WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2023

خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں ترکی وسیریا کے مسلمانوں کے لیے خاص دعا کا اہتمام.رپورٹ:محمدحسن رضاجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف9/ فروری 2023ء

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ

ترجمہ: جب زمین تھرتھرا دی جائے گی جیسے اس کا تھرتھرانا طے ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ، کہ اس وقت ترکی ، سیریا (Syria) وغیرہ میں ، بڑا غم کا ماحول ہے ، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے ، بڑی بڑی عمارتوں تلے دب کر رہ گئے ہیں ، یقیناً یہ منظر دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اسی غم کے ماحول میں ،
آج (9 فروری 2023ء) خانقاہ برکاتیہ (مارہرہ شریف) کے تحت چلنے والے ادارے جامعہ احسن البرکات ، کی اسمبلی میں ، شفیق العلما و الطلبا حضور رفیق ملت دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے اور ہم طلبہ کو ترکی کے مسلمانوں کے حالات ارشاد فرماتے ہوئے رو دیے ، اور فرمایا:
“بیٹا! یہ غرور و گھمنڈ کس بات کا، یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا اور باقی رہ جانے والی ذات بس اللہ کی ہے، یہ زمین و آسمان سب اس کے حکم کے تحت ہیں۔”

اور فرمایا: “آج سب کو معلوم ہے کہ ترکی وغیرہ میں کیسی تباہی مچی ہوئی ہے، چھوٹے چھوٹے بچے زیرو ٹیمپریچر (zero temperature) میں بغیر کپڑوں کے بڑی بڑی عمارتوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں”
اور پھر بڑی دردناک آواز میں فرمایا: “ہم مالی اور جسمانی مدد تو نہیں کر سکتے لیکن ہم ایک طرح سے ان کی مدد کر سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ ہم ان مسلمانوں کے لیے جو شہید ہو گئے ہیں ، ایصال ثواب کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ان کے گناہوں کو معاف فرمائے،اور تمام مسلمانوں پر رحم فرمائے، ان کی پریشانیوں کو دور فرمائے، پھر ہم طلبہ کو تاکیداً فرمایا:”آپ جو کچھ پڑھیں (اور ظاہر ہے آپ اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی پڑھو گے) تو اس کا ثواب ترکی وغیرہ میں زلزلے کے سبب شہید ہونے والے مسلمانوں کی ارواح کو بخش دینا۔”

یہ اللہ کے نیک بندوں کی ہی شان ہوا کرتی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر پریشانیاں آتی ہیں تو ان کے دل پیچین ہو جاتے ہیں ، وہ اپنی ہر مجلس میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ، اور ہم نے بھی یہی دیکھا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی بڑی مصیبت آئی ہے ، تو خانقاہ برکاتیہ (مارہرہ شریف) میں ،اس کے دفاع کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں ، حضور رفیق ملت نے خود ارشاد فرمایا “آج اپنے مسلمان بھائیوں کی یہ حالت دیکھ کر دل بہت غمگین اور بیچین ہے ،اسی لیے آج دعا کا خاص اہتمام کیا گیا ہے،اور بیٹا آپ لوگ اپنی ہر نماز میں ان کے لیے دعائیں کرنا ، کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد مسلمانوں کو اس سے نجات عطا فرمائے- آمین”

اور پھر ترکی ، سیریا (Syria) وغیرہ میں شہید ہونے والے مرحومین کے لیے خاص طور پر سورۂ فاتحہ و سورۂ اخلاص پڑھ کر ایصال ثواب کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولی تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک کے صدقے مسلمانوں کی مدد فرمائے اور جلد از جلد اس آفت سے نجات عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

محمدحسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
9/ فروری 2023ء

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

جہاں کا ہے اجالا نام ان کا
ہے جانب حق کی رستہ نام ان کا

قبول توبہء آدم ہے شاہد
مقدس ہے وسیلہ نام ان کا

محمد ارض میں ، احمد فلک پر
سبھی ناموں میں پیارا نام ان کا

مصیبت سے ملا چھٹکارا ، جب بھی
صحابہ نے لیا تھا نام ان کا

خدا کا کام آقا نے کیا یوں
ہے دنیا میں زیادہ نام ان کا

اسی سے روشنی ہے چاروں جانب
جبین ضو کا غازہ نام ان کا

ہو وہ دن رات یا ہو صبح یا شام
ہمارے لب پہ آیا نام ان کا

اسی کے ساءے میں راحت ہے ہم کو
ہے نوری شامیانہ ‌نام ان کا

چھپے اس میں نہ جانے کتنے اسرار
ہے اسم عارفانہ نام ان کا

لکھا ہے ہر گل جنت پہ عینی
عجب رکھتا ہے جلوہ نام ان کا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

منقبت در شان حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

لائے کہاں سے دہر بیان ابو تراب
رشک لسانیات ، لسان ابو تراب

کرتا ہے آسمان بھی جھک کر انھیں سلام
اللہ نے بڑھائی ہے شان ابو تراب

قسمت پہ میری رشک کریں مہر و ماہ بھی
دل میں ہے میرے نقش نشان ابو تراب

ملعون ہے یزید ، سبھی کہتے ہیں یہی
حضرت حسین جب کہ ہیں جان ابو تراب

ہے اس کی چاشنی پہ ہر اک ذائقہ نثار
انجیر سے بھی بڑھ کے ہے نان ابو تراب

باقی رہیگی اس سے چمک اور دمک سدا
لعل و گہر سے پر ہے یوں کان ابو تراب

سب کہکشائیں علم کی ہیں عینی آس پاس
کتنا وسیع تر ہے جہان ابو تراب
۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رجب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام کی تاریخ میں رجب کے مہینے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا وصال پندرہ رجب کو ہوا تھا ۔یہ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے: پندرہ رجب المرجب ١٤٥ ہجری کو مدینہ طیبہ میں آپ نے انتقال فرمایا ۔رجب کے مہینے میں امام عالی مقام کی نیاز دلائی جاتی ہے ۔امام کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ فاتحہ خوانی بھی ہوتی ہے۔

لیکن مقام افسوس ہے کہ کچھ لوگوں نے تاریخ فاتحہ پر اختلاف کیا ، بلکہ کچھ لوگوں نے اس اختلاف میں شدت اختیار کی اور یہ کہا کہ بائیس تاریخ کو ہی نیاز دلائی جاۓ تاکہ رافضیوں کا رد ہوسکے۔کیا رد رافضی کا یہی طریقہ باقی رہ گیا ہے؟ اور کوئی طریقہء کار نظر نہیں آیا؟ رد رافضی ضرور کیجیے ، لیکن اہل سنت و جماعت میں تفریق اور انتشار پیدا مت کیجیے۔فروعی باتوں میں اختلاف اور پھر اختلاف میں شدت اختیار کرنا حد درجہ کی حماقت ہے۔حماقت کی انتہا یہ ہے کہ جو لوگ پندرہ تاریخ کو نیاز دلانے کی بات کرتے ہیں ان پر وہابیت کا الزام لگادیا گیا۔افسوس صد افسوس۔امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی باتوں کی تعلیم نہیں دی ہے ۔آپ حسن اخلاق کے مجسمہ تھے ۔آپ اخلاق و اوصاف میں معیار تر تھے۔آپ حسن سلوک، صبر و تحمل ، مہمان نوازی میں یکتائے روزگار تھے۔آپ کے اقوال زریں میں سے ایک قول یہ بھی ہے : “تم لوگ خصومت دین سے بچو ، اس لیے کہ وہ قلوب میں نفاق پیدا کردیتی ہے”۔

رجب چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔رجب کا نام ترجیب کی وجہ سے رکھا گیا ہے ، جس کا معنی ہے تعظیم کرنا ۔بعض لوگوں کا قول ہے کہ ترجیب کا معنی بار بار ذکر خدا کرنا اور اللہ کی عظمت کا اظہار کرنا کیونکہ ماہ رجب میں فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تمجید اور تقدیس بار بار کرتے ہیں۔
رجب مہینے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی میں سوار کرایا ۔حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے سارے ساتھیوں نے کشتی ہی میں اس ماہ کا روزہ رکھا اور اللہ تعالیٰ نے کشتی میں سوار لوگوں کو غرق ہونے سے محفوظ رکھا اور سیلاب کے بعد زمین کو کفر اور معصیت سے پاک فرمادیا۔

اس مہینے کا ایک اور نام اصب بھی ہے کیونکہ صب کا معنی ہے بہانا ۔ اس ماہ میں بندوں پر خدا کی رحمت بہائی جاتی ہے۔

ماہ رجب کا نام مطھر بھی ہے کیونکہ یہ مہینہ اپنے روزہ دار کو گناہوں اور خطاؤں سے پاک کردیتا ہے۔

رجب مہینہ بہت سارے اوصاف کا حامل ہے۔رجب کے مہینے کو اللہ کا مہینہ کہا گیا۔رجب کا مہینہ ظلم چھوڑنے کے لیے ہے،رجب توبہ کا مہینہ ہے،رجب عزت کا مہینہ ہے،رجب ماہ عبادت ہے،رجب نیکیوں میں سب سے آگے بڑھ جانے کا مہینہ ہے،رجب کھیتی بونے کا مہینہ ہے۔رجب میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، خطائیں معاف ہوتی ہیں ،

اللہ ہم سب کو ماہ رجب المرجب کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اہل سنت و جماعت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے توفیق رفیق عطا فرمائے۔ ہم سب کو نفاق سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔عبادات سے سرور حاصل کرنے کے توفیق رفیق عطا فرمائے۔زیادہ سے زیادہ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ اپنے گناہوں سے سچی اور خالص توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

علم کی اہمیت از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

علم ایک ایسی انمول چیز ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا،دنیا کی ہر چیز بانٹنے سے کم ہوتی ہے لیکن علم واحد ایسی انوکھی اور نرالی چیزہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی ہے بلکہ جتنا بانٹو اُتنی ہی بڑھتی جاتی ہے-

اہل علم کا کہنا ہے کہ بغیر علم کے انسان اندھا ہوتا ہے اور یہ بات بالکل سچ ہے کیونکہ آنکھیں ہونے کے باوجود بھی انپڑھ لوگ کچھ پڑھ نہیں سکتے،لکھا ہوا کاغذ ان کی نظر میں کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے-

کم نصیب ہیں وہ لوگ جو دولت،ہر قسم کی سہولت اور بڑےشہروں میں رہنے کے باوجود (جہاں بڑے بڑے مدارس،اسکول اور کالجوں کا انتظام ہے) بھی اعلیٰ دینی وعصری تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں-

آج بھی ہماری قوم تعلیم حاصل کرنے میں دنیا کی تمام قوموں سے پیچھے ہے،حالانکہ ہمارے آقاسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ”علم حاصل کرو اس کے لئے چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے”

اورعلم سے متعلق ایک جگہ یہ بھی فرمایاکہ”تعلیم حاصل کرو چاہے عبرانی ہی کیوں نہ ہو”لیکن پھر بھی ہماری قوم تعلیم کے حصول کے تعلق سے کافی بے فکر اور لا پرواہ ہے-

تعلیمی لیاقت کم ہونے کی وجہ سے آج ہم ترقی میں سب سے پچھڑے ہوئے ہیں-

ابھی بھی وقت ہے جاگ جاؤ اور خوب تعلیم حاصل کرو اور خاص طور پر اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خوب دھیان دو اور انہیں اس کا خوب خوب موقع فراہم کرو،تعلیم کو اپنا زیوراور پیرہن بنا لو-کیونکہ علم ایک ایسی شمع ہے جس کی روشنی میں انسان ہر اچھے اور برے کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے-

اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو علم کی اہمیت وعظمت کو سمجھنے اور اس کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے!

عرس نوری کے نورانی پیغامات✒️ کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

١-اپنے بچوں اور بچیوں پر شفقت کے ساتھ ان کی خصوصی نگرانی بھی رکھیں،خصوصاً انہیں موبائل کے بے جا استعمال سے دور رکھیں .
٢-حلال کمائیں ،حلال کھائیں،اور حلال کمائی ہی سے مسجد، مدرسے کا تعاون کریں.
٣-شادی یا دیگر تقریبات میں کھانے میں اعتدال برتنے کے ساتھ رزق الہی کا احترام کریں ، بلا وجہ تضییع رزق سے بچیں.
٤- علم خصوصاً علم دین حاصل کرکے اس کی ترویج و اشاعت کریں.
٥-بڑے چھوٹوں پر شفقت اور چھوٹے بڑوں کا ادب کریں.
٦-طلبہ اپنے اساتذہ کا حد درجہ احترام کریں کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں.
٧-مسلک حق، مسلک اعلی حضرت پر قائم رہیں.
٨-حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں وہی عقیدہ رکھیں جو ہمارے اسلاف سے متوارث ہے.
٩-علما کا احترام کریں.
١٠ – پیران عظام اپنے مریدوں سے لینے کے بجائے انہیں دینے کی کوشش کریں.
١١-طریقت بغیر شریعت مقبول نہیں، لہٰذا طریقت سے فیض یابی کے لئے شریعت کی پابندی کریں.
١٢-جلسہ جلوس اور عرس وغیرہ میں جانے کے ساتھ مسجد میں بھی جایا کریں.
١٣-اگر اپنے ابا(حضور رفیق ملت) کو بھی مسلک سے منحرف دیکھنا تو انہیں بھی چھوڑ دینا مگر مسلک نہ چھوڑنا(فارغین احسن البرکات کو حضور رفیق ملت کی نصیحت)
١٤ – علماوطلبہ دنیاوی جاہ و منصب والوں سے کبھی مرعوب نہ ہوں۔
١٥-خوب کمائیں اور زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ نکال کر مستحقین تک پہنچائیں.

✒️ کمال احمد علیمی نظامی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

مولانا محمد عرفان ازہری صاحب کو تاج المشائخ حضور امینِ ملت نے خلافت سے نوازا محمد ارقم رضا نوریجامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف

     ماہر درسیات، استاذ العلما، حضرت علامہ و مولانا محمد عرفان ازہری  مرادآبادی صاحب قبلہ (أدامه اللہ بالعز والکرامة) جماعتِ اہل سنت کے عظیم المرتبت عالمِ دین اور رفیع الشان مدرس ہیں۔ آپ بر صغیر کی مشہور و معروف خانقاہ، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے تحت چلنے والے گراں قدر جامعہ، جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف کے صدر المدرسین ہیں۔ جب سے آپ کو یہ عہدہ سپرد کیا گیا ہے تب سے لےکر آج تک آپ بڑے ہی خلوص کے ساتھ جامعہ احسن البرکات کی خدمت کر رہے ہیں اور ہر لمحہ جامعہ کو ترقی دینے میں کوشاں رہتے ہیں، جامعہ کی ترقی میں آپ کا اہم کردار ہے، آپ کی انتھک محنتوں اور کوششوں سے جامعہ کا تعلیمی نظام نہایت عمدہ ہے، خصوصاً امسال آپ کی خصوصی توجہ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کے سبب طلبہ کے اندر قلمی شوق بیدار ہوا ہے جس کے نتیجے میں جامعہ احسن البرکات کے درجنوں طلبہ بہترین مقالہ نگار بن گئے ہیں، سہ ماہی القلم ڈیجیٹل آپ کی محنتوں کا مرہونِ منت ہے، الغرض یہ کہ آپ جامعہ کی ترقی، طلبہ کی مہارت اور کامیابی کے سلسلے میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور دل و جان سے جامعہ کی خدمت کرتے ہیں۔ 
     راقم الحروف نے بفضلہ تعالی حضرت  قبلہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے، فقیر بلا مبالغہ یہ حقیقت بیان کر رہا ہے کہ حضرت جامعہ احسن البرکات کے لیے واقعی بہت مخلص ہیں، جب بھی حضرت کی بارگاہ میں حاضری ہوئی تو جامعہ کا کام کرتا ہوا ہی پایا. 
     حضرت کی جامعہ کے لیے خدمات جلیلہ کو گر بیان کیا جائے تو کتاب تیار ہو سکتی ہے مگر ہم یہاں اختصار کا دامن تھامے ہوئے ہیں لہذا مذکورہ باتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور اب اپنے اصلی مقصد کو بیان کرتے ہیں:
     یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ شریف ہمیشہ سے ہی دین متین کی خدمت کرنے والوں اور محنت و مشقت سے میدان عمل میں اترنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، ان کو طرح طرح کے انعامات سے نوازتی ہے۔ اور یقیناً استاذ محترم حضرت مولانا  محمد عرفان ازہری مرادآبادی صاحب قبلہ کی خدمات رفیعہ اور جہد مسلسل بہت بڑے انعام کی مستحق تھیں، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے دنیوی انعام نہ دےکر مفتی صاحب قبلہ کو اخروی انعام سے نوازا اور ایسا انعام جو دنیا کہ تمام تر انعامات پر بھاری ہے اور اس وقت کا سب سے بڑا انعام ہے، یعنی کل حضرت کو آپ کی محنتوں اور کوششوں کے اعتراف میں، عرس نوری برکاتی کی خرقہ پوشی کی شب کی محفل میں شہزادہ و نائبِ حضور احسن العلما، امین الملۃ والدین، امینِ ملت، حضور تاج المشائخ، سید شاہ ڈاکٹر محمد امین میاں قادری برکاتی (نفعنا اللہ بطول بقائه و أطال اللہ عمرہ) سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا، اور اس کا اعلان شہزادۂ حضور احسن العلما، شفیق العلماء والطلبا، رفیق ملت حضور سید شاہ نجیب حیدر نوری (أدامه اللہ بالعز والمجد والکرامة) نے فرمایا اور آپ کے سر پر دستار شریف باندھی اور فرمایا: "مارہرہ مطہرہ کی خلافت ریوڑی نہیں ہے جو ایسے ہی مل جائے، حضرت عرفان ازہری نے بہت محنت کی ہے اس کے صلے میں یہ خلافت حضور تاج المشائخ نے عطا فرمائی ہے"- 
     بہر حال حضرت قبلہ کو خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے منبر نور سے علمائے کرام و مشائخ عظام اور عوام اہل سنت کے جم غفیر کے سامنے جب اجازت و خلافت سے نوازا گیا تو ہر جانب خوشی سے نعرۂ تکبیر و رسالت کی صدائیں بلند ہو گئیں، خصوصاً جامعہ احسن البرکات کے ہر طالب علم اور اساتذۂ ذی وقار کی خوشی کی انہتا نہ رہی، سب بہت ہی خوش ہوئے اور حضرت کو بے پناہ دعاؤں سے نوازا، طلبہ نے اپنی محبتوں کا اظہار کرکے حضرت کی خوشی میں شرکت کی اور حضرت کی دعائیں حاصل کیں۔ اللہ کریم استاذ محترم کو یہ اجازت و خلافت مبارک فرمائے اور مسلک اعلی حضرت کی غیر معمولی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے جامعہ احسن البرکات کو روز بروز خوب ترقی عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و سلم 

محمد ارقم رضا نوری
جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف

سرکار نوری میاں کی نصیحت و وصیت(عرس نوری کی مناسبت سے گنجہاے گراں مایہ)…📝 انیس القمر امجدیجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

سرکار نوری میاں کی نصیحت و وصیت
(عرس نوری کی مناسبت سے گنجہاے گراں مایہ)

  خانوادہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے مہر درخشاں، کوکب کون ومکاں،نور بہاربوستاں،صاحب دورزماں، 

وارث پیغمبراں،افتخاردودماں،شاہبازلامکاں،قبلہ گاہ قدسیاں،مالک گنج نہاں،صاحب بخت جواں سراج العارفین قدوۃ الواصلين سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ کا زمانہ تحفظِ دین وسنت کے لحاظ سے بڑا ہی پرآشوب تھا۔رافضیت،وہابیت،مرزائیت اور نیچریت کی تحریکیں سواداعظم اہل سنت کے عقیدہ و مسلک پر شب خون مارنے میں ایک دو سرے پر سبقت لےجانے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ ایسے پرانتشار ماحول میں سرکار نورعلیہ الرحمہ نے جس مومنانہ فراست اور مجاہدانہ عزیمت کےساتھ اپنے مختلف رسائل کے ذریعہ اہل سنت وجماعت کے عقائد و اعمال کی حفاظت وحمایت کی۔اس کی مثال اُس دورکی کسی دوسری خانقاہ یاشیخ طریقت کے یہاں نہیں ملتی۔

کثرت اوراد وظائف اور مصروفیات کے باوجود ایک درجن کے قریب چھوٹے بڑے رسائل آپ کی یادگار ہیں ۔انھیں میں سے ایک مختلف خصوصیات و فوائد پر مشتمل قلمی شاہکار بنام “سراج العوارف فی الوصايا والمعارف” بھی ہے۔
عوام اہل سنت کو بالعموم اورخانقاہ برکاتیہ کے جملہ مریدین و متوسلین کو بالخصوص اس کا دیکھنا،پڑھنا اور پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ رسالہ بزبان فارسی لکھا گیاہے،اس میں سات لمعات ہیں،پہلا لمعہ وصایا میں ہے۔اس میں گیارہ وصیتیں ہیں۔اردو ترجمہ سے قدرے ترمیم کے ساتھ دس وصیتیں ہدیہ قارئین ہیں ۔
(١) ایمان اوراسلام کے قبول کےبعد اہل سنت وجماعت کےمذہب پرمضبوطی سےقائم رہیں۔ مسلک حنفیہ اور مشرب قادریہ پر اپنےظاہر اورباطن کو آراستہ اور پیراستہ رکھیں،اسلام کےسارے احکام کی پابندی اور فرماں برداری اپنے اوپر لازم کرلیں۔ علماےدین اور فقرا کے مخلصین کا ادب کرنےکی کوشش کریں۔
درگاہ وخانقاہ کی خدمت بجالائیں اور نماز باجماعت کے لیے مسجدوں میں حاضرہوں۔ والدین،مرشد،علوم دین کےاساتذہ اور ان کی اولاد کانہایت ادب کریں ۔
اپنے پیرکو اپنےحق میں زمانےکےسارے شیوخ طریقت سے بڑھ کرجانیں،اپنےآپ کو تمام مخلوق خدامیں سب سے زیادہ کمتر اورحقیرسمجھیں۔
(٢) قول اورفعل میں شریعت محمدیہ کی پیروی اور طریقت کےاحکام پر قائم رہنے کے بعد ایسے پیر کے ہاتھ پر مرید ہوں جس میں یہ تین شرطیں دیکھ لیں
پہلی یہ کہ وہ مسلمان اور سنی مذہب کا پیرو ہو، دوسری شریعت کی پوری پابندی کرتاہو، تیسری اس کا مسلک صحیح ہو یعنی اسلام میں اہل سنت وجماعت کامذہب رکھتا ہو اور شریعت کاپابندہو اورطریقت میں کسی صحیح السلسلہ پیر کامرید اور خلیفہ ہو۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہے۔اورخدا سےخدا کو طلب کرے جب خدا کو لیا توسب چیزوں کو حاصل کرلیا۔

(٣) کتاب وسنت سے اپنی ضرورت بھر علم دین حاصل کرنےکی پوری کوشش کریں اور اس کام کو سب کاموں پرمقدم رکھیں اسکے بعد ہی طریقہ باطنی میں قدم رکھیں کیونکہ جاہل صوفی اور بےعلم عابد شیطان کامسخرہ اوربالکل نکما اورناقابل قبول ہے۔اس کےعلاوہ درجوں میں ترقی،عروج کی بلندی اور باریکیوں کی سمجھ بوجھ جوعالم کو اس راہ میں حاصل ہوتی ہے،جاہل کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔
(٤) اگر اللہ تعالی کےخاص بندوں میں سے کوئی نظر پڑے تو تمہارا ہاتھ ہو اور اس کا دامن۔ اس سے نیاز مندی سے پیش آئیں اور اس کی خدمت کو دونوں جہاں کی سعادت جانیں۔ آنے والے مہمانوں کی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت و تواضع کریں اور اگر کوئی شخص کچھ مانگے تو اپنی وسعت بھر محروم نہ پھیریں ۔اپنے ذاتی کام کے لیے کسی دنیادار کی چاپلوسی اورخوشامد نہ کریں کہ کاموں کا بنانے والا اللہ تعالی ہے۔
(٥) آیہ شریفہ “اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ”(اللہ کی فرماں برداری کرو اور اس کےرسول کی فرماں برداری کرو) کے مضمون پر مطلع ہونے کے بعد عمل کرناضروری ہے،یہی آیت ہمارے شیخ( خاتم الاکابر سیدنا شاہ آل رسول قدس سرہ) کی وصیت تھی۔
جھگڑوں کو ختم کرنے اور لڑائیوں سے دور ہونے کے لیے موجودہ دور کےمحکموں میں مقدمات نہ کریں بلکہ قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ کی سنت و شریعت یعنی حدیث،فقہ،اصول اور تفسیر سے رجوع کریں اور ان کی روشنی میں معاملات طے کریں۔
(٦) اپنےسچےدین پر اتنےسخت اور مضبوط ہوں کہ دوسرے متعصب جانیں اس لیے کہ دین حق میں مضبوطی پسندیدہ بات ہے اور دین باطل پر مضبوطی حماقت اور بری چیز ہے۔ فقیروں، مسکینوں اورغربیوں سےمحبت اور ہمدردی کریں۔امیروں اور دنیاداروں سے دور بھاگیں۔
فاسق،فاجر،بدکردار،کافراور مشرک سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ خاص طور سے دین اسلام میں کھلم کھلا فاسق،کافر اور مشرک کی صحبت اور ان سے محبت کرنے سے دور رہیں،کیونکہ بری صحبت مقناطیس اور لوہے کی مثل ہے یعنی بری صحبت بری عادت کی طرف ایسے کھینچتی ہے جیسے لوہےکو مقناطیس۔
( ٧) خدا کی مخلوق کو نہ ستائیں تاکہ خود بھی تکلیف نہ پائیں۔ حدیث شریف کے مطابق رحم کرنے والوں پر رحمن تبارک وتعالی رحم فرماتا ہے،تم زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اور اپنے اندراچھی باتیں مثلاً محبت،خلوص، دوستی،ہم دردی اوراحسان وغیرہ پیداکریں اور بری باتوں مثلاً لڑائی،جھگڑا،نفاق،خود پسندی،غرور، جھوٹ،زنا،لواطت وغیرہ سے پاک صاف رہیں تاکہ صفت ملکوتی پیدا ہو اورحیوانی،شیطانی صفت دور ہو۔ بڑے اور چھوٹے گناہوں سے دور رہیں۔
(٨) فقیر کا سالانہ فاتحہ جسے”عرس”بھی کہتے ہیں ہر گز تکلف سے نہ کریں اس لیے کہ تکلف شریعت میں منع ہے اور فقیر تکلف سے دور رہتا ہے جو کچھ میسر آئے،اس میں تھوڑا سا اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں اور قرض میں نہ پھنسیں اور فکر وتشویش کی بلاسے بچے رہیں۔
عرس میں قرآن شریف،حدیث شریف،درودشریف اورکلمہ طیبہ کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کےعلاوہ اورکوئی نیاکام نہ ہوجیسا کہ اس زمانہ میں رواج ہے۔
نااہلوں کے سنوانے کے لیے قوالی ہرگز ہرگز نہ کریں۔جس چیز کو شریعت منع کرے اسے چھوڑ دیں۔ اگرچہ فقیر سماع کا جس طرح سے کہ چشتیہ سلسلے کے پرانے بزرگوں نے سنا ہے،منکر نہیں ہے۔اور کبھی کبھی مزارات اولیائے کرام کی مجالس میں حاضر ہو کر سماع سنا بھی ہے،مگر چونکہ اس زمانہ میں سماع، جوازکی شرائط کے ساتھ نہیں ہوتا،اس لیے مجبوراً چھوڑ دینے کےعلاوہ کوئی اور علاج نہیں۔ سماع سننے کی اہلیت اس پرآشوب دور میں مفقود ہے اور بقیہ شرائط بھی نہیں پائی جاتیں اس لیے مجبور ہوکر ترک سماع واجب اور ضروری ہے۔
(٩) خانقاہ اور درگاہ کےاوراد و وظائف،قرآن مجید کی تلاوت،درود شریف خصوصاًدلائل الخیرات،حصن حصین،حرز یمانی،حزب البحر،اسمائےاربعین وغیرہ خاندان برکاتیہ کےمعمول کےمطابق ہمیشہ پڑھتےرہیں اورمسجدکی حاضری نہ چھوڑیں اورپانچوں وقت کی نمازباجماعت ادا کریں،ذکروشغل اور مراقبہ کرتے رہیں اورخاندان برکاتیہ کےاس طریقے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی نہ کریں،اپنے سے عمر میں بڑے اور بزرگ سے بات کرنےاورچلنےمیں سبقت نہ کریں ہاں ضرورت اورمجبوری ہو جیسے جماعت کی پہلی تکبیر چھوٹ جانےکا ڈر،توآگےبڑھ کرشامل ہوجائیں۔اگر کوئی غریب اپناحال سنائے تو اسے پوری توجہ سے سنیں اور اس کے ساتھ ہمدردی اور نرمی برتیں۔

(١٠) حدیث،تفسیر،فقہ،اصول،تصوف،سلوک اور دیگر شرعی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیں اور ان کتابوں سے مناسبت پیدا کریں۔ دن رات کا اکثر وقت ان کاموں میں صرف کریں ۔ شریعت اورطریقت میں اپنے آپ کو صرف مقلد سمجھیں۔ان دونوں پسندیدہ طریقوں میں سے کسی میں بھی ہرگز ہرگز اجتہاد کا دعوی نہ کریں۔ شریعت میں حنفی اور طریقت میں قادری رہیں اور اپنے آپ کو انھیں حضرات کا مقلد جانیں ورنہ انجام خراب ہو گا اس لیے کہ اس زمانہ میں تقلید چھوڑنے کا انجام الحاد و زندقہ ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ سرکار نور کے اقوال عالیہ پر عمل کی توفیق بخشے،آمین
📝 انیس القمر امجدی
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف ۔
٢/فروری،٢٠٢٣ء ١٠/رجب المرجب، ١٤٤٤ھ

“حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہ (صاحب عرس نوری) کا مختصر تعارف” از محمد حسن رضاجامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

“اسم مبارک”: حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہُ العزیز ہے۔ اور تاریخی نام ” مظہر علی” اور لقب “میاں صاحب” ہے، جو آپ کے دادا اور مرشد خاتم الاکابر نے عطا فرمایا تھا۔ (تذکرہ نوری،ص، 146)

“ولادت با سعادت”: 19/ شوال المکرم 1255ھ مطابق 26/ دسمبر 1839ء بروز پنجشنبہ( جمعرات) مارہرہ شریف میں ہوئی۔(تذکرہ نوری،ص، 146)

“والد ماجد”: سرکار نور قدس سرہ کے والد ماجد، حضرت سید شاہ ظہور حسن صاحب علیہ الرحمہ، خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ کے بڑے صاحب زادے تھے، ابھی سرکار نور کی عمر شریف کل گیارہ برس کی تھی ، کہ آپ کے والد ماجد کا (26/جمادی الاولی 1266ھ کاٹھیاواڑ میں) وصال ہو گیا۔ [انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] ( سراج العوارف ، مقدمہ: حضرت سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی، ص، 8)

“والدہ ماجدہ”: آپ ( علیہ الرحمہ) کی والدہ ماجدہ سیّدہ اکرام فاطمہ ، حضرت سید شاہ دلدار صاحب کی صاحب زادی اور حضرت سید شاہ آل برکات ستھرے میاں صاحب قدس سرہ کی نواسی اور سید محمد صغریٰ بلگرامی قدس سرہ کی بیسوی پشت سے تھیں۔ ابھی سرکار نور قدس سرہ کی عمر شریف کل ڈھائی سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔ [ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] اسی وقت سے آپ کی جدۂ ماجدہ ( دادی جان) قدست اسرارہا نے تمام کفالات حضور اپنے ذمہ لے لیں۔ ( تذکرہ نوری، ص، 146)

“تعلیم و تربیت”: حضور نوری میاں صاحب قدس سرہ کی تعلیم کے ابتدائی مراحل میاں جی رحمت اللہ صاحب و میاں جی الہی خیر ، میاں جی اشرف علی صاحب وغیرہم نے طے کراۓ ۔ قران کریم قاری محمد فیاض صاحب رام پوری سے پڑھا ۔ صرف ونحو کی تعلیم مولانا محمد سعید بدایونی اورمولانا فضل احمد جالیسری ( تلمیذ حضرت تاج الفحول) سے حاصل کی ۔ مولانا نور احمد عثمانی بدایونی ( تلمیذ علامہ فضل حق خیر آبادی) سے معقولات کی تکمیل فرمائی ۔ علم تصوف وسلوک کی تعلیم اپنے جد کریم حضور خاتم الاکابر قدس سرہ کے ساتھ ساتھ مولانا احمد حسن صوفی مراد آبادی اور مفتی عین الحسن بلگرامی سے حاصل فرمائی ، اصولِ فقہ و حدیث مولانا تراب علی امروہوی، مولانا محمد حسین بخاری کشمیری اور مولانا حسین شاہ محدث ولایتی سے تحصیل فرمائے، علوم دعوت و تکسیر حضرت شاہ شمس الحق قادری عرف تنکا شاہ تعلیم فرماتے تھے۔( عقائد نوری، ص،4-5)

” بیعت و خلافت”: نور العارفین حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت اپنے جد کریم ( مرشدِ اعلیٰ حضرت) حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ سے حاصل تھی۔ بوقت بیعت و خلافت حضور سرکار نور کی عمر شریف صرف 12 برس کی تھی ، جس کا تفصیلی ذکر آپ نے اپنی کتاب “سراج العوارف فی الوصایا والمعارف” میں تحریر فرمایا ہے۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 31)

“عقد مسنون و اولاد و امجاد” سرکار نور کا پہلا عقد دخترِ حضرت سید شاہ ظہور حسین عرف چھٹو میاں صاحب سے ہوا ، ان بی بی صاحبہ کا وصال 17/ جمادی الاخری 1286ء میں بمقام مارہرہ ہوا۔ اور دوسرا عقد حضرت سید شاہ حسین حیدرحسینی میاں رحمۃ اللہ علیہ(حقیقی نواسہ حضور خاتم الا اکا بر قدس سرہ) کی حقیقی بہن یعنی دختر سید محمد حیدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے 1287ء میں ہوا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے سید محی الدین جیلانی 1288ء میں تولد ہوۓ لیکن ان صاحبزادے کا وصال 1سال7 ماہ کی عمر میں بمقام مارہرہ شریف ہوا۔ تب آپ نے اپنا جانشین اپنے عم زاد بھائی کے صاحب زادے سید علی حسن عرف اقبال کو مقرر کیا لیکن ان صاحب زادے کا وصال بھی حضور میاں صاحب کے سامنے ہو گیا۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 57-58)

“تیری خوبیوں کا شمار کیا”: یقیناً آپ (سرکار نور) کی خوبیاں بے شمار ہیں جن کی تفصیل صاحب تذکرۂ نوری نے کی ہے، اس ہی عظیم خزانے سے چند موتی ہدیۂ ناظرین ہیں ، ملاحظہ ہوں!

“التزام ظاہر شریعت”: عبادات و عادات میں مستحبات تک کبھی حضور سے ترک نہ ہوتے ، وقت بیعت کبھی مریدہ کا ہاتھ نہ چھوتے ، اور نہ ہی روبرو آنے کی اجازت دیتے۔(تذکرہ نوری،ص،153)

“صبر”: ایک مرتبہ شدید بخار ہوا ، نہایت ہی فرحت و سرور سے فرمایا ، تمام اذکار و اشغال سلوک سے ایک حرارت ، قلب کو پہنچانا ہے ، وہ بلا محنت بخار میں حاصل ہے۔ شدت مرض میں سوائے افسوس ترک مسجد ، کبھی شکایت مرض نہ فرماتے۔ بلکہ فرماتے ، خدائے تعالیٰ مرض عصیان اور افلاس ایمان سے بچائے۔ ( تذکرہ نوری،ص، 161-162)

” فقراء سے محبت”: کتنے فقرا خدام تھے جن کی کفالت سرکار نور قدس سرہ خود فرماتے ، اور وہ بھی ایک عجیب شان سے ، کہ کسی کو معلوم نہ ہو ، غرباء خدام کے مکانوں پر قیام فرماتے ، مریدین آتے نذر و ہدیہ پیش کرتے، وہ سب ان گھر والوں کا حصہ ہوتا۔ بہت سے غرباء کی تنخواہیں مقرر تھیں ، جو ایک پردے سے ان تک پہنچتی تھیں۔ (تذکرہ نوری ،ص،170)

“کشف و کرامات”: جب بندہ شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ طریقت کی راہوں میں گم ہو کر فنا فی اللہ کی منزلیں طے کر لیتا ہے ، تو اس سے کرامتوں کا ظہور ہوتا ہی رہتا ہے ، سرکار نور کی بھی بے شمار کرامات ہیں ان میں سے صرف ایک ملاحظہ فرمائیں!

سرکار نور قدس سرہ کی حقیقی بھانجی حضرت شاہ جی میاں قدس سرہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے یہاں ولادت ہونے والی تھی۔ وہ تکلیف سے پریشان تھیں۔ حضرت نوری میاں قدس سرہ تشریف لائے اور “تحفہ قلندری” یعنی تسبیح غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک منکا نکال کر ان کے گلے میں ڈال دیا اور فرمایا کہ پریشان کیوں ہوتی ہو۔ تمہاری جواولاد پیدا ہوگی اس کے سبب دین کا بہت کام ہو گا اور وہ بیٹا مجھ جیسا ہو گا۔ یہ خوش خبری تھی سراج العرفاء تاج العلماء حضرت سید شاہ اولا درسول محمد میاں صاحب قدس سرہ کی پیدائش کی۔ بزرگ اہل خاندان بتاتے ہیں کہ حضرت محمد میاں صاحب قدس سره کی شکل وصورت حضرت نوری میاں صاحب قدس سرہ سے بیحد مشابہ تھی۔ (اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء،ص،98)

“آپ کی تصانیف”: کثیر ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں۔
“سراج العوارف فی الوصایا والمعارف”(مطبوعہ)
دلیل الیقین من کلمات العارفین”(مطبوعہ)
رسالہ سوال و جواب
عقیدہ اہل سنت نسبت محاربین جمل و صفین و نہروان” ( غیر مطبوعہ)
تحقیق تراویح” ، “الجفر” ، “صلاۃ غوثیہ و صلاۃ معینیہ”
“تخییل نوری”: حضور سرکار نور قدس سرہ شاعری بھی فرمایا کرتے تھے۔ یہ آپ کا شعری دیوان ہے۔ جس میں آپ نے عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں عارفانہ غزلیں نعتیں رقم فرمائی ہیں۔ آپ ( علیہ الرحمہ) پہلے “سعید” تخلص فرماتے ، بعد میں بدل کر “نوری” کر لیا۔ اس مجموعۂ کلام کو حضور تاج العلماء حضرت سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہ نے شائع کیا۔
“خلفائے کرام”: آپ کے خلفاے کرام کے چند اسما یہ ہیں!
مجدد برکاتیت حضرت حاجی سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں رحمتہ اللہ تعالی علیہ صاحبِ عرس قاسمی،
“حضرت سید شاہ مہدی حسن علیہ الرحمہ” ،
“حضرت سید شاہ محمد میاں قدس سرہٗ” ،
“حضرت تاج الفحول محب رسول بدایونی علیہ الرحمہ”۔
“اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ”
“مفتی اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ”

“وصال سرکار نور قدس سرہ”: حضور سرکار نور قدس سرہ کا وصال 11/رجب 1324ھ ، مطابق 31/ اگست 1906ء کو مارہرہ مطہرہ میں ہوا۔ اور ” خاتم اکابر ہند”(1324ھ) تاریخ وصال ہے۔(تذکرہ نوری ،ص، 275-276)

“نور جان و نور ایماں نور قبر و حشر دے”
بو الحسین احمد نوری لقا کے واسطے”


محمد حسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
1/فروری 2023ء

خانقاہ برکاتیہ میں عرس غریب نواز شان و شوکت کے ساتھ منایا گیا.. از:برکت علی برکاتی متعلم:درجہ سادسہ،جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ضلع:ایٹہ (یوپی)

آج 6رجب المرجب 1444 ھ مطابق 29 جنوری2023ء کو اہل سنت جماعت کی معروف و مشہور خانقاہ ، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض کانفرنس ہال میں سلطان الھند عطاء رسول خواجۂ خواجگان سرکار غریب نواز علیہ الرحمۃ والرضوان کی چھٹی شریف کی محفل منعقد کی گئی، جس میں جامعہ کے جملہ اساتذۂ کرام و طلبۂ کرام خصوصاً ہم سب طلبٔہ جامعہ احسن البرکات کے پیارے ابا حضور حضور رفیق ملت نے بھی شرکت فرمائی-
محفل کا آغاز اللہ کے مقدس کلام سے قاری انور صاحب برکاتی نے انتہائی خوش الحانی کےساتھ کی جس پر جامعہ کے پرنسپل صاحب استاذ محترم حضرت علامہ و مولانا محمد عرفان صاحب ازہری نے دعائیہ کلمات کہے کہ قاری انور صاحب کی آواز میں اللہ رب العزت مزید مٹھاس پیدا فرمائے اور مزید ترقی عطا فرمائے ۔
بعدہ جامعہ احسن البرکات کے ہونہار طلبہ نے نعتہاء رسول مقبول و مناقب بزرگان دین سے محفل کو رونق بخشی، حافظ محمد اکرم صاحب نے کلام اعلیٰ حضرت پیش کیا، پھر مولانا فرقان احسنی نے منقبت خواجہ غریب نواز پیش کی، اس کے بعد راقم الحروف [برکت علی برکاتی] نے بھی بارگاہ خواجہ غریب نواز میں منقبت کے کچھ اشعارپیش کیا، پھر مولانا رضوان صاحب نے زبردست خطاب پیش کیا،آپ کے بعد استاذ محترم حضرت علامہ اسلم نبیل ازہری صاحب نے کلام اعلیٰ حضرت پیش فرمایا اس کے بعد استاذ محترم حضرت قاری عرفان صاحب نے منقبت خواجہ غریب نواز پیش فرمائی اسکے بعد قاری بلال صاحب اور قاری رحمت اللہ صاحب نے منقبت خواجہ غریب نواز پیش فرمائی، پھر وہ گھڑی آگئی جس کا شدت سے سب کو انتظار تھا ہزاروں دلوں کی دھڑکن میری مراد سرکار رفیق ملت سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی دام ظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف،
حضرت نے اپنے خطاب نایاب سے سامعین کے دلوں کو منور و مجلیٰ فرمایا، آپ کے خطاب کی کچھ مفید باتیں ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں-

(1) آپ نے اپنے خطاب کے دوران فرمایا کہ “کسی کے ساتھ اور کبھی بھی منافقت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بہت بری چیز ہے اگر کسی کے اندر کوئی کمی نظر آرہی ہے تو اسی کو بتا دو تاکہ وہ اس میں سدھار پیدا کرے دوسروں کو کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ نے مزید فرمایا کہ کسی کی بھی چغلی نہیں کرنی چاہیے، کسی کی بھی غیبت نہیں کرنی چاہیے، دل کو صاف و شفاف رکھنا چاہیے، اس لیے کہ آج ہم جس کی چھٹی شریف منا رہے ہیں یعنی سرکار خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ والرضوان ان کا دل بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح تھا، تبھی تو ان کو دیکھ کر لاکھوں لوگ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے-

(2)آپ نے فرمایا: بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو تمہیں کتابوں میں نہیں ملیں گیں جو ہمیں سینہ بہ سینہ حاصل ہوئی ہیں-
فرمایا: لوگ جب حج کرنے جاتے ہیں اور حج سے واپس آتے ہیں تو سیدھے اپنے گھر جاتے ہیں لیکن سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان جب حج کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو جب واپس آئے تو سیدھا اجمیر معلیٰ تشریف لے گئے وہاں حاضری دے کر پھر اپنے گھر تشریف لے آئے-

(3) آپ نے فرمایا: کہ دھوکا کبھی کسی کو مت دینا اس کے بعد طلباء کو مخاطب کرکے فرمایا تم سب اس جامعہ میں پڑھائی کرنے کے لئے آئے ہو تو محنت سے پڑھائی کرو تمہارے ماں باپ کی تم سے بہت امیدیں ہیں وہ بہت محنت و مشقت کر کے تمہیں خرچہ دیتے ہیں تو تم محنت کرو اور اپنے ماں باپ کے پیسے کو کامیاب بناؤ اس کے بعد تمام اساتذہ کرام اور طلبہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کہیں پر بھی رہو کبھی کسی کو دھوکا مت دینا-

(4)پھر آخر میں آپ نے رب کعبہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ الحمد للہ میرا دل صاف ہے مزید یہ فرمایا کہ آدمی کو اپنا دل صاف و شفاف رکھنا چاہیے اس لیے کہ سرکار خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ والرضوان اپنا دل صاف و شفاف رکھتے تھے ہم کو بھی اپنا دل صاف و شفاف رکھنا چاہیے-

(5)محفل کا اختتام ابا حضور حضور رفیق ملت کے دعائیہ کلمات پر ہوا فرمایا کہ جامعہ کے بچے مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اللہ پاک بچوں کو سلامت رکھے اچھا رکھے خوش و خرم رکھے آمین یارب العالمین-