WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

ہم جشن یوم جمہوریہ کیوں مناتے ہیں؟از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

بلاشبہ وطن عزیز [ہندوستان] کی تاریخ میں دو دن بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں, ایک 15اگست [یوم آزادی]جس دن ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزادہوا, دوسرا 26جنوری[جسے یوم جمہوریہ یا ری پبلک ڈے Republic Day یا گن تنتر دِوس کہا جاتا ہے] جس دن ملک جمہوری ہوا, یعنی اپنےملک میں اپنےلوگوں پراپناقانون لاگو ہوا-
آزادہندوستان کااپنادستور بنانے کیلئےڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکرکی صدارت میں29اگست 1947کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کوملک کاموجوده دستورمرتب کرنےمیں 2سال 11ماه اور18دن لگے, دستورسازاسمبلی کےمختلف اجلاس میں اس نئےدستورکی ہراک شق پر کهلی بحث وتمحیص ہوئی،پھر 26 نومبر1949کواسےقبول کرلیاگیا, اور24جنوری 1950 کوایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نےنئےدستور پردستخط کیا, اور 26جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگوکرکے پہلا “یوم جمہوریہ” منایاگیا،[اسی دستور اور آئین کی بنیاد پر اپنے ملک کو جمہوری ملک کہاجاتاہے]اب ہرسال تمام باشندگانِ ہند وبرادرانِ وطن 26جنوری کو “یوم جمہوریہ “کے طور پرپورے جوش وخروش اور دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں اور15اگست 1947کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اوریادگاری دن بن گئی-
26جنوری کوجشن کےطور پہ کیوں مناتے ہیں؟ توآئیے تاریخ کےاوراق کامشاہدہ کرتےچلیں, جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملا,اس کیلئےبڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں,لاکھوں جانوں کےنذرانےپیش کرنے پڑے,تب جاکر 26جنوری کو جشن منانے کایہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہوا, انگریزوں کاپہلاقافلہ1601 میں دورجہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتها ,اس حساب سے ہندوستان سےانگریزوں کاانخلاء 1947میں 346سال بعد ہوا, اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئ جس کاہرصفحہ ہندوستانیوں کےخون سے لالہ زارہے، جذبۂ آزادی سےسرشار اورسرپرکفن باندھ کروطن عزیز اوراپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں جہاں ہمارے دیگر برادارنِ وطن نے حصہ لیا وہیں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ مسلمان سب سے پیش پیش تھے,جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں توہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل ہی نہ ہوگی،بہرحال 26جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لیے جو دستور مقرر کیا اس کے آغاز میں ہی ایک بہت ہی خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی،سیاسی،انصاف،آزادئِ خیال، اظہاررائے،آزادئِ عقیدہ ومذہب وعبادات،مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا”
یقیناً دستور ہند کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملک کے تمام مذاہب و نظریات رکھنے والوں کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ ملک میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں، اپنےجائز افکار و نظریات کی تبلیغ وترسیل کر سکتے ہیں، اپنے تشخصات و روایات کے ساتھ ملک میں اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں، اپنی زبان، تہذیب، کلچر و ثقافت پر عمل کرنے میں مکمل آزاد ہیں،کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے مذہب، اس کی تہذیب، زبان اور ثقافت سے چھیڑچھاڑ کرے، اس کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنائے یا اس کے پرسنل لا سے چھیڑچھاڑ کرے،اس اعتبار سے “ھندوستانی جمھوری نظام” ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں،ہندوستان ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات،رنگ ونسل اور رسم ورواج کے چاہنے والے رہتے ہیں،صدیوں سے یہاں گنگا جمنی تہذیب وتمدن کی فضا رچی بسی ہے،دوستی، محبّت،بھائی چارگی، یکجہتی،مساوات واخوت یہاں کی خاص پہچان ہے، 26 جنوری کو اسی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لیے “جشن یوم جمہوریہ” مناکر ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ملک کے آئین کے بانی و مرتبین کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے،اور اس دن پورے ملک میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تعلیم گاہوں اور سرکاری اداروں میں “جشن یوم جمہوریہ” کا پروگرام منعقد کی جاتی ہے،تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کاانعقاد کیاجاتاہے،اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتاہے،لوگ جوق درجوق گھروں سے باہر آجاتے ہیں،مدارس اسلامیہ،اسکول، کالج،چوراہوں، سرکاری ونجی عمارتوں پرقومی پرچم لہرائے جاتے ہیں،رہائشی علاقوں،ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیراہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں،مساجد ومدارس میں ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی اور آپسی بھائی چارہ، نیز بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر آنے کی توفیق اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں، حبّ الوطنی پر مشتمل ترانے پڑھےجاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے،سیکولرازم کے عنوان پر بیانات ہوتے ہیں،اور ہمارے مفکرین ودانشوران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کی بقا رہنی چاہیے، ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہونی چاہئے، سب کو رہنے اور کھانے پینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہیے اسے ان کو حکومتی سطح پر دیاجاناچاہییے،خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو مسلم سکھ عیسائی اور ہندوستان کے تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنا چاہیے، ملک کی حفاظت اور اِس کی ترقی کے لیے سبھی بردران وطن کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے-ہم سبھی لوگوں کو ملک کے آئین ودستور کا پاس ولحاظ رکھنا چاہییے،مگر پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں ایک خاص فکر کے حاملین برادران وطن نے جس طرح ملک کے دستور کی دھجیاں اڑائی ہیں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، فرقہ پرستی کو فروغ دیا ہے، مذہب اور دھرم کے نام پر جو سیاسی کھیل کھیلا ہے، فرقہ وارانہ فسادات میں جس طرح حکومت کی پشت پناہی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور اب مسلمانوں کے مذہبی مسائل اور عائلی قوانین میں جس طرح مداخلت کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اب باقاعدہ جمہوریت ہی باقی نہ رہی، ایک خاص فکر کے حاملین نے ملک کی جمہوریت کو اپنے خونی پنجوں سے جس طرح دبوچ لیا ہے اور آئے دن ملک کے جمہوری تقدس کو پامال کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ارادے نیک نہیں، یہ جمہوریت کے دشمن ہیں، آئین کے قاتل ہیں، دستور کے لٹیرے ہیں، یہ لوگ بڑی بے باکی کے ساتھ اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں شب و روز تگ و دو کر رہے ہیں، حکومت جو جمہوریت کی محافظ ہے وہ بھی جمہوریت کے ان لٹیروں کا ساتھ دے رہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ تمام برادران وطن مل کر ان چند فرقہ پرستوں کے خلاف اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دینے والی حکومت کے خلاف جمہوریت کی بقا اور آئین کی سلامتی کے لیے متحدہوکرانہیں ان کے منصوبوں میں ناکام بنائیں، تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں، اور یوم جمہوریہ مناتے ہوئے خوشی خوب خوب خوشی ومسرت محسوس کریں-
اس بار ہم 73 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ پورے ملک کے مدارس،کالجز،اسکول ودفاتر میں بھی موجودہ وبائی بیماری کے مدّنظر حفاظتی اقدامات کے ساتھ”جشن یوم جمہوریہ”منایا جائے گا،کاش کہ اس جشن زریں کے موقع پر حکمرانوں کے ذریعہ آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیا جاتا اور اس پر عمل بھی کیا جاتا، نفرت بھرے ماحول کو امن وآشتی،اخوت و بھائی چارہ سے بدلنے کی بات کی جاتی، مساویانہ آئینی حقوق کو یقینی بنایا جاتا، ملک دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں امتیاز نہیں برتا جاتا، گنگا جمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پرلگام لگایا جاتا گئورکچھا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو طوق سلاسل پہنایا جاتا،لوجہاد اور گھر واپسی کے نام پر آتنک کاراج قائم کرنے والوں کو تختۂ دار تک پہنچایا جاتا، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے نعرہ کو سب کے لئے عملی جامہ پہنایا جاتا، تو “یوم جمہوریہ” کے معماروں کےلیے یہی سچی خراج عقیدت ہوتی!

नाते नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम:- कारी तौसीफ रजा तहसीनी

मलजा नज़र में और वह मावा नज़र में है
यानी कि सब रसूलों का दूल्हा नज़र में है

दुनिया नज़र में और न उक़बा नज़र में है
हर लम्हा हर एक आन मदीना नज़र में है

दुनिया का हुसन मेरी निगाहों में हेच है
हुसने रसूले पाक समाया नज़र में है

फज़ले खुदा से आंखें हैं रौशन इसी लिए
मुख़तारे कायनात का जलवा नज़र में है

इश्क़े रसूले पाक में कूऐ रसूल को
परवाज़ फिक्र करती है तैबा नज़र में है

हम को नसीब ग़ौस का मुर्गा है रोज़ो शब
नजदी वहाबीओं की तो कौआ नज़र में है

महसूस हो रहा है बदन का महकना क्यूँ ?
तौसीफ शहरे तैबा का कांटा नज़र में है

نعتِ پاکِ شہہِ ابرارﷺ :- ملجا نظر میں اور وہ ماویٰ نظر میں ہے

یکجا کاوش برائے بزم غوث الوریٰ

نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

ملجا نظر میں اور وہ ماوا نظر میں ہے
یعنی کہ سب رسولوں کا دولھا نظرمیں ہے

دنیا نظر میں اور نہ عقبیٰ نظر میں ہے
ہر لمحہ ہر اک آن مدینہ نظر میں ہے

دنیا کا حسن میری نگاہوں میں ہیچ ہے
حسنِ رسولِ پاک سمایا نظر میں ہے

فضلِ خداسےآنکھیں ہیں روشن اسی لیے
“مختارِ کائنات کا جلوہ نظر میں ہے”

عشق رسول پاک میں کوئے رسول کو
پرواز فکر کرتی ہے طیبہ نظر میں ہے

ہم کو نصیب غوث کا مرغا ہے روز و شب
نجدی وہابیوں کی تو کوَّا نظر میں ہے

محسوس ہو رہا ہے بدن کا مہکنا کیوں؟
توصیف شہر طیبہ کا کانٹا نظر میں ہے

        نتیجۂ فکر

سالک محمد توصیف رضا
تحسینی پیلی بھیتی

نعتِ رسول ﷺ :- از قلم قاری توصیف رضا تحسینی صاحب قبلہ

نظارے جھومتے ہیں اور ستارے جگماتے ہیں
جناب آمنا کے گھر نبی تشریف لاتے ہیں

رہا کرتی ہیں ہر دم برکتیں ان کے مکانوں میں
جو دل سے مصطفی کے نام کی محفل سجاتے ہیں

نمازیں کم کرانے کے لیے موسی کے کہنے پر
حضور رب شہ دیں بار بار آتے ہیں

یزیدی بھیڑیے ہیبت زدہ ہیں دیکھ کر سارے
الم ہاتھوں میں لے کر حضرت عباس آتے ہیں

نسیم شہر طیبہ کاش آ کر مجھ سے یہ کہدے
چلو توصیف تحسینی تمہیں آقا بلاتے ہیں

امجدی ڈائری: معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار {موجِ فکر} تحریر:– آصف جمیل امجدی 9161943293

قارئینِ کرام ہم اس موضوع کے دو حصے کرکے آپ کے مشام جاں کو معطر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس کا کیا کردار رہا ہے،اور کس طرح اس نے سماج کی تعمیر کا کام انجام دیا ہے؟ گویا یہ ماضی کا جائزہ ہے ۔
موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس سے کس رول کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یعنی اس کام میں یہ مدارس کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک موضوع کے پہلے حصے کا تعلق ہے،یہ ایک ایسی درخشندہ اور تابناک تفصیل ہے۔ جس کی ضیا بار کرنوں سے تاریخ کا ہر صفحہ منور ہے۔ اہلِ نظر اگاہ ہیں کہ مدارس کی تاریخ اس صفہ نبوی سے جڑی ہوئی ہے جہاں سے دنیا کوانسانیت کا درس ملا تھا۔ دنیا کےتمام مدارس اسی سر چشمہ سے فیض یاب ہوتے ہیں اور اسی کے پیغام کو عام کرتے ہیں۔ مدارسِ دینیہ نہ صرف تعلیم گاہ ہیں،بلکہ تربیت کی بھی آماجگاہ ہیں ۔ چنانچہ تاریخ پر سر سری نظر ہی یہ بتا سکتی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ سے کیسےکیسے مردانِ کار نکلے اور انھوں نے سماج کو کن خوبیوں سے آراستہ کیا۔ ماضی کے دریچے سے اگر دیکھا جاۓ تو زندگی کے میدان اور مختلف علوم و فنون کے لیے ماہرین انھیں دینی مدارس سے فراہم ہوۓ۔ مدارس نے ہی قوم کو بڑے بڑے اطباء، ماہر انجینئر، صنعت کار اور فن حرب کے ماہرین دیے۔ اداباء، شعراءاور خطباء یہیں سے نکلے اور دینی علوم کےماہرین کا توکیا کہنا،وہ تو دینی مدارس کی پہچان ہوتے ہیں۔ محدثین، مفسرین، فقہاء اور تمام علوم آلیہ و علوم عالیہ کے ماہرین دینی مدارس کے فیضان ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی منظر نامہ اس سےعلاحدہ نہیں۔ عہدِ سلطنت سے لے کر مغلیہ دور تک اور پھر برطانوی سلطنت کے زمانہ تک یہی دینی مدارس وہ مراکز تھے، جہاں سے سماج کی ہر ضرورت پوری ہو رہی تھی، اس کے مردان کار تیار ہو رہے تھے۔ تعلیم گاہوں کے مسند نشینوں سے لے کر اخلاق و کردار کے معلمین تک، تاجروں اور صنعت کاروں سے لے کر زرعت اور دست کاری کے محنت کشوں تک، غرض سماج کے تمام قسم کے لوگ انہیں مدارس سے تیار ہوکر نکل رہے تھے اور یہ بات توظاہر ہے کہ کوئی بھی سماج انہیں افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر یہاں افراد صالح تھے تو لازمًا سماج صالح بن رہا تھا اور سماج کی صالح تشکیل کا سہرا ان دینی مدارس کے سر بندھ رہا تھا، جہاں سے یہ افراد سماج کو فراہم ہورہے تھے۔
ملک کی آزادی اور آزادی کے بعد سماج کو صحیح ڈگر پر جاری رکھنے میں بھی دینی مدارس کا رول بہت نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد جب یہاں مسلم حکومت باقی نہیں رہی اور یہاں کی مسلم عوام ایک سیکولر نظام حکومت کے تحت آگیے، ان کے دین و ایمان، اسلامی احکام، اس کے شعائر اور اسلامی شناخت کے تحفظ کا بیڑا ان دینی مدارس ہی نے اٹھایا۔ آج یہ حقیقت ایک زندہ مثال کی شکل میں موجود ہے کہ یہاں جو کچھ اسلام کی شادابی اور اس کی رونق موجود ہے وہ ان مدارس اور اس کے فضلاء کی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مدارس اور اس کے فضلاء نے مسلم عوام الناس کا رشتہ اپنے دین سے باقی رکھا۔ سماج کی اصلاح کے پروگرام میں مساجد میں جمعہ کے خطبات اور مختلف تقاریب کے موقع پر اصلاحی تقاریر کا بڑا حصہ ہے اور یہ بزم بھی مدارس اور اس کےنونہالوں سے آراستہ رہتی ہے۔
ماضی میں معاشرہ کی تشکیل اور اس کی اصلاح میں مدارس دینیہ کے رول پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ اس باب میں بہت کچھ کہنے کے سامان موجود ہیں، لیکن اس مختصر تحریر میں ہم اس پہلو کو انہی اشاروں پر بس کرتے ہوۓ دوسرے پہلو کی طرف اتے ہیں۔ کہ ماضی کو دیکھنے اور اس کا جائزہ لینے کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔
اگر ہم اس پہلو پر غور کریں کہ زمانہ کس رخ پر گامزن ہےاور فساد بگاڑ کن کن راہوں سے ارہا ہے، اصلاح و تربیت کے لیے آج کن عناصر کی ضرورت ہے، سماج کو کس طرح کی ضرورت در پیش ہے، معاشرہ میں بسنے والوں کو کیسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، اس صورتِ حال میں دینی مدارس اور ان کے فضلاء کی ذمہ داری بہت کچھ بڑھ جاتی ہے، سماج کی اصلاح اور معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں ازسرنو اپنی تیاریوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ایسی تیاری جو زمانے کے تقاضے کے مطابق ہو، جو زمانہ کی زبان اور اسلوب سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اسی زبان میں جواب دینے کی طاقت سے اراستہ بھی ہو۔ آج ضرورت ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء دور جدید کے مسائل کو سمجھیں جدید سوالات سے آگاہ ہوں، جدید اصطلاحات سے واقف ہوں ۔ یقینا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے ہر درد کا مداوا اسی دین حنیف میں ہے اور سماج کی تمام تر مشکلات کا علاج بھی اسی دین کی تعلیمات فراہم کرسکتی ہیں۔ لیکن یہ تعلیمات جن افراد امت کے پاس ہیں وہ ان کو آج کے اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت حاصل کریں تو کہا جاسکےگا کہ دینی م

دارس کے فضلاء معاشرہ کی اصلاح کا وہ کردار ادا کرسکیں گے جو ان کا امتیاز رہا ہے۔
یہاں ایک بات یہ قابل ذکر ہے، کہ اصلاح خواہ سماج کی ہو یا فرد کی، اس کے لیے گفتار کے ساتھ کردار کی کشش لازمی ہوتی ہے۔ دینی مدارس اور ان کےفضلاء جب معاشرہ کی اصلاح کا علم لے کر اٹھیں گے تو ضروری ہوگا کہ وہ اپنے کردار کا بھی ایسا نمونہ پیش کریں، جو خود اصلاحِ معاشرہ کی دعوت ہو۔

نعتِ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

. فن شاعری

روتے دل کو ہنسا ابھی کے ابھی
کرلے ذکر خدا ابھی کے ابھی

غم کے بادل ہیں چھائے سرپر تو
نعت پڑھ مسکرا ابھی کےابھی

نام آیا ہے لب پہ آقا کا
پڑھ لےصل علی ابھی کے ابھی

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں
تو خدا کو منا ابھی کے ابھی

ہوگا ہموار چاہیں آقا تو
وصل کا راستہ ابھی کے ابھی

کاش ابھی سامنے ہوں آقا اور
آئے مجھ کو قضا ابھی کے ابھی

کرکے ماں باپ کی رضا حاصل
مژدۂ خلد پا ابھی کے ابھی

آنکھیں برسیں گی مثلِ ساون، کر
ذکر کرب و بلا ابھی کے ابھی

دو صدا ، آئیں گے مدد کے لیے
غوث وخواجہ رضا ابھی کے ابھی

مصطفے سے سلام صفدر کا
جاکےکہہ دےصبا! ابھی کے ابھی

از ـ ابوسارہ محمدآفتاب
عالم صفدر کیموری بہار

نعتِ پاک:- از قلم :- حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب

زمیں تاعرش دنیا خوب صورت ہونے والی ہے

جہاں میں آمد ماہ نبوت ہونے والی ہے

بفضل رب کہوں گا ایک دن ، امید ہے مجھ کو

رسول اللہ کے در کی زیارت ہونے والی ہے

بشارت دینے آئے ہیں فرشتے آمنہ بی کو

کہ تیرے گھر محمد کی ولادت ہونے والی ہے

خیال مصطفے آنا نمازوں میں سند ہے یہ

کہ مقبول حضورِ رب عبادت ہونے والی ہے

بہت ہی شادماں زیرِ کفن ہے ان کا دیوانہ

کہ اس کو قبرمیں شہ کی زیارت ہونے والی ہے

بہت پہلے ہی آقا نے بتایا تھا کہ کربل میں

مرے پیارے نواسے کی شہادت ہونے والی ہے

میں نعت مصطفے صل علی لکھنے لگا صفدر!

مجھےلگتا ہے اب معراجِ قسمت ہونے والی ہے

از ـ محمد آفتاب عالم صفدرکیموری بہار ثم جونپور یوپی

نعتِ پاکِ شہہِ ابرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

وہ رحمتِ خدا کی ہمیشہ نظر میں ہے

اسوہ شہِ امم کا جو رکھتا نظر میں ہے

نورِ جمالِ گنبدِ خضریٰ نظر میں ہے

“مختارِ کائنات کا جلوہ نظر میں ہے”

پھولوں کی بات کیا کروں جب جاں سے بھی عزیز

کوئے نبئ پاک کا کانٹا نظر میں ہے

مجھ کو سکونِ قلب میسر ہے کیونکہ اب

فصلِ بہارِ شہرِ مدینہ نظر میں ہے

رعنائیاں جہاں کی ہمیں کیوں لبھا سکیں

عشقِ رسولِ پاک کا تحفہ نظر میں ہے

نعتِ رسول لکھنے کو شاہد ہر ایک پل

سیرت ہے ان کی، حسن سراپا نظر میں ہے

از قلم محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی 7 704552886

نعتِ پاکِ: نبی کا جو دیوانہ ہوگیا ہے

نبی کا جو دیوانہ ہو گیا ہے
زمانہ اس کا شیدا ہو گیا ہے

وہ شاہوں سے بھی اچھا ہو گیا ہے
“جو ان کے در کا منگتا ہو گیا ہے”

انہیں تو اپنے جیسا کہہ رہا ہے؟
ارے نجدی تجھے کیا ہو گیا ہے

پڑی ہے چشمِ رحمت جس پہ ان کی
جہاں کا وہ مسیحا ہو گیا ہے

بلا لیجے شہا شہرِ مدینہ
یہاں دشوار جینا ہو گیا ہے

مرے غازی کا ہے وہ آستانہ
جہاں نابینا بینا ہو گیا ہے

ہے صدقہ نعت کا شاہد رضا یہ
ترا جو جگ میں شہرہ ہو گیا ہے

از قلم
محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی

نعتِ پاکِ مصطفیٰﷺ بر مصرع طرح: لبِ اعجاز اگر آپ ہلاتے جاتے

سوئے طیبہ وہ ہمیں کاش بلاتے ،جاتے
نغمۂ نعت سرِ راہ سناتے جاتے

کاش وہ رکھ کے مرے سینے پہ دستِ رحمت
داغ عصیاں کے مرے دل سے مٹاتے جاتے

مصحفِ روئے منور کی تلاوت کر کے
جانیں اصحابِ نبی اپنی لٹاتے جاتے

گالیاں سن کے بھی سرکار دوعالم اکثر
اپنے دشمن کو کرم اپنا دکھاتے جاتے

مجھ نکمے کی یہ حسرت ہے شہنشاہِ زمن
عمر کٹ جائے مری طیبہ میں آتے جاتے

کوئی بھی دشمنِ اسلام نہ زندہ رہتا
“لبِ اعجاز اگر آپ ہلاتے جاتے”

جب بھی آ جاتا پریشاں کوئی ان کے در پر
پیار سے سب کو گلے وہ تھے لگاتے جاتے

مجمعِ حشر میں بھی ہم سے خطاکاروں کو
اپنے دامن میں ہیں سرکار چھپاتے جاتے

خاکِ نعلینِ نبی ہم کو جو ملتی شاہد
اپنی آنکھوں کا اسے سرمہ بناتے جاتے

از قلم
محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی
ساکن سالارپورباباگنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی
7045528867