WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

شمس العالم سرور سرہندیاں خواجہ پیر عبدالرحیم المعروف حضرت آغا صاحب فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کے مختصر حالات… ازقلم:شمار علی قادری انواری خادم:- مدرسہ جامعہ مجددیہ فضل معصومیہ جانپالیہ، تحصیل:سیڑوا ضلع:باڑمیر (راجستھان)

یہ حقیقت ہے کہ اللہ ربّ العزت ہر دور میں دین اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات و برائیوں کے خاتمے کے لئے باعظمت شخصیات کو پیدا فرماتا ہے جو منشأ خداوندی و مرضیٔ رسالت پناہی کے مطابق دین متین کی حفاظت کرتی ہیں اور اس میں در آئی ہوئی خرابیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتی ہیں انہیں شخصیات میں حضور شمس العالم سرور سرہندیان خواجہ پیر عبد الرحیم المعروف حضرت آغا صاحب فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی بھی نمایاں خدمات ہیں
آپ کی ولادت یکم شوال 1222 ھ مطابق 07 فروری 1808 عیسوی بروز اتوار [عیدالفطر کے دن] بوقت نماز فجر درہ فرخ شاہ کابل (افغانستان) میں ہوئی-
حضور قطب الرحمن حضرت آغا صاحب قدس سرہ شروع میں اپنے مرشد و والد ہادی الخلائق قطب الاقطاب شاہ ضیاء الحق شہید رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی مبارک میں کابل (افغانستان) میں ان کی خدمت میں رہے، پھر اپنے والد و مرشد کی اجازت سے صوبہ سندھ کے حیدرآباد میں تقریباً 16 سال اقامت گزیں رہے، سندھ کے اس وقت کےحکمران میران تالپر کے اختلافات کے پیش نظر تین سال کے لئے حیدرآباد سے بمبئی چلے گئے ۔ بعد ازاں واپسی میں سندھ سے ہوتے ہوئے مٹیاری شریف میں اپنی پھوپھی حضرت بی بی صاحبہ رحمة اللہ علیہا کے مزار پر حاضری دے کر واپس قندھار شہر کے توفخانہ محلہ کوچۂ بیابان سلطان احمد شاہ ابدالی کی حویلی جو کہ سراۓ احمد شاہ کے نام سے مشہور تھی ان کے خاندان سے خرید کر سکونت اختیار فرمائی،
اور یوں تقریباً چھتیس (36) سال قندھار میں سکونت پذیر رہے اور بالآخر آپ کی پھوپھی صاحبہ سیدہ کاملہ بی بی امتہ اللہ رحمۃ اللہ علیہا کی مٹیاری شریف میں اکیلی مزار ہونے کے باعث اور سرہندی جماعت کے خلفاء کی شدید خواہش پر آپ [قطب الرحمن علیہ الرحمہ] نے 1296 ہجری میں مٹیاری شریف میں سکونت اختیار فرمائی ۔ روایت ہے کہ بی بی صاحبہ رحمة اللہ علیہا نے کئی بار آپ کو خواب میں آکر مٹیاری شریف میں سکونت اختیار کرنے کو فرمایاتھا۔
آپ کا وصال اتوار 24 جمادی الاولیٰ 1314 ہجری مطابق یکم نومبر 1895 عیسوی بروز اتوار مٹیاری شریف سندھ میں ہوا-
ایک بار آپ نے کسی معاملے کو لےکر فرمایا۔
میں پہاڑ کے سرہانے کھڑا غروب ہونے والا وہ سورج ہوں کہ جب غروب ہوں گا تو معلوم ہو جائے گا غروب ہونے والا سورج اچانک ڈوب جاتا ہے اور فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔
آپ تقوی و پرہیزگاری کے پہاڑ تھے ساری زندگی عبادت وریاضت میں گزاری۔
مرشد مقدس و مہتدی صاحب ھدی، قطب الرحمن سرور سرہندیان خواجہ حضرت آغا صاحب قدس سرہ العزیز نے وصال کے دن اہل خانہ سے پوچھا کہ آج ہمارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ جواب ملا چیزے نیست (کوئی چیز نہیں ہے) تب فرمایا کہ شکر الحمد للہ؛ اللہ کا شکر ہے کہ اپنے بزرگوں کی پیروی پہ اس دنیا سے جا رہا ہوں۔
مروی ہے کہ آپ تہجد کی نماز سے فارغ ہوکر اہل پردہ سے معلوم کرتے کہ آج لنگر خانہ میں اشیاء خورد و نوش ہیں اگر ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ فرماتے۔ ہم نے روزہ کی نیت کر لی ہے بس پورا کنبہ و اہل خانہ اندر باہر مریدین و متوسلین بھی روزہ کی نیت کر لیتے اور شام ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے سارے انتظامات ہو جاتے اور سب کچھ حاضر ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ان کی تربت انور پر رحمت وغفران کا نزول فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے- آمین

جسٹس شری کرشنا کا بیان قابل غور و فکر.. ازقلم : محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


کسی بھی جمہوری ملک کی جمہوریت کی بقا عدالتی فیصلے پر منحصر ہے ، داخلی اور خارجی امور میں صحافت کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اگر یہ دونوں تعصب ، تنگ نظری یا مذہب پسندی کے شکار ہوۓ تو ملک کی بنیادیں انتہائی کمزور ہو سکتی ہیں ۔ دانشمند طبقہ کی طرف سے مسلسل اس کی پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ موجودہ سرکار کہیں نہ کہیں تمام اہم سرکاری شعبوں میں ایک خاص قسم کا نظریہ رکھنے والے لوگوں کا تقرری کررہی ہے جس سے ملک میں ایک خاص نظریہ کا فروغ ہوگا اس طرح ملک میں چہار جانب بد امنی پھیلنے کا بھی خدشہ ممکن ہے ۔ جسٹس سری کرشنا نے جمعہ کو ممبئی پریس کلب میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں اور ججوں کو متنبہ کرتے ہوۓ کہا کہ ” موجودہ حالات ایمرجنسی کی یاد دلارہی ہیں ، جج اور صحافی اپنا فرض نہیں نبھائیں گے تو جمہوریت تباہ ہوجاۓ گی ۔ میڈیا خود کو سمجھیں کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے یہ سو فیصد درست ہے کہ عدلیہ ، مقننہ اور عاملہ میں ملی بھگت ہوجاۓ تو انہیں راہ راست پر لانا صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ” آج ملک میں جس طرح صحافت زوال پزیری کا شکار ہے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ صحافی خود صحافت کی حساسیت سے ناواقف ہے یا ارادتاً عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کے زیر اثر کام کرنے پر مجبور ہے یا تفتیشی ایجنسی کے خوف میں مبتلا ہے اور یہ وہ خوف ہے جو ملک کو غلامی کی طرف دوبار لے جاسکتا ہے اس لئے ہم اہل وطن کو ” جسٹس سری کرشنا ” کی باتوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا قافلہ آپ کے گھر پر بھی پہنچ سکتا ہے اس کی صورت خواہ کوئی بھی ہو ۔ یقین نہ ہو تو آسام ، اترپردیش اور بہار میں غریبوں کے گھروں کا دورہ کرکے دیکھیں کہ وہاں کی حکومت عدالتی فیصلے کے بنا ہی بے خوف و خطر اپنے مخالفین کے گھروں پر بلڈوژر چلادی ہے جبکہ وہاں کی عدلیہ منہ دیکھتے رہ گئی کہ وہ انہیں کا کارندہ جو ہے ۔ ایک رویش کمار کہاں کہاں حکومت کی خامیوں پر نقد و تبصرہ کرتا پھرے ہاں ہزاروں رویش کمار ہوں تو بھی کم ہے ۔ جسٹس سری کرشنا اپنے بیان میں موجودہ حالات کے پیش نظر بہت ہی اہم بیان دیتے نظر آۓ کہ ” ایسے حالات میں ایمانداری ہی سب سے اچھی پالیسی ہوسکتی ہے اور صحافتی ضمیر کا زندہ رہنا ضروری ہے ۔ “
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
صحافتی آزادی کسی بھی ملک کی ترقی کا اہم ستون ہے ۔ معروف وکیل اور سابق مرکزی وزیر قانون کپل سبل نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوۓ کہا کہ ” گرچہ کالجیم نظام خامیوں سے پاک نہیں ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ججوں کی تقرری پر حکومت کا کنٹرول ہو ، انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ پر قبضہ کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کی جانی چاہئیے کیونکہ عدلیہ جمہوریت کا آخری قلعہ ہے اور اگر یہ گرتا ہے تو پھر کوئی امید باقی نہیں رہے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کا تمام سرکاری اداروں پر کنٹرول ہے اور اگر عدلیہ پر بھی اس کا قبضہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے ججوں کی تقرری کرے گی اور یہ جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا ۔
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
19/ دسمبر 2022ء
24/ جمادی الاول 1444 ھ

حضرت صدرالعلما علامہ تحسین رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول… ازقلم: شیر مہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


تحسین میاں واقعی تحسین میاں ہیں

میرے استاذ، میرے مر شد ، میرے آقا ، میرے ہادی حضرت صدرالعلما تحسین رضا خاں بریلوی عشق رسول کی دولتوں سے خوب مالا مال تھے ۔۱۹۹۴ ء میں [راقم الحروف ] جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف میں زیر تعلیم تھا اور حضرت صدرالعلما جامعہ کے شیخ الحدیث کے منصب پر فا ئز تھے ۔اس وجہ سے فقیر کو حضرت سے درس حدیث کا شرف حاصل رہا ،طالب علمی کا زمانہ بھی بڑا پرکیف ہوتا ہے ۔شخصیت شنا سی کی صلاحیت سے آشنائی نہیں ہوتی ۔
یقین جا نئیے !علم و عمل ، تقویٰ و طہارت ، ذکاوت وفراست ، تبلیغ و دعوت اور اتباع رسول میں حضرت صدرالعلما اپنے سابقہ محدثین کی یاد گار تھے ۔حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی لکھتے ہیں :’’ آپ معمولات کے بے انتہا پابند تھے ،سنتوں کا اہتمام اور عشق رسول کا جذبۂ شوق آپ کو وراثت میں ملا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند کے زیر سایہ آپ نے فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دیا ، مگر افسوس وہ علمی اور فقہی ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ۔ شہرت پسندی اور جاہ طلبی سے آپ زندگی بھر کنارہ کش رہے ،ملکی سیاست سے بھی عملا آپ کا کبھی کوئی تعلق نہ رہا ۔ کم گو اور تخلیہ پسند تھے ،نماز با جما عت کے سخت پابند تھے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں شریعت مصطفیٰ کی عملی تصویر تھے ۔‘‘
[ تجلیات رضا بریلی کا ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص۲۵۹ ]
مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظا می رضوی مہتمم کتب خا نہ جامعہ نظامیہ حیدرآبادی لکھتے ہیں :
جن کی تمام تر زندگی عشق شۂ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے علم و عمل اور شر یعت وطر یقت کے فروغ میں گزری اور متاع حیات کی آخری سانسیں بھی اسی میدان کی لالا زاری کی شاہد عدل بن گئیں اسم تحسین ، جسم تحسین ، قال تحسین ،حال تحسین ،فکر تحسین ، اقدار تحسین ، اذکار تحسین ، اعمال تحسین ، افعال تحسین ، اقوال تحسین ، تزکیہ تحسین ، تصفیہ تحسین ، تحقیق تحسین ، تدقیق تحسین ، تفسیر تحسین ، تحدیث تحسین ، اخلا ق تحسین ، اشفا ق تحسین ،حضر تحسین ، سفر تحسین ، حیات تحسین ، ممات تحسین الغرض! امام عشق و محبت کی نسبت نے ہر زاویۂ حیات کو لباس حسن میں ملبوس کر کے جگمگ جگمگ روشن روشن بنادیا تھا ، بریلی سے طلوع ہونے والے اس سورج کا غروب ناگپور میں ہوا لیکن ڈوبتے ڈوبتے بھی یہ سورج اپنے پیچھے ہزارہا ستاروں کی انجمن کو منور و تاباں کر گیا جو کرۂ ارضی پر مختلف اسالیب و اشکال میں ضیاپاشی کررہے ہیں ۔
(سالنامہ تجلیات رضا ، شما رہ ۶، صدرالعلما محد ث بر یلوی نمبر ،ص، ۴ ۳۲؍۳۲۵،امام احمد رضا اکیڈمی بریلی )
حضرت صدرالعلما علیہ الرحمہ کی اتباع سنت اور اسوۂ رسول پر عمل کا آنکھو دیکھا حال مولانا غلام شرف الدین رضوی مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ نائے گاؤں ناندیڑ مہاراشٹرا لکھتے ہیں :
حضور صدرالعلما سے ملا قات کی چہرۂ پر انور کی زیارت سے ہم لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اتنے میں میزبان نے دستر خوان بچھا دیا صدرالعلما دستر خوان پر تشریف لائے اور چار زانو بیٹھ گئے راقم الحروف حضور والا کے بغل میں بیٹھا تھا دستر خوان پر موجودہ حضرات صدر العلما کے چہرۂ پر انوار سے شرفیاب ہورہے تھے سب کی نگاہیں نبیرۂ اعلیٰ حضرت ہم شبیہ مفتی اعظم حضور صدرالعلما پر جمی ہوئی تھی جب میزبان نے روٹی اور سالن دستر خوان پر لا کر رکھا تو اس وقت بھی صدر العلما چار زانو ہی بیٹھے رہے میں اپنے تئیں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ حضور کمزور ہیں ، ضعیف ہیں لگتا ہے کھا نا چار زانو ہی بیٹھ کر تناول فرمائیں گے ، لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب صدرالعلما علیہ الرحمہ کے ہا تھ میں روٹی پہنچی تو آپ نے فوراً داہنے پیر کو کھڑا کر دیا اور اس طر یقے پر بیٹھ گئے جس طرح اللہ کے حبیب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر کھانا تناول فرما تے تھے ، اتبا ع سنت مصطفیٰ کا یہ حال دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اس پیرانہ سالی اور کمزوری کے عالم میں بھی گوارا نہیں کہ سنت مصطفیٰ چھوٹ جائے ۔ اب ہر باشعور انسان یہ اندزاہ لگا سکتا ہے کہ جن کی اتباع سنت کا یہ حال ہے تو فرائض و واجبات پر پابندی کا کیا عالم ہوگا ۔
(ایضاً، ص ۳۲۹؍۳۳۰)
حضرت صدرالعلما کے عشق رسول کے حوالے سے حضرت مو لا نا شکور احمد رضوی لکھتے ہیں : افعال واقوال بلکہ جمیع احوال میں مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا مظہر تھے ۔ ساری زندگی پا بندی شریعت اور اتباع رسول میں گزری ۔ سادگی ان کا شعار سنجیدگی اور متانت ان کا شیوہ تھا ۔حسن اخلاق ان کا زیور ۔اور حلم و بردباری ان کا طرۂ امتیاز ۔آپ کی تمام تر ادائیں سنت رسول ﷺ کی آئینہ دار تھی ۔ نماز باجماعت کی پا بندی آپ کی طبیعت میں داخل تھی ۔سوائے کسی شرعی عذر کبھی جما عت تر ک نہ فر ما تے ۔جب با ہر تشریف لے جاتے تو وہاں جلسے کی قیادت و سرپرستی فرماتے ۔مگر نماز فجر با جماعت چھو ٹتی نہ دیکھی گئی ۔جہاں قیام فرماتے مسجد جا کر باجماعت نماز ادا فرماتے ۔آپ کی یہ استقامت اور شریعت کی اطاعت ہزاروں کرامتوں پر بھاری ہے در اصل اتباع رسول ہی ایک بندۂ مومن کی معراج اور قرب خدا کا ذریعہ ہے ۔
بمصطفیٰ بر ساں خو یش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبی ست
[تجلیات رضا ،بریلی کا ’ صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ‘‘ص ۲۳۷]
مولانا محمد مظاہر الاسلام رضوی مدرس دارالعلوم حنفیہ سنیہ اسلام پورہ مالیگاؤں لکھتے ہیں :
آپ کبھی ایسا کام نہیں کر تے تھے جو شریعت و طریقت کے خلا ف ہوتے ، رہبرشریعت پیر طریقت حضور صدرالعلما محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی ، جن کی پوری زندگی اتباع رسول میں گزری ، حضور صدرالعلما ہر وقت ہر لمحہ قرآن و حد یث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا تھے ، چو نکہ سچے عاشق رسول وہی ہوتے ہیں جن کی توجہات اپنے آقا و مولیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے مبذول ہو ۔
(ایضاً ،ص ۳۳۵؍۳۳۶)
ڈاکٹر محمد صدر عالم صدیقی دربھنگا بہار لکھتے ہیں :
مختصر یہ کہ آپ نے اپنی زندگی کی ساری توانائی حق اور عدل کے قیام ، بھٹکے ہوئے لوگوں کوصراط مستقیم پر گامزن کرنے اور انسانیت سازی کے لئے صرف کردی آپ کا ماننا تھا کہ
دشمنوں کو بھی بڑھ کر لگاؤ گلے
مصطفیٰ کی طرح سب کی خدمت کرو
آپ ایک سچے عاشق رسول تھے سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو اپنے سینے سے لگائے رکھا اور ایسا کیوں نہ ہو بلکہ یہ حقیقت ہے کہ محبت رسول ہی جان ایمان ہے اور ان کی اتباع کے بغیر کوئی بھی اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔ بقول شاعر
اپنی دولت عشق محمد دنیا کو دکھلانا کیا
سارے جہاں کے راز ہیں دل میں ناداں کو بتلانا کیا
پیا رے نبی کی موہنی صورت پر مرمٹنا جیون ہے
عشق محمد بن دنیا میں جینا اور مر جانا کیا
(ایضاً ، ص ۴۵ ۳)
ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
وطن مالوف: پپرادادن ، سیتامڑھی ، بہار
21/ جمادی الاول 1444ھ
16/ دسمبر 2022 ء)

انگریزی نئے سال کی مبارک باد دینا کیسا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے مین کہ ۱ جنوری نیا سال کا مبارک باد کہنا اور منانا کیسا ہے
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔۔ اسلامی نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو چھ حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اسے خوشی پہنچے تو اسے مبارک باد دے۔
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے الاوسط میں درج کیا‘ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ:
كان أصحاب النبي صلی الله علیه وآله وسلم يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة و الإسلام، و رضوان من الرحمن، و جواز من الشيطان.
(الطبراني، الأوسط: 6241)
نئے سال یا مہینے کی آمد پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے: اے اللہ! ہمیں اس میں امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما۔ شیطان کے حملوں سے بچا اور رحمن کی رضامندی عطاء فرما۔
البتہ انگریزی سال کی مبارک باد دینا بہتر نہیں کہ پہلی جنوری کو happy new year کہنا یہودو نصاری وغیرہ کا طریقہ ہے اس لٸے احتراز کرنا چاہٸے ۔حدیث شریف میں ہے ۔من تشبہ بقوم فہو منھم“ اھ (ابوداٶد ص٥٥٩)واللہ تعالی اعلم ۔
کتبہ ۔احمدر رضا قادری منظری ۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔ ۔۔۔1.1.19.

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد ہوگا یا نہیں؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد ہوگا یا نہیں؟
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد نہی ہوگا ۔ایک مرد کا دوسگی بہنوں کو بیک وقت رکھنا سخت ناجاٸز وحرام ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے وان تجمعوا بین الاختین ۔یعنی دوبہنوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے ۔اور حدیث شریف میں ہے من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یجمعنّ ما َٕ ہ فی رحم اختین ۔یعنی جو اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے نطفہ کو ہرگز دوبہنوں کے رحم میں جمع نہ کرے ۔یعنی دوبہنوں سے عقد نہ کرے ۔اور فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر ص ٣٥٩ میں ہے لایجمع بین اختین بنکاح ۔اھ یہاں تک اگربیوی کو طلاق دیدے تو جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجاے اسکی بہن سے نکاح نہی کرسکتا جیساکہ شرح وقایہ جلد ثانی میں ہے کون المرأة فی نکاح رجل او فی عدتہ ولو من طلاق باٸن یحرم نکاح امرأة ایتھا فرضت ذکرالم تحل لہ الاخری ۔لہذا اگر کرلے تو وہ نکاح فاسد وباطل ہوگا ۔واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ احمد رضا قادری منظری ۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔۔۔۔۔1.1.19.

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا، کیا یہ درست ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا اگرچہ دس بار کہے کہ طلاق طلاق طلاق،جب تک کہ اسکی بیوی کے پاس جتنے طلاق ہے وہ خود نہ دے دے پھر آگے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اسی طرح ایک بیوی طلاق لے لے اور ایک شوہر اور ایک قاضی امام پڑھانے والے کو شوہر دے دے اب کبھی طلاق اگر دینا ہوا تو ایک بیوی دیگی ایک شوہر اور جو ایک امام صاحب کے پاس ہے جب تک وہ نہیں دیں گے طلاق نہیں ہوگا، یہ بات کہاں تک درست ہے قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔ علما کرام مدلل و تفصیلی جواب سے نوازیں

شہر عالم گجرات
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
نکاح کے وقت شوہر اپنی بیوی کو مشروط و غیر مشروط ،مؤقت و غیر مؤقت طلاق واقع کرنے کا حق دے دسکتا ہے ۔
ایسی صورت میں بیوی اپنے اوپر ایک طلاق ِرجعی واقع کرسکے گی ۔ مثال کے طور پر کسی اسٹامپ پیپر پر شرائط تحریر کردی جائیں اور پھر عقد ِ نکاح کے وقت اسکا تذکرہ کردیا جائے کہ مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں یا مطلقاً بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق ہوگا البتہ بیوی کو طلاق کا حق دینے سے شوہر کا حق ِطلاق بدستور برقرار رہتا ہے اگر اسنے طلاق دیدی تو وہ واقع ہوجائیگی ۔
چنانچہ ہدایہ میں ہے :
الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 240)
” ومن قال لامرأته طلقي نفسك ولا نية له أو نوى واحدة فقالت طلقت نفسي فهي واحدة رجعية…… ولو قامت عن مجلسها بطل…… وإن قال لها طلقي نفسك متى شئت فلها أن تطلق نفسها في المجلس وبعده (ص:۳۸۰ ج:۲)۔۔
التخريج
الدر المختار – (3 / 315)
قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي تفويض الطلاق لأنها كناية فلا يعملان بلا نية أو طلقي نفسك فلها أن تطلق في مجلس علمها به مشافهة أو إخبارا.
الدر المختار – (3 / 331)
قال لها طلقي نفسك ولم ينو أو نوى واحدةأو اثنتين في الحرة فطلقت وقعت رجعية اھ۔اور فتاوی امجدیہ جلد دوم ص ٢٤٢۔پر ہے کہ معاہدہ تو معاہدہ اگر قسم بھی کھالیتا کہ طلاق نہ دونگا پھر طلاق دے دی تو واقع ہوگی۔اھ لہذا زید کی بات درست نہی بلکہ زید پر فرض ہے کہ اپنی بات سے رجوع و توبہ کرے۔۔واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ۔احمدرضامنظری۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔شریف۔١۔١۔١٩۔

کسی مسجد کے امام کے علاج کے لئے کیا گیا چندہ دوسری مسجد کے امام کے علاج میں خرچ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

سوال ایک امام صاحب جو کافی بیمار ہیں ان کے علاج ومعالجہ کے لئے اجتماعی رقم اکٹھا کی گئی. انکے علاج کے لیے رقم کافی ہوگئی اور بچ بھی گئی
اسی دوران دوسرے امام کے بیماری کی اطلاع ملی اب سوال یہ ہے کہ بچی ہوئی رقم امام ثانی کے علاج میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں جبکہ امام ثانی امام اول سے زیادہ تعاون کے مستحق ہیں. جواب عنایت فرمائیں
محمد رضوان الرضوی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ جس نیک کام کے لۓ چندہ کیا گیا ہے دیانت کے ساتھ اسی میں صرف کیا جاۓ اگر کام کرنے کے بعد بھی کچھ رقم بچ گئ تو چندہ دینے والوں کو واپس کردے یا پھر جس نیک کام کی اجازت چندہ دہنگان دیں اس میں خرچ کرے بلا اجازت چندہ دہندگا اس رقم کو دوسرے کام میں صرف کرنا اگرچہ وہ بھی کار قربت ہو جائز نہیں
۔سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کی ملک رہتا ہے جس کام کے لئے وہ دیں جب اس میں صرف نہ ہو تو فرض ہے کہ انھیں کو واپس دیا جائے یا کسی دوسرے کام کے لئے وہ اجازت دیں ان میں جو نہ رہا ہو ان کے وارثوں کو دیا جائے یا ان کے عاقل بالغ جس کام میں اجازت دیں،ہاں جو ان میں نہ رہا اور ان کے وارث بھی نہ رہے یا پتا نہیں چلتا یا معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سے لیا تھا ،کیا کیا تھا،وہ مثل مال لقطہ ہے،مصارف خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیرہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ (فتاوی رضویہ ج 16 ص247. مطبوعہ رفاونڈیشن۔)
(فتاوی امجدیہ ج 3 ص 42.) لہذا اگر چند دہنگان اجازت دے دیں تو امام ثانی کو دینا جائز ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
۔کتبہ احمد رضا قادری منظری۔

کیا زید اپنی فوت شدہ بیوی کے بہن کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ سوال عرض یہ ہے کہ

کیا زید اپنی فوت شدہ بیوی کے بہن کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر مشکور ہوں

سائل
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ساکن سالارپورباباگنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیوی کے انتقال کے بعد ان کی بھانجی یا بھتیجی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے ، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ مستفاد: ماتت امرأتہ لہ التزوج بأختہا بعد یوم من موتہا کما فی الخلاصة عن الأصل الخ (درمختار مع الشامی: ۴/۱۱۶، ط:(فصل فی المحرمات) ۔واللہ تعالی اعلم
کتبہ۔احمدرضا قادری منظری۔
17.9.21

ہر فرض نماز کے سلام پھیر نے کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر ۔یاقوی یاقوی۔ جو پڑھتے ہیں کیا یہ حدیث یا کوٸی معتبر کتاب سے ثابت ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے مفتیان عظام مسٸلہ ذیل میں کہ ہر فرض نماز کے سلام پھیر نے کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر ۔یاقوی یاقوی۔ جو پڑھتے ہیں کیا یہ حدیث یا کوٸی معتبر کتاب سے ثابت ہے اور اس کا پڑھنا کیا ہے اور آیتہ الکرسی کا پڑھنا کیا ہے واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے دونوں میں سے کونسا پڑھنا زیادہ معتبر ہے

محمداختررضا مدھےپورہ بہار
👌🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ قويٌّ اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اسمائے حسنیٰ کی تاثیر اور ان کے ذریعہ قبولیتِ دعاء احادیث سے ثابت ہے۔ أسماء اللہ الحسنیٰ التي أمرنا بالدعاء بھا (بخاری ومسلم) وفي لفظ ابن مردویة وأبي نعیم: من دعا بھا استجاب اللہ دعاءہ۔ اور بوقت دعا و ذکر سر پر ہاتھ رکھنا بھی حدیث سے ثابت ہے اور نماز کے بعد بھی وروینا في کتاب ابن السني عن أنس -رضي اللہ عنہ- قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا قضی صلاتہ مسح جبھتہ بیدہ الیُمنی ثم قال: أشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ الرحمن الرحیم اللھم أذھب عني الھمّ والحزن (کتاب الأذکار للنووي:ص63)
نیز آیت الکرسی بعدنماز پڑھنے کے تعلق سے احادیث میں مذکور ہے کہ جس نے فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لی وہ مرتے ہی جنت میں داخل ہوگا، مزید کہ دوسری نماز تک اللہ رب العزت کے حفظ امان میں رہےگا، اللہ عزوجل ایسے بندے کی روح اپنے دست قدرت سے قبض فرماےگا،
فرض نماز کے بعد آیت الکرسی، کلمہ، تسبیح اور استغفار پڑھنا احادیث پاک سےثابت ہے
” عن ابی امامۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، من قراء آیۃ الکرسی فی دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الا ان یموت “
(السنن الکبری للنسائی:44/9 )
عن عبداللہ ابن حسن بن حسن عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، من قراء آیۃ الکرسی فی دبر الصلاۃ المکتوبۃ کان فی ذمۃ اللہ الی الصلاۃ الاخری “
(المعجم الکبیر للطبرانی :83/3 )

عن ثوبان، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثاً وقال: «اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام» قال الوليد: فقلت للأوزاعي: ” كيف الاستغفار؟ قال: تقول: أستغفر الله، أستغفر الله
(مسلم شریف :414/1) *والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
21/ ذی الحجہ /1443 ھ

جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے کیونکہ لوگ مسجد کے ذمہ دار کو پیسے اس لیے دیتے ہیں کہ یہ مسجد کے اخراجات کو پورا کریں

پوچھنا یہ ہے کیا اس پیسے سے امام یا مؤذن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
مفتی صاحب جواب عنایت فرما دیں آپکی عین نوازش ہوگی۔(محمد یاسر)
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ امامِ مسجد کو تنخواہ یا وظیفے کے طور پر کھال دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ یا وظیفہ علیحدہ سے مقرر ہو، اور محض اس کو عالم یا حافظ سمجھ کر کھال ہدیہ کی جائے، تو یہ جائز ہے، بلکہ ایسے علماء اور حفاظ اگر محتاج ہوں، تو ان کی امداد کرنا باعث فضیلت ہے۔جیسا کہ فتاوی فیض الرسول ج دوم 478 ص میں کہ مسجد کے اماموں کو بطور نزرانہ چرم قربانی دینا جائز چاہے امیر ہو یا غریب۔اھ۔
اور صحیح البخاری: (کتاب المناسک، رقم الحدیث: 686)
عن علي رضی اﷲ عنہ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: أمرہ أن یقوم علی بدنہ، وأن یقسم بدنہ کلہا لحومہا وجلودہا وجلالہا، ولا یعطي في جزارتہا شیئا۔

اعلاء السنن: (باب التصدق بلحوم الأضاحي، 29/17، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ولأن ما یدفعہ إلی الجزار أجرۃ عوض عن عملہ وجزارتہ، ولا تجوز المعاوضۃ بشيء منہا، فأما إن دفع إلیہ لفقرہ أو علی سبیل الہدیۃ، فلا بأس بہ؛ لأنہ مستحق للأخذ۔۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
14/ ذی الحجہ /1443 ھ