WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

حضور مفتٸ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔[عرس مفتی اعظم ہند پر خصوصی تحریر] ✍️آصف جمیل امجدی،

(پہلی قسط)

۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں 22/ ذی الحجہ 1310 ھ / 7 / جولائی 1893ع میں بریلی شریف کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ آپ کا نام ”محمد“ رکھا گیا اور عرفی نام’’مصطفی رضا“ تجویز کیا گیا ۔ نوری تخلص تھا اور آپ ”مفتٸ اعظم ہند“ کے لقب سے مشہور ہوۓ۔ سلسلۂ نسب یوں ہے ۔محمد مصطفی رضا ابن امام احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی بن محمد اعظم بن سعادت یارخاں بن سعید اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
مفتی اعظم مولا نامصطفی رضا خاں کی تقریب بسم اللہ خوانی چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں ہوٸی۔ برادرا کبر مولانا حامد رضاخاں نے ناظرہ مکمل کرایا۔ مولانا شاہ رحم الہی صاحب، مولانا بشیراحمدعلی گڑھی ومولانا ظہور الحسین رامپوری وغیرہم سے درسیات کی تکمیل فرمائی ۔ اس کے بعد جملہ علوم وفنون والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی کی آغوش تربیت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ صرف ونحو ، تجوید ، ادب ، فلسفه ، این طریق منطق ، ریاضی علم جفر وتکسیر، علم توقیت وغیرہ جملہ علوم معقولات ومنقولات میں آپ یکتاے روز گار تھے۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں کی عمرابھی چھ ماہ کی تھی کہ مرشد کامل حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی سے والد ماجد نے بیعت کرادیا ۔ مرشد کامل نے بیعت کرنے کے بعد جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

آپ نے ایک طویل عرصے تک بیت وارادت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہندو پاک کے علاوہ حجاز مقدس ، مصر ، عراق ، برطانیہ ، افریقہ ، امریکہ ، ترکستان ، افغانستان وغیرہ کے بڑے بڑے علما مشاٸخ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے مریدوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی متجاوز تھی۔
درسیات سے فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں مند درس و تدریس کو آپ نے رونق بخشی اور تقریبا 30/سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے۔ برصغیر ہند و پاک کی درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالامال ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں نے 1365 ھ / 1946ء میں پہلا اور 1367ھ / 1948ء میں دوسرا ج کیا۔ 1391ھ / 1971 ء میں آپ نے تیسراحج کیا۔اس وقت حج کے لیے فوٹولازمی قرار پا چکا تھا ۔ آپ نے فوٹونہیں بنوایا ۔ حکومت ہند نے ان کے پاسپورٹ کو بغیر فوٹو کے جاری کردیا۔ اور یہ حج آپ نے بغیر فوٹو کے ادا کیا جو ایک تاریخی حج ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علم ظاہر و باطن کے دریاے ذخار تھے۔ آپ شریعت وطریقت کی روشن کتاب تھے۔ ولایت و کرامت کے ماہتاب اور علم وفضلیت ، طریقت و معرفت کا نیر درخشاں تھے۔ ان کے تبحر علمی اور فقہی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوۓ حضرت علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری رقم طراز ہیں:
”مفتی اعظم علم وفضل کے دریاے ذخار تھے۔ جزیات حافظے سے بتا دیتے تھے ۔ فتاوی قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے ۔ ان کا عمل ان کے علم کا آئینہ دارتھا ۔ ان کے عمل کو دیکھنے کے بعد اگر کتاب دیکھی جاتی تو اس میں وہی ملتا جو حضرت کا عمل ہوتا ۔ ہر معاملے میں حضرت کی راۓ اول اور مقدم ہوتی تھی اور جس علمی اشکال میں لوگ الجھ کر رہ جایا کرتے تھے وہ حضرت چٹکیوں میں حل فرمایا کرتے تھے۔“
حضرت مولانا عبدالحکیم شرف قادری کے یہ تاثرات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
” علم وفضل ، زہد وتقوی حق گوئی و بےبا کی ، فقاہت وعلمیت اور معرفت و کرامت میں اس وقت پوری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اہل سنت کے لیے مفتی اعظم کی ذات مقدسہ سایۂ رحمت تھی ۔۔۔ مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ کے علم وفضل زہد وتقوی اورفقہی بصیرت کا کوئی ثانی نہیں۔“
حضور مفتی اعظم ہند جہاں درس نظامی کے ماہر تھے ۔ وہیں قراءت وتجوید ، ادب وفلسفہ منطق و ریاضی اور دیگر علوم وفنون میں بھی یدطولی رکھتے تھے ۔ علم جفر و تکسیر، علم توقیت اور فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔
1328ھ/ 1910 ء میں جب حضرت مولا نا مصطفی رضا خاں کی عمر مبارک 18/سال تھی آپ کسی کام سے رضوی دارالافتاء میں پہنچے تو وہاں ملک العلما مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اور مولانا سید عبدالرشید عظیم آبادی فتوی لکھنے کے لیے رضاعت کے کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ بات کچھ الجھی تو ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری اٹھے تا کہ الماری سے فتاوی رضویہ نکال کر اس سے روشنی حاصل کریں ۔ حضرت مفتی اعظم نےفرمایا:
”نوعمری کا زمانہ تھا ۔ میں نے کہا ! فتاوی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ؟ مولانا نے فرمایا ! ”اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دوتو جانوں“ میں نے فوراً لکھ دیا ۔ وہ رضاعت کا مسئلہ تھا۔“(حوالہ علماۓ اہل سنت کی علمٕ و ادبی خدمات)۔
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
6306397662

مختصر سوانح حیات تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ–از تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت ،،خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ
“اسمِ گرامی” تاجدار اہل سنت شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا پیدائشی اور اصلی نام محمد ہے۔ والد ماجد نے عرفی نام مصطفٰی رضا رکھا۔فنِ شاعری میں آپ اپنا تخلص”نوری” فرماتے تھے۔
القاب۔ مفتیِ اعظم ہند ہے۔
آپ امامِ اہلسنت مجددین وملت شیخ الاسلام امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔
:تاریخِ ولادت: حضور مفتی اعظم قدس سرہ 22/ذی الحجہ 1310ھ 7/جولائی 1893ء بروز جمعہ بوقتِ صبح صادق دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی جائے ولادت محلہ رضا نگر، سوداگران شہر بریلی شریف ، یوپی انڈیا ہے۔ :تحصیلِ علم: حضرت مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اصل تربیت تو اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہٗ سے پائی۔ علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے کی۔
“تصنیف وتالیف” اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا آپ کی تحریروں میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قد سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔امام غزالی کی نکتہ سنجی ،امام رازی کی دقت نظر اور امام سیوطی کی وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ
“علوم وفنون” بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔
(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔
“بیعت و خلافت” 25 جمادی الثانی 1311ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سید المشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داخلِ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
:مرشد کامل کی بشارت: سید المشائخ نے حضرت مفتیِ اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا:”یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا۔ اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے ۔ یہ فیض کا دریا بہائےگا”۔
“پابند شریعت” حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شریعت پر اتباع کا خاص اہتمام فرماتے ۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی احکام پر عمل کی تنبیہ فرماتے بایں وجہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا احکام شرع کا پابند ہوجاتا اور نمازوں کا اہتمام بھی کرنے لگتا۔حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور مفتی اعظم قدس سرہ اس سے متصف تھے اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھے اور اپنی حیات طیبہ سے اسی کا درس بھی دیا۔ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی تحریر فرماتے ہیں :’’حضور مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کے عالی کردار ، بلند اخلاق ، علمی بصیرت ، جودت طبع ، حسن حافظہ، خدمت دینی کے واقعات کثرت سے ہیں اور ان امور میں آپ یگانۂ روز گار تھے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کی محافظت میں نمایاں خصوصیت کے حامل تھے، اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، خدمت خلق آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کا نپور ، مفتی اعظم نمبر مئی ۱۹۸۳ء ، ص۱۶۷)
“سیرتِ مبارکہ” اسلام کا وہ بطل جلیل اور استقامت کا جبل عظیم جس کے جہاد بالقلم نے دینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری فرمائی۔ جس کی نگاہ کیمیا اثر نے لاکھوں گم گشتگان راہ کو جادۂ حق سے ہم کنار کیا۔ جس کے درکی جبیں سائی وقت کے بڑے بڑے مسند نشینوں نے کی۔جس کے ناخن ِادراک میں لا ینحل مسائل کا حل تھا۔ جو بیک وقت علم ظاہر و باطن کا ایسا سنگم تھا جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی و آسودگی کی دولتِ گراں مایہ ملتی تھی۔ جو رسول پاک ﷺ کا سچا نائب، تصدیق حق میں صدیقِ اکبر کا پرتو، باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر، باطل شکنی میں حیدری شمشیر۔ جس میں امام اعظم ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف اور مولائے روم کا سوز و گداز تھا۔
جو علم و فضل میں شہرۂ آفاق، معقولات میں بحر ذخار، منقولات میں دریاے ناپیدار کنار، فقہ روایت میں امیر المومنین اور سلطنت قرآن و حدیث کا مسلم الثبوت وزیر المجتہدین، اعلم العلما عند العلماء، افقہ الفقہا عند الفقہا، قطب عالم علی لسان الاولیاء، فانی فی اللہ، باقی باللہ عاشقِ کاملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مولانا الشاہ الحاج محمد ابو البرکات محی الدین جیلانی محمد مصطفی رضا قادری قدس سرہ جسے دنیا تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم کے نام نامی اسمِ گرامی سے یاد کرتی ہے۔
“وصال باکمال” اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 14/محرم الحرام 1402ھ، بمطابق 12 نومبر 1981ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جنگ آزادی میں علمائے اہل سنت کا نمایاں کردار،،، از :(مولانا) حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج :- دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف باڑمیر راجستھان

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصۂ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیونکہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنےدل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ،اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جزبۂ صادقہ پیدا کیا۔

       مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا ،چنانچہ اس وقت عالمی سطح پر  ہندوستان  نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا ء حاصل کی  اس شہرت و مقبولیت  اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا  اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ  اور شور بلند ہوا  ،اس خاکِ ہند کو افلاک  کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔ہندوستان کی بد نصیبی کہ ۱۸۵۷ ؁ءمیں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ  گیا اور  سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ  بہادر شاہ ظفر کو تختِ ہند سے اتار دیا گیا،سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد  انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے ،پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال "ایسٹ انڈیا کمپنی "کے ذریعہ تجارت کے بہانے سونے کی چڑیا کہے جانے والے بھارت کو لوٹنا شروع کیا ،دھیرے دھیرے  ؁۱۸۵۷ء تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ،ان کم ظرفوں نے  صرف اسی پر بس نہیں کیا  بلکہ ہند کی  حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ  طور پر قبضہ کر لیا اس طرح وطن عزیز تن کے گورے من کے  کالوں (انگریزوں )کے قبضے میں چلی گئی،اور  پھر ملک میں تباہی و بربادی کا تہلکا مچ گیا ، چاروں جانب ظلم کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے  ،جبروتشدد اور وحشت و بربریت  کا حولناک و دہشت انگیز مظاہرہ کیا جانے  لگا ، پورے ملک میں قبرستان  جیسا سنّاٹا چھا گیا ، حد تو یہ ہے کہ  مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا (العیاذ باللہ )فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیں ،اور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا  اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باشی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و آبرو اور جائیداد وغیرہ  کی حفاظت و صیانت  ہو سکے ۔بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اور فریاد اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پہنچ ہی گئی اور علمائے  ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل  ہوئی چنانچہ بطل حریت  علامہ فضل حق خیرا بادی نے فتویٰ لکھا کہ” انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا "اس فتویٰ پر وقت کے  اکابر علمائے کرام  و مشائخ ذوی  الاحترام نے دستخط فرمائے، علامہ فضل حق خیرابادی  اور ان کے ہمنواؤں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی ۔علمائے کرام کے ساتھ  عام مسلمانوں نے بھی  اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا ۔     اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ،اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ،اس وقت کے ان تمام جاں باز علماء نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر کہیں ۱۵  اگست ؁۱۹۴۷ءکو ہند وستان کو آزادی ملی ۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے ،جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے  میدان میں نکل آئے ،انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرۂ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے، نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا  ،لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیا ،اور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش  کردیئے گئے ۔

اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کیا، جنگِ آزادی میں جن علمائے کرام نے نمایاں کردار پیش کیا ان میں حضرت علامہ فضلِ حق خیرابادی رحمة اللہ علیہ ،حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی،حضرت مفتی صدر الدین آزردہ ،مولانا لیاقت اللہ الہ ٰ بادی ،مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہے

علّامہ فضلِ حق خیرا بادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کی فکری دور کا آغاز اس وقت کیاجب آپ لکھنؤ میں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے ،ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے ابھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ،اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی آخر کار ۱۸۷۸؁ھ مطابق ؁۱۸۶۱ء میں یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

فنا کے بعد بھی باقی ہے،شان رہبری تیری

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیرِ کارواں تجھ پر

خوش ترے کردار سے سارے یزیدی ہو گیے،،ازقلم مفتی کہف الوریٰ صاحب مصباحی بانکے نیپال

داستان کربلا کا یہ سبق ہرگز نہیں
ہر جگہ تیارکر لیں فرضی کربل کی زمیں


کربلا کا واقعہ تھا دیں پہ چلنے کے لیے
پر تماشا بن گیا خون علی ان کے لیے


غور سے دیکھو ذرا اس کربلے کی نقل کو
دیں سمجھ بیٹھا اس کو کیا ہوا ہے عقل کو؟


عدل ہے انصاف ہے شبیر کا ہر ہر قدم
ظلم ہے ہفوات ہے، نقالی کربل ستم


لب پہ ہے نعرہ حسینی کا ترے جاری مگر
کر رہا ہے کام سارے تو یزیدی سر بسر


ڈھول تاشہ، آتش بازی اور ماتم کا جنوں
میں بھلا ان کو شہیدوں کی ادا کیوں کر کہوں


کربلا فرضی بنا کر دفن کرتے ہو جنہیں
اک دفعہ تو غیر نے ہر سال مارو تم انہیں


آہ کتنا سستا ہے خون شہید کربلا
ہر حسینی صف میں ہی قاتل کھڑا ان کا ملا


خوش ترے کردار سے سارے یزیدی ہو گیے
اور تو اس بھول میں کہ ہم حسینی ہو گیے


بانس کا ڈھانچہ بنایا اور بابا گڑھ لیا
یہ عقیدت کا سبق جانے کہاں سے پڑھ لیا


ہوش میں آجاؤ سن لو ازہر ناصح کی بات
ورنہ ان کے روبرو محشر میں ہوگی اب یہ بات

محمد کہف الوری مصباحی

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین
نور حق کے اس طرح شہکار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں ،میرے حسین
نور سے معمور یوں افکار ہیں ، میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئی نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں ، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی’ و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد ، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ ، ہے حدیث
اس لیے اے” عینی “خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعتِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم،،ازقلم ،محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی

شہِ لولاک سے رشتہ اگر ہے
تو باغِ خلد کا پکّا سفر ہے

نہیں ہے کوئی ثانی مصطفیٰ کا
عقیدہ سنیوں کا معتبر ہے

تمہاری دید سے آرام ہوگا
“یہ دردِ دل نہیں دردِ جگر ہے”

عطا کر دیجئیے بارانِ رحمت
زمیں پیاسی اے شاہِ بحر و بر ہے

ملَک آتے جہاں پر روز و شب ہیں
شہِ دیں آپ کا وہ نوری در ہے

تمہارے حسن کی خیرات پا کر
فلک پر آج بھی روشن قمر ہے

نبی کی نعت میں ہی عمر گزرے
یہی رب سے دعا شام و سحر ہے

کسی دن خواب میں سرکار کہہ دیں
تری قسمت میں بھی طیبہ نگر ہے

زمانہ لاکھ بدلے رنگ شاہد
نڈر تھا ان کا عاشق اور نڈر ہے

نتیجۂ فکر
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ساکن سالارپور لچھمن پور متصل باباگنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

ناظم شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ امام المرسلین نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

خطیب و امام فیضانِ رضا مسجد گلشن نگر گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات

7045528867

شہدائے اسلام قرآن و احادیث کی روشنی میں،از۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملتمسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


مسلمان کا مقصدِ حقیقی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے اور جس کو اللہ کی رضا حاصل ہو جائے، اس کا دارین میں بیڑا پار ہے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ شہادت ہے، احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں، شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے، بلکہ اس کے سوا شہادت کی بہت ساری صورتیں ہیں:مثلاً سواری سے گر کر یا مِرگی سے مرا، کسی درندے نے پھاڑ کھایا، وغیرہ
شہید کی تین قسمیں ہیں
شہید حقیقی،شہید فقہی،اور شہید حکمی جواللہ کی راہ میں قتل کیا جاۓ وہ شہیدی حقیقی ہے۔ اور شہید فقہی اسے کہتے ہيں کہ عاقل بالغ مسلمان جس پر غسل فرض نہ ہو وہ تلوار و بندوق وغیرہ آلٸہ جارحہ سے ظلماً قتل کیا جاۓ اور قتل کے سبب مال نہ واجب ہوا ہو۔ اور نہ زخمی ہونے کے بعد کوئی فاٸدہ دنیا سے حاصل کیاہو۔ اور نہ زندوں کے احکام میں سے کوئی حکم اس پر ثابت ہواہو ۔ یعنی اگر پاگل ، نابالغ یا حیض و نفاس والی عورتیں اور جنب شہید کئے جایٸں تو وہ شہید فقہی نہیں۔ اور اگر قتل سے مال واجب ہوا ہو جیسے لاٹھی سے مارا گیا یا قتل خطا کہ مار رہا تھا شکار کو اور لگ گیا کسی مسلمان کو ۔ یا زخمی ہونے کے بعد کھایا، پیا، علاج کیا، نماز کا پورا وقت ہوش میں گزرا اور وہ نماز پر قادر تھا یا کسی بات کی وصیت کی تو وہ شہید فقہی نہیں اور شہید حکمی وہ ہے کہ ظلماً نہیں قتل کیا گیا مگر قیامت کے دن وہ شہیدوں کے گروہ میں اٹھایا جائے گا، حدیث شریف میں ہے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدائے تعالی کی راہ میں شہید کئے جانے کے علاوہ سات شہادتیں اور ہیں۔جو طاعون میں مرے شہید ہے۔ جو ڈوب کر مرجاۓ شہید ہے ۔ جو ذات الجنب نمونیہ میں مرجاۓ شہید ہے۔جو پیٹ کی بیماری میں مرجاۓ شہید ہے۔ جو آگ میں جل جاۓ شہید ہے۔ جو عمارت کے نیچے دب کر مرجاۓ وہ شہید ہے۔ اور جو عورت بچہ کی پیداٸش کے وقت مرجاۓ وہ بھی شہید ہے
(مشکواة شریف صفحہ 136)
اس حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ شہادت جو کہ ایک عظیمُ الشّان منصب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں حاصل ہوتا ہے ، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے مَوسُوم کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کو شہادتِ حُکمیہ کہا جاتا ہے۔
شہداء کرام زندہ ہیں
اللہ تعالی کا فرمان ہے :اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( الطبرانی)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ پاک اس سے فرمائے گا اے ابن آدم! تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گااے میرے رب! بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ پاک فرمائے گا تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔ (سنن نسائی ، کتاب الجہاد،)
مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم میں شہید کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔

معرکہ کربلا مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے،،، تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور،مغربی بنگال

         ہر دور میں حق وباطل کے درمیان بڑی بڑی جنگیں واقع ہوئ ہیں اور تاریخ شاہد  ہے کہ ہر جنگ میں کامیابی و کامرانی حق کو ہی حاصل ہوئی ہے اور باطل ہر زمانے میں ذلیل و خوار ہوا ہے جیسا کہ ابلیس، فرعون اور نمرود وغیرہ پر آج بھی لعنتیں بھیجی جاتی ہیں،ان ہی معرکوں میں سے  ایک‌ عظیم معرکہ میدانِ کربلا  ہے جہاں حق و باطل اور خیر و شر کی ایک ایسی لڑائی ہوئی کہ آج بھی باطل کو یزیدیت اور حق کو حسینیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے ،جنگِ کربلا مسلمانوں کے لئے درسِ عبرت ہے محض محرّم کے مہینے میں محفل امام حسین کا انعقاد کرنا ،سبیل ،شربت، نیاز ،غریبوں اور مسکینوں  کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا، اگرچہ کار ثواب ہے لیکن محبت کی اصل دلیل نہیں ہے  بلکہ امام حسین اور شہدائے کربلا کے تعلیمات پر عمل پیرا ہونا یہ محبت کی اصل دلیل ہے ،امام عالی مقام  حسین ابن  علی رضی اللہ عنہما  نے جو دین اسلام کے لیے اپنے گھر والوں اور دوست و احباب کی قربانی دے دی اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے 

(1) دین اسلام اور شریعت پر جب بھی کوئی حملہ کرے تو ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر نہ بیٹھنا بلکہ دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سربلندی کے لئے ہر جائز کوشش کرنا
(2) جب دین کی حفاظت کے لیے اپنے گھر والوں دوست و احباب بلکہ اپنی جان کو بھی راہ خدا میں قربان کرنا پڑے تو الٹے قدم نہ آنا ،کیونکہ امام حسین نے تو اپنے چھ ماہ بچے حضرت علی اصغر کو بھی راہ خدا میں پیش کر دیا ۔
(3) اگر اس مختصر سی دنیا میں اپنے اوپر ہزاروں مصائب و آلام اور تکالیف آ پڑے تب بھی احکام شریعت کو ترک نہ کرنا بلکہ ان پر عمل کر کے خدا کا شکر بجالانا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشکل گھڑی میں بھی نماز تو نماز جماعت کو بھی بلکہ سنن و مستحبات کو بھی ترک نہ کیا بلکہ آخری وقت میں جب کہ آپ کا جسم اطہر خون سے تر بتر تھا اس وقت بھی آپ نے اپنے رب کے حضور سجدہ کیا،اور آج وہ لوگ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے اور ان کا نعرہ لگاتے ہیں ہفتہ مہینہ بلکہ سال گزر جاتا ہے اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں،اللہ ایسے مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ،آمین
(4) جب بھی شریعت مصطفوی پر حملہ ہو تو یہ کہہ کر احساس کمتری کا شکار مت ہونا کہ ہماری تعداد مٹھی بھر ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا،کیونکہ میدان کربلا میں جہاں دشمنوں کی تعداد ہزاروں کی تھی وہیں ایمان والے صرف بہتر تھے ،یہ حضرات دشمنوں کی بھاری تعداد کو دیکھ کر رمق برابر بھی پیچھے نہ ہٹیں اور نہ خوفزدہ ہوئیں بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل یقین کر کے آخری سانس تک لڑیں،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ،”بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئ ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے”
(سورة البقرہ الآیت 249)
(5) یہ سب سے اہم درس ہے کہ کبھی بھی اقتدار، مال ودولت اور شہرت کے لیے اپنے ایمان کو مت بیچنا، جب یزید پلید نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اقتدار، مال و دولت اور شہرت کی لالچ دینے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے دو تو آپ نے کہا تھا کہ حسین سر تو دے سکتا ہے لیکن اپنا ہاتھ کبھی نہیں دے سکتا،

سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

یہی وجہ ہے کہ آپ نے جب دنیاوی بادشاہت کو ٹھوکر ماری تو اللہ تعالی نے آپ کو ایسی دائمی بادشاہت عطا کردی کہ قیامت تک ہر مسلمان یہی کہے گا جو بات ہند کے بادشاہ میرے خواجہ علیہ رحمۃ نے کہی تھی :

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دیں است حسین، دیں پناہ است حسین

“یوم عاشورہ کے فضائل و مسائل”✒️تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری


اسلامی سال کا پہلا مہینہ مُحرّمُ الْحَرَام ہے جو نہایت عظمتوں اوربرکتوں والا ہےبِالخصوص اس ماہ کی دس تاریخ یعنی عاشورہ کےدن کو دینِ اسلام میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے چنانچہ نبیِّّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس دن روزہ رکھا اورصحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو بھی اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔ بلکہ اسلام سے قبل بھی لوگ اس دن کا اَدب و اِحترام کرتے اور اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔
ہمیں بھی چاہئے کہ عاشورا (10مُحَرَّمُ الْحَرَام) کا روزہ رکھیں اورخوب عبادات کریں،
“یوم عاشورا کا روزہ”
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو یومِ عاشورا کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشورا کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا،تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا(اور اسی لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمھاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابۂ کرامؓ کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری، مسلم)
عاشورا کا روزہ گُناہ مِٹاتاہے:نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:مجھے اللہ پاک کے کرم سے اُمّید ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹا دیتا ‘مسلم، ص454،
ماہ محرم الحرام کے مہینے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد اگر کوئی روزہ سب سے افضل ہے تو وہ اس مہینے کا روزہ ہے
“شب عاشورہ کی نفل نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے”
ایک نیت وسلام سے چار رکعت نفل اداکریں، ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیةالکرسی ایک بار اور سورہ اخلاص (قل ھوالله احد) تین تین بارپڑھے ۔ اور نماز سے فارغ ہو کر ایک سو مرتبہ قل ھوالله احد کی سورہ پڑھے ۔
گناہوں سے پاک ہوگا ۔ اور بہشت میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی! (جنتی زیور صفحہ 157)
لیکن یاد رہےقضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انھیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہو جائے
(حوالہ بہار شریعت ج 4)
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔کہ دسویں محرم الحرام کو جو کوئی دعائے عاشوراء پڑھے گا اس کی برکت سے عمر میں خیر (بھلائی) و برکت ہوگی اور زندگی میں فلاح (کامیابی) اور نعمت حاصل ہوگی ان شاءاللہ عزوجل.
(جنتی زیور،ص157ب)
“رِزْق میں فراخی کانسخہ” فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو دس محرم کو اپنے بچّوں کے خرچ میں فَراخی (یعنی کشادگی) کرےگا تو ﷲ پاک سارا سال اس کو فراخی دےگا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہم نے اس حدیث کا تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔(مشکوۃ المصابیح،ج١)
“عاشورہ کے دن غسل”
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو غسل کرنے سے آدمی پورے سال امراض سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ اس دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے اور اس میں وقت کی کوئی قید نہیں اور جو شخص اس دن اپنے بال بچوں کے لئے اچھے اچھے کھانا پکائے اور ان پر جائز طریقے سے خوب خرچ کرے ان شاءاللہ سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی جیسا کہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ “و ذکر ان الله عز و جل یخرق لیلة عاشوراء زمزم الی سائر المیاہ فمن اغتسل یومئیذ أمن المرض فی جمیع السنة کما فی الروض الفائق و من وسع فیه علی عیاله فی النفقة وسع اللہ له سائر سنته قال ابن سیرین جربناہ و وجدناہ کذالک کما فی الاسرار المحمدیه “
(تفسیر روح البیان ج 4ص 142)
اور اسلامی زندگی میں ہے کہ محرم کی نویں اور دسویں کو روزہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ، بال بچوں کے لیے دسویں محرم الحرام کو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو ان شاء اللہ عز وجل ! سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی بہتر ہے کہ حلیم ( کھچڑا ) پکا کر حضرت شہید کربلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے بہت مجرب ہے اسی تاریخ کو غسل کرے تو تمام سال ان شاء اللہ عز وجل بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے “
(اسلامی زندگی ص 66)
“یوم عاشور کے اہم واقعات”
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:(۱)یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲)اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(۶)اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹)اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔(۱۵)اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔(۱۷)اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸،عاشورا کے دن ان اعمال کو عُلَما کرام نے مستحب لکھا ہے:(1)روزہ رکھنا(2)صدقہ کرنا (3) نفل نماز پڑھنا (4)ایک ہزارمرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنا (5)عُلَما کی زیارت کرنا (6)یتیم کے سَر پر ہاتھ پھیرنا (7)اپنے اہل و عِیال کے رِزْق میں وُسْعت کرنا (8)غسل کرنا (9) سُرمہ لگانا (10)ناخن تراشنا (11)مریضوں کی بیمار پُرسی کرنا (12)دشمنوں سے مِلاپ (یعنی صلح صفائی ) کرنا۔(جنتی زیور، ص158)
شہدا ئے کربلا کو ایصالِ ثواب کیجئے:عاشورا کے دن نواسۂ رسول،جگر گوشۂ بتول،امامِ عالی مقام،حضرت سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ نےاپنے رُفَقا (ساتھیوں) کے ہمراہ گلشنِ اسلام کی آبیاری کی خاطراپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، لہٰذا ہمیں اس دن شہدائے کربلا کے ایصالِ ثواب کے لئے قراٰن خوانی، ذِکْر و دُرُوْد اور نذر ونیاز کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
✒️تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری

نعت‌ رسول ﷺ ۔۔شہداءے کربلا کی تعداد کی مناسبت سے ٧٢ بہتر اشعار پر مشتمل کلام،، از: سید خادم رسول عینی

نہ ذہن و فہم نہ محنت نے کامیاب کیا
مجھے نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

کسی کو لہجہء جدت نے کامیاب کیا
کسی کو حسن روایت نے کامیاب کیا

نبی نے اپنی دعاؤں سے خور کو ٹھہرایا
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

وہ جاں نثار جو اسلام کے بہتر تھے
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

ہے جس کی زیست اطیعوا الرسول کی تفسیر
اسے نبی کی اطاعت نے کامیاب کیا

جو مومنون کے سورے پہ ہیں عمل پیرا
انہیں ادائے امانت نے کامیاب کیا

زباں نے فزۃ بربی کہا تھا کٹ کر بھی
صحابی کو اسی الفت نے کامیاب کیا

اثر سے جس کے گناہوں کے پیڑ گرتے گئے
اسی ہوائے ہدایت نے کامیاب کیا

یہ کنکری کے لب شکر سے صدا آءی
مجھے تو کلمہء وحدت نے کامیاب

بتوں سے پاک کیا کس نے کعبہء جاں کو
اسے وجود نبوت نے کامیاب کیا

ہر ایک غزوے کے ماتھے پہ لکھا دیکھا ہے
صحابہ آپ کو ہمت نے کامیاب کیا

قبائے فکر کو نعتوں سے سیتا رہتا ہوں
شہ انام کی مدحت نے کامیاب کیا

یہ تاج فتح کا کہتا ہے ، حضرت خالد !
تمھیں تو موءے نبوت نے کامیاب کیا

وظیفہ میں نے اغثنی کا پڑھ لیا ، مجھ کو
نداءے شاہ کی برکت نے کامیاب کیا

اسی سے زیست کے لمحات ہیں بہت شاداب
نبی کے عشق کے شربت نے کامیاب کیا

خزیمہ ہوگءے اعلیٰ تریں ، انھیں ان کی
نبی کے حق میں شہادت نے کامیاب کیا

تمام شعلے عداوت کے بجھ گیے ، ہم کو
نبی کے ابر عنایت نے کامیاب کیا

اگر خدا ہے تو خور کو نکال مغرب سے
خلیل کو اسی حجت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے آیت خدا کی “فوز العظیم “
کہ اہل حق کو صداقت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے یہ سیرت صحابہء شہ کی
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

حنین و بدر کے غزوے بھی اس کے ہیں شاہد
نبی کو رب کی حمایت نے کامیاب

نبی کی ہجرت طیبہ کا راز کیا جانو
ہمارے دین کو ہجرت نے کامیاب کیا

بھٹک رہے تھے بیابان میں سبھی انسان
انھیں نبی کی شریعت نے کامیاب کیا

خدا کی آءی تھی تاءید، قوم مسلم کو
اک ایسی صلح نبوت نے‌کامیاب کیا

ہمارا دیں سبھی انصار کا رہا مرہون
مدینے والوں کی نصرت نے کامیاب کیا

جو بدعتیں ہیں وہ ناکامیوں کی ہیں باعث
ہمیں رسول کی سنت نے کامیاب کیا

گلاب پھولوں کا راجہ ہے تو ، مگر تجھ کو
عرق کی شاہ کے نکہت نے کامیاب کیا

زمانہ شرک کے طوفان سے پریشاں تھا
نبی کے کلمہء وحدت نے کامیاب کیا

زیارت ایسی کہ واجب شفاعت ان پہ ہوءی
در نبی کی زیارت نے کامیاب کیا

صحابہ بول اٹھے بعد بیعت رضواں
ہمیں رسول کی بیعت نے کامیاب کیا

ہے قول حضرت صدیق قول حق ہر دم
انھیں رسول کی قربت نے کامیاب کیا

تمام دہر میں انسانیت کی خوبی کو
شہ انام‌ کی سیرت نے کامیاب کیا

خدا کے نام پہ پڑھنا ہے ، کہتی ہے اقرأ
کہاں کسی کو جہالت نے کامیاب کیا ؟

خدا نے حضرت آدم کی توبہ کرلی قبول
نبی کے ‌اسم کی برکت نے کامیاب کیا

پہنچ گیا در محبوب پر میں بالآخر
یوں مجھ کو قلب کی حسرت نے کامیاب کیا

خدا کے فضل سے دامن نہ صبر کا چھوٹا
ہمیں تو صبر کی آیت نے کامیاب کیا

حرا و ثور ہیں افضل تمام غاروں میں
انھیں تو جلوہء رحمت نے کامیاب کیا

کنوے میں حضرت یوسف تھے سالم و محفوظ
انھیں خلیل کی برکت نے کامیاب کیا

برائیوں سے جو بچتے ہیں کام کرتے ہیں نیک
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

ملےگا ثمرہ ہمیں نیکیوں کا دونوں جگہ
یوں مومنین کو قدرت نے کامیاب کیا

نہیں ہوئے کبھی مایوس زیست میں اپنی
ہمیں توکل قدرت نے کامیاب کیا

تھا شعر کعب کا باطل پہ مار تیروں کی
انھیں کمال فصاحت نے کامیاب کیا

جناب ابن رواحہ تھے سید الشعراء
انھیں جمال مدیحت نے کامیاب کیا

یزیدیو نہ یوں اتراو ، ہیں یہ ابن علی
انھیں تو ان کی شہادت نے کامیاب کیا

ہے سچ ، ہیں حضرت عثمان شاہ ذوالنورین
انھیں دو نور کی نسبت نے کامیاب کیا

رضا و صدق و وفا ہیں عتیق کی عادت
عتیق کو اسی عادت نے کامیاب کیا

براءے رشد و ہدایت نبی کی عترت ہے
ہمیں محبت عترت نے کامیاب کیا

قریب شاہ رہوں ، تھی عتیق کی خواہش
انھیں نبی کی اجازت نے کامیاب کیا

شریک دین کی تبلیغ میں ہمیشہ رہیں
خدیجہ آپ کی دولت نے کامیاب کیا

عتیق اور عمر کے مشیر تھے حیدر
انھیں علی کی رفاقت نے کامیاب کیا

سمجھ سکو تو سمجھ لو کہ قوم مسلم کو
علی کی غزووں میں شرکت نے کامیاب کیا

وہ دور رہ کے بھی دیتے ہیں ساریہ کو ندا
عمر کی ایسی کرامت نے کامیاب کیا

وہ رات دن رہا کرتے تھے شہ کی خدمت میں
انس کو شاہ کی خدمت نے کامیاب کیا

جناب عاءشہ کی عظمتوں پہ سب ہیں نثار
کہ ان کو آیت عصمت نے کامیاب کیا

زبیر کو شہ کونین نے حواری کہا
انھیں حضور سے الفت نے کامیاب کیا

بنایا شاہ نے صدیق کو امیر الحج
انھیں نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

رضا کے جیسا کوءی نعت گو نہیں ملتا
رضا کو حسن بلاغت نے کامیاب کیا

نگاہ ایک ہے کافی حبیب رحماں کی
ہمیں حبیب کی صحبت نے کامیاب کیا

ولی کو معرفت رب نہیں ملی یونہی
خدا کے ذکر کی کثرت نے کامیاب کیا

رضا کے مسلک حق میں ہی کامیابی ہے
رضا کے حسن وصیت نے کامیاب کی

مجدد ایسے کہ مانا ہے ان کو دنیا نے
رضا کو علمی جلالت نے کامیاب کیا

مجاہد ایسے کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گءے
حبیب کو یوں عزیمت نے کامیاب کیا

بتایا راز طریقت کا لیکے دامن میں
ہمیں مجاہد ملت نے کامیاب کیا

حواس باختہ جادو ہے ، قوم مسلم کو
معین دیں کی کرامت نے کامیاب کیا

سبھوں سے کہتا ہے جنت نشیں یہی قطمیر
مجھے ولیوں کی الفت نے کامیاب کیا

حضور عالم رویا میں آپ آءے تھے
حبیب آپ کی رویت نے کامیاب کیا

وہ آنا عالم رویا میں ، کرنا بیعت بھی
حبیب آپ سے بیعت نے کامیاب کیا

ہمیں ملی ہے خلافت سبھی سلاسل کی
حضور ارشد ملت نے کامیاب کیا

یہ زودگوءی ، تخیل یہ شعر کی ندرت
کسی کی خوبیء صحبت نے کامیاب کیا

ملی خلافت پر نور فیض سے اس کے
ہمیں تو نعت رسالت نے کامیاب کیا

ضرورت اپنی تو ہوتی ہے مادر ایجاد
ہمیں ہماری ضرورت نے کامیاب ک

ہوائے بدعت دنیا سے “عینی” ہے محفوظ
اسے ردائے شریعت نے کامیاب کیا
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی