WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

میرے ہاتھ میں جو قلم ہے ”استاذ“ کی عطا ہے۔✍️آصف جمیل امجدی

ہر دہر میں استاذ کی اہمیت و افادیت کو مسلم الثبوت مانا گیا ہے۔ اللہ عزوجل نے نبی آخرالزماں ﷺ کے صدقے میں، کاٸنات و مافیھا کی خلقت فرماٸی، وہ مقدس نبی اپنی معرفت ایک بہترین معلم [استاد] کی شکل میں فرما رہے ہیں۔
گویا کاٸنات میں رنگ و روغن ایک ماہر تجربہ کار بااخلاق استاذ کے دم قدم اور محنتوں کا مثبت ثمرہ ہے۔ ایک انسان اگر اپنی زندگی کی رعناٸیوں میں گوناگوں نعمتوں سے بحراور ہے، عزت و شرف کے اعلیٰ منسب پر فاٸزالمرام ہے تو یہ سب اساتذہ کی مرہون منت ہے جس کا کسی زباں میں مجال انکار نہیں۔
آج ہی کے تاریخ یعنی 05/ ستمبر کو طلبہ یوم اساتذہ[Teacher,s day] کے حسین موقع پر اپنے جملہ معزز اساتذہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو بروۓ کار لانے کی نایاب کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ طلبہ کو معلوم ہے کہ انہی کی پاکیزہ ٹھوکروں میں ہمارے تخت و تاراج ہیں۔ اگرچہ مہمان رسول کی منور فہرست میں نام درج کرانے کا سہرا والدین کے سر سجتا ہے، لیکن علم مصطفےٰﷺ کا طالب و شاٸق بنانا اساتذہ کرام کی مشفقانہ و اخلاقیانہ کردار کا نتیجہ ہے۔ اگر طلبہ علم دین کی حصولیابی میں مصروف عمل ہیں تو یہ انہی مشفق اساتذہ کی مرہون منت ہے۔ خوف خدا، عشق مصطفےٰ کے شیریں جام سے اسی میکدے نے شرسار کیا ہے۔
انہی کے در سے عزت و شرف، علم و عمل کی ساری بہاریں ہیں۔ ایک شاگرد کو اپنے استاذ کی بارگاہ سے ایسی ایسی نادر و نایاب لازوال دولت ملتی ہے جس کا وہ زندگی میں کبھی تصور تک بھی نہیں کرسکتا۔
ایک استاذ ہی ہے جو طلبہ کو جہل کی تاریک وادیوں سے نکال کر، نور علم سے ان کے سینوں کو منور و مجلیٰ کرتے ہیں۔
جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پاۓ گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے “استاذ” لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ہی سماجی زندگی کے تانے بانے بنتے ہیں۔ وقت کی نبض پر انہی کی نظر ہوتی ہے۔بدلتے حالات کا تجزیہ کرتے ہوۓ منصوبہ بندی بھی انہی کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیمی زندگی اور ان کے تقاضوں پر عمل آوری فیصلہ کن کردار نبھاتی ہے۔ حصولِ علم کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رُکن استاذ ہے، تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصولِ علم میں استاذ کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ استاذ کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم ہے کہ استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اور ادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہو جائے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے: “با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب”
استاذ کے ادب کے مختلف دینی اور دُنیوی فوائد طالبِ علم کو حاصل ہوتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

(1) امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔

(2) امام فخر الدین ارسا بندی رحمۃ اللّٰه علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اور سلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب و احترام کیا کرتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاذ کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔
(راہ علم، ص 35 تا 38 ملتقطاً)

(3) صلاحیتِ فکر و سمجھ میں اضافہ ہونا

(4) ادب کے ذریعے استاذ کے دل کو خوش کر کے ثواب حاصل کرنا، حدیث ِپاک میں ہے: اللّٰه پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔ (معجم اوسط، 6 / 37، حدیث: 7911)

(5) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام دل سے دُعائیں دیتے ہیں اور بزرگوں کی دعا سے انسان کو بڑی اعلیٰ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
(صراط الجنان، 8 / 281)

(6) ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
(تعلیم المتعلم، ص 35)

(7)استاذ کے ادب سے علم کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
(علم و علماء کی اہمیت، ص 108)

والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰه عنہ نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ بے شک تم سے تمہارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اسے سکھایا اور تمہاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سے سوال کیا جائے گا۔
(شعب الایمان، حدیث: 8409)

☜اپنے استاد کی ہمیشہ دل سے قدر کیجیے، وہ چاہے مالی طور پر کم حیثیت کے ہوں، کبھی بھی ان کو مزاق کا نشانہ نہ بنائیۓ۔ یہ خدا کو غضب ناک کرنے والی بات ہے۔
☜استاد روحانی باپ کی طرح ہوتا ہے، سختی کرے یا ترش بولے تو اس کی اِدھر اُدھر شکایت نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ اس کا جائز شکوہ اور گلہ دور کرکے اسے خوشی کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
☜استاد کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا چاہیے۔
☜استاد کی نظروں میں مقام بنانا مشکل کام نہیں ۔ اس کی پسند اور نگاہوں کو جانیں۔ جس جس خوبی اور کام کو وہ محبوب رکھتے ہیں اسے اختیار کریں۔
☜استاد سے کبھی گستاخی نہ کریں اور نہ ہی اونچے لہجے میں بات کریں۔
☜استاد کے ساتھ کج بحثی سے ہمیشہ گریز کریں۔غیر موجودگی میں ان کے عزت کی حفاظت کریں۔ ناکہ دوسروں کے ساتھ مل کر ان کے الٹے سیدھے نام رکھے جائیں اور ان کا مزاق اڑایا جاۓ۔
☜استاد سے تعلیم کے علاوہ بھی مشورے لینے اور رہنمائی حاصل کرنا کا ماحول بنانا چاہیے۔تاکہ ان کے تجربے اور مشاہدے سے فیض حاصل ہوسکے۔
☜استاد سے تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھنا چاہیے اور کبھی کبھی تحائف بھی بھجواتے رہنا چاہیے۔ روحانی ماں باپ کی دعائیں بے حد کارگر ہوتی ہیں۔
یوم اساتذہ[Teachers day] کی مناسبت سے پیاری سی نظم نذر قارئین کی جارہی ہے۔

استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
اے دوستو!
ملیں تو بس اک پیام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیاۓ علم و دانش کا راستہ مجھے دکھایا
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام
کہنا استاذ محترم کو میرا سلام
مجھ کو خبر نہ تھی آیا ہوں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لاۓ تھے آسماں سے
پہنچا دیافلک تلک استاذ نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
جینے کا فن سکھایا مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتاۓ، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں، پھولوں کی انجمن تھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام
کہنا! استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
جو علم کا علم ہے استاذ کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے
ان کی عطا سے چمکا ہے نام
کہنا!
استاذ محترم کو میرا سلام کہنا۔
(منقول)

(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)

ایمان سب سے بڑی دولت ونعمت،اس کی حفاظت کی فکرکریں:-سیدنوراللہ شاہ بخاری.. رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری خادم:مدرسہ گلشن غوثیہ ہینڈیا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان سب بڑی دولت ونعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے،اس لیےہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکرکرنی چاہییے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ ساری نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت” ایمان” کی نعمت ہے، روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت  موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش وسہولت، آرام وراحت اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشااور فرمایا : آج میں نے تمہارے لیے تمھارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)اور اسی نعمت پراپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرمایا:دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(الحجرات:)

اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے  اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان ومذاہب کےدرمیان منتخب فرمایاہے-
ایمان کی دولت دین و دنیا کا سب سے بہترین متاع اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ایمان ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد،فلاح و کامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:مفہوم:’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے،انہیں ضرور زمین کی (سلطنت) خلافت عطاکرےگا‘‘۔(سورۂ نور)
الحمدللہ،ہم مسلمان ہیں،مسلمان ہونا بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں،ایمان کی نعمت جسے مل جائے،وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے، اس نعمت کا حق اگر ہم ادا کرتے رہیں تو یہ نعمت ہمارے دین کے لیے تو نصرت وکامیابی کی دلیل ہے ہی،دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی علامت ہے۔اہل ایمان کو اس نعمت کی برکت سے ایسا عظیم اعزاز عطا فرمایا گیا کہ اسے بادشاہت کی نوید سناکر روئے زمین کا خلیفہ بنادیا۔
ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی، وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم ﷺہمیشہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت اور تاکیدکرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ۔ایسا صرف اس لئے کیونکہ شرک سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے،اللہ ناراض ہوتا ہے اور بنا توبہ کئے اگر شرک ہی پر بندے کا انتقال ہو جائے تو جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(سورۃ المائدہ)
اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں،بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگتے رہیں۔
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے ہینڈیا، باڑمیر میں 8 صفر 1444 ھ/06 ستمبر 2022 عیسوی کو ایک صوفی بزرگ حضرت ہالا فقیر علیہ الرحمہ کے عرس کی تقریب کے موقع پر جلسۂ اصلاح معاشرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہیں-
آپ نے اپنے اپنے خطاب کے دوران علاقۂ تھار میں مروجہ کچھ اہم وغلط رسوم کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگوں کو ان سے بچنے کی تاکید وتلقین کی، بالخصوص قبر بلا مقبور کی زیارت اور اس کی تعظیم وتوقیر سے سختی سے منع فرمایا،اور کچھ نام نہاد صوفی بلکہ حدتو یہ ہے کہ کچھ عورتیں جو یہ کہہ کر لوگوں کا علاج ومعالجہ [جھاڑ پھونک] کرتی ہیں اور بظاہر ان کے کچھ معاملات حل کرتی ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان کے اوپر فلاں بزرگ کا سایہ آتا ہے اس کے غیر شرعی ہونے اور شیطانی اعمال سے ہونے پر بہت ہی عمدہ، پراثر اور دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی اور لوگوں کو اس طرح کے جملہ خرافات سے بچنے کی تاکید وتلقین کی،اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گذارنے کی اپیل کی-
آپ کے خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف نے سندھی زبان میں “اصلاح معاشرہ” کے عنوان پر بہت ہی عمدہ خطاب کیا،جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے کچھ ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور نورالعلماء حضرت علامہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائے کرام شریک ہوئے-
ادیب شہیرحضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولانا دلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین:دارالعلوم انوارمصطفیٰ،مولاناباقرحسین قادری برکاتی،مولاناحبیب اللہ قادری انواری، مولانا احمدعلی انواری،قاری مہرالدین انواری،مولانا محمد ایوب، قاری ارباب علی قادری انواری، مولانانیاز محمد انواری وغیرہم-

امیر القلم علامہ عبد المبین صاحب نعمانی کی خانقاہ برکاتیہ میں آمد اور طلبہ جامعہ احسن البرکات سے خطاب…از قلم : محمد ہاشم رضا برکاتی. متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف.


جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، متعدد کتب کے مصنف علامہ عبد المبین صاحب نعمانی ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ، خانقاہ برکاتیہ میں تشریف لائے اور جامعہ احسن البرکات کے طلبہ کو دو نشستوں میں خطاب و نصیحت فرمایا ۔ پہلی نشست میں خامسہ تا فضیلت کے طلبہ کو بہت ہی قیمتی نصیحتوں سے سرفراز فرمایا، آپ نے فرمایا کہ : آپ میں سے کچھ طلبہ فراغت کے بعد کسی شعبہ میں تخصص کریں گے، چاہے تخصص فی الفقہ ہو یا تخصص فی الحدیث ہو لہٰذا ان طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اور قابل مفتی بنیں. ہمارے یہاں مفتیوں کی کمی نہیں ہے لیکن اچھے مفتیوں کی ضرور کمی ہے۔ اور جو طلبہ تدریسی فرائض انجام دینے لگیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ لغت ساتھ میں رکھیں.اگرچہ آپ کو کسی لفظ کا معنی معلوم ہو لیکن اس کا معنی لغت میں ضرور دیکھ لیا کریں. تحقیقی ذہن بنائیں اور طلبہ کو بھی تحقیق سے پڑھایا کریں. اور جو طلبہ خطابت کے میدان میں اتریں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطابت کو اپنا پیشہ ہرگز نہ بنائیں. اور خطابت کی آج کل جو کتابیں بک رہی ہیں ان میں موضوع روایات کی بھرمار ہے اس لئے تقریر پہلے خود لکھیں پھر بولیں. اور حضرت نے بہت ہی زیادہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری صفوں میں اچھے قلم کاروں کی افسوس ناک حد تک کمی ہے. اگر آج کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو اچھا قلم کار ضرور بننا چاہئے. اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ جمعہ اور جمعرات کے اوقات کو کار آمد بنایا جائے اور ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر جمعہ کو کم از کم ایک صفحہ ضرور لکھے اس طرح آپ کا قلم آہستہ آہستہ چلنے لگے گا ایک دن آپ کا نام بھی مشہور قلم کاروں میں شمار کیا جائے گا.

دوسری نشست! کچھ دیر بعد ایک اور اجتماعی نشست منعقد ہوئی جس میں تمام طلبہ جامعہ نے شرکت کی ۔
طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے حضور امیر القلم نے خصوصی طور پر تجویدو قراءت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ : آج کے حالات کے اعتبار سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے. آج ہمارے مدارس سے نکتہ رس مدرس اور زبان آور خطیب تو بہت پیدا ہو رہے ہیں لیکن اچھے قاریوں کی بہت کمی ہے. اور مزید فرمایا کہ طالبان علوم نبویہ کو ہمارے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور آپ نے حضور مفتئ اعظم ہند اور حضور برہان ملت اور حضور سید العلماء ،حضور مجاہد ملت، رئیس القلم علامہ ارشد القادری رحمہم اللہ کی سوانح پر سیر حاصل گفتگو فرمائی. اور فرمایا کہ مجھ احقر کو ان شخصیات کے ساتھ رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے. ان شخصیات کے اندر دین کا کام کرنے کا جزبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا. اور ہر چہار جانب جو سنیت کی ہریالی دکھ رہی ہے وہ انہیں بابرکت نفوس قدسیہ کےدم قدم سے ہے، اس لئے طلبہ کو ان شخصیات کی سوانح کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، آپ نے علامہ ارشد القادری کی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی خصوصی دعوت دی بالخصوص زلزلہ، زیرو زبر، بزبان حکایت، لالہ زار وغیرہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
اور آخر میں حضور امان اہلسنت نے طالبان علوم نبویہ کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا اور کہا کہ ہماری ہمیشہ یہی سوچ رہتی ہے کہ آپ لوگ کامیاب ہو جائیں. اس لئے آپ کو سال میں تقریباً چار پانچ مشہور شخصیات سے میٹنگیں کروائی جاتی ہیں. لہذا آپ لوگ محنت کریں اور اپنی تعلیم کی جڑوں کو مضبوط بنائیں ان شاءاللہ آگے چل کے کامیاب ہوں گے اس کے بعد صلوٰۃ وسلام اور علامہ صاحب کی دعا پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی.
دوسری نشست میں حضورامان اہلسنت اور جملہ اساتذہ جامعہ احسن البرکات و قاسم البرکات اور تمام طلبہ نے شرکت کی ۔

जामिआ़ राबिआ़ बसरिया [पीर जो कोट शरीफ]सोभाणी पाड़ा,गरडिया में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्स अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया! रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी

07 सफरुल मुज़फ्फर 1444 हिजरी …मुताबिक़:05 सितम्बर 2022 ईस्वी बरोज़: सेमवार जामिअ़ा राबिआ़ बसरिया के वसीअ़ व अ़रीज़ मैदान में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्से मुबारक व जामिआ़ राबिआ़ बसरिया का सालाना तअ़लीमी जल्सा इन्तिहाई शान व शौकत और अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया।

बाद नमाज़े फज्र इज्तिमाई क़ुरआन ख्वानी व फातिहा ख्वानी करके दरगाह हज़रत दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा मे चादरपोशी की गई और सभी ज़ाईरीन समेत मुल्क व मिल्लत की बेहतरी के लिए दुआ़ की गई।

लगभग 08 बजे सुबह जल्से की शुरुआ़त तिलावते कलामे रब्बानी से की गई।

फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ व दारुल उ़लूम की तअ़लीमी शाख मदरसा जामिआ़ राबिआ़ बसरिया के होनहार तल्बा ने अपना दीनी व मज़हबी प्रोग्राम नअ़त,ग़ज़ल [सिंधी नअ़त] व तक़रीर की सूरत में पेश किया जिसे लोगों ने खूब पसंद किया और बच्चों की हौसला अफ्ज़ाई करते हुए इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा।

बादहु हज़रत मौलाना इल्मुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी मुदर्रिस:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने मौक़े की नज़ाकत को देखते हुए मुख्तसर वक़्त में अच्छी तक़रीर की,और “मज़ारात पर औरतों की आमद पर शरई पाबंदी” के हवाले से लोगों को उ़़म्दा व लाइक़े अ़मल पैग़ाम दिया।

आखिर में सदारती व खुसूसी खिताब शैखे तरीक़त नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी सज्जादा नशीन:खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया,मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने किया।

आप ने “अल्लाह की खशिय्यत और रिज़्क़े हलाल की तरग़ीब व ताकीद” के उ़़न्वान पर खिताब करते हुए फरमाया कि हमारे मुआ़शरे के अंदर जितनी भी बुराइयाँ हैं अगर हम चाहते हैं कि उन का खातमा हो जाए तो इस के लिए हमारे लिए ज़रूरी है कि हम अपने दिलों के अंदर अल्लाह का खौफ पैदा करें और साथ ही साथ रिज़्के हलाल की फिक्र करें, और हराम माल से खुद भी बचें और अपने अहल व अ़याल को भी बचाएं।

आप ने इस मौज़ूअ़ पर तमसीली अंदाज़ में बहुत ही उ़़म्दा व पुर अषर खिताब किया।

निज़ामत के फराइज़ खतीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी ने बहुस्न व खूबी निभाई।

बादुहु सलात व सलाम, इज्तिमाई फातिहा ख्वानी व हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।

इस दीनी व मज़हबी प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।
★हज़रत पीर सय्यद इब्राहीम शाह बुखारी…☆हज़रत पीर सय्यद गुलाम मुहम्मद शाह बुखारी…★हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी…☆हज़रत मौलाना पीर सय्यद सदर अ़ली शाह बुखारी…★सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी…☆सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी…★हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस: दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा…☆हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही…★मौलाना खैर मुहम्मद क़ादरी अनवारी☆मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही…★मौलाना बाक़िर हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी…★मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलानाअ़ब्दुर्रऊफ क़ादरी जामई…★मौलाना इस्लामुद्दीन क़ादरी…☆मौलाना अ़ताउर्रहमान साहब क़ादरी…★मौलाना मुहम्मद अ़ली अनवारी…☆हाफिज़ बरकत अ़ली क़ादरी…★क़ारी अ़ब्दुल वाहिद सोहक्वर्दी☆क़ारी फारूक़ अनवारी…★मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी…☆मौलाना दोस्त मुहम्मद अनवारी…★क़ारी अरबाब अ़ली साहब अनवारी…★मास्टर जमाल साहब…☆मास्टर मुहम्द हनीफ…★मास्टर अहमद रज़ा साहब वग़ैकहुम……

रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी
खादिम:जामिआ़ राबिआ़ बसरिया मुत्तसिल दरगाह मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा… …पीर जो कोट शरीफ,सोभाणी पाड़ा,पो: गरडिया, तह:रामसर, ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]

خانقاہوں کا حقیقی تصور.. از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشیدامجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و ارشد ملت ،مسکونہ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال 7030786828


نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
اسلام میں خانقاہی نظام کا تصور ہمیں قرون اولیٰ میں ملتا ہے وہ تو در حقیقت تلاوت آیات تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت پر مبنی ایک تربیتی ادارہ کا تصور ہے ایک ایسا ادارہ جہاں سے گمراہ لوگوں کو نور ہدایت نصیب ہو گنہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملے سیہ کاروں کو روشنی کی کرن نظر آئے عصیاں شعاروں کو ذوق عبادت نصیب ہو جبکہ مروجہ نام و نہاد خانقاہوں میں تو چکر ہی الٹا چل رہا ہے یہاں تو جہالت کو فروغ ملتا ہے اِنسانیت کی تذلیل ہوتی ہے شرفاء کی پگڑی اچھالی جاتی ہے غرباء و مساکین کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں علم و عمل کا مذاق اڑایا جاتا ہے روحوں کو داغ دار کیا جاتا ہے دلوں کو سیاہ فام کیا جاتا ہے ظلمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اندھیرو کو سلامی پیش کی جاتی ہے دولت کی پوجا کی جاتی ہے علماء اہل سنّت کی تحقیر کی جاتی ہے بدمعاشوں کی سرپرستی کی جاتی ہے ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا جاتا ہے ان کے میلوں ٹھیلوں سے ایسی سڑ انڈاٹھتی ہے کہ کسی سمجھدار آدمی کیلئے وہاں ایک لمحہ ٹھہر جانا بھی محال نظر آتا ہے . ہے کوئی چشم بینا جو ان معاملات کی طرف بھی توجہ کرے ؟ ہے کوئی دل درد مند جو ان خرابیوں کے خاتمہ کیلئے بھی مضطر ہو . آج کے زمانہ میں حقیقی خانقاہیں اہل سنت و الجماعت کے وہ دینی مدارس اسلامیہ ہیں جہاں قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے انہیں نماز روزہ کا پانبد علم و تحقیق کا خوگر اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے جدو جہد کا پیکر بنایا جاتا ہے یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ ہم ان میلوں ٹھیلوں کو ملیا میٹ کر کے اپنے دینی مدارس کی سرپرستی کریں علمائے اہل سنت سے رابطہ بحال کریں طلباء مدارس کو ہر طرح کی آسائش مہیا کریں مدرسین کے لئے تنخواہوں کا خاطر خواہ انتظام کریں تاکہ حقیقی خانقاہی نظام کا دوبارہ احیاء ہو سکے ورنہ مروجہ خانقاہوں سے خیر کی توقع رکھنا بیل سے دودھ کی امید رکھنے کے مترادف ہے.
مزارات کے گلّے اور صندوقچے
یہ ایک عجیب ترین بات ہے کہ مزارات اور خانقاہوں کے دروازے پر بڑے بڑے گلے اور صندقچے رکھے ہوتے ہیں جہاں بڑے ہی بد اطوار قسم کے مجاور زائرین کی آمد پر ان گلوں کو کھڑ کھڑا کر نذرانہ طلب کر تے ہیں جس پر جاہل اور احمق قسم کے لوگ ان گلوں میں ہزاروں روپے ڈال جاتے ہیں بعد میں یہ پیسے یا تو محکمہ اوقاف والے اٹھا کر لے جاتے ہیں یا پھر سجادہ نشین صاحبان ان سے گلچھرے اڑاتے ہیں یاد رکھنا ہے کہ ان پیسوں کا مصرف سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں ہوتا یہ تمام اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ جاہل لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ گلوں میں ڈالے ہوئے ان کے پیسے در اصل افسروں اور سجادہ نشینوں کے پیٹوں کا جہنم بھر نے کے کام آتے ہیں ان پیسوں سے جہلاء کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہر گز نہیں ملتا نہ ہی دنیوی نہ ہی اخروی بلکہ الٹا دونوں جہانوں کا خسارہ ہوتا ہے دنیا کا اس لئے کہ وہی پیسے جو انہوں نے گلے میں ڈالے وہ ان کے اہل خانہ یا دیگر امور خیر میں کام آ جاتے جو نہ ہوسکے اخروی اس لحاظ سے کہ یہ پیسے ناجائز کاموں میں صرف ہوتے ہیں اس طرح ناجائز کاموں میں ان کا حصہ بھی شامل ہوجا تا ہے لہذا قیامت کے دن غلط کار افسروں اور سجادہ نشینوں کے ساتھ ان کا بھی مواخذہ ہوگا اس لئے ان گلوں میں پیسے ڈالنے کے بجائے انہیں راہ خدا میں خرچ کیا جائے اور خاص طور پر اہل سنت کے مدارس کو مضبوط کیا جائے فی زمانہ مدارس کا بھی یہی حال ہے

تو زندہ ہے و اللّٰہ،.انبیائےکرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک چشم کشا تحریر ازقلم :- فخر عالم اسماعیلی احسنی بارہ بنکوی متعلم : جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

اللّٰہ تبارک و تعالی نے اس خاک دان گیتی پر سب سے اشرف و اعلیٰ مخلوق انسان کو پیدا فرما کر اس کے سر پر اَحْسَنِ تَقْوِیمْ کا تاج زریں سجایا۔ اور ذاتِ لَمْ یَزَلْ نے انہی میں سے انبیائے کرام کی شکل میں ایسے ستارے درخشاں کیے جنہوں نے کائنات کو علم و ہدایت کے نور سے منور کر دیا ان میں آخر میں وہ ستارہ طلوع ہوا جس کا وجود ہر شی کی اصل ہے،جس کو قَدْجَاءَكُم مِنْ اْللّٰهِ نُوْرٌ کاپیکر اور اَوَّلُ مَاْخَلَقَ اللّٰهُ نُورِىْ کا جامہ پہناکر مبعوث فرمایا۔ یہ انبیائے کرام کی مقدس جماعت کے آخری فرد فرید ہمارے آقا علیہ السلام ہیں۔ یہ تمام انبیاءاس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے اور خدائی پیغام کو بندوں تک پہنچایا اور وقت مقررہ پر اس عالم فانی سے پردہ فرما گئے۔ چونکہ وعدۂِ ”كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْت“ بر حق ہے۔ اس وعدے کے مطابق موت انبیاء کو بھی آئی مگر ایک پل کےلیے۔ پھر اللہ نے انہیں برزخی زندگی عطا فرما دی۔ اسی کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں: ۔
انبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے

   تمام بنی آدم ذائقۂ موت چکھنے کے بعد پھر انہی اجسام عنصریہ کے ساتھ روز قیامت زندہ کیے جائیں گے۔ اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللہ تعالی بعض نفوس قدسیہ ( انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے، اگر آپ کی عقل اسے تسلیم نہیں کر سکتی ہے تو عالم آخرت کی زندگی کا ادراک بھی قدرت الٰہیہ کے علاوہ اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 

انبیائے کرام علیہم السلام کے لیےموت صرف تصدیق اور وعدۂِ الٰہیہ کےمطابق ایک آن کے لئے آتی ہے، پھر وہ ابد تک حیات حقیقی دنیاوی اور جسمانی کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی قبروں میں حصول لذت کے لیے نماز بھی پڑھتے ہیں انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں اور ساری کائنات پر حکومت بھی کرتے ہیں، انبیائے کرام کی زندگی کے بارے میں علمائے امت محمدیہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے انبیائے کرام دنیاوی و حقیقی زندگی کے ساتھ حیات ہیں اور حیات انبیاء کا انکار کرنے والے لوگ گیارہویں صدی ہجری کے بعد ہی رونما ہوئے ہیں۔
مندرجہ ذیل سطروں میں انبیائے کرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر چند دلائل نقلیہ وعقلیہ ملاحظہ فرمائیں،

نقلی دلائل:
(١) اللٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ! وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِي سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتَ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَا تَشْعُرُوْن،(ترجمہ) اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں،
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام ہر اعتبار سے شہداۓکرام سے افضل و اعلیٰ ہیں، گروہ شہداء کا درجہ انبیاۓ کرام سے کم ہے اور جب شہداء کے لئے اس آیت کریمہ سے حیات ثابت ہے تو انبیاء و مرسلین جو سب سے اعلی و ارفع گروہ ہیں، ان کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ حیات ثابت ہوگی، اسی طرح جب قرآن میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے تو انبیائے کرام کو بھی بدرجۂ اولیٰ مردہ کہنے سے منع ہوگا۔
صحابہ ،تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء ،صالحین، اسلاف، اور تمام عاشقان محبوبِ ذاتِ لم یزل کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاۓ کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور اپنی امت کے احوال پر بھی مطلع ہیں،
(٢) اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ! وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃَ لِلْعَالَمِین: اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور آپ ﷺ کا رحمت ہونا تمام جہانوں کے لئے عام ہے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آپ اپنے ظاہری حیات میں اور بعد وفات بھی رحمت ہیں اور تمام جہانوں کیلئے رحمت ہونا آپ کی حیات کا تقاضہ کرتا ہے۔
(٣) حدیث پاک میں ہے: ”عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قالَ قالَ رسولُ اللّٰهِ ﷺ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى اْلاَرْضِ اَنْ تَاكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ“ (سنن نسائی،کتاب الجمعہ،ص: ۱۸۶/ ۱۸۷۔) رسول کریم ﷺنے فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر اجسام انبیاء کھانے کو حرام فرمادیا ہے۔ علامہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں؛ کہ ” اللہ کے نبی دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں“ ۔ حضرت ملا علی قاری فرماتےہیں : ” لَا فَرْقَ لَهُمْ فِي الحالَيْنِ وَلِذاقِيْلَ اَوْلِياءُ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ وَلٰكِنْ يَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلىٰ دَارٍ، وَاِنَّ اْلْاَنْبِياءَ فِي قُبُوْرِهِمْ اَحْيَاءٌ“.(انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کی اللّٰہ کے دوست مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں، اور بلاشبہ انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
(۴) سب سے بڑی دلیل حدیث پاک ہے ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قالَ قَالَ رسولُ اللّٰه ﷺ اَلْاَنْبِيَاءُ اَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّونَ“(حياة الانبياء فى قبورهم ص:٣) کبار محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ زندہ ہی نہیں بلکہ ایسے زندہ ہیں کہ وہ اپنی قبر انور سے سنتے بھی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں، ان کی حیات کا کوئی زوال نہیں ہے جب انبیاۓ کرام کا قبروں میں زندہ ہونا ثابت ہے تو سیدالانبیاء کا قبر انور میں زندہ ہونا بدرجۂ اتم ثابت ہوگا،
اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیزش اور تاویل کا وہم بھی نہیں ہے۔ اور امت کے ہر شخص کی نیت واعمال پر حاضر و ناظر بھی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو حضور کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے ہیں۔
حضور نور مجسم ﷺ دنیاوی زندگی سے لاکھوں کروڑہا درجہ بہتر اپنی قبر انور میں زندہ ہیں ۔
(۵) شب معراج آقا ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء و مرسلین کی امامت فرمائی تو اس سے یہ بات روز روشن کی طرح منور ہوگئ کہ انبیاۓ کرام بعد وصال بھی زندہ ہیں۔
(٦) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت پر صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکرصدیق کے جنازے کو بابِ روضۂ رسول پر رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کے الفاظ دہرائے، ” یَا رَسُولَ اللّٰهِ ه‍َذَا اَبُوبَکْرٍ یَسْتَأذِنُ (اے اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر ہے آپ سے اجازت طلب کر رہا ہے) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دروازہ خود بخود کھل گیا اور روضۂ رسول سے یہ آواز آئی کہ حبیب کو حبیب سے ملا دو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے اس عمل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اپنے غلاموں کی فریاد سنتے بھی ہیں اور ان کو نوازتے بھی ہیں۔
(۷) اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی االلہ عنہا کا روضۂ رسول و ابو بکر پر بغیر پردے کے جانا اور حضرت عمر فاروق اعظم کے مدفون ہونے کے بعد پردے کے ساتھ جانا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ عمرین بھی زندہ ہیں۔
(۸) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا چہرہ قبرِ انور پر رکھنا اور مروان بن حکم سے یہ کہنا: کہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
صحابئ رسول کا یہی نظریہ تھا کہ یہ قبر محض مٹی کا ڈھیر نہیں ہے بلکہ اس میں نبی پاک ﷺ جلوہ گر ہیں ، صحابۂ کرام، تابعین عظام آپ ﷺ کو زندہ سمجھ کر ہی قبر انور پر حاضری دیا کرتے تھے۔

عقلی دلائل:
(۱) اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللّٰہ ﷻ بعض نفوس قدسیہ (انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے ،
(۲) انبیاۓ کرام کا بعد وصال ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہےاور ان کی بیویاں عدت گزارنے کے بعد بھی دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں۔ کیونکہ زندوں کاترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بعد وفات تقسیم کیا جاتا ہے اور انبیاۓ کرام زندہ ہیں اس لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک شوہر زندہ ہےعورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی ہےاور انبیاۓ کرام کی بیویاں بھی کبھی بھی دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی ہیں اس لئے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں۔
(۳) انبیاۓ کرام کا تو الگ ہی مقام ہے ان کے خاص غلام بھی اپنی قبروں میں باحیات ہیں مثلا صحابئ رسول حضرت حذیفہ و حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو تیرہ سو سال بعد قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا اور جسم مبارک کا بلکل صحیح و سالم ہونا، ان کے چہرۂ زیبا کو دیکھ کر ہزاروں لوگوں کا اسلام قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء و اولیاء مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔
اولیاء و شہداءکی قبورکھلنے پر ہم انہیں حرکت و عمل اور عبادت الٰہیہ کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ ذات مدفونہ ہی معطل عن الافعال ہیں،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں وہ قوت ہی نہیں ہے کہ ہم ان کے مصروف بالعبادت ہونے کا ادراک کر سکیں، ہاں! اللہ تعالیٰ جس سے وہ پردہ اٹھا لے وہ تمام عالم کے حالات مشاہدہ کر لیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنے جسم و روح کے ساتھ اپنی قبر میں زندہ ہیں اس کو یوں سمجھیں مثلا ” زیدٌ عالمٌ “ کا ترجمہ ہر عربی داں یہی کرے گا کہ زید فی الحال عالم ہے یہ کوئی نہیں کہے گا کہ زید عالم تھا۔ اسی طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ کا ترجمہ ہر شخص یہی کرے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ کوئی نہیں کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، بلکہ ہر چھوٹا بڑا یہی کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس کا ملخَّصِ کلام یہ ہے کہ آقا ﷺ ہر زمانے میں حیات ظاہری کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور یہ کلمۂ طیبہ ہمارے نبی کے زندہ ہونے کی بہت بڑی
دلیل ہے لہذا ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ انبیاۓ کرام جسم و روح کے ساتھ زندہ ہیں _
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میرےچشم عالم سےچھپ جانےوالے

حکمتوں سےمعمورمفتئ اعظم اڈیشا کے پر تاثیر کلمات خیر——از سید آل رسول حبیبی ھاشمی سجادہ نشین خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

سیدنا مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ کی ذات اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی ، انکی حق بیانی ،شریں زبانی اور فصاحت لسانی سےایک عالم مستنیر ہے
انکے پاکیزہ جملوں سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹتے اور موتی جھڑتے تھے
ایک بار ایک مصیبت زدہ شخص کی مایوس کن باتوں کو سن کر آپ نے ارشاد فرمایا
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
یہ کلمات مبارکہ کتنے مختصر ہیں لیکن اس سے علم و حکمت کے گوہر آبدار چمکتے ہیں –
اس میں مومن کی قید احترازی ہے ، جس سے تمام بے ایمانوں کو خارج کردیا گیا ہے ، کیونکہ
اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار صرف اور صرف مومن ہے ، ہرگز کوئی کافر نہیں ۔
ارشاد ربانی “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”
میں ضمیر خطاب مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ ما سبق سے ظاہر ہے
یہ حق ہے کہ
دنیا کے مصائب و آلام پر جو بندہ صبر و شکیب کا پیکر بن جاتا ہے اور راضی برضائے الہی رہتا ہے ، وہی حقدار جنت ہوتا ہے اور اسی کو رب کریم نے مژدۂ جنت عطا فرمایاہے ۔
حق فرمایا سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ نے
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
حکمت و موعظت سے بھر پور اس کلام نور و سرور کو سن کر اس دل شکستہ مایوس بندے کو ایسی کامل تسلی ملی اور ایسا قلبی سکون حاصل ہوا کہ
لاس کے دل پر جو مایوسی کی کائی جم گئی تھی وہ یکسر ہٹ گئی اور وہ عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا فالحمد للہ رب العلمین
ایسی بافیض ذات گرامی کا ۲۸ واں
“عرس قدوسی “
4ربیع النور 1444یکم اکتوبر 2022 کو
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا میں شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے
جس میں ہند و بیرون ہند کے درجنوں علما، صلحا اور شعرا کا نورانی قافلہ جلوہ بار ہوکر صاحب عرس کی بارگاہ عالی جاہ میں نظم و نثر کے ڈریعہ عقیدت و محبت کا خراج پیش کریگا
احباب اہل سنت و عزیزان طریقت سے عرس کی نورانی تقریبات میں شرکت کی مخلصانہ اپیل ہے
ملتمس
سید آل رسول حبیبی ھاشمی
سجادہ نشین
خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی…از قلم۔محمد توحید رضا اویسی احسنی متعلم: جامعہ احسن‌البرکات مارہرہ شریف

گزشتہ چند برسوں میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقّی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہونچا دیا ہے یہ تمام کتاب و مطالعہ کی مرہونِ منّت ہیں لیکن جس کتاب کی بدولت یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں،اسی کتاب سے بحیثیتِ مجموعی ہمارا رِشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
آج تمام نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اتنی بری طرح سے گرفتار ہیں کہ جو وقت کتاب بینی کا حق تھا وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذر ہو گیا۔ اور اب فیس بُک ،وہاٹس ایپ ،ٹویٹر موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کُتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آ گئی ہے۔انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند ہوتا جا رہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے جو ہمارے اسلاف کے دور میں تھا۔
اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اور طالب علم کا تعلق صرف نصابی کُتب تک محدود ہو کر ره گیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیرِ اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیر نصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کُتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیاجاتا ہے۔
اگر چہ آج کمپیوٹر و موبائل میں مطالعہ کرنے کے متعدّد مواقع موجود ہیں۔لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے۔اس کا مقابلہ دیگر ذرائع نہیں کر سکتے۔کتاب اور انسان کا رِشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تہذیبِ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو۔
یاد رکھیں کُتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتا ہے۔علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی مشعل راہ کا کام دیتا ہے،یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہوں وہ اس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے در نایاب چن سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے اسی لیے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی ان کے نام آسمان علم کی افق پر جگمگا رہے ہیں۔
امام غزالی،ابو نصر الفارابی، ابن رشد،جابر بن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدراشخاص کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں، ویسے تو ہمارے علاقے میں علمی دنیا کے وہ قدآور ستون موجود ہیں جن کے ناموں اور کاموں کا احصاء دشوار ہے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے مطالعہ اور کتب بینی کا ذوق ابھارنے کا درس دیا۔
اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تابانی سے عالم کو منور کرنے والے اور ہر سو اجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اقوالِ دانشوراں: ذوق مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں: کہ تیل کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا
تھا‌۔
امام زہری کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اِدھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔ بیوی ان کے اس عادت سے سخت ہیچ و تاب کھاتی۔ ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔
میں کالے کا قول ہے کی وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کومطالعہ کا شوق نہیں۔
“مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے” مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اور اس کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔”امریکا کا مشہور صدر ابراہم لنکن کہتا ہے” کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے.
“والٹیئر کا قول ہے”وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں.
اپنے ڈیسک کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے: کہ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کے بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی زندہ کردار موجود ہیں، جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اور دن دوگنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں، ان لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
کُتب بینی کے نقصانات: ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق تقریبا دم توڑ چکا ہے بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو ذوق کتب بینی کی حلاوت سے آشنا،کتاب دوستی پے نازاں اور کتابوں کی معیت میں فرحاں و شاداں ہیں ورنہ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہوئے ہیں وہ اپنی نظروں کے سامنے “کتاب” کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی برداشت کرسکتے ہیں۔
کتاب پڑھنا ان کے لئے ہاتھ میں انگارہ لینے کے مترادف ہے وہ دنیا کی رنگینیوں، فضول اور واہیات مجلسوں، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ وجوہ راضی و قانع ہیں۔
ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود، ناچنے تھرکنے، نت نئی فیشن اختیارکرنے، ملبوسات کے نئےاسٹائلز زیب تن کرنے، بالوں کی تراش و خراش درست کرنے اور خوب سے خوب تر بلکہ خوب رو ہونے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ان امور سے کئی گنا اہم کام ان کی نگاہ میں فضول، بے معنی،بےوقعت اور ہیچ ہیں۔
عدمِ رغبت کے اسباب اور انکا تدارک: لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب ان کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح و تربیت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ چکے ہیں وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا درس دے کر ان کی مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوس کر دیتے ہیں۔
اس لئے کہ یہی نونہالان قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھرمار کا پلندہ ہے۔
یہ کتب بینی سے دوری اور بُعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدردانی اور مرتبہ شناسی کا عنصرناپید ہے۔
اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدمِ واقفیت اپنے عروج پر ہے اس سے زیادہ پُرخطر، باعث تشویش، قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابل افسوس، قابل ماتم،اور قابل مذمت ہے۔
رغبت کے اسباب:کُتب بینی انسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہے اور دوسروں کے خیالات کو جاننے میں موقع فراہم کرتی ہے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں اسرار موتی بند
ہیں۔
کتابیں شخصیت سازی کا ایک کارساز ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہیں۔زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں جو قومیں کتابوں سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں جن کا تعلق کتب بینی سے مضبوط رہا ہو۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل رک جاتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرہ کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے ۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت، حلاوت، شیرینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور انہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں۔ اپنے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ سچے مسلمان ہونے کا درس دیں تو قوی امید اور مہذب ترین اقوام میں شمار ہونے لگے گا- [ان شاءاللہ]

      کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے
    یہ آخری صدی ہے ،کتابوں سے عشق کی ۔

شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ… از قلم :شیخ منتصر احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جنکے نشاں کبھی
یوں تو برِصغیر ہندو پاک میں بہت سے اجلہ علماء اور مشائخ کی ولادت ہوئی جنہوں نے اسلام و سنیت کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور لوگوں کے لیے اپنی تصنیفات و تالیفات اور باقیات صالحات کو مشعل راہ بنا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں 20 / ویں صدی کے نصف میں پیدا ہونے والا وہ مرد قلندر بھی ہے جس کی تصانیف ساری دنیا کے اردوداں حضرات کے قلوب و اذہان کو مسخر اور فتح کر چکی ہیں – جس کی تحریروں نے بدعقیدگی و گمراہی و ضلالت کے سیلاب اور طوفان کا رخ موڑ دیا، ملکی پیمانہ پر بدمذہبی اور لا دینی کے پھوٹنے والے چشموں کے سوتے جس کے نوکِ قلم کی سیاہی سے بند ہوتے نظر آئے – جس نے بروقت اور بلا تاخیر اپنی تحریروں، تقریروں، اور فتاووں کے ذریعہ اکناف و اطراف ہند سے اٹھنے والے ہر فتنہ کا سد باب کیا – اس ذات گرامی کو زمانہ فقیہ اعظم ہند، نور دیدۂ مشائخ مارہرہ، برکاتی مفتی ، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی برکاتی علیہ الرحمہ کے نام سے موسوم کرتا ہے –
فقیہ أعظم ہند جماعت اہل سنت کی آبرو اور ایک قیمتی امانت ہونے کے ساتھ، عظیم دینی و مذہبی رہنما بھی ہیں جماعت، اہل سنت کو اس عظیم شخصیت پر ہمیشہ ناز رہا – آپ آفاقی فکر و نظر کے حامل، پر عزم حرکت و عمل کی چلتی پھرتی تصویر اور جہد مسلسل، سعی پیہم، اخلاص و وفا کے پیکر جمیل، علم و حکمت کے بحرِ بے کراں، عمل و کردار کے سیلِ رواں اور گونا گوں فضائل و کمالات کے جامع تھے –
آپ کی ولادت ١٣٤۰ھ / 1921 ء میں ضلع مئو کے نہایت مشہور اور مردم خیز خطہ قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں ہوئ – آپ نے مقامی مکتب میں ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی رضوی اعظمی مصنف بہار شریعت کے منجھلے بھائی حکیم احمد علی علیہما الرحمہ سے گلستاں بوستاں پڑھی – اس کے بعد ١٠شوام المکرم ١٣٥٣ھ / ١٩٣٤ء کو دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے حضور حافظ ملت کے زیر اثر رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی سے لیکر حمداللہ، ہدایہ اور ترمزی شریف تک کتابیں بڑی محنت اور جاں سوزی کے ساتھ پڑھیں، اور حافظ ملت کے فیضان سے آپ کا سینہ موجزن ہونے لگا –
محرم الحرام ١٣٦١ھ / ١٩٤٢ء میں سات آٹھ ماہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ اندرکوٹ میرٹھ کے بھی آپ طالب علم رہے، یہاں آپ نے صدرالعلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے حاشیہ عبد الغفور اور شمس بازغہ وغیرہ اور خیر الازکیاء، حضرت مولانا غلام یزدانی اعظمی سے خیالی و قاضی مبارک وغیرہ اہم کتابوں کا درس لیا اور پھر شوال ١٣٦١ھ ١٩٤٢ء میں آپ نے مظہرِ اسلام بریلی شریف پہنچے جہاں آپ نے محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد صاحب سے اکتساب فیض کیا – اور ١٥/ شعبان ١٣٦٢ھ / ١٩٤٣ء کو آپ کی فراغت ہوئ- مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا قادری نوری برکاتی، صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،اور صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآباد، اور دیگر اجلہ علماء مشائخ اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار فضیلت اور جبہ سے نوازا –
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری علیہ الرحمہ وہ شخصیت ہیں جن کے اندر قدرت نے متعدد صلاحیتیں نہایت فیاضی سے کاشت کی ہیں – فقیہ اعظم ہند شہنشاہِ قلم و لسان بھی ہیں، اور صاحب طرز و بیان بھی، فقیہ اعظم ہند ادیب شہیر بھی ہیں اور مناظر اسلام بھی اور مقرر بے بدل بھی۔
اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے شارح بخاری عہد طالب علمی ہی سے اساتذہ اور مشائخ کے معتمد اور مرکز عنایت رہے – چاہے سرکار مفتی اعظم علامہ محمد مصطفیٰ رضا قادری ہوں یا صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ہوں یا حافظ ملت علامہ عبد العزيز محدث مبارکپوری ہوں یا محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری ہوں، غرض کہ سبھی کی نگاہ کرم سے سرشار، سرچشمہ عنایت سے فیض یاب اور پاکزہ دعاؤں سے سرفراز تھے، اسی سلسلہ میں فیض رضا اور مشائخ مارہرہ مطہرہ کے کرم کو منفرد خصوصیت حاصل ہے – بالخصوص مارہرہ مطہرہ کے مشائخ نے شارح بخاری پہ کو الطاف و عنایات کی برسات کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی ۔
تاج العلماء کی کرم نوازی :
شارح بخاری نے حالات کے آگے سپرانداز ہونے کا سبق نہیں پڑھا تھا آپ نے قلم سے مجاہد کی تلوار کا کام لیا۔ اگر آپ کے رشحات قلم میں غور و فکر کی نظر ڈالی جائے تو آپ کی داعیانہ و قائدانہ شخصیت تہہ بہ تہہ کھلتی جائے گی اور دنیا کو فقیہ اعظم علیہ الرحمہ کی سیاسی بصارت و بصیرت کے مقام و مراتب کا علم و ادراک ہو سکے گا.
آپ نے تقسیم وطن سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کے سیاسی پلیٹ فارم سے کچھ عجیب سی آوازیں اٹھ رہی تھیں، اس وقت مسلمانوں کے اسلامی اور سیاسی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت فقیہ اعظم ہند نے” اشک رواں “ کے نام کی ایک مدلل اور انقلاب انگیز کتاب تحریر فرمائی – یہ کتاب جب مارہرہ مطہرہ میں مسند غوثیہ کے تاجدار، تاج العلماء حضرت مولانا سید شاہ اولاد رسول محمد میاں مارہروی قدس سرۂ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے مصنف کو بے شمار دعائیں دیں – تحسین و آفریں س نوازا اور حوصلہ آفزائی کرتے ہوئے دعائیہ کلمات تحریر فرمائے –
مارہرہ کے نورانی فیضان کی یہ پہلی لہر تھی – جس نے شارح بخاری کو ایسا نوازا کہ خاندان برکات کا بچہ بچہ حضرت شارح بخاری کی قدردانی، والہانہ شیفتگی اور دینی محنت سے سرشار نظر آتا ہے – خاندان برکات کے سرچشمہ فیض سے قریب ہونے کے بعد حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ پر برکاتی فیضان خوب برسا –
سید العلماء کی قدر شناسی:
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اور مشائخ مارہرہ کے درمیان تعلقات کا جب ہم تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشائخ مارہرہ میں سب سے پہلے آپ کی ملاقات حضرت سید العلماء سے (گیا /بہار) میں ہوئ – [شارح بخاری ص 65]جب سید میاں بہار کے مظلومین کے لیے ریلیف لے کر تشریف لائے تھے – غائبانہ تعارف تو پہلے سے ہی تھا، اس لیے ملنے کے بعد شارح بخاری کو فوراً گلے سے لگا لیا۔
اس کے بعد سید العلماء نے خصوصی دعوت نامہ شارح بخاری کے نام سے بھیجا۔ مفتی صاحب جب مارہرہ شریف تشریف لائے اور مبارک عرس میں حاضر ہوئے تو سید العلماء نے آپ سے تقریر کرائی – جب سید العلماء نے خطاب سنا تو فرمایا: مفتی صاحب! قل سے پہلے ہمیشہ میری تقریر ہوتی تھی اب یہ وقت میں آپ کو پیش کرتا ہوں اب اس وقت میں ہمیشہ آپ کی تقریر ہوا کرے گی –
سید العلماء کا عطا کردہ یہ اعزاز شارح بخاری کی زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا اور ہمیشہ قل سے پہلے آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی –
مارہرہ کی مقدس سرزمین سے جاری ہونے والا وہ چشمہ روحانیت جو متحدہ ہندوستان کا مرکز قادریت ہے اور جس سے ہزاروں لاکھوں تشنہ قلوب و ارواح کو سیرابی حاصل ہوئی انہیں میں شارح بخاری کی بھی ذات گرامی ہے ۔
حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کو اس عظیم الشان خاندان میں دو بہت وجیہ اور اہم شخصیتوں کو دیر تک برتنے کا موقع ملا – ان میں سے ایک حضرت سید العلماء مولانا سید شاہ محمد آل مصطفےٰ قادری برکاتی کی ذات گرامی تھی – اور دوسری گرامی شخصیت حضرت احسن العلماء مولانا سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات تھی – دونوں حضرات ہندوستان کے ممتاز ترین عالم دین اور بہت عالیشان خانقاہ کے سجادہ نشین اور ہزارہا ہزار لوگوں کے مرکز عقیدت اور مرشد طریقت تھے-

           حضور احسن العلماء کی عنایتیں اور  برکاتی مفتی کا خطاب :
            امین ملت سید شاہ محمد امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ بیان فرماتے ہیں کہ: میرے والد ماجد حضور سیدی احسن العلماء علیہ الرحمہ نے فرمایا انسان کے لیے لازم ہے جس طرح چھان بین کے بعد اپنے معالج کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح غور و فکر اور تحقیق کے بعد کسی کو اپنا مفتی بنائے، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے بعد سوچ سمجھ کر ہم نے نائب مفتی اعظم مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو اپنا مفتی بنایا ہے - یہ برکاتی مفتی ہیں -[ معارف شارح بخاری ص 30]
             حضور احسن العلماء فقیہ اعظم کے فتویٰ پر بھر پور اعتماد فرماتے جب کہ وہ خود افتاء کے بے نظیر محرم راز تھے - حضور احسن العلماء سے جب کوئی فتویٰ پوچھتا تو فرماتے شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب سے استفتاء کرو ان کا جو فتویٰ ہوگا وہی ہمارے فتویٰ ہے -[شارح بخاری ص95] اور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد علیہ الرحمة و رضوان شارح بخاری سے بڑی انسیت رکھتے تھے - عرس قاسمی کی آمد میں تاخیر ہوتی تو والد ماجد فکر مند ہو جاتے اور احباب کی ڈاک اسٹیشن سے گھر تک دوڑ لگا دی جاتی اور جیسے مفتی صاحب آجاتے تو حضور احسن العلماء فرماتے کہ "عرس شریف مکمل ہو گیا" -

            حضرت نظمی میاں صاحب کی نوازشات :

سرکار نظمی حضرت سید ملت برکاتہم القدسیہ نے شارح بخاری کو سب سے عظیم نعمت یعنی جملہ سلاسل خاندانی کی اجازت و خلافت عطا فرمائ۔ اور آپ اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:” حضور فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ہمارے برکاتی مفتی ہیں۔ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی محبت ہم مارہرہ کے بچوں بچوں کی گھٹی میں پڑی ہے –

حضور امین ملت کی نظر میں :
حضور امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ ،بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ فرماتے ہیں: ہم نے فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو آنکھوں پر چڑھا کر رکھا اس لیے نہیں کہ مفتی صاحب کوئی لمبا چوڑا نذرانہ ہم لوگوں کو پیش کرتے ہیں یا یہ نہیں کہ جب مفتی صاحب کے گھر جاؤ تو بہت زبردست والی خاطر تواضع کرتے ہیں – باہر سے آتے ہیں تو ہمارے لیے کچھ میٹھائی لے کر آتے ہیں – بلکہ مفتی صاحب سے ہم اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہماری اور ان کی منزل ایک ہے وہ منزل اترپردیش کا وہ شہر ہے جسے ہم بریلی شریف کے نام سے جانے ہیں- جس کا نام سنتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں – [ماہنامہ اشرفیہ مارچ 2000 جشن شارح بخاری نمبر 27]
اور آگے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ انسان کی پہچان تین وقتوں میں ہوتی ہے (1)سفر۔ (2)معاملات اور (3)پڑوس میں ۔ مجھے عمرہ کے واسطے سے اور افریقہ کے دورے میں ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا – معاملات کے بھی کئ معاملے سامنے آئے اور دوران سفر ان کا پڑوس بھی ملا – بفضلہ تعالیٰ میں نے انہیں ہر مقام پر مفتی پایا، پر جگہ شریف دیکھا اور ہر موقع پر حق پایا –
حضور امین ملت کے یہ جملے بڑے معنیٰ خیز اور نکتہ آفرین ہیں، آپ نے شارح بخاری کے نام (مفتی شریف الحق) کو اپنے لفظوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال فرمایا ہے کہ نام بھی ادا ہوگیا اور معنویت میں کمی کیا آتی، معنویت میں تو چار چاندلگ گئے ۔

حضور رفیق ملت کی نظر میں:
اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب حضور احسن العلماء قدس سرہ کی وصال پر ملال کی اطلاع ملتے ہی فقیہ اعظم گھوسی سے دو بجے رات ہی میں روانہ ہو کر بھاگم بھاگ مارہرہ شریف پہنچے – اس غمزدہ ماحول میں جب کہ پوری فضا، خانقاہ کے درو بام اس عارف اسرار الٰہی کی رحلت پر ماتم کناں تھے – خاندان برکات کے شہزادے فقیہ اعظم کے اعزاز میں مصروف نظر آئے – حضور احسن العلماء کے عرس چہلم میں دیکھا گیا کہ فقیہ اعظم کے اعزاز کا وہی انداز برتا گیا جو حضور احسن العلماء کی حیات مبارکہ میں تھا – چلتے وقت نذر بھی پیش کی گئی تو فقیہ اعظم آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: مخدوم زادے! اس وقت تو آپ حضرات خود ہر صورت سے دلداری اور غمگسار کے مستحق ہیں از راہ کرم یہ تکلیف نہ فرمائیں – یہ سن کر حضور رفیق ملت (ابا حضور) رو پڑے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا! اگر آپ کی خدمت میں ہم سے ذرا بھی کوتاہی ہو گئ تو والد ماجد علیہ الرحمہ کی روح ہم سے ناراض ہوگی –

شرف ملت کی نظر میں:
شرف ملت سید محمداشرف میاں صاحب فرماتے ہیں کہ : فقیہ اعظم ہندکئی اعتبار سے اعظم ہیں تمام اعظموں پر نظر رکھ کر اس فقیر برکاتی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجئے –
(1) مذہب اعظم، مشرب اعظم اور مسکن بھی اعظم ہے اور ان کا قلم بھی طاقتور ہے اور ان کا فن بھی اعظم ہے
(2) مفتی شریف الحق صاحب کے سارے حوالے ارفع ہیں چاہنے والا سواد اہل سنن بھی اعظم ہے

(3 ) صدر شریعت، حافظ ملت، احسن العلماء مفتی اعظم ۔ سارے بڑوں کو ہم نے ان پر خوب ہی مائل دیکھا ہے
(4) فیض شریعت فیض  طریقت کیوں نہ ان سے جاری ہو
حب نبی میں ہم نے ان کو گھائل دیکھا ہے - 

( بحوالہ خطاب ۳۰ جنوری ۲۰۰۰ مستان تالاب ممبئی )

 مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوراً وہ کتاب لکھتے اور بصیرت انہیں چار واسطوں سے ملی تھی، حافظ ملت نے میدان تدریس میں، صدرالشریعہ نے فقہی، علامہ سید احسن العلماء اور مفتی اعظم نے خانقاہی؟ بصیرتیں عطا کیں تھیں اب وہ عالم بقا کو چلے گئے ان کا کوئی نعم البدل  نظر نہیں آتا ہے - 
  سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے
   تب جا کے اس انداز کا میخانہ بنا ہے

مشائخ مارہرہ کی طرف سے جو قددانی اور جو اعزاز اخیر لمحات حیات میں انہیں نصیب ہوا معاصرین میں کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا – ان آقاؤں کے ساتھ فقیہ اعظم کی والہانہ عقیدت اور خاندان برکات کی فقیہ اعظم کے ساتھ بے پناہ محبت و اعزاز کے دو آتشہ ہی کی سرمستی تھی کہ فقیہ اعظم کے وصال کی اطلاع ملتے ہی علالتوں کے باوجود برکاتی شہزادے بمبئی اور علی گڑھ سے فوراََ تشریف لے آئے اور فقیہ اعظم کا آخری سفر بھی انہیں مخدوم زادگان عالی وقار کے دست ہائے گرامی کے سہارے اختتام پزیر ہوا – عقیدتوں کی اس سے بڑھ کر سرفرازی اور کیا ہو سکتی ہے – وصال ایک عظیم حقیقت ہے مگر بڑے مبارک ہیں وہ نفوس قدسیہ جو مشیت کی طرف سے تفویض کردہ اپنے حصے کا کام مکمل کر جاتے ہیں اور حضور فقیہ اعظم اسی جماعت کے نمائندہ تھے وہ اپنے حصے کا کام ہر کام بحسن و خوبی مکمل کر کے دار الجزاء کی طرف روانہ ہو گئے فجزاہ اللہ عنا و عن جمیع المسلمين –

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     اسلام نے معلّم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے، چنانچہ اللّٰہ ربّ العزت نے قرآن مقدّس میں نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شان بحیثیت معلّم بیان کی ہے ،اور خود خاتم النبیین صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا "انما بعثت معلماً” [یعنی مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے] حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” یقیناً اس بات کی بیّن اور واضح دلیل ہے کہ استاذ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے-

     اسلام کی نظر میں انسانیت کا سب سے مقدّس ومعظّم طبقہ پیغمبرانِ اسلام و انبیائے کرام کا ہے- اور پیغمبر ونبی کی حیثیت اپنے امتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدّد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے ارشاد ربانی ہے” یتلو علیھم آیاته و یزکّیھم ویعلّمھم الکتٰب والحکمة” { آل عمران:۱۶۴}… جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے، یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذکہتے ہیں … اساتذہ کے تعلق سے حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ایک فرمان بہت ہی مشہور ہے” من علّمنی حرفاً فقد صیّرنی عبداً ان شاء باع وان شاء عتق” [یعنی جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے] {تعلیم المتعلم ص/۲۱}
  بلاشبہ ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے اور ویسے بھی انسان جس سے بھی کچھ سیکھے یا علم حاصل کرے اس کا ادب و احترام اس کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر سیکھنے والا سِکھانے والے کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ بد نصیب ہے، علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال قابل عزت ہے، اور خاص طور پر علم دین کا سکھانے والا تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لئے قابل احترام ہوتا ہے-
   یقیناً یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو اساتذہ کے بلند مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا ہے، اسلام میں اساتذہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے، اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے "انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم”[یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں]

اساتذہ کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگر “صلبی وجسمانی باپ” ہے تواساتذہ “روحانی باپ”-

          اب آئیے ہم اساتذہ کے ادب و احترام کے تعلق سے اپنے اکابرین و اسلاف کے معمولات وفرمودات پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کی بارگاہوں میں کیسےپیش آنا چاہیے؟ اورکس نوعیت سے ادب و احترام کرنی چاہیے؟

حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ “ہم اپنےاستاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنااحترام کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں” اور حضرت یحییٰ بن معین جو بہت بڑے محدّث تھے ،حضرت امام بخاری ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ “محدّثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا” اور حضرت امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ “میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جواستاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا” {ایضاً ص/۲۲}
امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنےاستاذ کا اتنا ادب و احترام کیا کرتے تھے کہ کبھی استاذ کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے- حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ”میں حضرت امام مالک کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے”- حضرت امام ربیع فرماتے ہیں کہ “حضرت امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی”… بعض بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایاکہ” ہمیں اپنے اساتذہ کی اولاداوران کے متعلّقین کی بھی تعظیم وتکریم کرنی چاہیئے” صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ”بخارا کے ایک بہت بڑے امامِ وقت اپنے حلقۂ درس میں مصروفِ درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے، جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آ جا رہا ہے، تو میں اس کے لیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں”…… اس طرح کے بہت سارے واقعات تاریخ و سوانح کی کتابوں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ تلامذہ کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کس حد تک کرنا چاہیے؟…… لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے!

ادب تعلیم کاجوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگردہیں جوخدمتِ استاد کرتےہیں

بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق سعید بخشے-
آمین!