WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives September 2022

“چودہویں صدی کے عظیم مجدد”اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ.. تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خادم ۔۔ تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال 7030786820


حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (یقینًا اﷲ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا
“مجدد”_ مجدد کا مطلب ہے دین میں تجدید کرنے والا دین کے مزاج نکھار نے والا امت کو بھولے ہوئے احکام شریعہ کی یاد دلانے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مردہ سنتوں کو زندہ کرنے والا۔ مجدد نائب نبی ہوتا ہے مجدد نائب رسالت ہوتا ہے اسلئے مجدد کی ذمہ داری وہی ہوتی ہے جن ذمہ داریاں کو انبیاء کرام پورا کرتے ہیں مجدد جس دور میں آتا ہے اس دور کے سارے حالات پر اسکی نظر ہوتی ہے اور جہاں سے گمراہی آپنا منھ کھولتی ہو وہی سے گمراہیاں کی آپریشن کرتا ہے مذکورہ بالا حدیث پاک کی رہنمائ کے مطابق جب ہم چودہویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ایسا مجدد نظر آتا جو چاند کی طرح اپنی شان میں و علم میں چمکتا ہےہر ایک علم و فن میں اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کے اس مجدد کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جسکے سامنے بڑے بڑے علماء کرام سرخم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو جانتے ہیں اس مجدد کا نام کیا ہے ہم سے سنو اس مجدد کا نام اعلی حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : کسی بزرگ کے مُجَدِّد ہونے کا فیصلہ ان کے ہم زمانہ عُلما کے بیان سے ہوتا ہے جو ان بزرگ کی دینی خدمات اور ان کے علم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر اپنے غالب گمان کے مطابق انہیں مُجَدِّد قرار دیتے ہیں۔ حضور مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : کسی کے مُجَدِّد ہونے پر اب کوئی دلیلِ مَنصُوص نہیں ہوسکتی ، وحی کا سلسلہ مُنْقَطِع ہے۔ اب یہی دلیل ہے کہ اس عَہْد کے علما ، عوام ، خَواص جسے مُجَدِّد کہیں وہ مُجَدِّد ہے صرف غیر منقسم ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکۂ مکرّمہ ، مدینۂ منوّرہ ، شام ، مصر اور یمن وغیرہ کئی ممالک کے اکابر علمائے کرام ، مفتیانِ عظام اور شُیُوخُ الحدیث نےامامِ اہلِ سنّت کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کیا اور آپ کو مُجَدِّد قراردیا۔ تفصیل جاننے کے لئے حُسَّام ُ الْحَرَمَین اور اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ وغیرہ امامِ اہلِ سنّت کی کتابوں پر عرب دنیا کے عُلمائے کرام کی تَقریظات کا مطالعہ فرمائیں خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا ظفر الدین بہاری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے کہ امامِ اہلِ سنّت کے زمانے کے علما و مشہور شخصیات نے آپ کے عُلوم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر آپ کو مُجَدِّد مانا۔ سب سے پہلے 1318ھ میں پٹنہ شہر میں منعقدہ ایک عظیم اجلاس جس میں اس وقت کے تمام اکابرِ اہلِ سنّت موجود تھے ، اسی اجلاس میں خانقاہِ قادریہ بدایوں شریف کے سجّادہ نشین مُطیعُ الرّسول مولانا شاہ عَبْدُ الْمُقْتَدِر صاحب قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے امامِ اہلِ سنّت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : جناب عالمِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ مائۃ حاضرۃ (موجودہ صدی کے مُجَدِّد) مولانا احمد رضا خان صاحب۔ یہ ارشاد سُن کر تمام علما نے قبول فرمایا ، کسی نےرد و انکار نہیں فرمایا۔ یہ حقیقت میں ہندوستان کے علمائے اہلِ سنّت کا اس پر اجماع ہے کہ 14ویں صدی کےمُجَدِّداعلیٰ حضرت ہیں۔ علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجدد اسلامی صدی کے آخری حصے میں پیدا ہو اور صدی کے آغاز میں اس کا کام بطور مجدد شروع ہو چکا ہو۔ جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ولادت تریسٹھ (63 ہجری)، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اسی (80 ہجری)، غوث الا عظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (470 ہجری)، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (971 ہجری) اور امام اہلسنت سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1272ہجری)۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مجدد ہونے پر علمائے اہل السنہ والجماعت کا اجماع ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چودہویں صدی کے مجدد ہیں _مجدد مجدد کو اپنی صداقت کا ثبوت اپنے عزم و استقلال اور کام کی انجام دہی سے دینا ہوتا ہے۔ مجدد کے لیے اپنی مجددیت کا اعلان کرنا لازم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ہم عصر علما و صوفیا اس کے علم و فضل اور تجدیدی کام کو دیکھ کر اس کے مجدد ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مجددین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی تجدیدی کوششوں کو ان کی زندگی میں معلوم نہ کیا جا سکا بلکہ بعد میں آنے والے علما نے ان کے مجدد ہونے کی تصدیق کی۔ دین میں بدعات کو ختم کر کے روشن سنت کو تازہ کر دینے کا نام تجدید ہے اور اس کام کو سر انجام دینے والی ہستی کو مجدد کہتے ہیں جو بالفاظ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی کوششوں یا اپنی جماعت کے پروپیگنڈے کے زور پر مجدد کے مرتبہ پر فائز نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ علم و فضل ،فقاہت، علم اور کشف وکرامت میں اعلیٰ مقام کیوں نہ رکھتا ہو، مجدد کے فرائض میں سے ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ان اعمال کو زندہ کرے جو متروک ہو چکے ہوں، افراط و تفریط، تحریفات و تاویلات اور بدعات سے دین کو پاک کرے، حق و باطل میں تمیز کرا کے دین کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے مطابق بنائے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی فیضان سے لوگوں کو مستفیض کرے۔

मदरसा अहले सुन्नत फैजे जीलानी ठठर का डेर [बामणोर) में हर्ष व उल्लास और अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ जल्सा-ए-ग़ौषुल आलमीन हज़रत बहाउद्दी ज़करिया मुल्तानी मनाया गया। रिपोर्टर:क़ारी मोहम्मद मन्सूर अ़ली ग़ौषवी खतीब व इमाम:जामा मस्जिद पंजतनी, ठठर का डेर, बामणोर तहसील:सेड़वा,ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]


17 सफ़रुल-मुज़फ़्फ़र 1444 हिजरी/15 सितंबर 2022 ई.दिन: गुरुवार [सुबह 08 बजे से 02 बजे दोपहर तक]”मदरसा अहले सुन्नत फैज़े जीलानी ठठर का डेर में क़ौमी रहनुमा हज़रत सय्यद गुलाम शाह मटारी बामणोर की सरपरस्ती में ऐक इस्लाही सम्मेलन [जल्सा] “ग़ौषुल आ़लमीन हज़रत ग़ौष बहाउल हक़ बहाउद्दीन ज़करिया मुल्तानी अलैहिर्रहमा” के नाम से बहुत ही अ़क़ीदत और एहतिराम के साथ आयोजित किया गया।
इस धार्मिक सम्मेलन [जल्सा-ए-ग़ौषिया] की शुरुआ़त मौलाना अल्हाज मुराद अ़ली के ज़रिया तिलावते कलामे पाक से हुई।

उस के बाद मदरसा फैज़े जीलानी के छात्रों ने नात, ग़ज़ल [सिंधी नात] और संवाद के रूप में अपना धार्मिक [इस्लामिक ] कार्यक्रम प्रस्तुत किया –

फिर ख़तीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी,नाएब सदर दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने “समाज सुधार में औलिया-ए-किराम की भूमिका” और बुज़ुर्गों से निस्बत व तअ़ल्लुक़… विषय पर एक उत्कृष्ट खिताब [भाषण] किया –

आप के संबोधन [तक़रीर] के बाद ताजुल उ़ल्मा मुफक्किरे क़ौम व मिल्लत हज़रत अ़ल्लामा व मौलाना ताज मोहम्मद साहब सोहरवर्दी ने “दीनी व दुनियावी शिक्षा की जरूरत व अहमियत” विषय पर बेहतरीन व सराहनीय खिताब किया।
आप ने अपने खिताब के ज़रिया क़ौम के लोगों को बहुत ही फिकरी पैग़ाम दिया।

अंत में, पीरे तरीक़त मशहूर धर्मगुरु नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने विशेष भाषण दिया। .
आप ने अपने संबोधन [खिताब] में धर्मगुरुओं [बुज़ुर्गों] के नाम पर होने वाली इन सभाओं का वास्तविक उद्देश्य समझाया और कहा कि यदि आप सज्जनों, जो धर्म के नाम पर इन सभाओं को आयोजित करते हो, यदि आप वास्तव में उनकी दुआ़एं और फैज़ प्राप्त करना चाहते हो तो आप को उनके धन्य जीवन का अध्ययन कर के उन्हीं की तरह जीवन जीने की कोशिश करनी चाहिए, उनकी बातों, उपदेशों और शिक्षाओं का पालन करना चाहिए। अगर हम और आप उनसे प्यार करने का दावा करते हैं, तो हमें भी कोशिश करनी चाहिए कि जितना हो सके शरीअ़ते इस्लामिया पर अ़मल करें, नेक कार्य करें,बड़ों को सम्मान दें,छोटों से प्यार और नरमी से पेश आएं,नमाज़,रोज़ा,हज व ज़कात की अदायगी पर विशेष ध्यान दें।

इस दीनी प्रोग्राम में मद्दाहे रसूल हज़रत मौलाना क़ारी मोहम्मद जावेद साहब सिकंदरी अनवारी मुदर्रिस: दारुल उ़लूम क़ादरिया अनवारे शाहे जीलाँ देरासर ने विशेष नात-ख्वानी की और क़ारी मोहम्मद अ़ली ने निजामत के कर्तव्यों को अच्छी तरह से निभाया।

इन सज्जनों ने इस धार्मिक [दीनी व मज़हबी] कार्यक्रम में विशेषता के साथ भाग लिया!
उप प्रधान सय्यद शुजा मोहम्मद शाह मटारी, सैयद टोअर शाह , सय्यद अहमद शाह,सय्यद उमेद अ़ली शाह, मौलाना हाजी मुराद अ़ली आरीसर, मौलाना हाजी हारुन साहब,मौलाना मोहम्मद शमीम साहब नूरी,मौलाना बाक़िर हुसैन साहब क़ादरी,मौलाना हाजी इस्हाक़ साहब,क़ारी मोहम्मद अ़ली,मौलाना हाजी मुराद अ़ली इमाम जामा मस्जिद बामणोर,मौलाना अमीन क़ादरी,क़ारी अ़ब्दुल हादी, खलीफा अहमद खान,खलीफा अ़ली खान, मास्टर मोहम्मद यूनुसुस साहब,मास्टर मोहम्मद अशरफ खान, क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी,मौलाना अब्दुल मजीद क़ादरी अनवारी,मौलाना मोहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी आदि।

सलातो सलाम और क़िब्ला पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा संपन्न हुआ।

نعت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہے میرے پاس شہ ذی وقار کا تعویذ
یہ میرے دل کے لیے ہے قرار کا تعویذ

ذرا سا پوچھ کے دیکھو کلاہ خالد سے
کہ کیسا کام میں آیا تھا یار کا تعویذ

حضور شافع محشر کی ایک چشم کرم
ہے اپنے واسطے روز شمار کا تعویذ

پہاڑ غم کے نہ کیوں اپنے آپ گر جائیں
ہے بازؤں پہ مرے غم گسار کا تعویذ

بلائیں دیکھتے ہی چل پڑی تھیں الٹے قدم
دکھا رہا ہے کرامت یوں یار کا تعویذ

ہے جو غبار در مصطفائی سے منسوب
اے کاش ہم کو ملے اس غبار کا تعویذ

خدا کا نور مشیت بھی ساتھ ہو میرے
اگر ہو ساتھ میں رحمت شعار کا تعویذ

تمام درد و الم دل سے میرے مٹ جائیں
کوءی تو لا کے دے ان کے دیار کا تعویذ

امام عشق و محبت سے منسلک ہے جو
بڑھائے عشق نبی اس مزار کا تعویذ

تمام اہل تکبر نے گھٹنے ٹیک دئے
اثر دکھاتا ہے یوں انکسار کا تعویذ

ہے کافی میری ہدایت کے واسطے” عینی “
مرے گلے میں بندھا چار یار کا تعویذ
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

اپنے آپ کو علم کے ساتھ عمل کےزیور سے آراستہ کریں……مولاناحافظ اللّٰہ بخش اشرفی.. رپورٹ:باقرحسین قادری برکاتی انواری خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

سہلاؤشریف،باڑمیر [پریس ریلیز]


16 صفر 1444 ھ/14 ستمبر 2022 عیسوی بروز بدھ سنی تبلیغی جماعت باسنی کے جنرل سکریٹری اور نگینہ مسجد کے خطیب وامام مشہورومعروف عالم باعمل حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری اللہ بخش صاحب اشرفی صدرالمدرسین مدرسہ غوثیہ کلاجماعت خانہ باسنی ناگور شریف کی علاقۂ تھار کی مرکزی وراجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں قبل نماز مغرب آمد ہوئی-اس موقع پر بعد نماز مغرب دارالعلوم کی عظیم الشان غریب نواز مسجد میں طلبہ کو نصیحت کرنے کی خاطر ایک مختصر مجلس رکھی گئی-جس کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئ،بعدہ دارالعلوم کے ایک خوش گلو طالب علم نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا،پھر وقت کی قلت کومدنظر رکھتے ہوئے دارالعلوم کے اساتذہ کی خواہش پر بلا کسی تاخیر کے پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا حافظ وقاری اللّٰہ بخش صاحب اشرفی دار العلوم انوار مصطفیٰ کے طلبہ کو اپنے قیمتی نصائح سے نوازنے کے لیے تشریف لائے اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:آپ حضرات کا دینی تعلیم کےحصول کے لیے یہاں دارالعلوم میں داخلہ لے کر تحصیل علوم میں مصروف رہنا اللہ کی جانب سے ایک عظیم انتخاب ونعمت ہے اور آپ یہ یاد رکھیں کسی بھی دینی ادارے میں آپ کا داخلہ اور آپ کا اس میں تعلیم حاصل کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت کی دلیل ہے، یعنی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’من یرد اللّٰہ به خیرًا یفقه فی الدین‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین میں فقاہت (سمجھ) عطا فرماتا ہے‘‘۔۔۔۔۔ وحی منقطع ہوچکی ہے، جس کے ذریعہ یقینا من جانب اللہ غیب سے قانون الٰہی اترتا تھا، لیکن آپ کے سامنے قرآن کریم موجود ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے، ان کے ذریعہ آپ اللہ پاک کی رضا معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات میں سے آپ کاانتخاب فرماکرآپ کو ادھر متوجہ کیا ۔ یہ آپ لوگوں کے لیے وہ نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیاکی ہرنعمت ہیچ ہے۔ اس لیے آپ اس دین کوسمجھ کر پڑھیں اور آخرت کا اجر وثواب سامنے رکھ کر محنت کریں۔ اس نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ آپ محنت کریں۔تحصل علوم دینیہ کے لیے خوب سعی وکوشش کریں،اوقات کی پابندی کریں۔اپنے ان قیمتی اوقات کی خوب قدر کریں کیونکہ بقول حضول حافظ ملت”تضییع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے” اس لیے اپنے اوقات کو منظم کرکے اپنے مکمل اوقات کو تحصیل علم اور اس کے ذرائع ہی میں استعمال کریں، اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھیں۔ غور سے بات سنیں۔ آپ کی آنکھ، کان اور دماغ پوری طرح استاذ کی طرف متوجہ ہو۔ اور اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہو جو آپ دن میں پڑھ رہے ہیں، رات کو اس کا مطالعہ کرلیں۔آپس میں علمی تکرار کریں، کیونکہ اگر آپ متعلقہ سبق پڑھنے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ اسے مطالعہ کرلیں اور پڑھتے وقت غور سے استاذ کی بات کو سنیں اور پڑھنے کے بعد بھی کم ازکم ایک مرتبہ پھر مطالعہ اور تکرار کرلیں تو ان شاء اللہ! اس طرح کرنے سے پھر کبھی سبق نہیں بھولے گا-اور علم ہرمقام پرادب کامتقاضی ہے جیساکہ آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ علم ادب چاہتا ہے: اپنے استاذ کا ادب، اپنے ادارے کا ادب اور اپنے سے بڑے کا ادب، یہ ادب بہت کچھ دیتا ہے۔یادرکھو خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’من لم یرحم صغیرَنا ولم یوقر کبیرَنا ولم یعرف شرفَ علمائنا فلیس منا۔‘‘ ’’جو ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں کرتا، علماء کی قدر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ اس لیے آپ حضرات ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کیونکہ آپ کا یہ ادب دوسرے مسلمانوں پربھی اچھا اثر ڈالے گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ دیکھو دین پڑھنے والے طلبہ ایسے ہوتے ہیں-آپ نے اپنی نصحتوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:کہ کوئی طالب علم ہو یا عالم دین ، یا ان کے علاوہ کوئی بھی دینی مشغلہ رکھنے والا شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بشارتیں ہیں،جیساکہ ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لن یشبع الموٴمن من خیر سمعه حتّٰی یکونَ منتہاہ الجنّة“ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام واسلاف ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے،ہمیں اور آپ کو بھی چاہییے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھیں، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔

ایک موقعہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کےلیےنکلا تو وہ جب تک واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیونکہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالب علم بھی احیاء دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلب علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالب علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ کیونکہ حصول علم کے بعد اب وہ عالم دین ہوگیا، اور عالم دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔طلب علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَةً لِمَا قَضٰی“ یعنی طلب علم کی وجہ سے ماضی میں کیے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلب علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے، مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔اتنی ساری فضیلتوں کے باوجود اگر ہم اور آپ علم دین کے حصول میں باقاعدہ کوشاں نہ ہوں تو یہ ہماری اور آپ کی حرماں نصیبی ہی ہوگی،

لہٰذا طلبۂ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ عمل بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بغیر عمل کے علم بے فائدہ ہے جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ
علم چنداں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل درتو نیست نادانی
اور غالباً حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم یا کسی بزرگ کا فرمان ہے”العلم بلاعمل وبال والعمل بلاعلم ضلال والجمع بینھما کمال”…جب کہ بہت سے لوگ صرف علم حاصل کرنے کوہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر کوئی محض علم حاصل کرلے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا علم بےکار وبےفائدہ ہے،علم بغیر عمل کے ایسا ہی ہے جیسے انسانی جسم بغیر روح کے ہو،جس طرح روح کے بغیرجسم بے کار ہوتا ہے اسی طرح علم اور عمل کا جوڑ ہے،آپ نے اپنی ناصحانہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کو مخاطب کر کے فرمایا-
قابل احترام اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ ! ہم سب جانتے ہیں کہ علم کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے اور علم پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے کائنات کی ہر شے بخشش کی دعائیں مانگتی ہےجیساکہ حدیث مبارکہ میں آتاہے وہ مچھلیاں جو پانی کی تہوں میں تیر تی ہیں اور چیونٹیاں جو اپنے بلوں میں رہتی ہیں حتٰی کہ کوئی شے ایسی نہیں جو علم والوں کے لیے دعائیں نہ مانگتی ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے راستے میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔اس سے زیادہ سعادت وعظمت اور کیا ہوسکتی ہے اس لیے اللہ نے فرمایاہے :
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
مگر یہ سعادت یہ درجات اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب علم و عمل یکجا ہوجائیں تو پھر درجات کی بلندی شروع ہوجاتی ہے اور اگرصرف علم ہو اور عمل نہ ہوتو ایسے علم کو علم نافع نہیں کہا جاسکتا، اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺجب دعا مانگتے تو یہ فرماتے:اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا (سنن ابن ماجه (1/ 289)
’’اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتاہوں‘‘
اور فرماتے:اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذبک مِن عِلم لایَنفَعُ
’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘‘

علم نافع وہ ہے جس کے مطابق عمل بھی ہو اور جس علم پر عمل نہ ہو وہ علم نافع نہیں اور جب علم و عمل جمع ہوجائیں تو نور علی نور ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔

جب ہم ائمہ اور محدثین کی زندگی و سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نظر آتاہے کہ وہ جو لکھتے پڑھتے تو اس پر عمل بھی کرتے ۔
اور ذخیرۂ احادیث کی سب سے پہلی کتاب موطاء امام مالک ہے جب وہ جمع ہوئی تو امام مالک رحمہ اللہ بہت خوش تھے پوچھنے والوں نے پوچھا امام صاحب کتاب کےمکمل ہونے پر خوش ہیں؟ جواب میں فرمایا:اس کے جمع ہونے پر تو خوش ہوں لیکن حقیقی خوشی اس بات کی ہے کہ اس کتاب میں کوئی حدیث ایسی نہیں جس پر میں نے عمل نہ کیا ہواور بطور مثال فرمانے لگے کہ جب میں حجامہ (سنگی لگانا) کی حدیث لکھنے لگا میری غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ حدیث لکھوں جبکہ میں نے حجامہ نہیں لگوایا تھا لیکن حدیث پر عمل کی خاطر باوجود اس بات کے کہ مجھے حاجت نہ تھی لیکن حجامہ والے کو بلاکر حجامہ لگوایا۔

اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے بارے میں آتاہے کہ وہ ایک دریا کےکنارے احادیث لکھنے بیٹھا کرتے تھے ایک دن وہاں تشریف فرماتھےکہ ایک کشتی کا گذر ہوا اس میں سوار ایک شخص کو چھینک آئی اس نے الحمدللہ کہا امام صاحب نے اس کی چھینک کی آواز بھی سنی اور اس کا الحمدللہ کہنا بھی سنا لیکن خیال نہ رہاکہ جواب میں یرحمک اللہ کہیں اور وہ کشتی گذر گئی، جب خیال آیا تو اپنے آپ سے فرمانے لگے اے داؤد نبی کریم ﷺ کی حدیثیں لکھ رہے ہو اور حدیث پر عمل نہیں کیاکنارےپے ایک کشتی کھڑی تھی اس کشتی والے کو کہا وہ جو کشتی ابھی گزری ہے مجھے اس تک پہنچانے کی کتنی اجرت لوگے اس نے کہا تین دینار،آپ اس میں سوار ہوگئے اور جب وہ کشتی ساتھ آگئی تو جس شخص کو چھینک آئی تھی اس کی طرف منہ کر کے کہا ’’یرحمک اللہ ‘‘یہ بولنے کے بعد کشتی والے کو کہا مجھے واپس کنارے پے لے چلو، جب واپس پلٹے تو آواز غیبی آئی:

یاابا داؤد اشتریت جنتک بثلاثة دنانیر

’’اے ابو داؤد تم نے اپنی جنت تین دیناروں کےعوض خرید لی‘‘
یہ ہے علم و عمل میں مطابقت-

آئیے امام بخاری رحمہ اللہ کو دیکھیئے جو امیر المومنین فی الحدیث ہیں وہ فرماتے ہیں :

’’مجھےاللہ پر سوفیصد یقین ہے کہ اللہ قیامت کےدن مجھ سے اس بات کا حساب نہیں لے گا کیونکہ جب سے میں نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ غیبت حرام ہے تو میں نے کسی کی غیبت نہیں کی‘‘

کیاہم میں سے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتاہے؟ اسے کہتے ہیں علم وعمل میں مطابقت کہ جو سیکھا اس پرپہلے خود عمل کیا۔

میری آپ لوگوں سے التجاہے کہ علم میں پختگی حاصل کریں لیکن عمل کی طرف سے بھی غافل نہ ہو ں اس پر بھی پوری توجہ ضروری ہے۔

آج کے اس دور میں علماء کی کمی نہیں ہے کوتاہی اگر ہے تو عملی پہلو مفقود ہوگیا ہے ، کمی اگر ہے تو وہ عملی زندگی میں ہے ،آئییے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ:
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا”
آپ نے اپنے اختتامی جملوں میں اساتذہ وطلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا ریت کے ان دھوروں کے درمیان دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف ودیگر سنی اداروں کی تعلیمی وتدریسی، دینی ومذہبی خدمات بہت ہی مستحسن اور وعمدہ ہیں اور ان اداروں کے مدرسین ومعاونین اور ذمہ داران لائق ستائش ہیں کہ اس طرح کے پریشان کن سنگلاخ وریگستانی علاقے میں دین وسنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں،خصوصیت کے ساتھ آپ نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے ناظم اعلیٰ نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری کی خدمات کو خوب سراہا-
صلوٰة وسلام اور دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

औलिया-ए-किराम के उ़र्सों का मुख्य उद्देश्य उन के अनमोल वचन और धार्मिक संदेश को लोगों तक पहुंचाना है… पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी: रिपोर्टर:मुहम्मद क़ाएमुद्दीन अनवारी मुदर्रिस:मदरसा अहले सुन्नत फैज़ाने शाह रुकने आ़लम,मदीना मस्जिद सालारिया,तहसील:सेड़वा,ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]

मदरसा अहले सुन्नत फैजाने शाह रुकने आ़लम मदीना मस्जिद सलारिया में हर्ष व उल्लास और अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ जल्सा-ए-ग़ौषिया मनाया गया



पिछले वर्षों के अनुसार, मंगलवार, 15 सफ़रुल-मुज़फ़्फ़र 1444 हिजरी/13 सितंबर 2022 ई. “मदरसा अहले सुन्नत फैज़ाने शाह रुकने आ़लम मदीना मस्जिद सलारिया, सेड़़वा” में ऐक इस्लाही सम्मेलन [जल्सा] “ग़ौषुल आ़लमीन हज़रत ग़ौष बहाउल हक़ बहाउद्दीन ज़करिया मुल्तानी अलैहिर्रहमा” के नाम से बहुत ही अ़क़ीदत और एहतिराम के साथ आयोजित किया गया।
इस धार्मिक सम्मेलन [जल्सा-ए-ग़ौषिया] की शुरुआ़त तिलावते कलामे पाक से हुई।

उस के बाद मदरसा फैज़ाने शाह रुकने आ़लम के छात्रों ने नात, ग़ज़ल [सिंधी नात] और संवाद के रूप में अपना धार्मिक [इस्लामिक ] कार्यक्रम प्रस्तुत किया –

फिर ख़तीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी,नाएब सदर दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने “समाज सुधार में धार्मिक बुजुर्गों की भूमिका” विषय पर एक उत्कृष्ट खिताब [भाषण] किया –

आप के संबोधन [तक़रीर] के बाद शहज़ादा-ए- मुफ्ती-ए-थार हज़रत मौलाना अ़ब्दुल मुस्तफा साहब नईमी सुहरवर्दी नाज़िमे आला दारुल उ़़लूम अनावरे ग़ौषिया सेड़़वा ने “मोहब्बते रसूल व औलिया-ए-किराम” विषय पर बेहतरीन व सराहनीय खिताब किया।

अंत में, पीरे तरीक़त मशहूर धर्मगुरु नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने विशेष भाषण दिया। .
आप ने अपने संबोधन [खिताब] में धर्मगुरुओं [बुज़ुर्गों] के नाम पर होने वाली इन सभाओं का वास्तविक उद्देश्य समझाया और कहा कि यदि आप सज्जनों, जो धर्म के नाम पर इन सभाओं को आयोजित करते हो, यदि आप वास्तव में उनकी दुआ़एं और फैज़ प्राप्त करना चाहते हो तो आप को उनके धन्य जीवन का अध्ययन कर के उन्हीं की तरह जीवन जीने की कोशिश करनी चाहिए, उनकी बातों, उपदेशों और शिक्षाओं का पालन करना चाहिए। अगर हम और आप उनसे प्यार करने का दावा करते हैं, तो हमें भी कोशिश करनी चाहिए कि जितना हो सके शरीअ़ते इस्लामिया पर अ़मल करें, नेक कार्य करें,बड़ों को सम्मान दें,छोटों से प्यार और नरमी से पेश आएं,नमाज़,रोज़ा,हज व ज़कात की अदायगी पर विशेष ध्यान दें।

इस दीनी प्रोग्राम में मौलाना मुहम्मद उर्स सिकंदरी अनवारी ने विशेष नात-ख्वानी की और मौलाना मुहम्मद रियाजुद्दीन सिकन्दरी अनवारी ने निजामत के कर्तव्यों को अच्छी तरह से निभाया।

इन सज्जनों ने इस धार्मिक [दीनी व मज़हबी] कार्यक्रम में विशेषता के साथ भाग लिया!
हज़रत पीर सय्यद दावान शाह बुखारी, हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम साहब नूरी मिस्बाही, हज़रत मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी अनवारी दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा,, क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी, क़ारी मुहम्मद हाशिम अनवारी आदि।

کہانی۔‌۔‌۔‌۔۔۔۔۔۔خدمت کا صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : رفعت کنیز، حیدرآباد۔۔۔۔

ایک شہر میں اک نیک ضعیفہ رہتی تھی ۔وہ بہت نیک اور عبادت گزار تھی ۔سارے لوگ اس ضعیفہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ضعیفہ جس کسی کے لیے دعا مانگتی تھی اس کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ہر شخص اس ضعیفہ کےپاس آتا اور دعائیں کرواتا تھا۔

اس ضعیفہ کی دعا سے کوئ کلکٹر ، کوئ افسر، کوئ تحصیلدار، کوئ عہدیدار تو کوئ طبیب بن گیا۔ سب اس ضعیفہ کو بہت مانتے تھے آور وہ ضعیفہ بہت نیک ، عبادت گزار اور صاف دل کی مالک تھی۔ وہ ہنستے مسکراتے ہر کسی کے لئے دعائیں مانگتی تھی۔ جس شہر میں وہ رہتی تھی، اس شہر میں کبھی کوئ فساد آفت مشکلیں نہیں آءے، سب سےلوگ اچھے سے رہا کرتے تھے ۔

      کسی  دوسرے شہر میں ایک ندیم نامی شخص رہتا تھا۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری کے لیے بہت مشہور تھا ، لیکن جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا افسر ندیم کی قدر نہیں کرتا تھا،  نہ کبھی کوی تعریف کرتا تھا اور نہ ہی اس کو پروموشن دیتا تھا۔

بار بار ندیم پر کام کا بوجھ ڈال دیا کرتا تھا۔ ندیم افسر کے سامنے خاموش رہ جاتا تھا ۔ کچھ سوال نہیں کرتا تھا۔ ندیم کے ایک دوست نے ندیم سے کہا تم اتنی محنت کرتے ہو پھر بھی تمہاری کوئ قدر نہیں تم کہیں اور کام کیوں نہیں کرتے؟ ندیم نے کہا یہ میری آخری جاب ہے اگر یہ چلی گءی تو کہیں اور جاب نہیں ملے گی۔ تو ندیم کے دوست نے کہا ٹھیک ہے پاس کے شہر میں اک ضعیفہ رہتی ہے، سنا ہے وہ جس کے لئے بھی دعا کرتی ہے اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے ،تم اس ضعیفہ سے ملو اور دعا کرو الو.

ایک دن دفتر سے چھٹی لے کر ندیم پاس والے شہر چلا جاتا ہے اور سب لوگوں سے اس ضعیفہ کا پتہ پوچھنا ہے۔ اسی دوران یہ پتہ چلتا ہے ک ضعیفہ بہت بیمار ہے، اب کوئ اس کے پاس نہیں جاتا ،وہ ضعیفہ اب عبادت بھی نہیں کرتی۔ لوگوں نے اس کےپاس جانا بند کردیاہے۔ ندیم نے جب سنا تو واپس لوٹنا چاہا، مگر خیال ایا کہ جب اتنی دور آگیا ہوں تو ضعیفہ سے ملکر ہی جاونگا۔ پھر ندیم کے اصرار پر لوگوں نے ضعیفہ کا پتہ دیا اور ندیم ضعیفہ کے گھر پہونچا۔
دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئ آواز نہیں آءی، دوبارہ کھٹکھٹایا تو دھیمی سی آواز آءی ،
کون ہو بیٹا میں اٹھ نہیں سکتی دروازہ کھول کر اندر آجاؤ، تب ندیم آہستہ سے دروازہ کھولتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت سے اندر جاتا ہے۔

اور ضعیفہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے، امّاں جی آپ کیسی ہیں، کیا ہوا آپ کو ؟ ضعیفہ نے کہا بوڑھی ہو گئ ہوں بیمار ہوں ۔ ندیم نے پوچھا کیا آپ کا کوئ رشتہ دار نہیں ہے؟ ضعیفہ نے کہا جب ٹھیک تھی تو سارے لوگ ملنے آتے تھے، اب بیمار ہوں تو کوئ نہیں آتا ۔

ضعیفہ کی ان
باتوں سے ندیم سوچنے لگتا ہے، کیسے خود غرض لوگ ہیں، صرف اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس بات پر ندیم کو بہت دکھ ہوتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت لےکر ضعیفہ کی خدمت میں کئ دن گزار دیتا ہے ۔شہر کے سارے لوگ شرمندہ رہتے ہیں ، لیکن کچھ نہیں کہتے ،
آہستہ آہستہ ضعیفہ ٹھیک ہونے لگتی ہے ۔جب وہ بلکل ٹھیک ہو جاتی ہے تو کہتی ہے بیٹا تم اجنبی ہوکر میری اتنی خدمت کررہے ہو، بتاو تم کو کیا چاہیے؟ ندیم نے کہا امّاں جی مجھےکچھ نہیں چاہیے ، بس آپ ٹھیک ہوجائیں۔ ضعیفہ نے کہا بیٹا میں ٹھیک ہوجاونگی ، تم اپنا گھر چھوڑ کر کب تک یہاں رہوگے ، تم کو اپنے گھر جانا چاہئے، وہ لوگ پریشان ہوتے ہونگے۔ ندیم نے کہا امّاں جی میرا بھی کوئ نہیں ہے، میرے ماں باپ بھی نہیں ہیں، میرے ماں باپ ہوتے تو شاید …..اتنا کہکر ندیم خاموش ہوجاتا ہے۔ اور ضعیفہ سمجھ جاتی ہےکہ یہ کسی پریشانی میں ہے ، پھر ضعیفہ مسکراکر ندیم کو بہت ساری دعائں دیتی ہے۔

اور کہتی ہے تمہاری خدمت کو اللہ تعلیٰ نے قبول کیا ہے، اب لوگ تمہاری عزّت کرینگے، تم اب واپس جاؤ، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ سنکر ندیم ضعیفہ سے اجازت لےکر اپنے گھر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے دن دفتر جاتا ہے اور وہاں اس کا افسر ندیم کے انتظار میں رہتا ہے اور اور جب ندیم کو دیکھتا ہے تو ندیم کو گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے تم اتنے دن کہاں تھے تمہارے نہ ہونے کی وجہ سے دفتر میں بہت سارا نقصان ہوا ہے، مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے ،تمھارے بغیر کوئ کام پورا نہیں ہوتا، آج سے تم میری کرسی پر بیٹھوگے اور سارا کام سنبھالوگے، سب کچھ اب تمہارے کنٹرول میں ہے اور میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نےتمھارے ساتھ بہت سختی کی ۔ندیم کو حیرانی ہو رہی تھی ک اک خدمت کے بدلے اسے اتنی عزت اور شہرت مل رہی ہے اور ندیم سمجھ جاتا ہے کہ یہ سب ضعیفہ کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا اثر ہے ۔ندیم اپنے دوست سے مل کرسارا واقعہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک کامیابی صرف محنت سے نہیں ملتی ، بلکہ بزرگوں کی خدمت اور انکی دعاؤں سے ملتی ہے اور ندیم اس ضعیفہ کو اپنے گھر لے کر آتاہے اور اپنی ماں کی طرح خدمت کرتا ہے۔

بزرگان دین کے اعراس کا اصل مقصد لوگوں تک بزرگوں کی قیمتی باتیں اور دینی پیغام پہنچانا ہے……سیدنوراللہ شاہ بخاری : رپورٹ:قائم الدین انواری خادم:مدرسہ اہلسنت فیضان شاہ رکن عالم متصل مدینہ مسجد سالاریہ، تحصیل:سیڑھوا،ضلع: باڑمیر[راجستھان]

مدرسہ اھل سنت فیضانِ شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ میں جلسۂ غوث العٰلمین منایاگیا-



حسب سابق امسال بھی 15 صفرالمظفر 1444 ھ/13 ستمبر 2022 عیسوی بروز منگل مدرسہ اہل سنت فیضان شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ، سیڑھوا میں ایک اصلاحی جلسہ بنام “جلسۂ غوث العالمین حضرت غوث بہاؤالحق المعروف بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرّحمہ” عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا-
تلاوت کلام ربابی سے جلسہ کی شروعات ہوئی، بعدہ مدرسہ فیضان شاہ رکن عالم کے طلبہ وطالبات نے اپنا دینی ومذہبی پروگرام نعت، غزل[سندھی نعت] ومکالمہ کی شکل میں پیش کیا-پھر خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے “اصلاح معاشرہ میں بزرگان دین کا کردار” کے عنوان پر عمدہ خطاب کیا-
آپ کے خطاب کے بعد شہزادۂ مفتئِ تھر حضرت مولاناعبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑھوا نے “محبت رسول واولیاءِ کرام” کے عنوان پر بہترین خطاب فرمایا-
آخر میں خصوصی وصدارتی خطاب خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجاہ نورالعلماء پیرطریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب میں جگہ جگہ جو بزرگان دین کے نام پر جلسے کیے جاتے ہیں ان جلسوں کا اصل مقصد بتاتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرات جن بزرگان دین کے ناموں سے یہ جلسے کرتے ہیں اگر صحیح معنوں میں ان کے فیوض وبرکات حاصل کرنا چاہیں تو آپ حضرات ان کی مبارک زندگیوں کو مطالعہ کرکے انہیں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کریں، ان کے جو ارشادات ومواعظ اور ملفوظات ہیں ان پر عمل پیرا ہوں،انہوں نے اپنی مکمل زندگی لوگوں تک دینی پیغام پہنچایا اور شریعت اسلامیہ کے وہ مکمل طور پر عامل رہے تو اگر ہم اور آپ ان سے محبت کے دعویٰ دار ہیں تو ہمیں بھی شریعت اسلامیہ کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ منہیات شرعیہ سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہییے-آپ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے پیری مریدی کے آداب اور اس کی اصلیت پر بھی عمدہ گفتگو کی- اور ساتھ ہی ساتھ سبھی مرشدان طریقت کے مریدین کو مخاطب کرکے اس علاقے میں جملہ سلاسلِ طریقت میں جو ذکر واذکاررائج ہیں ان پر مدوامت کی تاکید کی-
خصوصی نعت خوانی کاشرف مداح رسول مولانامحمدعرس سکندی انواری نے حاصل کیا،اور نظامت کے فرائض مونا محمدریاض الدین سکندری انواری نے بحسن وخوبی نبھایا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے!
حضرت پیر سیدداون شاہ بخاری، حضرت مولانامحمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات دارالعلوم انوارمصطفیٰ، حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،قاری محمدہاشم انواری وغیرہم-

کیا طالبِ علم کا حفظ مکمّل ہونے کے بعد ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے؟؟ از قلم مفتی احمد رضا صاحب مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
حفظ مکمل ہونے کے بعد طلبا ایک نشست میں پورا قرآن پاک سناتے ہیں تجوید کی رعایت کے ساتھ تو کیا ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے جبکہ بہار شریعت میں ہے کہ
تین دن سے کم میں قرآن مکمل کرنا خلاف اولی ہے
2/بہار شریعت میں ہے کہ مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے قرآن مجید پڑھیں یہ حرام ہے
اور حفظ کی درسگاہ میں یا یاد کرنے کے وقت سب بچے بلند آواز سے ہی پڑھتے ہیں تو کیا یہ حرام ہے ؟
مکمل وضاحت کے ساتھ دلائل کی روشنی میں نیز بہار شریعت کے مسئلہ کی بھی کا مل طور پر وضاحت کردیں
سائل عاشق علی مصباحی
بہرائچ
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔مدارس اسلامیہ میں بلند آواز سے بچوں کا قرآن پاک حفظ (یاد)کرنا یا ناظرہ پڑھنا یا نششت میں پورا قرآن سنانا تعلیم قرآن ہے نہ کہ تلاوت قرآن پاک ۔جیسا کہ جا ءالحق میں اسی طرح کے سوال کا جواب ہے ۔فرماتےہیں وہاں تعلیم قرآن ہے تلاوت قرآن نہیں ۔تلاوت کا سننا فرض ہے ۔نہ کہ تعلیم قرآن پاک ‘ اس لئے رب العزت نے اذاقرئ فرمای ,تعلم نہیں اذاقرأت القرآن فاستعذباللہ (سورہ نحل 98)جب قرآن پڑھو تواعوذ باللہ پڑھ لیا کرو۔تلاوت قرآنپر اعوذ پڑھنا چاہیئے ,جب شاگرد استاد کو قرآن سناۓ تو اعوذ نہ پڑھے , یہ تلاوت قرآن نہیں ۔قرآن ہے (شامی)ایسے ہی قرآن کریم تر تیب کے خلاف چھاپنا منع ہے ترتیل وترتیب چاہئیے ,مگر بچوں کی تعلیم کے لیے آخری( 30)پارہ الٹا چھاپتے بھی ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں ,تعلیم وقرأۃ کے احکام میں فرق ہوتا ہے ۔قرآن نے بھی تلاوت قرآن وتعلیم میں فرق کیا ۔قال تعالی یتلو علیھم آیۃ یزکیہ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اھ۔(سورہ جمعہ آیت 2 )وہ نبی مسلمانوں پر آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور قرآن وحکمت سکھاتے ہیں ۔اگر تلاوت اور تعلیم میں فرق نہیں ہوتا تو یہاں ان دونوں کا ذکر علیحدہ کیوں ہوا ۔(جا ءالحق دوم ص 395۔ قادری پبلیشرز )
مذکورہ دلائل سے بالکل ظاہر وباہر ہے کہ تلاوت قرآن وتعلیم قرآن میں فرق ہے۔لہذا تلاوت کے احکام کلی طور تعلیم پر نافذ نہیں ہونگے ۔لہذا جو بہارے شریعت میں مسئلہ مذکور ہے وہ تلاوت قرآن کے تعلق سے ہے ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 13/صفر 1444

عرس کمیٹی خانقاہ قدوسیہ کی ہنگامی مٹنگ۔۔۔پیش کش (حافظ و قاری) فیضان احمد صابر قادریناظم نشر و اشاعت خانقاہ قدوسیہ، بھدرک شریف ، اڈیشا


۱۱ ستمبر ۲۰۲۲ء روز یکشنبہ کو بعد نماز عشا صحن عزیز الجامعۃ القدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا میں عرس کمیٹی خانقاہ قدوسیہ کی ہنگامی میٹنگ صاحب سجادہ حضرت علامہ سید آل رسول حبیبی ہاشمی کے زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں شہر بھدرک کے مختلف ادوار کے عقیدت مندان مفتئ اعظم اڈیشا نے کثیر تعداد میں شرکت کی
اس میں جو باتیں باتفاق طے ہوئیں وہ یہ ہیں
(۱) سیدی مفتئ اعظم اڈیشا کا سالانہ ۲۸ واں عرس قدوسی 30ستمبر اور یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء کو اپنی روایتی شان کے ساتھ منایا جائیگا
(۲) اس میں اڈیشا اور بیرون اڈیشاکے پچاس سے زائد جید علما ، خطبا ، شعرا اور مشائخ کی جلوہ گری ہوگی ان شاء اللہ
بھارت کے علاوہ بغداد معلی اور ملک یمن کے شیوخ کی تشریف آوری بھی ہورہی ہے
ان سب کے پر جوش استقبال کی مکمل تیاری کیجائیگی
(۳)اس موقع پر صاحب سجادہ کی تین کتابیں اور ناظم نشر و اشاعت حضرت عینی کی ایک کتاب کی رسم اجرا ہوگی
(۴) اس موقع پر سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لحیہ شریف اور سر اقدس کے موئے مبارک اور کعبۂ مقدسہ کے پر نور غلاف کی زیارت کرائی جائیگی
(۵) ۳۰ ستمبر کو بعد نماز جمعہ ۲۸ ویں عرس قدوسی کی پرچم کشائی بدست صاحب سجادہ ہوگی
(۶) دوسرے دن کے بھرے اجلاس میں الجامعۃ القدوسیہ کے خوش نصیب فارغین حفاظ کی دستار بندی ہوگی
اسکا اختتام صلاۃ و سلام اور دعائے خیر پر ہوا
اسی کا ایک دیدہ زیب منظر
پیش کش
(حافظ و قاری)فیضان احمد صابر قادری
ناظم نشر و اشاعت
خانقاہ قدوسیہ، بھدرک شریف ، اڈیشا

“چشم دید” از قلم: محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

8/صفر المظفر 1444ھ مطابق 6/ ستمبر 2022 کی صبح “النقش کالحجر ” کی طرح میرے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ تقریباً صبح 7 بج کر 45 منٹ پر جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ) کی اسمبلی میں قبلہ پرنسپل صاحب نے اعلان کیا کہ” آج اہل سنت کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المبین صاحب نعمانی تشریف لا رہے ہیں۔ ” یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اب سے پہلے حضرت کی چند کتابیں اور مضامین پڑھ چکا تھا ۔(حضرت کی چالیس سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں)
آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ کہ بڑے بڑے بزرگوں سے فیض حاصل کرنے والا مرد قلندر، اپنے قیمتی نصائح سے سے ہماری جھولیاں بھرنے کے لیئے ،ہمارے درمیان تشریف لے آئے ۔ حضرت نے تقریباً 1 گھنٹہ 10 منٹ تک ہماری تشنگی کو دور کیا ، لیکن یہ تشنگی تو وعظ کے بعد اور زیادہ بڑھ گئی ۔ حضرت نے جو واقعات بیان فرمائے ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے یاد آتا ہے، کہ آپ نے پورے بیان میں کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں فرمایا جس کے آپ “چشم دید” گواہ نہ ہوں ۔سوائے ایک دو کے۔حضرت نعمانی صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ “میرا تجربہ ہے کہ طلبہ جمعرات کے دن خوب مستی کرتے ہیں ۔ پورا پورا دن کرکٹ کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ بلکہ چاہیے تو یہ تھا، کہ جمعرات کو خوب مطالعہ کرتے، درسی کتب یاد کرتے وغیرہ ۔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔” الحمدللہ! زمانۂ طالب علمی میں میرا طریقہ یہ تھا کہ ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ایک بات کہوں تو آپ لوگوں کو خراب لگے گی ، کہ “سب طلبہ سوتے تو میں پڑھتا”!۔ آج جو کچھ ہے اپنی محنت ہے ، بزرگوں کا فیض ہے، اساتذہ کا فیص ہے۔”
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ “جتنا زیادہ غور کرو گے اتنے زیادہ موتی پاؤ گے ” اگر آپ ان (مفتی صاحب کے) جملوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کامیابی کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں ۔ نمبر ایک ، محنت ، کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ، اگر کامیاب ہونا ہے تو راتوں کو جاگنا ہوگا۔ صرف اور صرف مطالعہ کے لیے نہ کہ موبائل کے لیے۔ شاعر کہتا ہے۔
بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالی”
یعنی کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔
اور دوسری چیز ہے۔ اساتذہ کا ادب، آپ کتنے ہی بڑے عالم ہو جائیں اگر اساتذہ کا ادب نہیں کرتے، تو وہ علم آپ کو کوئی نفع نہ دےگا۔ بقول شاعر۔
ما وصلَ مِن وصلٍ الا بالحُرمة
وما سقَط مِن سقطٍ الا بترك الحرمة
يعنی۔ جس نے جو کچھ بھی پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
حضور حافظ ملت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ۔ “حضرت جب سفر سے واپس آتے تو آرام گاہ نہ جاتے راستے میں جو طالب علم ملتا،فرماتے،جلد فلاں کلاس کے طلبہ کو بھیج دو !” آپ نے حضور حافظ ملت ، حضور مجاہد ملت ، حضور مفتی اعظم ہند اور علامہ ارشد القادری وغیرہ ، کے آنکھوں دیکھے واقعات بیان فرمائے۔
اگر موقع ملا تو ضرور سب کو ضبط تحریر کرنے کی سعی کروں گا (ان شاءاللہ)
آخر میں آپ نے خصوصی طور پر بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی، فرمایا۔ آپ ہر جمعرات کو ایک صفحہ ضرور لکھیں اور اپنے اساتذہ سے اس کی اصلاح کروائیں ۔ اس طرح آپ کی ایک کاپی تیار ہو جائے گی۔ “اور جتنا قلم گھسے گا اتنا ہی مضبوط اور بہتر ہوگا”۔۔