوت کرے-
3:قرآن کو سمجھنے-
4:قرآن کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرے-
5:قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے-

پہلاحق: قرآن پر ایمان لایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اللّٰہ کے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل ہوا- اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل تو ہوجاتا ہے لیکن حقیقی ایمان اس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے دل میں پیدا ہو جائے-اب یہ بات بھی بظاہر عجیب سی لگ رہی ہے کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مقدّس پر ایمان لایا جائے حالانکہ دیگر ضروریات دین کے ساتھ قرآن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا-
معاذاللہ اگر کوئی شخص قرآن کے کلام اللّٰہ ہونے کا منکر ہو جائے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائےگا، مگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں(1) زبان سے اقرار کرنا-(2)دل سے تصدیق کرنا، اور ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے… اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا باقاعدہ یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جاتا، جیسے ہر آدمی کو معلوم ہے کہ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں اپنی انگلی بھی نہیں ڈالتا،بلکہ انسانوں کا تو عام طور پر طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر شک بھی ہو جاتا ہے اس سے بھی انسان احتیاط برتتا ہے، جیسے اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے سانپ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر زہر نہیں ہوتا اس کے باوجود عموماً کوئی سانپ پکڑنے کو تیار نہیں ہوتا… ہم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن پر کامل یقین اور ایمان ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے، اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اس کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ در اصل ہمارا ایمان و یقین کمزور ہے…ہم زبان سے اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ اللّٰہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی باضابطہ دولت سے محروم ہیں، ورنہ جسے باقاعدہ یقین حاصل ہو جائے تو اس کا اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے یعنی وہ اکثر و بیشتر قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر و تفکر اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں لگا رہتا ہے… صحابۂ کرام کے احوال میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ قرآن سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے تھے… اگر ہمارے دلوں میں بھی صحابۂ کرام کی طرح قرآن سے محبت ہو جائے اور اس کی تلاوت کریں، انہیں کی طرح باقاعدہ یقین ہوجائے کہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے، اور یہ ہماری ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا، اور قرآن کی عظمتوں کا نقش دل پر قائم ہوتا جائے گا،اور جوں جوں قرآن پر ایمان و یقین بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم وتکریم اور احترام میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا-
قرآن پر ایمان لانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زبان و دل سے اقرار و تصدیق کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے من و عن [ہوبہو] جیسا نازل ہوا تھا ہمارے پاس موجود ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف و تبدیلی اور کمی وزیادتی نہ مدّعا میں واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متن میں،بلکہ یہ محفوظ و مامون ہے اور قیامت تک اسی وصف کے ساتھ رہے گا-

دوسرا حق: قرآن مقدّس کی تلاوت کی جائے:- مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر قرآن مقدّس کا جو دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں، اس کی تلاوت کریں، اور اسے باربار اور اس طرح پڑھیں کہ جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے-

تلاوتِ قرآن پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کا موثر ذریعہ ہے- قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے، اس لیے کہ یہ روح کے لئے غذا کے منزل میں ہے-

تلاوت قرآن کے کچھ اہم آداب:-(1) قرآن کی تلاوت ایک اہم عبادت ہے، یہ عبادت پورے ذوق و شوق سے کرنی چاہیے-(2) تلاوت سے پہلے طہارت ضروری ہے، بغیر وضو قرآن کو چھونا بھی نہیں چاہیے- (3)پاک جگہ اور قبلہ رخ ہو کر، اور دوزانو بیٹھ کر تلاوت کرنی چاہیے- (4)تلاوت سے پہلے تعوذ اور پھر تسمیہ پڑھیں،اس کے بعد تلاوت شروع کریں-(5)ٹھہر ٹھہرکر اچھی آواز سے تجوید اور ترتیل کے مطابق تلاوت کرنی چاہیے-(6)تلاوت کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہو اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ درمیانی آواز سے تلاوت کرنی چاہیے-(7)تین دن سے کم وقت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے، بہتر اور افضل یہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ختم کیا جائے ورنہ کم از کم ایک پارہ یا جتنا بھی میسر ہو بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- (8) قرآن مجید کی تلاوت ثواب اور ہدایت کی نیت سے کرنی چاہیے-(9) تلاوت کرتے وقت قرآن کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرنی چاہئے… اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ جو مستند تراجمِ قرآن و کتبِ تفاسیر ہیں علمائے اہلسنت سے رجوع کرکے ان کا انتخاب کرلیں-(10)جہاں عذاب یا دوزخ کی آیت آئے وہاں اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے اور جہاں رحمت اور جنت سے متعلق آیت ہو وہاں پر اللّٰہ سے رحمت اور جنت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے-(11)قرآن کی تلاوت اس عزم اور ارادے کے ساتھ کی جائے کہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی توفیق سعید بخشے-

تیسرا حق: قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں:- قرآن پر ایمان لانے اور اسے پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے، اس لیے کہ قرآن کے نزول کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے کیوں کہ قرآن کے معنیٰ و مطالب، اس کے احکام وغیرہ کو سمجھے بغیر عمل کیسے کیا جائے گا؟ اور ویسے بھی اس پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے، اس کا فہم و ادراک حاصل کیا جائے-

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عجم(غیرعرب) کے زیادہ تر لوگ بغیر سمجھے ہی اسے پڑھتے ہیں، یعنی صرف اس کی تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں- ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدا نہ خواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی فائدہ یا ثواب نہیں ہے،کیونکہ ہماری نظروں میں حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا وہ فرمان مبارک بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ “قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں” پھر آپ نے مثال دے کر فرمایا کہ ” الم(الف لام میم) تین حروف ہیں ان کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں” آپ کے اس فرمان مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں، لیکن اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو سونے پر سہاگہ، اور قرآن کے حقوق پر ہم صحیح معنوں میں عمل کرنے والے بھی ہوں گے-
اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو قرآن کی سمجھ عطا فرمائے-

چوتھا حق: قرآن پر عمل کیا جائے:- قرآن پر ایمان لانے، تلاوت و ترتیل،پڑھنے و سمجھنےکے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے، کیوں کہ قرآن کو ماننا، پڑھنا اور سمجھنا یہ سب اصل میں عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں، اور یہ ساری چیزیں اسی وقت زیادہ مفید و نفع بخش ثابت ہوں گی جب اس پر عمل کیا جائے-
قرآن تو تمام لوگوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے، اس میں ہمارے لئے ہر ہر معاملے کے لئے ہدایات موجود ہیں- قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے؟اور کن کاموں سے بچنا چاہیے؟ اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی- اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لئے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں، مگر افسوس کہ دورِ حاضر میں بعض لوگوں نے قرآن کے تعلق سے اس کے خلاف اپنا معمول بنا لیا ہے، اور اسے صرف تلاوت، قرآن خوانی اور دعا و تعویذ کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، جب کی قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا منتر کی کتاب ہے، جس کاصرف پڑھ لینا ہی دفعِ بلیّات کے لیے کافی ہو، نہ یہ محض حصولِ ثواب و برکت کے لئے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب کے حصول پر اکتفا کر لی جائے، یا اس کے ذریعہ سے جاں کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے، اور نہ یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضتِ ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے، بلکہ یہ تو حقیقت میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن خود اس پر شاہد ہے فرمان خداوندی کامفہوم ہے” یہ کتاب[قرآن] لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے” اور اس کا مقصدِ نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے حقیقت میں اپنی زندگیوں کا لائحۂ عمل بنائیں-
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات و احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے-

پانچواں حق: قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے،پڑھنے اور اس کو سمجھنے و عمل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قرآن مجید کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس کے پیغامات اور تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے، جس طرح صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پڑھنے و سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے ساتھ اور انفرادی طور پر بھی اس کے پیغامات کو آگے پہنچایا تھا-

ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم تمام لوگوں تک اس ابدی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن اور اس کی تعلیمات کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اورکون پہنچائے گا؟
حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خاتم النبییین ہیں، اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، لہٰذا جن لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام اب تک نہیں پہنچ سکا ان تک اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حسبِ صلاحیت واستطاعت امت محمدیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ہے، اور یہ حضور کی امت کے لئے بہت بڑے اعزاز اور شرف کی بات ہے-
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنی پیغامات اور شریعت اسلامیہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کریں-

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مقدّس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خاتمہ بالخیر کی توفیق عنایت فرمائے- آمین بجاہ سیّد المرسلین(صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم)

نعت سرور دیں صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

مجھ کو تلاش سنگ در آستاں کی ہے
اپنی جبیں کے واسطے اک سائباں کی ہے

مجھ کو نئی زمین پہ لکھنی ہے نعت پاک
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

ہے قول ان کا چرخ فصاحت میں ضو فشاں
پر نور ہے وہ بات ، جو ان کی زباں کی ہے

دریا سخا کا ان کے کرم پر ہوا نثار
ایسی ادا عطا میں مرے مہرباں کی ہے

اس جامع الکلم کی ہے مدحت پہ وقف یہ
اردو میں خوبی ایسی زبان و بیاں کی ہے

کلیاں ہیں خوشبوئیں بھی ہیں گل بھی ہیں باغ میں
اب جستجو چمن کو فقط باغباں کی ہے

جس کارواں میں سرور دیں اور صحابہ ہوں
“عینی” مجھے تلاش اسی کارواں کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

علم دین کی اہمیت و فضیلت: احادیث کی روشنی میں!از:۔(علامہ الحاج پیر)سید نور اللہ شاہ بخاری!مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر (راجستھان)

علم دین اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ،رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے ،اور جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہے وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں ۔

علم دین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺکا صرف یہی فرمان کافی ہے کہ “بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “جس ذات کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں اکٹھا کر دی اس ذات نے خودکومعلم کے طور پر پیش کیا ،اس سے تعلیم و تعلم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور خود اللہ رب العزت قرآن مقدس میں علم اور اہل علم کی شان بیان فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربی ہے ترجمہ:تم فرمادو :کیا برابرہیں جاننے والے اور انجان؟”(پارہ /۲۳ آیت /۹)

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا،درجے بلند فرمائے گا”۔(پارہ /۲۸ آیت /۱۱ سورۂ مجادلہ ) نیز ارشاد فرما یا :ترجمہ:”اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں “۔(سورۂ فاطر آیت/۲۸)

ان مذکورہ آیات کریمہ سے علم اور اہل علم کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے اور اس علم سے صرف علم شرعی مراد ہے جس کے حصول پر ثواب اور اہل علم کی عظمت کا وعدہ کیا گیا ہے نہ کہ دنیاوی علم (شرح ریاض الصالحین ج/۴ص۳)

علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے علم میں اضافہ کے لئے گویا دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے “۔(پارہ /۱۶ رکوع /۱۴) اگر علم سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے بھی مانگنے کا حکم دیا جاتا ،جیسا کہ اس آیت ِکریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اس آیت ِکریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے،اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺکو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا”۔(فتح الباری شرح بخاری ج/۱ص/۱۳۰)

کتنا علم سیکھنا ضروری ہے؟: حضور نبی اکرم ﷺنے تو علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا”علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے (مشکوٰۃ شریف ص/۳۴)

لیکن کتنا اور کون سا علم سیکھنا فرض ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کر سکے ۔اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی کریم کی اطاعت کر سکے اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کرسکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم ہو اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہو تاکہ ان سے بچاجا سکے ،اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے ،حلال و حرام میں فرق ہو سکے، اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے لازم ہے جو درسگاہوں میں پڑھ کر ،مسجدوں و دینی جلسوں میں سنکر،علماء کی صحبت اختیار کرکے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔اب یہ والدین اور سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی علم سیکھنے کے لئے مدرسوں میں بھیجیں ۔

علم دین کی فرضیت میں کیا حکمت ہے: ہر مسلمان مرد و عورت پر علم کے فرض کرنے کی حکمت کیا ہے اسے امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے سمجھیں آپ تحریر فرماتے ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے ،اور میں علم کے بغیر ان کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتا (۲) خدائے تعالی ٰ نے مجھے گناہوں سے دور رہنے کا حکم دیا اور میں علم کے بغیر اس سے بچ نہیں سکتا (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر مجھ پر لازم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر ان کا شکر نہیں ادا کر سکتا (۴) خدائے تعالیٰ نے مجھے مخلوق کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر انصاف نہیں کر سکتا (۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے بلا و مصیبت پر صبر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر اس پر صبر نہیں کر سکتا (۶)خدائے تعالیٰ نے مجھے شیطان سے دشمنی کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر اس سے دشمنی نہیں کرسکتا،(علم اور علماء ص/۴۱،بحوالہ تفسیر کبیر ج/۱ص/۲۷۸)

پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص پر چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق عائد کیئے ہیں (۱) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد ،ان دونوں حقوق کی ادائیگی بغیر علم کے ممکن نہیں ،اس لئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا “علم کا حاصل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”

حضرت ملاّ علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ شارحین حدیث نے فرمایا کہ “علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ پر ضروری ہے ۔جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت،اس کے رسول کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا ،اس لئے کہ ان چیزوں کا علم فرض عین ہے (علم اور علماء ص/۲۲ بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج/۱ص/۲۳۳)

اور اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ”اس حدیث میں علم سے مراد وہ علم ہے جو مسلمانوں کو وقت پر ضروری ہے ،جیسے جب اسلام میں داخل ہوا تو اس پر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچاننا اور سرکار اقدس ﷺکی نبوت کو جاننا واجب ہو گیا ،اور جب نماز کا وقت آگیا تو اس پر نماز کے احکام کا جاننا واجب ہوگیا،اور جب ماہ رمضان آگیا تو روزہ کے احکام کا سیکھنا ضروری ہوگیا ،اور جب مالک نصاب ہوگیا تو زکوٰۃ کے مسائل کا جاننا واجب ہو گیا، اور اگر مالک نصاب ہونے سے پہلے مر گیا اور زکوٰۃ کے مسائل نہ سیکھا تو گناہ گار نہ ہوا ،اور جب عورت سے نکاح کیا تو حیض و نفاس وغیرہ جتنے مسائل کا میاں بیوی سے تعلق ہے مسلمان پر جاننا واجب ہو جاتا ہے ،اور اسی پر باقی مسائل و احکام کو قیاس کرلیں (ایضاص/۲۲/۲۳ بحوالہ اشعۃ اللمعات ج/۱ص/۱۶۱)

علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا: علم دین کی تحصیل کی جانب رغبت دلاتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :ترجمہ”علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں ملک چین جانا پڑے “(کنز العمال ج/۱ص۸۹ ،جامع صغیر ص/۷۲)

یعنی علم حاصل کرنے کے لئے چاہے جس قدر دشوار سفر کرنا پڑے اس سے منہ نہ موڑو اسی حدیث رسول کے پیش نظر صحابۂ کرام نے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ملکوں کا سفر فرمایا اور علم میں کمال پیدا کیا ،بعد میں بزرگوں نے بھی صحابۂ کرام کے نقوش ِقدم پر پوری پوری پیروی کی ،سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحصیل علم کے لئے متعدد مرتبہ مکہ شریف ومدینہ شریف اور بصرہ تشریف لے گئے ۔

سیدنا غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عین جوانی کے عالم میں تحصیل علم کے لئے جیلان سے بغداد تشریف لے گئے ،طرح طرح کی صعوبتوں کا سامنا کیا،فاقہ کی نوبت بھی آئی مگر تحصیل علم میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں فرمائی، حضور سیدنا خواجہ غریب نواز اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں بیس برس تک کسب علم کرتے رہے ۔یہ ہے ہمارے بزرگوں کی تعلیمی تڑپ اور ان کی نگاہ میں تعلیم کی اہمیت مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بزرگوں کی محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں ،دامن نہ چھوڑنے کے نعرے بھی لگاتے ہیں مگر باقاعدہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے، بزرگوں سے اصلی محبت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنائیں اور اسی ڈگر کو اپنائیں جس پر چل کر انہوں نے زندگی گزاری۔

طالب علم کا مقام و مرتبہ: بلا شبہ عالم کا مقام و مرتبہ تو مسلم ہے ۔مگر طالب علم کی شان یہ ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”جوشخص علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتاہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لئے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں (مشکوٰۃ ص/۳۴)

اس بارے میں ایک اور حدیث ملاحظہ کریں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺنے فرمایا :”جو شخص علم کی تلاش میں راستہ چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس پر جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے ،اور جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد، مدرسہ یا خانقاہ میں جمع ہوتی ہے اور قرآن کو پڑھتی اور پڑھاتی ہے تو ان پر خدا کی تسکین نازل ہوتی ہے ،خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی ٰ ان لوگوں کا ذکر ان میں فرشتوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں (مشکوٰۃ ص /۳۳)

دیکھیئے یہاں قرآن و سنت کے علم کی تلاش میں نکلنے والے شخص( طالب علم) کی شان کہ وہ طلب علم کے لئے زمین پر چل رہا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمانوں پر جنت میں راستہ بنا رہا ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ اللہ رب العزت طلب علم کرنے والوں کو فرشتوں کے درمیان یاد فرماتا ہے اور فرشتے طلبہ کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں ،اس سے بڑی فضیلت اورکیا ہوسکتی ہے ؟جب شاگرد یعنی طالب علم کا مقام و مرتبہ یہ ہے تو اسے پڑھانے والے کا کیا مقام ہوگا ۔

علم دین کی فضیلت اور اسکو حاصل کرنے کی ترغیب نیز علمائے کرام کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں حضور رحمت عالم ﷺکی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جن میں سے کچھ اہم حدیثیں بالاختصار درج کر رہے ہیں جن سے علم و علماء کی اہمیت باقاعدہ واضح ہو جائے گی !

علم و علماء کی فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

(۱)حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تعلیم لیں اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیں “۔(سنن دارمی ج/۲ص/۴۳۷ بیروت ،بخاری ج/۲ص/ ۷۵۲ مشکوٰۃ ص/۱۸۳)

(۲) حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے” (بخاری ج/۱ص/۱۴)

(۳)حضرت ابو عمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “نبی رحمت ﷺکے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک محض عابد تھا اور دوسرا عالم تو رسول مکرم ﷺنے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ،اور رسول پاک ﷺنے ارشاد فرمایا بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چینوٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں ضرور صلوٰۃ (دعائے رحمت)بھیجتی ہیں اس متعلم پر جو لوگوں کو نیک بات بتاتا ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۴)

(۴)حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ “جو علم کی طلب میں نکلا وہ واپسی تک خدا کی راہ میں ہوتاہے” ۔(ایضا)

(۵)حضور اقدس ﷺنے فرمایا کہ” جو علم حصل کرتاہے تواس کا یہ عمل اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے “(ایضا)

(۶) حضرت واثلہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جو طلب علم میں چلا پھر علم حاصل کر لیا تو اس کو دوہرا ثواب ہے اور جو ناکام رہا (یعنی نہیں پہنچا یا پہنچ کر تکمیل ِعلم نہ کر سکا )اس کو بھی ایک ثواب ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶ ،دارمی ج/۱ص/۹۷)

(۷)حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺمسجد میں دو مجلسوں پر گزر ے اور فرمایا: ”دونوں بہتر ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے ،رہے یہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہیں ۔کہ اگر اللہ چاہے ان کو عطا کرے اور چاہے نہ عطا کرے ،لیکن وہ لوگ جو دین کی بات سیکھ رہےہیں اور (ان میں سے کچھ )جاہلوں کو سکھا رہے ہیں ۔تو یہ افضل ہے اور میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں !پھر سرکار انہیں میں تشریف فرما ہو گئے “(مشکوٰۃ ص/۳۶،دارمی ج/۱ص/۹۹)

(۸) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور انور ﷺنے (صحابہ سے )پوچھا :کہ کیا تم جانتے ہو بڑا سخی کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول جانیں ،حضور نے فرمایا:اللہ بڑا سخی ہے ،پھر آدمیوں میں بڑا سخی میں ہوں اور میرے بعد بڑا سخی وہ ہے جو علم سیکھے پھر اسے پھیلائے ۔وہ قیامت کے دن اکیلا یا فرمایا ایک جماعت ہوکر جائے گا ۔(مشکوٰۃ ص/۳۶)یعنی اس کا مقام مکمل ایک جماعت کے برابر ہوگا ،یا ایک جماعت کے ساتھ آئے گا جن کا یہ پیشوا ہوگا۔

(۹) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:علم دین سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض (فرض احکام یا علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،اس لئے کہ میں رخصت ہونے والا ہوں اور عنقریب علم اٹھتا چلا جائے گا اور کتنے سر چڑھتے جائیں گے ۔یہاں تک کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑیں گے تو ان کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہ ملے گا (مشکوٰۃ ص/۳۸)

(۱۰) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ “دین کا علم حاصل کرنا اللہ کے نزدیک نماز ،روزہ،حج اور جہاد سے افضل ہے” (کنز العمال ج/۱۰ ص/۷۵)

(۱۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایاکہ “رات میں ایک گھڑی علم کا پڑھنا و پڑھانا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶)

(۱۲)حضرت ابو زر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ”اگر کسی طالب علم کو طلب علم کی حالت میں موت آجائے تو وہ شہید ہے” (کنز العمال ج/۱۰ص/۷)

(۱۳)حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ” بہترین عبادت علم حاصل کرنا ہے” (ایضا ص/۱۰)

(۱۴)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور احمد مختار ﷺنے فرمایا”عالم دین بنو یا طالب علم بنو ،یا عالم دین کی بات سننے والا بنو ،یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچوا مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤگے”۔(کنز العمال ج/۱۰ص/۸۲)

(۱۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ “رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل کٹ جاتا ہے مگر تین عمل کا ثواب برابر جاری رہتا ہے (۱) صدقۂ جاریہ (۲)وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے(۳)نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے “(مشکوٰۃ ص/۳۲)

صدقۂ جاریہ سے مراد ہے مسجد و مدرسہ بنوانا یا زمین اور کتابیں وغیرہ وقف کرنا اور علم سے مراد ہے دینی کتابیں تصنیف کرنا اور اچھے شاگردوں کو چھوڑ جانا جن سے دینی فیضان جاری رہے ،اور باپ نے اگر اپنی اولاد کو نیک بنایا تو وہ اسکے لئے دعائے خیر کریں یا نہ کریں باپ کو بہر حال ثواب ملے گا ۔

علمائے دین کی تعظیم کرو:۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عالموں کی عزت و تعظیم کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں تو جس نے ان کی عزت کی تحقیق کہ اس نے اللہ و رسول کی عزت کی (کنز العمال ج/۱۰ص/۸۵)

علمائے دین کی پیروی کرو:۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عالم دین کی پیروی کرو اس لئے کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں (ایضاًص/۷۷)

علماءکی توہین کرنے والا قیامت میں ذلیل و رسوا ہوگا:۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جس نے عالم کی توہین کی تحقیق کہ اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی یقینا اس نے جبرئیل امین کی توہین کی اور جس نے جبرئیل کی توہین کی تحقیق کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو رُسوا کرے گا “۔(تفسیر ِکبیر ج/۱ص/۲۸۱)

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سرکاراقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ” علماء کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھُلا ہوا منافق “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ص/۱۴۰)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ ﷺنے فرمایا”جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں” (ایضا)

اور حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “جس نے عالم کو حقیر سمجھا اس نے اپنے دین کو ہلاک کیا “(تفسیرِ کبیر ج/۱ص/۲۸۳)

علما ء کی توہین پر کس قدر سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں اس کے باوجود اگر ہم علماء کی تعظیم و تکریم نہ کریں اور ان کی توہین کے در پے (پیچھے پڑے )رہیں تو ہم اپنا انجام خود سوچ لیں ۔مجدددین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”عالم دین سے بلا وجہ بغض رکھنے میں بھی خوف کفر ہے اگر چہ اہانت نہ کرے “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ ص/۵۷۱)

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہے کہ “اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیاوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے ،گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے،اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب ،خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے” (ایضاص/۱۴۰)

اور فقیہ اعظم ہند صدر الشریعہ علامہ امجد علی ا عظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ” علم دین اور علماء کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالم دین ہے کفر ہے” ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم دین مصطفیٰ ﷺکی عظمت و اہمیت سمجھنے اور علمائے کرام کی عزت و تکریم کرنے اور ان کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے! آمین۔

Apeel baraye jamiya IMAMUL MURSALEEN Nanpara

AZ:- Maolana manzoor ahmad noori baaniye jamiya IMAMUL MURSALEEN Nanpara

Assalamu alaikum wa Rahmatullah
Umeed karta hun ki ap khairiyat se honge.
Ek zaroori baat.

Jamiya Imamul Mursaleen
Astana hazrat Sayyed Phool Shaah Rahmatullah Alaih Cheeni mill Balha Nanpara Bahraich Uttar Pradesh India 271865 .

Guzishta kal baarish ki wajah se bahut pareeshaani hui. Bachche aur asatiza sab bheeg gaye. Itni pareeshaani uthana sirf kis liye taaleem aur apni qaum ke mustaqbil ko behtar banane ke liye hi to. Mera dil kehta hai inshallah is mehnat ka badla ap ki dauaon se hamare asatiza aur bachchon ko allah kaamiyabi ki shakl me zaroor ata karega.

Inshallah.

Allah kareem inke hauslon ko mazeed mazboot banaye ameen summa ameen.

Guzarish hai ki is maqsood ko poora karne me jamiya ka har etibaar se support karen allah kareem ap ko is ka behtar ajr ata farmayega.

A/C. 32144313423
BANK. State Bank of India
IFSC. SBIN0000140
Phone pay
Google pay
Paytm
9452277320

Minjanib. Jamiya Imamul Mursaleen

Az

جھماجھم بارش کی ہے امید، مل سکتی ہے آپ کو راحت،

۔

رپورٹر: آصف جمیل امجدی

گونڈہ(17 جولائی) شان سدھارتھ۔اترپردیش میں شدید گرمی اور خشک موسم کی وجہ سے عام لوگ اور کسان کافی پریشان ہیں۔ دن رات لوگ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور بارش والے سیاہ بادلوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس سال وقت پر بارش نہ ہونے کی وجہ سے دھان کی کاشت خراب ہو رہی ہے، جس سے کسان کافی پریشان نظر آرہے ہیں۔ دریں اثنا محکمۂ موسمیات نے اتر پردیش کے لوگوں کے لیے راحت بھری جان کاری دی ہے جو بارش کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اگر محکمۂ موسمیات کی بات مانی جائے تو 18 جولائی کی شام سے ریاست میں مانسون کے فعال ہونے کی امید ہے۔ اس صورتحال میں اتر پردیش میں 19 جولائی سے بارش متوقع ہے۔ مجموعی طور پر ماہرین موسمیات کے اندازوں کے مطابق 19 جولائی سے ریاست میں جھماجھم بارش کی امید جتائی جارہی ہے جس سے کسانوں کو یقیناً فائدہ ہوگا۔

نعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

یوں گلستاں بنا مرے دل کو، خدائے دل
نعتوں کے گل سے تر رہے ہر دم فضائے دل

گہوارہ ان کے حب کا نہیں گر ہے جائےدل
مطلب نہیں ہے اس سے کہیں بھی یہ جائے دل

سمت حضور ایسی توجہ بنی رہے
غیروں کی جانب اپنا کبھی بھی نہ جائے دل

پشت فلک خمیدہ ہے ان کے سلام کو
کہتا ہے کھا کے رب کی قسم یہ سمائے دل

منزل مری دیار رسول کریم ہے
سنتا ہوں میں شروع سے ہی یہ صدائے دل

مجھ کو عطا ہو رہ گزر مصطفی’ کی دھول
ارض مدینہ سے ہے یہ عرض صفائے دل

حمد خدا و مدح حبیب خدائے پاک
جز اس کے اور کیا ہے براۓ شفائے دل

حب نبی ہو گر تو رہے دل میں تازگی
بغض نبیء پاک سے ہوگی قضائے دل

اس میں ہوئی ہے آمد محبوب کبریا
یہ جان‌ لینا آپ ، اگر مسکرائے دل

اظہار پر ہے منحصر ایمان آپ کا
ظاہر زبان بھی کرے ، جو ہے رضائے دل

ابروئے شاہ کون و مکاں پر نثار ہے
ہم کو بہت پسند ہے “عینی “ادائے دل
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

قربانی: حضرت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کی ایک عظیم یاد گار:سیدنوراللہ شاہ بخاری

مسجد غریب نواز میں ہزاروں لوگوں نے نماز عیدالاضحیٰ ادا کر کے ملک وملت میں امن چین کی دعا کی!


رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)


بلاشبہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔اور ان کے وفاشعار صاحبزادے حضرت اسماعیل نے خود کو قربان کرنے پر اپنی رضاورغبت ظاہر فرمائی تھی،قربانی کے اس عظیم الشان اور صبر آزما عمل کے دوران نہ ہی حضرت ابراہیم کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔ مزکورہ خیالات کا اظہار مغربی راجستھان کی عظیم ومنفرد اور علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور “خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدپیر نوراللہ شاہ بخاری نے دارالعلوم کی عظیم الشان “غریب نواز مسجد” میں نماز عیدالاضحیٰ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کیا-ساتھ ہی ساتھ آپ نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت سیدنا ابراہیم اللہ کے برگزیدہ اورجلیل القدرنبی ورسول ہیں جنہیں اللہ نےاپنی خلت سے نوازا، جن پر اپنا صحیفہ نازل فرمایا،جنہیں اپنے رب کی رضا جوئی کی خاطر اس دار فانی کے اندر بے شمار امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا،اور قدم قدم پر جانثاری و فداکاری اور تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑا۔غرض ان کی پوری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اس برگزیدہ نبی نے محض اپنے رب کی رضاجوئی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیےہوش ربا آگ کی اذیت کو برداشت کرنا گوارہ کر لیااور عظمت دین و عقیدۂ توحید کی سربلندی کی خاطرعزم و استقلال کے ساتھ ثابت قدم رہے اس صبر و رضا پر آگ کے لیے اللہ کا حکم آیا:

يَا نَارُكُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ
اے آگ ! تو ٹھنڈی اورابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا۔(انبیاء: 69)

اس آیت کی ترجمانی شاعر مشرق مفکر اسلام ڈاکٹر اقبال نے کیاخوب کی ہے؂

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اہل علم فرماتے ہیں اللہ تعالی کا یہ حکم ’’بردا و سلاما‘‘ ’’ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ اور ایک بہت بڑا معجزہ بھی ہے کہ اگر وہ آگ ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی نہ ہوتی تو اس کی ٹھنڈک بھی حضرت ابراہیم کو نقصان پہنچا سکتی تھی اس پر اللہ نے اپنے خلیل کو دشمنوں کی اس عظیم سازش اور چال سے بچا لیا اور حضرت ابراہیم آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اس کی دہکتی ہوئی آگ میں کود کرکے اپنے جزبۂ ایمان کی تکمیل فرمائی اور اللہ کے بہت بڑے امتحان میں پورے اترے۔

اسی طرح بڑھاپے کی عمر میں پہنچنے کے بعد اللہ نے ایک مرتبہ آپ کو پھر آزمایا اورصغر سنی میں بے حد تمناؤں، آرزؤں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہونے والے اکلوتے فرزند ارجمند کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مدت کے بعد اسی اکلوتے لاڈلے کو اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ دونوں باپ اوربیٹے اللہ کے اس فرمان پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے رب کی رضا جوئی کی خاطر قربانی کرنے اور قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئے یہی وجہ ہے کہ اطاعت شعار و فرما نبردار بیٹا اپنے والد محترم کے سامنے اپنے جبین نیاز کو خم کرتے ہوئے گویا ہواکہ:

يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
اے ابا جان !آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(الصافات:102)
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس چھوٹی سی عمر میں اپنے والدبزرگوار کو اپنی رضا ورغبت پر مشتمل جو یہ جواب دیا اسی کی ترجمانی غالباً شاعر مشرق نے کچھ یوں کی ہے؂

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

چنانچہ رب کے حکم کی تعمیل میں ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کے حلقوم پر چھری رکھ کر اللہ کے نام پرچلادیتا ہے لیکن چھری ہے کہ اپنا کام نہیں کررہی ہے، پھر آسمان سےفرمان آتاہے:

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اے ابراہیم! یقینا تونے اپنے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ (الصافات: 105)

اس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم اپنے اس عظیم الشان اور مشکل ترین امتحان و آزمائش میں پورے اترے اور رب ذوالجلال نے جنت سے ان کے لاڈلے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کےبدلے میں ایک دنبہ بھیج کر اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا۔ اللہ رب العالمین کوابراہیم خلیل اللہ کی یہ عظیم اور یادگار قربانی کی سنت اتنی پسند آئی کہ اسے بعد میں آنے والی تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مسنون قرار دے دیا چنانچہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل کی اس سنت مبارکہ کوزندہ کرنے کے لیے ہر سال ذی الحجہ کے مہینہ میں ایام قربانی میں پوری دنیا میں مسلمان اپنے جانوروں کو اللہ کی راہ میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ ذبح کرتے ہیں جس کے متعلق کتب احادیث میں مروی کہ نبی کونین ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ خود ہر سال قربانی کرتے اور اس سنت پر اپنے صحابہ کو بھی عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے رہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے متعلق فرمایاکہ’’من وجد سعة لان يضحي فلم يضح فلا يقربن مصلانا‘‘جسے قربانی کرنے کی طاقت ووسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔

در اصل قربانی اس عظیم الشان سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے اور اس یادگار لمحے کو ہمیشہ اپنے قلوب و اذہان کے اندر پیوست کرنے کے لیے کی جاتی ہے جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے کی تھی۔ انبیائے کرام کی قربانی میں امت کے لیے یہ پیغام پنہا ں ہےکہ اے مسلمانو! تم ان حسین ایام میں اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرکےاپنے جد امجد کی سنت کو زندہ کرو،اور اگر تم اپنے رب کی رضا مندی چاہتے ہو تو اپنا مال ہی نہیں بلکہ وقت اور جان بھی اس کے راستے میں قربان کرنے کے لیے تیار رہو، اور اگر دنیاوی اسباب و وسائل کے بالمقابل اخروی کامیابی و کامرانی اور رب کی رضا جوئی چاہتے ہو تو ایثار وقربانی اور اطاعت و وفاکی راہوں پر گامزن رہو اور اگر اپنے مالک حقیقی کی بے پایہ رحمتوں، خصوصی عنایتوں کے خواہش مند ہو تو اس کے ہر حکم واشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہو اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ یہ قربانی جسے ہم ہر سال اللہ کی راہ میں اپنی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں جس کے گوشت، پوست سے خود بھی مستفید ہوتے اور اپنے اہل خانہ و احباب کو بھی مستفید کرتے ہیں یہ اس کا مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اس قربانی کو ایک عبادت سمجھ کر کریں اور سیدنا ابراہیم واسماعیل ونبی کریم علیہم السلام کی سنت سمجھ کر انجام دیں۔

اس لیے کہ ہمارے ان ذبح کئے گئے جانوروں کے گوشت اور خون تو اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے خون تو زمین پر گر کر بہہ جاتے ہیں اور گوشت ہم کھا لیتے ہیں تو اللہ کو ہماری ان قربانیوں سے کیا ملا؟ تو اس کا سیدھا اور آسان سا جواب یہ ہے کہ ہمارے مالک حقیقی کو ہمارا تقوی اور پرہیز گاری پہنچتا ہے، وہ ہمارے نیتوں اور قلوب و اذہان کو دیکھتا ہے کہ ہم نے اپنی قربانی کس نیت سے کی ہے، ہمارا مقصد ریا کاری و مکاری، شہرت ونمود ہے آیا رب کی رضا مندی۔۔!

اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اے محبوب ! آپ کہہ دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ (انعام: 162)

اور دوسری جگہ فرمایا :

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ
اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔(الحج : 37)

ایک مسلمان و مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہے کہ اس کا مالک حقیقی اس سے راضی و خوش ہوجائےاوراسے اس کا تقرب حاصل ہوجائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عشرۂ ذی الحج کےان مبارک ایام میں کئے گئےہمارے سارے اعمال حسنہ خصوصا حج و عمرہ اور ایام قربانی میں کی گئی ہماری قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے،اور ہم سبھی لوگوں کے دلوں میں عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جاگزیں فرمائے اور ہمارے ملک کو امن چین اور شانتی کا گہوارہ بنادے- آمین!