WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives September 2022

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کی ناموس کی خاطر جو فنا ہوتے ہیں
ایسے اشخاص سدا رشک بقا ہوتے ہیں

کہہ کے محبوب خداوند جہاں کی نعتیں
حامل سنت قرآن خدا ہوتے ہیں

سن کے ایوان سماعت کے ہوئے ہیں مسحور
ایسے سرکار مرے شیریں نوا ہوتے ہیں

دیکھ کر سرعت پرواز نبی چرخ ہی کیا
محو حیرت سبھی اطراف سما ہوتے ہیں

منکرو دیکھ لو آقا کی حدیثیں پڑھ کر
سارے اصحاب نبی نجم ہدی’ ہوتے ہیں

بے نیازی کے محل میں وہ رہا کرتے ہیں
کس کے محتاج بتا شہ کے گدا ہوتے ہیں

باغ ذکر شہ دیں میں جو رہا کرتے ہیں
قید آلام سے وہ سارے رہا ہوتے ہیں

ان کے اعمال کہاں ہوتے ہیں مقبول کبھی
اپنے اعمال میں جو اہل ریا ہوتے ہیں

عینی سرکار ‌ جن اعمال کو کہہ دیں جائز
واسطے اپنے وہ اعمال روا ہوتے ہیں
۔۔۔۔‌۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

عید میلادِ النبی کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں..از قلم گوہر رقم:تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین وخلیفہ ارشد ملت عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خادم :سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال رابطہ نمبر_7030 786 828


جاننا چاہیے کہ میلادالنبی کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد کے دن کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد کے دن کو عید کہنا کیسا ہے؟ ولادت کی تاریخ کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد میں اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کرنا کیسا ہے ؟ بلاشبہ عید میلادِ النبی (Birthday of prophet) منانا جائز و مستحسن ہے اور ان تمام امور کی حقیقت قرآن و حدیث , آثار صحابہ اور اِرشادات علماء سے یہ بات بخوبی ثابت ہے, قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے. وذکر ھم بایام اللہ پارہ 13 اس آیت میں رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم (hüküm) دیا کہ بنی اسرائیل کو وہ دن یاد دلاؤ , جن میں اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمتیں نازل فرمائی_ معلوم ہوا کہ نعمتیں ملنے کے دنوں (days) کو یاد گار کے طور پر منانا حکم خداوندی ہے مفسرین نے فرمایا ایام اللہ (days of Allah) سے مراد وہ دن ہیں , جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعامات فرمائے _
کوئی بھی مسلمان (Müsalman) اس حقیقت سے انکار (refuse) نہیں کر سکتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عالمین (universe) کے لئے رحمت بھی ہیں , اور نعمت بھی رحمت کی دلیل یہ آیت ہے وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین پارہ 17
آپ کی نعمت ہونے کی دلیل یہ آیت ہے
الم ترا الی الذین بدالو نعمتۃ اللہ کفرا پارہ 13
اس آیت کی تفسیر(commentary) میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کی نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں.
جب ثابت ہو گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رحمت بھی اور نعمت بھی ہیں , تو ان دنوں (days) میں اظہار خوشی کرنا اور لوگوں کو ان دنوں کی عظمت و تاریخ سے آگاہ کرنا اور یاد منانا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے.
و اما بنعمۃ ربک فحدث
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر عام کرنے اور خوب چرچا کرنے کا حکم دیا
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بلاشبہ اللہ کی نعمت ہیں تو آپ کی تشریف آوری (advent) کا اجتماعی یا انفرادی طور پر ذکر کرنا قرآن کریم سے ثابت ہوا _اور اسی عمل کا نام میلادالنبی اور محفل میلاد ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت پر خوشی منانے سے کافر (kafir) کو بھی فائدہ ہوتا ہے
بخاری شریف میں ہے: جب ابولہب (Abulahab) مرگیا تو اس کے بعض اہل خانہ نے اس کو خواب میں بہت برے حال میں دیکھا, تو پوچھا تجھ پر کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے جدا (separate) ہو کر مجھے کوئی خیر نہیں ملی
سوائے اس کے کہ میں سیراب کیا جاتا ہوں کلمہ کی انگلی سے کہ اس دن (day) میں نے اس انگلی سے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا.
بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 764
فتح الباری جلد 9 صفحہ 119
عمدۃ القاری جلد 2 صفحہ 95
خصائص الکبریٰ جلد اول


میلاد اور قرآن کریم
سب سے پہلے انبیائے کرام (prophets) کی محفل (روز میثاق) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری (arrival) کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا.
ترجمہ:- اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں (prophets) سے عہد لیا, جو کچھ دیا میں نے تم کو کتاب اور حکمت سے , اور پھر تشریف لائے تمہارے پاس عظمت والا رسول جو تصدیق کرنے والا ہو , اس کی جو تمہارے ساتھ ہے, تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ اور اس کی ضرور مدد کرو گے
(القرآن پارہ 3 رکوع 12)
معلوم ہوا کہ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی محفل, محفل انبیاء ہے جس میں میلاد کرنے والا، اللہ تعالیٰ اور سننے والے انبیاء کرام تھے.
حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی امت کی محفل عام میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد ( ولادت با سعادت) کا یوں چرچا فرمایا
ترجمہ :- اے لوگوں! میں بشارت دیتا ہوں تم کو اس رسول کی جو میرے بعد تشریف لانے والا ہے ، جن کا نام پاک احمد ہے.
القرآن پارہ 28 رکوع 9
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد (arrival) کا ذکر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا.
ترجمہ :- بے شک آگئے تمہارے پاس تم میں سے رسول
پارہ 11 رکوع 5
ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے تذکرے اور محافل میلاد النبی منعقد کروا نے اصل قرآن کریم سے ثابت ہے. اس کو بدعت (Bid’at) کہنے والے عبرت حاصل کریں.
میلادالنبی حدیث شریف کی روشنی میں
خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا میلاد (birthday) منایا :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پیر (Monday) کے دن روزہ (Fasting) کے متعلق پوچھا گیا , تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا , اور اسی دن مجھ پر وحی کی ابتداء ہوئی.
(صحیح مسلم مشکواۃ شریف مسند امام احمد و سنن بیہقی)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام (companions) کی محفل میں اپنا میلاد یوں سنایا
یعنی میں تم کو اپنے ابتدائی معاملات کی خبر دیتا ہوں _میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (dua) اور حضرت عیسی علیہ السلام کی خوشخبری ہوں. اور میں اپنی ماں کا وہ چشم دید منظر ہوں, جو انہوں نے میری ولادت با سعادت (birth) کے وقت دیکھا تھا , کہ ان کے جسم سے ایک ایسا نور نکلا, جس کی روشنی میں انہیں شام (Syria) کے محلات (palaces) نظر آگئے.
مشکوۃ شریف فصل ثانی 513
ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام (sahaba) کے اجتماع میں خود اپنی محفل میلاد منعقد فرمائی ، اور اپنی ولادت (birth) اپنا حسب و نسب بیان فرما کر اپنی امت کو بھی میلاد النبی منانے کی ترغیب دلائی.


صحابہ کرام بھی حضور کا میلاد پڑھتے تھے
حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ، اور عرض کیا کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ نعت سناؤ ، جو تورات (Torah) میں ہے, تو انہوں نے پڑھ کر سنائی.
مشکوۃ شریف فصل اول
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قصیدہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا میلاد پڑھا. قصیدہ کے آخری دو شعر ملاحظہ فرمائیں.
ترجمہ :- یارسول اللہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے نور سے تمام زمین روشن ہو گئ , اور آپ کے نور سے تمام آسمانی فضاء پر نور ہو گئیں__ پس ہم اسی نور میں رشد و ہدایت کے راستوں پر چل رہے ہیں.


محفل میلاد کی اصل حیثیت
محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اصل حیثیت یہ ہے کہ تلاوت قرآن نعت خوانی کے علاوہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت کا ذکر (zikr) ہوتا ہے. فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں. اسلام کی تعلیمات پر تقاریر ہوتی ہیں. صلوۃ و سلام ہوتا ہے اور تعظیم رسول (respect of prophet) شرعاً مطلوب ہے. جیسا کہ حکم قرآنی ہے.
و تعزروہ و توقیروہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و توقیر کرو.
صاحب تفسیر روح البیان اس آیت کی تفسیر (commentary) میں فرماتے ہیں: یعنی میلاد منانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ کی تعظیم (respect) میں داخل ہے.
از قلم گوہر رقم
تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین وخلیفہ ارشد ملت
عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری
خادم :سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
رابطہ نمبر_

7030 786 828

چاند نکلا ہے ربیع النور کا۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

ہر سو نعرہ ہے ربیع النور کا
یوں اجالا ہے ربیع النور کا

مومنو خوشیاں مناؤ عید کی
چاند نکلا ہے ربیع النور کا

کیا زمیں کیا آسماں کیا لامکاں
ہر سو چرچا ہے ربیع النور کا

نسبت سرکار کا صدقہ ہے یہ
موسم اچھا ہے ربیع النور کا

ہے ہلال عید سے بھی یہ حسیں
مہ نرالا ہے ربیع النور کا

سب مہینے ہوگئے اس پر فدا
ماہ آیا ہے ربیع النور کا

ہر طرف خوش حالیوں کے ہیں ثمر
کیا مہینہ ہے ربیع النور کا

بلبلیں پڑھتی ہیں بےحد شوق سے
کیا ترانہ ہے ربیع النور کا

کیوں ڈریں آلام کی ہم دھوپ سے
شامیانہ ہے ربیع النور کا

سال کے سر پر سجایا جو گیا
خوب تمغہ ہے ربیع النور کا

ان کی بعثت کا یہ فیض خاص ہے
سر جو اونچا ہے ربیع النور کا

شب مزین ہے گل تقدیس سے
دن سہانا ہے ربیع النور کا

ہر طرف ہے روشنی ہی روشنی
کیا نظارہ ہے ربیع النور کا

ہوگئے گستاخ آقا بے نقاب
کیا نشانہ ہے ربیع النور کا

ذہن میں میرے سمائے مصطفی’
دل دیوانہ ہے ربیع النور کا

دکھ رہا ہے نور جو چاروں طرف
یہ اتارا ہے ربیع النور کا

رحمت عالم وہ سب کے واسطے
ہر زمانہ ہے ربیع النور کا

بارھویں میں جس کی بعثت ہوگئی
وہ ستارا ہے ربیع النور کا

جس پہ ہیں قرباں مناظر دہر کے
وہ سویرا ہے ربیع النور کا

ہر دل مومن کو یہ چمکا گیا
یوں چمکنا ہے ربیع النور کا

جس پہ سب ایام ہوتے ہیں نثار
وہ دوشنبہ ہے ربیع النور کا

رشک ہر رشتے کو ہے ، سرکار سے
ایسا رشتہ ہے ربیع النور کا

پھول اس میں کھلتے ہیں تازہ تریں
پھل بھی میٹھا ہے ربیع النور کا

مدح آقا پر کلام لاجواب
پیش کردہ ہے ربیع النور کا

فیض شہ ہے ، چرخ ماہ و سال میں
خوب شہرہ ہے ربیع النور کا

عینی خالق سے ہمارے واسطے
خوب تحفہ ہے ربیع النور کا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

مجدد الف ثانی اپنے اقوال وارشادات کے آئینے میں.. ازقلم : محمد علاؤالدین قادری رضوی..صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا ,میراروڈ ممبئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       تزکیہ نفس کے باب میں بزرگوں کے اقوال وارشادات کی اہمیت و افادیت سے قطعا انکار نہیں کیا جاسکتا, اہل اللہ کے قول و ارشاد میں دینی و فلاحی دعوت وتبلیغ کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ان کی نظر ہمہ وقت لوح محفوظ پرہوتی ہے, ان کے اقوال وارشادات عین منشاء الہی کے مطابق ہوتے ہیں وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے ,انانیت, ونفس پرستی کی وہاں گزرنہیں ہوتی ,وہ خودی میں جیتے ہیں, بے خود ہوتے ہیں, کشف کے ذریعہ انہیں ہر اچھی اور بری باتوں کا علم ہوتا رہتا ہے, تجدید دین و ایمان کے امین یہی ہوتے ہیں, اخلاق کریمانہ سے, تو کبھی قلم وقرطاس سے ,تو کھبی شیریں اقوال وارشادات سے ظالم حکمرانوں کو ان کے ظلم وبربیت کا وافی شافی علاج فرماتے ہیں  اور کسی کا جانی ومالی نقصان بھی نہیں ہوتا ہے, بلکہ وہ شخصیت اپنے اس مدبرانہ, حکیمانہ اور منصفانہ عمل کی وجہ سے ایک صدی پر محیط ہوجاتی ہیں ,انہیں اشخاص میں ایک نام,, حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ ,, کا بھی آتا ہے ۔آپ نے اپنے اقوال و ارشادات,قلم وقرطاس سے اکبری دین اور اس کی تخت وتاج کا بیڑا ہمیشہ کے لئے غرق کردیا ۔ اور دین اسلام میں مجتہد و مجدد کا یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہے گا ,جب بھی دین میں کسی طرح کی غیرشرعی باتیں داخل کی جائیں گی تو ان کی سدباب کے لئے اللہ عزوجل ایک مجدد بھیجتا ہے جو اپنی تجدیدی صلاحیتوں سے باطل کا قلع قمع کردیتا ہے اور دین اسلام کو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک وصاف کرکے وہی امتیازی شان وشوکت بخشتاہے,اور امت فرامین الہی کا پھر سے پابند ہوجاتی ہے ,یہی وہ مقدس شخصیتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ عزوجل کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فریا ہے کہ,, میری یہ امت کبھی گمراہی پر متفق نہ ہوگی,, اور آپ کا یہ ارشاد کہ,, اللہ تعالی اس امت کے لئے ہرصدی کے شروع میں ایسے بندے پیدا کرتا رہے گا جو اس کے لئے اس کے دین کو تازہ کرتے اور نکھارتے رہیں گے ۔ ,, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی وضاحت اور تشریح ان احادیث سے ہوتی ہیں جو کتب حدیث میں مروی ہے کہ,, میرے لائے ہوئے اس علم ( یعنی دین)  کی امانت کو ہرزمانے کے اچھے اور نیک بندے سنبھالیں گے اور اس کی خدمت وحفاظت کا حق ادا کریں گے وہ افراط وتفریط کی تحریفوں, کھوٹے سکے کی ملمع کاریوں اورجاہلوں کی فاسد تاویلوں سے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کرتے رہیں گے ۔فتنہ اکبری کا آپ نے خاتمہ کیا, یہ فتنہ اکبری آخرکیاتھا ؟ یہ دین میں شرک کی آمیزش تھی, سورج, آگ, پانی اور ہرطاقت کی بندگی بادشاہ اکبر سے لے کر اس کے حواریین کرنے لگے تھے, رفتہ رفتہ اکبربادشاہ کا سجدہ کیاجانے لگا تھا, تمام ادیان ومذاہب کو ایک نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا یعنی ہر مذہب کو حق کہاجانے لگا, معاذ اللہ ۔ان ملعونوں نے دجال کی صفات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جوڑکر بیان کرنا شروع کردیا تھا, شاتمان رسول اس قدر نڈر اور بےخوف ہوچکے تھے کہ کھلم کھلا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے تھے اور انہیں ٹوکنے والا کوئی نہ تھا, ان باتوں سے اکبربادشاہ کی پیشانی پر بل تک نہ پڑتا بلکہ ان گستاخ پادریوں کا استقبال انتہائی خندہ جبینی سے کرتا,اور اپنے شاہزادہ مراد کو حکم دیتا کہ,, چند اسباق ان پادریوں سے پڑھ لیا کرو ۔ ,, نمازوں کا یہ حال تھا کہ دربار میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز پڑھے, جبکہ کبھی اسی دربار میں باضابطہ پنجگانہ نمازوں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور دربار میں موجود افراد باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے, نماز, روزہ حج یہ سب پہلے ہی  ساقط ہوچکے تھے, سود اور جوا حلال کردیا گیا تھا اسی پر دوسری حرام چیزوں کو قیاس کرلیں!  حالت یہ تھی کہ ایک,, جوا گھر ,, خاص دربار میں بنایا گیا اور جواریوں کو شاہی خزانہ سے جوا کھیلنے کے لئے سودی قرض دیا جاتا تھا ,درباری مولویوں سے شراب کی حلت پر فتوی لے لیاگیا تھا اور دربار کے ایک حصہ میں شراب کی دوکان کھول دی گئی تھی اور نوروز کی مجلس خاص میں دنیادار علما, صلحا, قاضی ومفتی تک شراب کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے, حد تو یہ تھی کہ وہ  ,, شراب کے ہر پیالہ کو کسی نہ کسی فقیہ کے نام سے موسوم کیا ہواتھا اور کہتا کہ یہ پیالہ فلاں فقیہ اندھاپن کے نام سے پیتاہوں ۔ ,, داڑھی کا مذاح اڑایا جاتا تھا اور نہ رکھنے کی یہ بدبختانہ دلیل دیتے کہ داڑھی خصیتین سے پانی لیتی ہے اس لئے اس کے رکھنے کی قطعا ضرورت نہیں اور درباری قاضیان کوئی بھی داڑھی نہیں رکھتے تھے ۔ مسائل نکاح میں اپنی ذاتی شرط شریعت سے الگ اور چودہ چودہ عورتوں کو ایک ساتھ رکھنے کی اجازت ملی ہوئی تھی, خود اکبر ایک ساتھ چودہ عورتوں کو اپنے پاس رکھا ہواتھا ,گو شریعت کے تمام مسائل احکام شرع کے بجاۓ منشاء طبیعت کے موافق ڈھال لئیے گئے تھے ۔ ایسے نازک وقت میں آپ نے اپنی زبان وقلم سے وہ جرآت مندانہ کام کیا کہ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصروعاجز ہے ۔ اور دین میں شرک وبدعت, صلح کلیت کا رواج جب ہوتا ہے ۔جب علما فروعی مسائل کو لے کر آپس میں دست بگریباں ہوتے ہیں۔ اسی کا فائدہ سربراہان حکومت اور اس کے عملہ یعنی وزرا , کارکنان اور ملازم اٹھاکر دین میں تحریف وتغیر کرنا شروع کردیتے ہیں جیساکہ حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ۔ ,, پچھلے دور میں علما کے اختلافات نے دنیا کو ایک مصیبت میں مبتلا کردیاتھا, اب پھر وہی بات سامنے ہے,  دین کارواج کیا ہوگا, اس کی بھلا کیا گنجائش ہے, بلکہ دین کی بربادی اس سے ضرور ہوگی ۔,, ایک موقع سے علما کی اسی فتنہ رسانی کو دیکھتے ہوۓ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ,, ایک صاحب نے ملعون ابلیس کو دیکھا کہ فارغ اور بیکار بیٹھا ہوا ہے, پوچھا کہ آخر کیا ماجرا ہے ۔ابلیس بولا کہ اس زمانے کے علما میرا کام انجام دے رہے ہیں, راہ مارنے اور بھٹکانے کے لئے اب وہی کافی ہے ۔

          ( تذکرہ مجددالف ثانی, ص: ١٢٦ ) 

حضرت مجدد الف ثانی کا اس مثال سے   مطلب صاف تھا کہ وہ علوم اور علما کس کام کہ ان کے رہتے ہوۓ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخانہ کلمات کا بے دریغ استعمال ہوں ,وحدانیت پر شب خون مارے جارہے ہوں, شرک وبدعات کا رواج عام ہوں, دوستوں نے ہی دشمنی کے لئے کمر باندھ رکھی ہو ,جو بظاہر اللہ کی فوج ہیں وہی شیطان کے صفوں میں شریک ہوکر اسلام وسنت کی دھجیاں اڑاےنے پر بضد بیٹھا ہو , جب رہنما ہی راہزن ہوں تو اسلام کا شجر کیوں کر پھلے پھولے گا ۔یہی وہ ماحول تھا جسے دیکھ کر حضرت عالم ربانی مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو کہنا پڑا کہ,, دنیا بدعت کے دریا میں غرقاب ہے, شب ظلمت سے فرحاں ہے, دفع بدعت کے لئے کس کی مجال کہ وہ اٹھ کھڑے ہو, احیاۓ سنت کے لئے لب کشاں ہو اس دور کے علما تو خودہی بدعت کورواج دینے اور سنت کو مٹانے کے درپے ہیں ۔

                          ( مکتوب : ٥٤ , ج ۔٢ )

واقعی یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ مدارس , خانقاہوں کے قیام کا مقصد حضور فخرموجودات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت کے دلوں میں وحدانیت وربوبیت اور عشق رسول کا وہ نور پیدا کرنے کے لئے کیا گیاتھا جس سے تمام جہاں روشن ومنور ہوں, مگر یہاں کے فارغین علما, خانقاہوں کے گدڑی پوش صوفیا ہی بدعت کی طرف رہنمائی کریں اور غیر شرعی امور کے تعلق سے اس کے مستحسن ہونے کا فتوی صادر کرے, تو دین حنیف کا تحفظ کون کرے گا ۔لیکن ایسے پرفتن ماحول میں اللہ عزوجل کی نصرت اپنے بندوں پر اترتی ہے اور وہی کسی عالم ربانی کے ذریعہ اپنے دین کی حفاظت فرماتا ہے ۔اور یوں صدا بلند ہوتی ہے ۔

اس راز کو پھر فاش کر اۓ روح محمد! 

اس عہد میں اب تیرا مسلماں کدھر جاۓ

اور پھر حضرت عالم ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے دین حنیف کی حفاظت وصیانت کے لئے کمر باندھ کر میدان عمل میں اترجاتے ہیں اور کفار و مشرکین,الحاد وارتداد, بد مذہب و صلح کلیت اور شاتمان رسول کا اپنی زبان وقلم سے شکست فاش دیتے ہیں اور ایک مجدد کا جو کام ہوتا ہے اسے مکمل کرکے ہی دنیا سے یوں کہتے ہوۓ کہ(,, ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں,,) رخصت ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی متبرک ذات اس دارگیتی سے ٢٨ / صفرالمظفر ١٠٣٤ ھ میں بعمر ترسٹھ سال مطابق عمر شریف نبوی ( علیہ الصلوة والسلام)  واصل جنت ہوۓ ۔ 

 ترسیل دعوت :  صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی عفی عنہ

 رکن اعلی : شیرمھاراشٹرتعلیمی فاؤنڈیشن ,میراروڈ ,ممبئی 

١٥/ شوال المکرم ١٤٤١ ھ مطابق ٧ / جون ٢٠٢٠ ء

کہانی۔۔۔۔۔۔۔رحم دل شاہزادی۔۔۔۔۔۔۔از قلم : رفعت کنیز، حیدر آباد۔۔۔۔۔۔

ایک خوبصورت شاہزادی جو اپنے محل میں تنہا رہا کرتی تھی اس پر رعایاکو سنبھالنے کی ذمہ داری تھی وہ اپنے رعایا کا بہت خیال رکھتی تھی . مگر شاہزادی کو اپنے آپ سے باتیں کرنے کی بہت عادت تھی وہ اپنے محل کی کھڑکی سے اکثر باہر کا نظارہ کیا کرتی تھیں اور اسماں کے ستاروں سے چلنے والی ہواوں سے باتیں کیا کرتی تھیں
اک دن شاہزادی اپنے ہی خیالوں میں مصروف تھیں کے محل میں رہنے والی کنیز ائ اور شاہزادی سے مخاطب ہوکر کہا آپ اپنے میں خود سے کیا باتیں کرتی رہتی ہیں آپ شاہزادی ہیں آپ کو باہر کی دنیا بھی دیکھنی چاہیے آپ کو باہر کا نظارہ کرنا چاہیے اس محل کے باہر ایک اور دنیا ہے جو خوبصورت ہے.
شاہزادی نے اپنے کنیز سے کہا کیا باہر کی دنیا الگ ہوتی کیا وہ خوبصورت ہوتی ہے تب کنیز نے کہا جی شاہزادی باہر کی دنیا بہت خوب صورت ہوتی ہے بہت سارے رنگوں سے سجی ہوتی ہے آپ خود ہی دیکھ لیں
شاہزادی نے سونچا ک اسے باہر کی دنیا دیکھنا چاہئے پھر اس نے اپنے نوکروں سے کہا ک وہ مختلف موقامات پر لے جایں جہاں وہ جانتے ہیں
شاہزادی کے اس خواہش پر دو کنیزیں دو غلام شاہزادی کے ساتھ سفر پر نکلے اور سارا محل وزیر پر چھوڑ دیا
جب شاہزادی پہلے مقام پر پہنچتی ہیں تو وہ ان غریب اور مجبور لوگوں سے ملتی ہیں جہاں زندگی مشکل نظر آتی ہے جن کے پاس سہولت کا کوئ سامان نہیں ہوتا شاہزادی کو ان کے ن
حالات پر رحم اتا ہے اور شاہزادی سے کہتی ہیں ک تم نے کہا تھا باہر کی دنیا بہت خوب صورت ہے مگر یہاں لوگ کتنی مشکل میں ہیں ان کا خیال کیوں نہی رکھا جاتا پھر شاہزادی ان غریبوں ک لئے تمام ضروریات کا سامان منگواتی ہیں
پھر اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور جب دوسرے مقام پر پہنچتی ہیں تو وہاں اسے بھوکے پیاسے جانور نظر آتے ہیں اور شاہزادی بہت بے چین ہوجاتی ہیں کنیز پر چلّانے لگتی ہیں اور نوکروں کو حکم دیتی ہیں ک جانوروں کے لئے کھانے پینے کا خیال رکھا جاے .
کچھ اور مقام پر شاہزادی کو ایسے پیڑ پود ملتے ہیں جو مرجھاءے ہوے تھے جہاں سوکھا پڑا تھا شاہزادی دل برداشتہ ہوکر اپنی کنیز کو اک زوردار طمانچہ دیتی ہیں اور کہتی ہیں کیا یہی تمہاری خوبصورت دنیا ہے شاہزادی کے اس غصّہ پر کنیز خاموش ہوجاتی ہیں اور پیچھے ہٹ جاتی ہیں پھر شاہزادی دو نوکروں کو مقرر کرتی ہیں اور حکم دیتی ہیں ک پودوں کا اچھے سے خیال رکھیں
پھر شاہزادی محل واپس اکر یہ اعلان کرواتی ہیں کے محل میں سارے لوگوں کو بلوایا جاءے جب سارے لوگ جمع ہوگےء تو شاہزادی نے ہر ایک سے سوال کیا میں تو محل کے اندر رہتی تھی مجھے تو معلوم ہی نہی تھا کے باہر لے ایسے حالات ہیں تم لوگوں نے مجھے کیوں نہی بتایا اگر آج میں باہر نہ جاتی تو مجھے معلوم نہ ہوتا اس پر محل میں سارے لوگ چپ ہوگءے پر ایک شخص نے جواب دیا شاہزادی ہم سب جانتے تھے ک باہر کا کیا حال ہے مگر ہم چاہتے تھے ک آپ خود دیکھیں
شاہزادی نے کہا تم لوگ میری رعایا ہو تمہارا خیال رکھنا میری زمہ داری ہے مگر جو محل کےباہر رہتے ہیں جو غریب ہیں اور جو جانور بول نہی سکتے جن پیڑوں کی زبان نہی ہوتی انکا خیال اگر ہم نہی رکھینگے تو کون رکھینگے اگر اج ان کا یہ حال ہے تو کل ہمارا بھی یہی حال ہوسکتا ہے اگر ہم ایک دوسرے کا احساس نہ کرینگے تو.
پھر شاہزادی نے ہر ایک کو یہ احساس دلایا
ک صرف اپنی ہی دنیا خوبصورت بنانے سے کچھ فائدہ نہں اگر باہر کی دنیا خوبصورت نہ ہو تو اس لئے اپنے ساتھ ساتھ سب کا خیال رکھیں اور اپنے ساتھ ساتھ سبکی زندگی خوبصورت بنانے کی کوشیش کریں…

        رفعت کنیز

حیدر آباد
ّ

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ کی مختصر سوانح حیات.. پیشکش_تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و خلیفہ ارشد ملت مفتی عبدالرشیدامجدی اشرفی دیناجپوری خادم… سنی حنفی دارالافتاءزیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مقیم حال حیدرآبادرابطہ نمبر7030 786 828rashidamjadi00@gamil.com


آپ کا نام ’’احمد‘‘
لقب ’’بدرالدین‘‘
کنیت ’’ابوالبرکات‘‘
اور عرف امام ربانی ہے، آپ حنفی تھے۔ آپ کا طریقہ مجددیہ جامع کمالات جمیع طریق قادریہ ، سہروردیہ ، کبرویہ ، قلندریہ ، مداریہ، نقشبندیہ، چشتیہ ، نظامیہ اور صابریہ ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ جو ایک ممتاز عالم دین و صوفی کامل تھے آپ کا نسب عالی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے جملہ بزرگ چرخ ولایت وعرفان کے آفتاب برج ہدایت وایمان کے ماہتاب تھے۔ شیخ احمدفاروقی سرہندی مجددالف ثانی علیہ الرحمہ کی ولادت با سعادت 14 شوال بروز جمعہ 971؍ہجری بمطابق 26؍مئی 1564؍کو پنجاب کے ایک مقام سرہند میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور پھر حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر بیعت کی اس کے بعد مجدد الف ثانی دعوت دین میں مصروف ہو گئے مجدد الف ثانی نے اپنی تمام عمر احیائے دین میں صرف کی
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯﺣﺎﻻﺕ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮐﻦ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ تحریر فرماتے ہیں : ﻏﻮﺙ ﺍﻟﻮﺍﺻﻠﯿﻦ ، ﻗﻄﺐﺍﻟﻌﺎﺭﻓﯿﻦ، ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻤﺪﺍﻧﯽ ،ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ،ﻣﺠﺪﺩﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽﺍﻣﺎﻡ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯼﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺁﭖ ﻧﺴﺒﺘًﺎ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﯿﮟ ۔
حضرت ﺳﯿﺪﻧﺎﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﻞ ﺁﺑﺎﺀ
ﻭﺍﺟﺪﺍﺩ،ﺻﻠﺤﺎﺀ ﻭﻋﻠﻤﺎﺀ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺎﻣﺎﺕ،ﻣﺘﺮﺟﻢ،ﺹ 131: ،ﺗﺬﮐﺮۂﻣﺸﺎﺋﺦﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ،ﺹ 252
شیخ عبدالاحد کی ﺍﯾﮏ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﻮﺍﺏ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺳﮯ
ﻗﺒﻞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﻗﺪﻭۃ ﺍﻟﻌﺎﺭﻓﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪ ﺍﻻﺣﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ،ﺧﻨﺰﯾﺮ،ﺑﻨﺪﺭ ﺍﻭﺭﺭﯾﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻮﺭ ﻧﮑﻼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﻭﺷﻦ ﻭﻣﻨﻮﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺟﻼﮐﺮ ﺧﺎﮎ ﮐﺮﺩﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﻣﯿﮞﺎﯾﮏ
ﺗﺨﺖ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺍ،ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﻣﺴﻨﺪ ﻧﺸﯿﮟ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﺎﺍﺩﺏ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ،ﺯﻧﺪﯾﻘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺫﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ :
ﻭَﻗُﻞْ ﺟَﺂﺉَ ﺍﻟْﺤَﻖُّ ﻭَﺯَﮬَﻖَ ﺍﻟْﺒَﺎﻃِﻞُ ، ﺍِﻥَّ ﺍﻟْﺒَﺎﻃِﻞَ ﮐَﺎﻥَ ﺯَﮬُﻮْﻗًﺎ
ﺣﻖ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﭧ ﮔﯿﺎ ،ﺑﯿﺸﮏ ﺑﺎﻃﻞ ﻣﭩﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﯽﮨﮯ۔
ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻻﺣﺪ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﯿﺘﮭﻠﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ
ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺻﻒ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯﯼ ﺷﺎﻥﮨﻮﮔﯽ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﺳﮯﺍﻟﺤﺎﺩ ﻭﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦﻣﺤﻤﺪﯼﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻭﻍ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮔﺎ
ﺗﺬﮐﺮۂ ﻣﺸﺎئخ نقشبندیہ’ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻣﺠﺪﺩﯾﮧ،ﺹ 16
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ 14 ﺷﻮﺍﻝ ﺍﻟﻤﮑﺮﻡ،ﺷﺐ ﺟﻤﻌﮧ، 971 ﮪ ﺍﺱﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﻮﻟﺪ ﮨﻮﺋﮯ
ﺑﯿﻌﺖ ﻭﺧﻼﻓﺖ
ﺟﺐ 1007 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﻣﺎﺟﺪﮐﺎﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﭼﮑﺎﺗﻮﺁﭖ
1008 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺣﺞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ،ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﮨﻠﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ،ﺩﮨﻠﯽ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﻑ ﻣﻼﻗﺎﺕﺣﺎﺻﻞ ﮐﺌﮯ،ﺣﻀﺮﺕ ﺁﭖ ﮐﻮﻧﮩﺎﯾﺖ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﻭﺗﮑﺮﯾﻢ ﺳﮯ
ﻟﺌﮯ، ﺩﻭﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮﺩﺍﻋﯿﮧ ﺑﯿﻌﺖ ﭘﯿﺪﺍﮨﻮﺍ،ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺧﻼﻑ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﻐﯿﺮﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ، ﺁﭖ ﮐﻮﺳﻠﺴﻠﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻓﺮﻣﺎﮐﺮﺍﭘﻨﺎﮔﺬﺷﺘﮧ ﺧﻮﺍﺏ
ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﮨﻮﺋﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮕﯽ ﺍﻣﮑﻨﮕﯽ
ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻄﺐ
ﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﻓﯿﺾ ﭘﺎﺋﮯﮔﺎ،ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺁﺛﺎﺭﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻢ ﮨﯽ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻗﻄﺐ ﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ۔ﭘﮭﺮﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻃﺮﯾﻘﮧ
ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﮯ ﺭﯾﺎﺿﺎﺕ ﻭﻣﺠﺎﮨﺪﺍﺕ ،ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻭﺍﺫﮐﺎﺭ
ﺍﻭﺭﻣﺮﺍﻗﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﺘﻐﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﺧﺪﺍﮐﯽ ﺷﺎﻥ ! ﺩﻭﻣﮩﯿﻨﮯﺍﻭﺭﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻣﯿﮟﻋﻠﻮﻣِﻠﺪﻧﯿﮧ ،ﻣﻌﺎﺭِﻑ ﯾﻘﯿﻨﯿﮧ ،ﺍﺳﺮﺍﺭِﻭﻻﯾﺖ،ﻣﻘﺎﻣﺎﺕِ ﺳَﻨِﯿَّﮧْ،ﺍﻧﻮﺍﺭُﺕﺎﺿﻮﯿﻓِ ﻭﺑﺮﮐﺎﺕِ ﺍﻟٰﮩﯿﮧﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻣﮉﮮ ﭼﻠﮯ ﺁﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻘﻠﯿﮟ ﺩﻧﮓ ﺗﮭﯿﮟ :
ﺫٰﻟِﮏَ ﻓَﻀْﻞُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﯾُﺆْﺗِﯿْﮧِ ﻣَﻦْ ﯾَّﺸَﺎﺀ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﻀﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮﭼﺎﮨﺘﺎﮨﮯ ﺩﯾﺘﺎﮨﮯ۔
ﭘﮭﺮﺍﺟﺎﺯﺕ ﻭﺧﻼﻓﺖ ﺳﮯ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯﮨﻮﮐﺮﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﻣﯿﮟ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ، ﺩﻭﺭﺩﻭﺭﺳﮯ ﻋﻄﺸﺎﻥِ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺁﮐﺮﻓﯿﺾ ﯾﺎﺏ
ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ، ﮔﻮﺁﭖ ﭼﺸﺘﯿﮧ ﻭﻗﺎﺩﺭﯾﮧ ﻭﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﻞ ﻧﺴﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻊ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﮐﯽ
ﺗﺮﻭﯾﺞ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ،ﻏﺮﺽ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﺣﺎﻟﺖ ﺍﺱ ﻣﻘﻮﻟﮧ ﮐﮯ ﻣﺼﺪﺍﻕ ﮨﮯ :
ﻣﺆﻣﻦِ ﻣﺘﻘﯽ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﻮﭼﺎﮨﺎﮐﺮﺗﺎﺍﻭﺭﺍﭖﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ
ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻟﺌﮯ ﺭﮨﺘﺎﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺟﺮﺷﻘﯽ، ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﺍﺯﻟﯽ
ﮨﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﻭﻋﺪﺍﻭﺕ ﺭﮐﮭﺘﺎﮨﮯ ۔
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﺮ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻦِﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺮﺍﻓﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻋﻈﻤﺖ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ؛ﺟﻮ ﻣﻨﺸﺎٔﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﻭﻣﺮﺿﯽٔ ﺭﺳﺎﻟﺖ
ﭘﻨﺎﮨﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﯾﻦِ ﻣﺘﯿﻦ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺭ ﺁﺋﯽ ﺧﺮﺍﺑﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺯﺍﻟﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺻﻼﺡﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ
ﺳﻨﻦﺍﺑﻮﺩﺍﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ :
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯﮨﯿﮟ ، ﺣﻀﺮﺕ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺱ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، شریف
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﺮﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻔﻮﺱ ﻗﺪﺳﯿﮧ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺣﮑﺎﻡِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦِ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺳﺒﺎﮞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻋﻈﻤﺖ
ﺷﺨﺼﯿﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ
ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ
ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽﺁﻣﺪﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻣُﺴَﻠَّﻤﮧ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐو ﻣﺎﮐﺎﻥ ،ﻭﻣﺎﯾﮑﻮﻥ ‘‘ﯾﻌﻨﯽﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﮔﺎ ‘ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﻭﮞﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻄﺎﮐﺮﺩﮦ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﺮﺍﻡ ﻭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻋﻈﺎﻡ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﮐﯽ ﻭﺳﺎﻃﺖ ﺳﮯ ﺍﻣﺖ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﻣﯿﻦ
ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﻭﮨﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﯽ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ
ﭼﻨﺎبچہ ﺟﻤﻊ ﺍﻟﺠﻮﺍﻣﻊ،ﺣﻠﯿۃ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ، ﺍﻭﺭﮐﻨﺰﺍﻟﻌﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ :ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﯾﺰﯾﺪ ﺑﻦ ﺟﺎﺑﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﮨﻮﮔﺎ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺧﺎﻟﻖ ﺳﮯ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﮩﺎﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻋﺖ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭﺍﻓﺮﺍﺩ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔
ﺟﻤﻊ ﺍﻟﺠﻮﺍﻣﻊ۔ﺣﻠﯿۃ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀجلد دوم ﮐﻨﺰﺍﻟﻌﻤﺎﻝ
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭحمۃﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩِ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ،ﺍﻣﺖ ﮐﮯﺍﮐﺎﺑﺮ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺍﻕﻗﺮﺍﺭﺩﯾﺎ،ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﺍﻟﺬﯼ ﺟﻌﻠﻨﯽ ﺻﻠۃ۔ﺍﻟﺦ۔…..ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﺗﻤﺎﻡ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺱ ﺧﺪﺍﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯﺩﻭﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ( ﺻﻠﮧ ) ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺻﻠﺢ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ،ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﻭﺳﻼﻡ ﮨﻮﮨﻤﺎﺭﮮﺁﻗﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﺟﻮﺳﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻭﻣﻼﺋﮑﮧ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺩ ﻭﺳﻼﻡ ﮨﻮ۔
ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ،ﺩﻓﺘﺮﺩﻭم
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺟﻦﺩﻭﺳﻤﻨﺪﻭﺭﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ،ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮔﺮﻭﮨﻮں ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﯿﺎں ﻣﺮﺍﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﺗﺬﮐﺮۂ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ_
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﻭﺭﻭﺣﺎﻧﯽﻣﻘﺎﻡ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽﻣﻘﺎﻡ ﻭﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎﺟﺎﺳﮑﺘﺎﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﻣﺮﺷﺪﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ
ﻣﺤﻤﺪﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﻟﻠﮧﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’: ﺷﯿﺦ
اﺣﻤﺪ ﻭﮦ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﺳﺘﺎﺭﮮﮔﻢ ﮨﯿﮟ ‘‘۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ
ﺑﺎﮐﻤﺎﻝ ﮨﺴﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻓﯿﺾ ﺳﺎﺭﮮ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟﭘﮭﯿﻼﮨﻮﺍﮨﮯ،ﺁﭖ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺭﺑﺎﻧﯿﻦ ﮐﮯ ﭘﯿﺸﻮﺍﺑﮭﯽﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﺍﺭﺑﺎﺏ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﮐﮯ ﻣﻘﺘﺪﺍﺀ ﺑﮭﯽ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺩﯾﻦ
ﺍﻭﺭﺍﺣﯿﺎﺀ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﺎ،ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮﻓﺎﺋﺰ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺟﻼﻟﺖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧﺗﻔﺴﯿﺮﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﮐﻮ- ﺟﻮﺍﯾﮏ ﻧﺎﺩﺭﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺣﺮﻭﻑ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ
ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ – ﺩﺷﻮﺍﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭﻭﮦ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ، ﺍﭼﺎﻧﮏ
ﻭﮨﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﻠﻮﮦ ﺍﻓﺮﻭﺯ
ﮨﻮﺋﮯ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ پرﯾﺸﺎﻥ ہوں کہ ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﮯ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮐﻮﺑﯿﺎﻥﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻗﻠﻢ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭﻓﯽﺍﻟﺒﺪﯾﮧ ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻧﻘﻂ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻟﮑﮫ ﮐﺮﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﮐﮯﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﺍﺑﻮﺍﻟﻔﻀﻞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺗﺒﺤﺮﻋﻠﻤﯽ ﮐﻮﺩﯾﮑﮫﮐﺮﻣﺤﻮﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺎﻣﺎﺕ،ﺹ 138
امام ربانی مجدد الف ثانی کے حق میں غوث اعظم کی بشارت
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺴﻼﺳﻞ ﺑﺰﺭﮒ ﮨﯿﮟ،ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻏﻮﺙ ﺍﻋﻈﻢ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ،ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻏﻮﺙﺍﻋﻈﻢ رحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ
ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺗﮭﮯ،ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ
ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻮﺭﻇﺎﮨﺮﮨﻮﺍ؛ﺟﺲ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍﻋﺎﻟﻢ ﺭﻭﺷﻦﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪﺟﺐ ﺑﮯﺩﯾﻨﯽ ﺍﻭﺭﺑﮕﺎﮌﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻣﺖ
ﭘﯿﺪﺍﮨﻮﮔﺎ؛ﺟﻮﺍﻟﺤﺎﺩﻭﺑﮯ ﺩﯾﻨﯽ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺁﻭﺍﺯﺍﭨﮭﺎﺋﮯﮔﺎﺍﻭﺭﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ،ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺮﻗۂﺧﺎﺹ ﮐﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﻻﻣﺎﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﯿﺪﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﻮﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﻭﮦ ﺧﺮﻗﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮞ ﻤﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﺎﺭﮨﺎ؛ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏﮐﮧﺣﻀﺮﺕﺳﯿﺪﺷﺎﮦﺳﮑﻨﺪﺭقادری ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﻭﮦﺧﺮﻗۂ ﻧﻌﻤﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﮐﻮﻋﻄﺎﮐﯽ۔
ﺭﻭضۃ ﻗﯿﻮﻣﯿﮧ۔ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻣﺠﺪﺩﯾﮧ،ﺹ 13
ﺗﺬﮐﺮﮦٔ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ ’’ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﻢ ﻃﺮﺍﺯ ﮨﯿﮟ : ﺗﺮﺟﻤﮧ :ﮐﺘﺎﺏﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺎئے
ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﺯﺑﺪۃ ﺍﻟﻤﻘﺮﺑﯿﻦ ،ﻗﻄﺐﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ،ﻣﻈﮩﺮ ﺗﺠﻠﯿﺎﺕ ﺍﻟﮩٰﯽ ،ﻣﺼﺪﺭ ﺑﺮﮐﺎﺕ ﻻﻣﺘﻨﺎﮨﯽ،ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ، ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﻻﺕ ﺗﺤﺮﯾﺮﻧﮧ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔
ﻣﺠﮫ ﻣﺼﻨﻒ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻧﺴﺒﺖ ﺣﺎﺻﻞﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﻣﻘﺪﻡ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻣﻠﯿﻦ ﻭﺳﺎﺑﻖ ﺗﺮﯾﻦﻭﺍﺻﻠﯿﻦ ﺍﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﻝ ﻭﺁﺧﺮ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ،ﻣﯿﺮﺍ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉﮨﻮﻧﺎ ﺛﻘﮧ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ
ﮐﺘﺎﺏ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ – (ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﻻﺧﯿﺎﺭ،ﺹ728 )
اولاد و امجاد
مجدد الف ثانی کے سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:
صاحبزادگان ترميم
1 خواجہ محمد صادق
2 خواجہ محمد سعید
3 خواجہ محمد معصوم
4 خواجہ محمد فرخ
5 خواجہ محمد عیسیٰ
6 خواجہ محمد اشرف
7 خواجہ محمد یحیی
صاحبزادیاں ترميم
1 بی بی رقیہ بانو
2 بی بی خدیجہ بانو
3 بی بی ام کلثوم
خلفائے امام ربانی مجدد الف ثانی
بے شمار سالکین نے شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل کیا۔ منقول ہے کہ آپ کے مریدوں کی تعداد نو لاکھ کے قریب تھی اور تقریبا پانچ ہزارخوش نصیب حضرات کو آپ سے اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ چند خلفا کے نام درج ذیل ہیں۔
1 الحاج خضر خان افغان بہلول پوری
2 الحاج محمد فرگنی
3 حاجی حسین
4 حافظ محمود لاہوری
5 خواجہ ہاشم برہانپوری
6 خواجہ محمد سعید متوفی 1070
7 خواجہ شاه محمد یحیی
متوفی 1096ھ
8 خواجہ محمد صادق
9 خواجہ محمد صدیق کشمی دہلوی
10 خواجہ عبدالله خورد
11 خواجہ عبیداللہ کلاں
12 خواجہ محمد معصوم
13 خواجہ محمد فرخ
14 سید باقر سارنگ پوری
امام ربانی مجدد الف ثانی کی تصنیفات
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمدفاروقی سرہندی علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں متعددکتابیں لکھیں جو پائیدار علمی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں اثبات النبوۃ(عربی) ، رد روافض (فارسی)، رسالہ تہلیلیہ (عربی)، شرح رباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ،رسالہ حالات خواجگاں نقشبند، معارف لدنیہ، مبداومعاد، مکاشفات عینیہ،آداب المریدین مشہور ہیں لیکن جو شہرت’’مکتوبات امام ربانی‘‘ کوحاصل ہوئی اور جو فیض ان مکتوبات سے اہل علم وخواص نے اٹھایا اس کی کچھ بات ہی اور ہے۔
ﻭﺻﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﺭﻭﺯﺳﮧ ﺷﻨﺒﮧ28 ﺻﻔﺮ 1034 ﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯿﭧ ﮐﺮﺩﺳﺖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺍﭘﻨﮯﺭﺧﺴﺎﺭﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ
ﺍﺭﺷﺎﺩﻓﺮﻣﺎﯾﺎﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ
ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﮐﺌﮯ ﻣﮕﺮﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺟﻮﺩﻭﺭﮐﻌﺖ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺁﺝ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﮯ ،ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺍﻭﺭﺍﺷﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﻣﺒﺎﺭﮎﺍﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﯿﻦ ﮐﻮﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ،ﻟﻔﻆ ﺻﻠﻮۃ ﭘﺮﮨﯽ ﺧﺎﺗﻤﮧ
ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺍﻭﺭﯾﮩﯽ ﺻﻠﻮٰﺕ ﻧﺴﺒﺖ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽﮨﮯ ۔
ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺭﺣﻠﺖ ’’ ﺭَﻓِﯿﻊُ ﺍﻟﻤَﺮَﺍﺗِﺐْ ‘‘ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﮐﻮﻧﻮﺭ سے منور ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﮯﺳِﺮْﮐﻮﭘﺎﮎ
ﮐﺮﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﺩﻋﺎﺀ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻄﻔﯿﻞ ﺣﺒﯿﺐ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﻤﯿﮟ ﻋﻘﺎﺋﺪﺣﻘﮧ ﭘﺮﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﮯﺍﻭﺭﺣﻀﺮﺕاﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﻭﮨﺪﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎﺋﮯ،ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻓﯿﻮﺽ ﻭﺑﺮﮐﺎﺕ ﺳﮯ ﮨﻢ
ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺎﻻﻣﺎﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔
آمین ثم آمین یارب العالمین بجائے سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم

تازہ کاوش.. نعتِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم… از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا شریف

چاند تارے ہیں ہمارے مخطوط
نعت پارے ہیں ہمارے مخطوط

پھر ہیں دندانِ رسالت عنوان
پھرستارے ہیں ہمارے مخطوط

نعت کی فکر میں دریا ، الفاظ
اور دھارے ہیں ہمارے مخطوط

حسنِ تقدیس، ستارے، خوشبو
استعارے ہیں ہمارے مخطوط

کہ لیا مشک تو پھر کچھ نہ کہا
بس اشارے ہیں ہمارے مخطوط

صدَفِ دل ہیں نبی کی الفت
گوشوارے ہیں ہمارے مخطوط

جن کی تسوید ہے تبییضِ وجوہ
وہ شمارے ہیں ہمارے مخطوط

نذر میں ان کی رضا ہو تو کہیں
کیسے پیارے ہیں ہمارے مخطوط

نقطۂ فکر فقط تم ہو شہا!
بس تمہارے ہیں ہمارے مخطوط

اب ہیں میزانِ عمل پر نعتیں
اب ہمارے ہیں ہمارے مخطوط

نعت ہوتی ہے عطا ، اس کے کلیم
کچھ نظارے ہیں ہمارے مخطوط

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف

کثرت دلائل اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ.. از: ڈاکٹر غلام مرسلین رضوی.ناگپور (انڈیا)


امام اہل سنّت قاطع بدعات و منکرات فقیہ اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ۔آپ کی عبقری شخصیت اور غیر معمولی شہرت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ساری دُنیا میں آپ کے علوم و فنون پرتحقیق و ریسرچ کر کے ڈاکٹریٹ (Ph.D.) اور ایم ۔ فل (M.Phil.) کی ڈگریاں حاصل کی جارہی ہیں ۔ بلا مبالغہ امام اہل سنّت نے تقریباً تمام علوم و فنون پر تصانیف بہ طور یادگار چھوڑی ہیں ۔ کچھ علوم و فنون کتابی شکل میں محفوظ ہو گئے ۔ کچھ علوم و فنون شائع نہ ہو سکے اور کچھ علوم و فنون اپنوں کی بے اعتنائی اور لاپرواہی سے دیمک کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے ۔ امام اہل سنّت نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ، فقہ پر جو کام کیا ہے اس کا لوہا مخالفین نے بھی مانا ہے ، اس کے علاوہ درجنوں علوم و فنون پر آپ کی بیش تر تصانیف یادگار ہیں ۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں اعلیٰ حضرت کو ایک ایسا فن عطا کیا تھا جس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ فن ہے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے علماے متقدمین و متاخرین کی اتباع کرتے ہوئے اس کثرت سے حدیث و فقہ سے دلائل قائم کرنا کہ مخالفین کو اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے۔ یوں معلوم ہوتا کہ امام اہل سنّت صرف کاغذ پر لکھے ہوئے سوالات کو مد نظر رکھ کر جواب نہیں دیتے تھے بلکہ سائل کے دل کی گہرائی کو سمجھ کر جواب دیتے کہ سائل کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور اس کے ذہن میںکیا کیا اشکال وارد ہیں۔ اور جواب دیتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھتے کہ جوابات پر کیا کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں ، ان کا بھی شافی و وافی جواب عنایت فرماتے ۔ امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے یہ فن روحانی طور پر حاصل کیا تھا ۔ اسے ہی علم لدنی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
بے مثل محدث ، اعلیٰ پایہ کے فقیہ ، استاذ المجتہدین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق حضرت امام حافظ الدین کردری صاحب فتاویٰ بزازیہ(متوفی ۸۲۷ھ)علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’مقامات امام اعظم ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’ امام اعظم ابو حنیفہ ولایت کی نظر سے سائل کے قلب پر روشنی ڈالتے کہ یہ کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور پھر اس کو اطمینان بخش جواب عنایت فرماتے ۔‘‘ امام اہل سنّت کی تصانیف خصوصاً فتاویٰ رضویہ کے مطالعہ سے یہ بات آفتاب کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ آپ مخالفین کو دنداں شکن جواب دینے کے لیے کس طرح دلائل کے انبار لگاتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کی چند مثالیںقارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
(۱) علم غیب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جب سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم شریف کو ثابت کرنے کے لیے ترمذی شریف کی یہ حدیث بیان کی کہ ’’ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : اللہ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اس کی ٹھنڈک مَیں نے اپنے سینے میں محسوس کی …پس جان لیا مَیں نے وہ سب کچھ جو زمین و آسمان میں تھا …‘‘(سبحان اللہ )تو مخالفین کے خیمہ میں انتشار برپا ہو گیا اور مخالفین اس حدیث کی طرح طرح سے تاویلیں کرنے لگے اور اعلیٰ حضرت سے مزید حوالے طلب کرنے لگے ، امام اہل سنّت مجد د اسلام اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ا س کی سند یوں بیان کرتے ہیں :
l رواہ امام الائمۃ ابو حنیفۃ والام احمد و عبدالرزاق فی مصنفہ والترمذی و الطبرانی عن ابن عباس۔
l و احمد و الطبرانی و ابن مردویہ عن معاذ بن جبل۔
l وابن خزیمۃ والدارمی والبغوی وابن السکن وابونعیم و ابن بسطۃ عن عبدالرحمٰن بن عایش و الطبرانی عنہ عن صحابی۔
l والبزاز عن ابن عمر و عن ثوبان۔
l والطبرانی عن ابی امامۃ۔
l وابن قانع عن ابی عبیدۃ بن الجراح۔
l والدار قطنی و ابوبکر النیسا پوری فی الزیادات عن انس۔
l وابو الفرج تعلیقا عن ابی ہریرۃ۔
l وابن ابی شیبۃ مرسلا عن عبدالرحمٰن بن سابط۔ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم )۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے طرق کی تفصیلات اور کلمات کا اختلاف اپنی بابرکت کتاب سلطنۃ المصطفیٰ فی ملکوت کل الوریٰ میں بیان کیا ہے ۔ قلم برداشتہ کسی حدیث کے اتنے مآخذ کا بیان کردینا معمولی بات نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۱، ص ۱۰ )
(۲) سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا کیسا ہے ؟
۱۳۱۳ ھ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے سوال کیاگیا کہ سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھ لینا جائزہے یا نہیں ؟ چوں کہ غیر مقلدین اس کے قائل اور عامل ہیں نیز میاں نذیر حسین صاحب (دہلوی ) نے اپنی کتاب ’’معیار حق ‘‘ میں بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کی اور حنفی مسلک کو احادیث کے برخلاف قرار دیا تھا ، لہٰذاا علیٰ حضرت محدث بریلوی نے محدث کہلانے والے میاں صاحب کے دلائل کا جواب دینا ضروری سمجھا اور ایسا عالمانہ ومجددانہ رد کیا کہ میاں صاحب اور ان کے تلامذہ سے آج تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ ان روشن وواضح دلائل کا جواب دے ۔ فتاویٰ رضویہ جلد دوم میں ص ۲۰۷؍ سے ص ۳۰۵ ؍ تک ۹۸ ؍صفحات پر مشتمل اور فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۵؍ میںص ۱۵۹ سے ص ۳۱۳؍ تک ۱۵۴؍ صفحات پر مشتمل یہ مبارک فتویٰ ’’ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین ‘‘کے نام سے موجود ہے جو امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی حدیث دانی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ امام احمد رضا نے میاں نذیر حسین دہلوی کے اس فتویٰ پر سخت تنقید کی اور ان کے ایک ایک شبہے کا جواب اتنے مضبوط حوالوں سے دیا ہے کہ مخالفین حدیث دانی کے دعوے کے باوجود آج تک اس کا جواب دینے کی ہمت نہ کر سکے ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں :
اللہ عزو جل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے نماز کی صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت، ظہر ین عرفہ و عشائین مزدلفہ کے سوادو نمازوں کا قصداً ایک وقت میں جمع کرنا سفراً حضراً ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔ قرآن عظیم و احادیث صحاح سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب موافق الراے بالوحی والکتاب امیر المومنین عمر فاروق اعظم و حضرت سیّدنا سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ و حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود من اجل فقہاء الصحابۃ البررۃ و حضرت سیّدنا و ابن سیّدنا عبداللہ بن عمر فاروق و حضرت سیّد تناامّ المو منین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم صحابۂ کرام و خلیفہ راشد امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز و امام سالم بن عبداللہ بن عمر و امام علقمہ بن قیس و امام اسود بن یزید نخعی و امام حسن بصری و امام ابن سیرین و امام ابراہیم نخعی و امام مکحول شامی و امام جابر بن زید و امام عمرو بن دینار و امام حماد بن ابی سلیمان و امام اجل ابو حنیفہ اجلۂ ائمہ تابعین و امام سفیان ثوری و امام لیث بن سعد و امام قاضی الشرق و الغرب ابو یوسف و امام ابو عبداللہ محمد الشیبانی و امام زفر بن الہذیل و امام حسن بن زیاد و امام دار الہجرۃ عالم المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین و امام عبدالرحمن بن قاسم عتقی تلمیذ امام مالک و امام عیسیٰ بن ابان و امام ابو جعفر احمد بن سلامہ مصری و غیرہم ائمۂ دین کا ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۵، ص ۱۶۰ )
یہاں تو امام اہل سنّت علیہ الرحمہ نے صحابۂ کرام ، تابعین و تبع تابعین ، اکابر تبع تابعین اور ائمۂ دین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول و فعل کو بیان کیا ہے ۔ تخریج حدیث کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
حضور پر نور سیّد یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلاً محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمۂ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ملاّ جی تو انکارِ آفتاب کے عادی ، بکمال شوخ چشمی بے نقط سُنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ آں حضرت جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے بہت اچھا ذرا نگاہ رو بہ رو۔
حدیث : جلیل وعظیم حدیث سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ اس جناب سے مشہور و مستفیض ہے جسے امام بخاری و ابودائود و نسائی نے اپنی صحاح اور امام عیسیٰ بن ابان نے کتاب الحجج علیٰ اہلِ مدینہ اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور ذہلی نے زہریات اور اسمٰعیلی نے مستخرج صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا :
فالبخاری والاسمعیلی والذہلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزہری ، والنسائی من طریقی یزید بن زریع و النضربن شمیل عن کثیر بن قارونداکلاہماعن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتہم عن العطاف، وابوداؤد عن فضیل بن غزوان، وعن عبداﷲ بن العلاء، وایضاھو عن عیسٰی والنسائی عن الولیدوالطحاوی عن بشر بن بکر، ھؤلاء الثلثۃ عن ابن جابر، والطحاوی عن اسامۃ بن زید، خمستہم اعنی العطاف وفضیلا و ابن العلاء و جابر واسامۃ عن نافع ۔ و ابوداؤد عن عبداﷲ بن واقد۔ والطحاوی عن اسمعیل بن عبدالرحمٰن۔ اربعتھم عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما۔
بخاری ،اسمٰعیلی او رذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے ، انھوں نے زہری سے روایت کی ہے ۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے ۔ دونوں (زہری اورکثیر ) سالم سے راوی ہیں ۔ نسائی نے قتیبہ سے، طحاوی نے ابوعامرعقدی سے اور فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں ، اور ابودائود نے فضیل ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن علا سے روایت کی ہے اور ابودائود نے ہی عیسیٰ سے ، نسائی نے ولید سے ، طحاوی نے بشر ابن بکر سے ، یہ تینوں (عیسیٰ ، ولید ، بشر ) جابر سے روایت کرتے ہیں ۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے ۔ یہ پانچوں یعنی عطاف ، فضیل ، عبداللہ، جابر اور اسامہ نافع سے راوی ہیں ، نیز ابودائود عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اسمٰعیل ابن عبدالرحمن سے راوی ہیں ۔ چاروں (سالم ، نافع ، عبداللہ ابن واقد ، اسمٰعیل ) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے (ناقل ہیں ) (ت) (فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ۵ ، ص ۱۶۷ )
اللہ اکبر … علم و فن کا امام … اُمنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح دلائل پر دلائل قائم کرتاچلا جارہا ہے جس سے مخالفین و حاسدین پشیماں و پریشاںنظر آتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ نظریات کی دھجیاں بکھرتی چلی جارہی ہیں …امام اہل سنّت کاایک حوالہ اور ملاحظہ فرمایے … آگے چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
الحمدللہ جب کہ احادیث جمع صور ی کی صحت مہر نیم روز ماہ نیم ماہ کی طرح روشن ہو گئی تو اب جس قدر حدیثوں میں مطلق جمع بین الصلاتین وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر یا مغرب و عشا کو جمع فرمایا عصر و عشا سے ملا نے کو ظہر و مغرب میں تاخیر فرمائی وا مثال ذلک کسی میں مخالف کے لیے اصلاً حجت نہ رہی سب اسی جمع صوری پر محمول ہوں گی او ر استدلال مخالف احتمالِ موافق سے مطرود ومخذول مثل حدیث بخاری و مسلم ودارمی و نسائی و طحاوی و بیہقی بطریق سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم و مسلم و مالک و نسائی وطحاوی بطریق نافع :
عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما، کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یجمع بین المغرب والعشاء اذا جدبہ السیر ، وفی لفظ مسلم والنسائی من طریق سالم ، رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر فی السفریؤخر صلاۃ المغرب حتی یجمع بینھا وبین صلاۃ العشاء ۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب چلنے میں تیزی ہوتی تھی تو آپ مغرب و عشا کو جمع کرتے تھے اور مسلم کی ایک روایت اور نسائی کی بطریقہ سالم روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کے دوران چلنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کردیتے تھے کہ عشا کے ساتھ ملا لیتے تھے ۔ (ت)
یہ معنی مجمل بروایات سالم و نافع مستفیض ہیں ۔
فرواہ البخاری عن ابی الیمان ، والنسائی عن بقیۃ و عثمٰن، کلھم عن شعیب بن ابی حمزہ ۔ ومسلم عن ابن وھب عن یونس۔ والبخاری عن علی بن المدینی، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ وقتیبۃ بن سعید وابی بکربن ابی شیبۃ وعمر والناقد، والدارمی عن محمد بن یوسف، والنسائی عن محمد بن منصور، والطحاوی عن الحمانی، ثمانیتھم عن سفیٰن بن عیینۃ، ثلثتھم اعنی شعیبا ویونس وسفین عن الزہری عن سالم، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ، والنسائی عن قتیبۃ، والطحاوی عن ابن وھب، کلھم عن مالک، والنسائی بطریق عبدالرزاق ثنا معمر عن موسیٰ بن عقبۃ، والطحاوی عن لیث، والبیھقی فی الخلافیات من طریق یزید بن ھارون عن یحییٰ بن سعید، اربعتھم عن نافع ، کلاھما عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۔
چناں چہ بخاری ابوالیمان سے ، نسائی بقیہ اورعثمان سے ، یہ سب ( ابوالیمان ، بقیہ ، عثمان ) شعیب ابن ابی حمزہ سے روایت کرتے ہیں ۔ اور مسلم ، ابن وہب سے ، وہ یونس سے روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری ، علی ابن مدینی سے۔ اور مسلم ، یحییٰ ابن یحییٰ ، قتیبہ ابن سعید ، ابوبکر ابن ابی شیبہ اور عمر والناقد سے ۔ اور دارمی ، محمد ابن یوسف سے ، اور نسائی محمد ابن منصور سے ، اور طحاوی ، حمانی سے ۔ یہ آٹھوں ( یعنی علی ، یحییٰ ، قتیبہ ، ابوبکر ، عمرو ، ابن یوسف ، ابن منصور ،حمانی ) سفیان ابن عیینہ سے روایت کرتے ہیں ۔ پھر تینوں (سلسلوں کے تین آخری راوی ) یعنی شعیب ، یونس اور سفیان ، زہری کے واسطے سے ، سالم سے راوی ہیں ۔ اور مسلم یحییٰ ابن یحییٰ سے ۔ اور نسائی قتیبہ سے ۔ اور طحاوی ابن وہب سے ۔ یہ تینوں مالک سے روایت کرتے ہیں ۔ اور نسائی بطریقہ عبدالرزاق ، وہ معمر سے ، وہ موسیٰ ابن عقبہ سے روایت کرتے ہیں ۔اور طحاوی لیث سے روایت کرتے ہیں۔ اور بیہقی خلافیات میں بطریقہ یزید ابن ہارون ، یحییٰ ابن سعید سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ چاروں (آخری راوی یعنی مالک ، موسیٰ ، لیث ، یحییٰ ) نافع سے راوی ہیں ۔ (سالم اور نافع) دونوں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ (ت)
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۵، ص ۱۹۶۔۱۹۷)
جوتیاں پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
۴؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ ھ کو مارہرہ مطہرہ سے جناب چودھری محمد طیب صاحب نے ایک سوال ارسال کیا کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا کیسا ہے ۔ سوال کی نوعیت سے ہی سائل کے علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا مختصر مگر مدلل جواب عنایت فرمایا اس کی ایک جھلک مع سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
مسئلہ : جوتیوں سمیت نماز پڑھنا ہم سے آدم ابن ابی ایاس نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے کہاہم کو ابو سلمہ سعید بن یزید ازدی نے خبر دی کہا مَیں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جوتیاں پہنے پہنے نماز پڑھتے تھے ؟ انھو ں نے کہا :
حدثنا اٰدم ابن ابی ایاس قال انا ابو مسلمۃ سعید بن یزید الازدی قال سألت انس بن مالک اکان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصلی فی نعلیہ قال نعم (حاشیہ)
آدم ابن ابی ایاس بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو مسلمہ سعیدبن یزید الازدی نے بتایا کہ مَیں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نعلین میں نماز اد ا کی ہے ؟انھوں نے فرمایا ،ہاں (حاشیہ ) ۔ (ت)
ابن بطال نے کہا جب جوتے پاک ہوں تو اُن میں نما زپڑھنا جائز ہے ، مَیں کہتا ہوں مستحب ہے کیوں کہ ابودائود اور حاکم کی حدیث میں ہے کہ یہودیوں کا خلاف کرو ، وہ جوتوں اور موزوں میں نمازنہیں پڑھتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابو عمرو شیبانی کوئی نماز میں جوتا اتارے تو اُس کو مارتے تھے اور ابراہیم سے جو امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں ایسا ہی منقول ہے ۔ شوکانی نے کہا صحیح او رقوی مذہب یہی ہے کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا مستحب ہے اور جوتوں میں اگر نجاست ہو تو وہ زمین پر رگڑدینے سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ خواہ وہ کسی قسم کی نجاست ہو ، تریا خشک ، جرم والا یا بے جرم ۔
الجواب :
اللھم ھدایۃ الحق والصواب اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق ۔
(اے اللہ ! حق اور صواب کی ہدایت دے اقول: اور اللہ ہی توفیق دینے والا اور وہ ہے جو تحقیق کی منزل پر پہنچانے والا ۔ ت ) سخت اور تنگ پنجے کا جوتا جو سجدہ میں انگلیوں کا پیٹ زمین پر بچھانے اور اس پر اعتماد کرنے زور دینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کر نماز پڑھنی صرف کراہت و اساء ت درکنار مذہب مشہور و مفتی بہ کی رو سے راساً مفسد نماز ہے کہ جب پائوں کی انگلی پر اعتماد نہ ہو ا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی ، امام ابوبکر جصاص وامام کرخی و امام قدوری و امام برہان الدین صاحب ہدایہ وغیرہم اجلہ ائمہ نے اس کی تصریح فرمائی۔ محیط و خلاصہ و بزازیہ و کافی و فتح القدیر و سراج و کفایہ و مجتبیٰ و شرح المجمع للمصنف و منیہ و غنیہ شرح منیہ و فیض المولی الکریم و جوہرۂ نیرہ و نور الایضاح ومراقی الفلاح و در منتقی و در مختار و عالم گیر یہ و فتح المعین علامہ ابو السعود ازہری و حواشی علامہ نوح آفندی وغیرہا کتب معتمدہ میں اسی پر جزم فرمایا اسی پر فتویٰ ہے ۔ جامع الرموز میں قنیہ سے نقل کیا یہی صحیح ہے ، رد المحتار میں لکھا کتب مذہب میں یہی مشہور ہے ، در مختار میں ہے :
فیہ ( ای فی شرح الملتقی ) یفترض وضع اصابع القدم ولوواحدۃ نحوالقبلۃ والا لم تجزو الناس عنہ غافلون وشرط طہارۃ المکان وان یجد حجم الارض والناس عنہ غافلون اھ ملخصاً ۔
اس ( شراح الملتقی) میں ہے قدم کی انگلیوں کا زمین پر جانبِ قبلہ رکھنا فرض ہے خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ورنہ جائز نہیں اور لوگ اس سے غافل ہیں اور مکان کا پاک ہونا بھی شرط ہے اور حجم زمین کو پانا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں، اھ تلخیصاً ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۷، ص ۳۶۲ ۔ ۳۶۳)
(۴) قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ :
قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ، ستر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کرنا … یہ قول صحیح ہے یا غلط … َ اور اس کا شرعی حکم … ؟
۲۰؍ رجب المرجب ۱۳۱۶ھ میں جونا گڑھ سرکل مدا ر المہام سے جناب مولوی امیر الدین صاحب نے امام اہل سنّت علیہ الرحمہ سے ایک استفتا کیا ۔
مسئلہ : ایک واعظ برسر مجلس بیان کرتا ہے کہ جس شخص نے ایک وقت کی نماز قصداً ترک کی اس نے ستّر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کیا ، مستفتی خوب جانتا ہے کہ بے نمازی سے بُرا اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور شرع شریف میں اس کے لیے وعید بھی سخت آئی ہے مگر دریافت طلب یہ امر ہے کہ الفاظ مذکورہ کتاب و سنّت و اختلافِ ائمہ سے ثابت ہیں یا نہیں ، بر تقدیر ثبوت نہ ہونے کے قائل کی نسبت شریعت کا کیا حکم ہے ؟
الجواب :
معاذاللہ کسی وقت کی نما زقصداً ترک کرنا سخت کبیرہ شدیدہ و جریمۂ عظیمہ ہے جس پر سخت ہول ناک جاں گزا و عیدیں قرآنِ عظیم و احادیث صحیحہ میں وارد ، مگر بد مذہب اگرچہ کیسا ہی نمازی ہو، اللہ عزو جل کے نزدیک سنّی بے نماز سے بدرجہا برا ہے کہ فسقِ عقیدہ فسقِ عمل سے سخت ترہے اور صرف گناہانِ جوارح میں کلام کیجیے تو مسلمان کو عمداً ناحق قتل کرنا ترکِ نماز سے سخت تر ہے اس پر اگر احادیث میں حکم کفرہے اس پر خود قرآن عظیم میں حکم خلود فی النار ہے ۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی ۔ واعظ نے جو مضمون بیان کیا اس کے قریب قریب دربارۂ سود خوار احادیث مرفوعہ حضرت ابوہریرہ و حضرت اسود زہری خال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و حضرت براء بن عازب و حضرت عبداللہ بن سلام و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ابن ماجہ و ابن ابی الدنیا و ابن جریر و بیہقی و ابن مندہ وابو نعیم و طبرانی و حاکم وابن عساکر و بغوی و عبدالرزاق کے یہاں مروی وقد ذکرنا ھا بتخاریجھا فی کتاب البیوع من فتاوانا( اس کو ہم نے تمام تخریجوں کے ساتھ اپنے فتاویٰ کی کتاب البیوع میں بیان کیا ہے ۔ ت ) مگر ان میں سے کسی میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ، البتہ ایک حدیث صحیح میں حطیم کعبہ کا ذکر ہے کہ ظناً زمینِ کعبہ ہے نہ یقینا، اس میں ماں کا لفظ نہیں ۔ امام احمد وطبرانی عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بہ سند صحیح راوی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
درھم ربایا کلہ الرجل ، وھویعلم ، اشد عنداﷲ من ستۃ وثلثین زنیۃ فی الحطیم ۔
ایک درم سود کا کہ آدمی دانستہ کھالے اللہ تعالیٰ کے نزدیک حطیم کعبہ میں چھتیس بار زنا کرنے سے سخت تر ہے ۔ (م )
اور دربارۂ ترک نماز اگرچہ اس سے سخت تر مذمت ارشاد ہوئی یہاں تک کہ احادیث مرفوعہ حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت بریدہ اسلمی و حضرت عبادہ بن صامت و حضرت ثوبان و حضرت ابوہریرہ و حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت انس بن مالک و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ و حضرت عبداللہ بن عباس و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت ابودردا و غیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں احمد و مسلم و ابودائود و نسائی و ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم و طبرانی و محمد بن نصر مروزی و ہروی و بزاز وابو یعلی و ابوبکر بن ابی شیبہ و تاریخ بخاری و ابن عبدالبر وغیرہم کے یہاں ترک نماز پر صراحۃً حکم کفر و بے دینی مروی کما فصلہ الامام المنذری فی الترغیب (جیسا کہ امام منذری نے ترغیب میں مفصل بیان کیا ہے ۔ت ) مگر اس بارہ میں وہ الفاظ کہ واعظ نے ذکر کیے اصلاً نظر سے نہ گزرے ،واعظ سے سند مانگی جائے اگر سند معتبر پیش نہ کر سکے تو بے ثبوت ایسے ادعا جہل فاضح ہیں اور گناہ واضح والعیاذ باﷲ رب العٰلمین واﷲ سبحٰنہ و تعالٰی اعلم ۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۵ ، ص ۱۰۹ ۔ ۱۱۰)
نجدی پیشوائوں کے کفریات پر لٹکتی ہوئی ہندی تلواریں :
۲۲؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۱۲ھ میں مولانا مولوی محمد فضل المجید صاحب قادری نے امام اہل سنّت سے غیر مقلدین وہابیہ کے بارے میں ایک استفتاکیا جس میں وہابیوں کے کلمہ کفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی درخواست کی ،مع سوال اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ ملاحظہ فرمائیں :
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ وہابیہ غیر مقلدین جو تقلید ائمۂ اربعہ کو شرک کہتے ہیں اور جس مسلمان کو مقلد دیکھیں مشرک بتاتے ہیں ، دہلی والے اسمٰعیل مصنفِ تقویۃ الایمان و صراط مستقیم وایضاح الحق و یک روزی و تنویر العینین کو اپنا پیشوا بتاتے اور اس کے اقوال کو حق و ہدایت جانتے او ر اس کے مطابق اعتقاد رکھتے ہیں ہمارے فقہاے کرام پیشوایانِ مذہب کے نزدیک ان پر اور ان کے پیشوا پر کلمۂ کفر لازم ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا …
( سائل کے سوال کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ چند سطر لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ۔)
کتابیں جن سے ہم نے ان کے اقوال کا کلماتِ کفر ہونا ثابت کیا یہ ہیں :
(۱) قرآن عظیم (۲) صحیح بخاری شریف (۳) صحیح مسلم شریف (۴) فقہ اکبر تصنیف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵) در مختار (۶) عالم گیری (۷) فتاویٰ قاضی خان (۸) بحرالرائق (۹) نہرا لفائق (۱۰) اشباہ والنظائر (۱۱) جامع الرموز (۱۲) برجندی شرح نقایہ (۱۳) مجمع الانہر (۱۴ ) شرح وہبانیہ (۱۵) رد المحتار (۱۶) شرح الدرروالغرر للعلامۃ اسمٰعیل النابلسی (۱۷) حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمد یہ للعلامہ عبدالغنی النابلسی (۱۸) نوازل امام فقیہ ابو اللیث (۱۹) فتاویٰ ذخیرہ امام برہان محمود (۲۰) فتاویٰ خلاصہ (۲۱) فتاویٰ بزازیہ (۲۲) فتاویٰ تاتار خانیہ (۲۳) مجمع الفتاویٰ (۲۴) معین الحکام علامہ طرابلسی (۲۵) فصول عمادی (۲۶)خزانۃ المفتیین (۲۷) جامع الفصولین (۲۸) جواہر اخلاطی (۲۹) تکملۂ لسان الحکام (۳۰) الاعلام بقواطع الاسلام للامام ابن حجر المکی الشافعی (۳۱)شفا شریف للامام القاضی عیاض المالکی (۳۲) شرح الشفا للملاّعلی قاری (۳۳) نسیم الریاض للعلامۃ شہاب الدین الخفاجی (۳۴) شرح المواہب للعلامۃ الزرقانی المالکی (۳۵) شرح فقہ اکبر للعلامۃ القاری (۳۶) شرح العقائد العضدیہ للمحقق الدوانی الشافعی (۳۷) الدرر السنیہ للعلامۃ السید الشریف مولانا احمد زینی دحلان المکی الشافعی (۳۸) الدرالثمین للشاہ ولی اللہ دہلوی (۳۹) تحفہ اثناء عشریہ شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی (۴۰)تفسیر عزیزی شاہ صاحب موصوف (۴۱) موضح القرآن شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی برادر شاہ صاحب ممدوح ، یہاں تک کہ خود تقویۃ الایمان اور اس کا دوسرا حصہ تذکیر الاخوان وغیرہا ، اور نیز اس میں مدد لی گئی احیاء العلوم امام حجۃ الاسلام غزالی و شرح عقائد النسفی علامہ سعد تفتازانی و میزان الشریعۃ الکبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی ومکتوبات جناب شیخ مجدد الف ثانی و حجۃ اللہ البالغہ و انتباہ فی سلاسل اولیا ہر دو تصنیف شاہ ولی اللہ صاحب ، یہاں تک کہ مسک الختام شرح بلوغ المرام تصنیف نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ظاہری آنجہانی وغیرہا سے ، یہاں صرف سات (کفریہ ) قول پر اکتفا کروں ،
(فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۱۴، ص ۲۴۰)
(رسالہ سل السیوف الہندیۃ علٰی کفریات بابا النجدیۃ)
اللہ اکبر … یہ کیساعظیم فن … کہ پڑھنے والا اور سننے والا حیرت زدہ رہ کر صرف اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ کو تکتارہے ۔علاوہ ازیں امام اہل سنّت نے مندرجہ بالا تصانیف کثیر ہ کے صرف نام لکھ کر نہیں چھوڑے بلکہ اپنی اس تصنیف میں لکھی ہوئی کتابوں کی عبارتوں کو بھی نقل کیا اور اُن سے وہابیہ کے کلمۂ کفر کو ثابت کیا،استاذ العلما جلالۃ العلم علامہ شاہ عبدالعزیز قد س سرہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں :
’’ علامہ شامی کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا دوسرافقیہ نہیں پیدا ہوا ۔ ‘‘
(ملفوظات حافظ ملت ، ص ۱۹ ، مقدمہ از علامہ محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی )
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ(پروفیسر کلیۃ الشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض )نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے ، خود فرماتے ہیں :
’’ عبارت کی روانی اور کتب و سنّت و احوالِ سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر مَیں حیران ہو گیا اور ششدر رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد مَیں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے ۔‘‘ ( امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں ، از علامہ یٰس ٓ اختر مصباحی ، ص ۱۹۴ )
تحقیقات رضویہ میں دلائل وبراہین کی کثرت کا جلوہ دیکھنے کے لیے قارئین تصانیف رضا بالخصوص ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘ کامطالعہ کریں اور فکر و نظر کی جلا کا سامان کریں۔
(مطبوعہ سالنامہ یادگار رضا ۲۰۰۸ء مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

منقبت در شان حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہوگیا سب پر عیاں ، کس جا چھُپا نام رضا
اشتہارات ‌فلک میں بھی چھپا نام رضا

اہل حق کو ، صوفیوں کو دے گیا نام رضا
معرفت کا اور حقیقت کا پتہ نام رضا

دیکھتے ہیں اہل دل اہل محبت جابجا
ہے فصیل شہر الفت پر لکھا نام رضا

داد دی ہے حاسدوں نے بھی ہمیں بے ساختہ
جب زباں پر آگیا شعر رضا نام رضا

ہوگیا تھا حق و باطل کا وہیں پر امتیاز
سنیوں نے ، رضویوں نے جب لیا نام رضا

ہوگئی میری رسائی معرفت کے شہر تک
میرے مرشد نے مجھے سکھلا دیا نام رضا

اس لیے ساری فضا مخمور ہے مسحور ہے
لے رہی ہے جھوم کر باد صبا نام رضا

جب مصیبت ‌میں پکارا ‌یا امام احمد رضا
سنتے ہی ، الٹے قدم بھاگی وبا ، نام رضا

درمیان حق و باطل کیوں تقابل ہم کریں
ہے کجا اشرف علی اور ہے کجا نام رضا

جب کسی نے مجھ سے پوچھا کون ہے حسان ہند
آگیا لب پر مرے بے ساختہ نام رضا

شر کے طوفانوں سے بچنے کے لیے” عینی” سدا
دے رہا ہے سنیوں کو حوصلہ نام رضا
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

اعلی حضرت کا وعظ و بیان سے احتراز.. ✒️ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت 7030786828


سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ وعظ و بیان سے بہت احتراز فرماتے تھے کبھی کوئی اہم موقع اور اہم دینی ضرورت و منفعت پیش نظر ہوتی تو وعظ و بیان فرماتے ورنہ عموماً سال بھر میں صرف مندرجہ ذیل تین تقریبات میں آپ کا نہایت عالمانہ و عارفانہ وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
(1) جلسئہ دستار بندی (طلبئہ دارالعلوم منظر اسلام بمام مسجد بی بی محلہ بہاری پوری بریلی شریف)
(2) محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آبائ مکان میں
(3) عرس حضرت خاتم الاکابر مارہروی اپنے مکان میں.
ان تینوں مواقع پر آپ کا مؤثر ایمان افروز روح پرور وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
امام اہل سنت، سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ زیادہ وعظ نہ فرمایا کرتے- آپ کا معمول تھا کہ سال میں تین وعظ مستقلاً فرمایا کرتے تھے-
“ہر کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے”حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اعلی حضرت کی عادت تھی کہ دو تین آدمیوں کے علاوہ کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے؛ ان دو تین آدمیوں میں ایک میں بھی تھا- اعلی حضرت یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ “عموماً مقررین اور واعظین میں افراط و تفریط ہوتی ہے، احادیث کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا دیا کرتے ہیں اور ان کو حدیث قرار دیا کرتے ہیں جو یقیناً حدیث نہیں ہیں- الفاظ حدیث کی تفسیر و تشریح اور اس میں بیان نکات امر آخر ہے اور یہ جائز ہے مگر نفس حدیث میں اضافہ اور جس شے کو حضور اکرم ﷺ نے نہ فرمایا ہو اس کو حضور ﷺ کی طرف نسبت کرنا یقیناً وضع حدیث ہے جس پر سخت وعید وارد ہے لہذا میں ایسی مجالس میں شرکت پسند نہیں کرتا جہاں اس قسم کی خلاف شرع بات ہو ” فتاوی رضویہ میں ہے
وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں— ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩) منبر مسند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے — ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ)
اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:واعظ(مقرر) کے لئے (چار شرائط ہیں)
پہلی شرط: یہ ہے کہ مسلمان ہو،
دوسری شرط۔ اہل سنت
تیسری شرط ۔۔عالم ہونا
چوتھی شرط۔ فاسق نہ ہونا