WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

دینی تعلیم سے بےتوجہی :ایک لمحۂ فکریہ:- از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی ،خادم : ۔ دارالعلوم انو ار مصطفیٰ سہلاؤ شریف باڑمیر(راجستھان)

انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے ،اس کی تکمیل کے لئے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے، خود پیغمبراسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے، یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معلم انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے “(مشکوٰۃ ص /۳۴ )

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنا اور کونسا علم سیکھنا فرض ہے ؟ تو اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کرسکے، اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کر سکے ،اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کر سکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہوتاکہ ان سے بچا جا سکے۔ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے حلال و حرام میں فرق ہو سکے ۔اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد عورت کے لئے لازم ہے، جو درسگاہوں میں پڑھ کر مسجدوں و دینی جلسوں میں سن کر علماکی صحبت اختیار کر کے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہو سکتا ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ اتنا علم اور اتنی دینی تعلیم ہر مسلمان مرد وعورت کے لئےبےحد ضروری ہے جن سے دین پر صحیح طور پر عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو پورا کر کے نگاہ شریعت میں معتبر بن سکیں ،پھر خدا اور رسول ﷺ کے محبوب بندے اور غلام بن کر اپنی عاقبت سدھار کر زندگی گزار سکیں ۔

جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں اور اس بابت بالکل غفلت نہ کریں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک ان کو دینی و اسلامی تعلیم دلانا بھی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کی طرح کی غفلت وکوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے اور دینی و اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن شکایت کرےگا اور ایسا بچہ والدین کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا ۔

لیکن دور حاضر میں افسوس کی بات یہ کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیمات اور اس کی اہمیت سے نا واقف ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں بہت سارے ماں باپ اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لئے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کر تے ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی اسکول، کالج اور یونورسٹی اور ساتھ ہی ساتھ ٹیوشن کا بھی الگ سے انتظام و اہتمام کر تے ہیں جب کہ دوسری طرف انہیں ماں باپ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم و تربیت کے تئیں بالکل ہی غفلت و بے توجہی کے شکار رہتے ہیں ، ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کےاوپر اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلانا بھی ضروری ہے ،بلکہ اولین فریضہ ہے، اور اگر ہمارے کچھ بھائیوں کو دینی تعلیم و تربیت کا کچھ احساس بھی ہے تو معمولی ،یہی وجہ ہے کہ وہ دینی تعلیم کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنی عصری تعلیم کو دیتے ہیں لہٰذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ بھی نہیں کرتے جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں اور نہ ہی دینی تعلیم کےلئے الگ سے کوئی استاذ وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں، جب کہ ایک مسلمان کا معاملہ اس کے بر عکس ہونا چاہیے کہ ہمیں دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے، میرے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے انہیں محروم کر دیں، نہیں !بلکہ آج کے دور میں تو اس کی بھی سخت ضرورت ہے اورہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے اور اسلامی سماج کے لئے مفید ہے جیسے انجینیرنگ ،فزکس، کیمسٹری، بائیلو جی ،طب ، فارمیسی، نرسنگ ،ریاضیات، کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی موجودہ ضرورت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر ظلم نہ کریں بلکہ اس کو عصری تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور خود اپنے اور اپنی اولاد کے اوپر دینی تعلیم سے غفلت برتنے کا ظلم نہ ڈھائیں-

دینی تعلیم سے بے توجہی: افسوسناک صورت حال:۔ آج دینی تعلیم سے بے توجہی و بے رغبتی بڑھتی ہی جارہی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں و عورتوں کے لئے فرض قرار دیاہو اور جس مذہب میں علم و حکمت سے پر قرآن جیسی کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی اقرا یعنی تعلیم سے ہوئی ہو اسی مذہب کے ماننے والے دینی و مذہبی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہوں تعجب کی بات ہے ، قانونِ وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول ﷺ کی امت میں اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔

کہتے ہیں کہ ”ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتا ہے “اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے …اگر گھر کے بڑے بزرگ ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے ؟ مسلمانوں کے گھروں میں دینی تعلیم کی کمی افسوسناک حد تک ہے، آج مسلمانوں اور ان کے بچوں کو قرآن و حدیث کے پڑھنے اور اس کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں ،لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے جو زندگی گزار نے کے لئے ضروری ہے ،ہر طرف دیناوی علوم کے حصول کاشورہے …ہر فرد اسی تاک میں ہے کہ کیسے اعلی دنیاوی تعلیم حاصل کر کے نوکری (جوب ) کرلے اورزیادہ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرے… اسلام اسکی راہ میں حائل نہیں ہے، بےشک یہ بھی اچھی پیش رفت ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم توبنیاد ہے اور عصری تعلیم دیواریں ،بنیاد کے بغیر دیوار کا تصور احمقانہ تصور کہلائے گا ۔

دینی تعلیم سے غفلت کا انجام : موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بے زاری بڑھتی جارہی ہے، جب کہ اللہ وحدہ لا شریک نے ان افرادکی مذمت بیان کی ہے جو آخرت کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں جیسا کہ اللہ عز وجل کا فرمان عالی شان ہے”یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون“ترجمہ: وہ تو دنیاوی زندگی کے کچھ ظاہر کا علم رکھتے ہیں جب کہ آخرت (کے علم ٌ) سے بالکل بے خبر ہیں (سورۂروم :۷) لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار کی طرح صرف دنیاوی علم کو اہمیت نہ دیں بلکہ سب سے پہلے لازمی دینی علم کو اہمیت دیں یا کم از کم دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھیں ۔

دینی علم سے غفلت برتنے والا اور محض دنیوی علم کو اہمیت دینے والا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اللہ عزوجل کی محبت سے محروم اور اللہ عزوجل کی ناپسندگی کا شکار بھی جیسا کہ رسول ْﷺ نے ارشاد فرمایا : ”ان اللہ یبغض کل عالم بالدنیا جاہل بامر الآخرۃ“ترجمہ: یقینا اللہ عزوجل ہر اس آدمی کو نا پسند کرتا ہے جو دنیا کا علم تو اپنے پاس رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے (دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور حصول علم کے آداب ص/۲۱)

علم دین کی ضرورت کیوں؟ یہ ایک اہم سوال ہے ،صاحبان علم و دانش نے شرح و بسط کے ساتھ اس کے بہت سارے جوابات تحریر کئے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ علم دین کی ضرورت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آ رہا ہے ”وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“(طور ۵۲/۵۶ ) ترجمہ : اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں …اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق عبادت کے لیے کی گئی ہے اور علم کے بغیر عبادت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے علم کا حاصل کرنا فرض ہوا ۔ نیز قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے”ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا “ترجمہ : جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کے پاس دینی تعلیم نہیں ہوگی تو وہ نہ تو آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا سکتا ہے اور نہ ہی منع کی ہوئی باتوں سے خود کو روک سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہوا کہ علم حاصل کرے تاکہ حضور ﷺ کی اتباع و فرماں برداری کر سکے ( علم دین کی اہمیت ص/ ۵ )

دینی تعلیم سے بیزاری کیوں؟ آج ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مظبوطی سے قائم ہیں اور ہم مسلمان بحیثیت مسلمان کہا ں جارہاہے ہیں ؟ ہماری منزل کہاں ہے؟ ہمارا انتخاب کیا ہے؟ ہمارا نصب العین کیا ہے؟ اور کیاہونا چاھئے کچھ پتہ نہیں ،دینی تعلیم سے بےزاری کا گلہ کس سے کیا جائے ؟کیاہماری بربادی، تنزلی اور مغلوبیت کا باعث دینی علوم کا ترک نہیں ہے ؟ہم نے یہ سوچنا کیوں چھوڑ دیا کہ دینی تعلیم ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی سے تنگ و تاریک دل کشادہ اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ہم یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ دینی تعلیم کی بساط پر ہی ہماری دنیا وآخرت سنور سکتی ہے۔ ہم کیوں نہیں یقین کرتے کہ دینی تعلیم کے بل پر ہی ہماری نیا منجھدار سے نکل کر ساحل سکون پر لگ سکتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اللہ عزوجل کے فضل سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہو جائے گا ۔ ہم دینی تعلیم کے بغیر شریعت کے تقاضے ،مطالبات اور پیغامات کو کیسے سمجھیں گے ؟کیا ہمیں قرآن کو قرٓآن کی طرح پڑھنے کی فکر نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم دینی تعلیم کے بغیر نماز و روزے او ردیگر عبادات کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ؟کیا ہم دینی علوم کے بغیر حلال و حرام کے درمیان صحیح فرق کرسکتے ہیں؟ نہیں !ہر گز نہیں۔ اس کے باوجود قوم مسلم دینی تعلیم سے بیزار کیوں ہے ؟جب کہ قوم مسلم کی دینی تعلیم سے بے توجہی و بےزاری کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے ہی بے زار نظر آتی ہے، ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہے، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، خوف ِخدا ان کے اندر سے مفقود ہے ، فرائض پر عمل کرنا ان کے لئے بارگراں ہے چہ جائے کہ وہ سنتوں اور نوافل پر عمل پیرا ہوں ،اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو سمجھیں اور علم دین خود سیکھیں اور اپنے بچوں اور متعلقین کو بھی ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لئے اُتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لئے کرتے ہیں، اور دینی تعلیم کی نشرو اشاعت اور اسے گھر گھر پہچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس جذبۂ محبت کے ساتھ کہ ؎

یہی ہے آرزوکہ تعلیم قرآں عام ہو جائے
ہر ایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے

چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سےجہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

مفتی محمد سفیرالحق رضوی کی کتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح”منظر عام پرنام کتاب:عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح مولف:حضرت مولانا مفتی محمدسفیرالحق رضویناشر:مکتبہ فقیہ ملت دہلی صفحات:۳۶۸قیمت:۲۶۰سن اشاعت:۱۴۴۳ھ/۲۰۲۱ءتبصرہ نگار:محمدشمیم احمدنوری مصباحی

اس وقت احقر کے پیش نظر “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح”نامی کتاب ہے-جسے محبّ گرامی حضرت مولانا مفتی محمدسفیرالحق رضوی نے انتہائی محنت وجستجو اور جانفشانی کے ساتھ ترتیب دیا ہے- دور حاضر میں عوام الناس میں طرح طرح کے بے بنیاد خیالات،غلط مسائل،جہالت و نحوست پر مبنی غلط تصوّرات و توہّمات اور بدشگونیاں عام اور مشہور و معروف ہیں جن کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت اور اصل شرعی نہیں، جبکہ عوام نے ان مسائل کا غلط طور پر ایسا یقین کرلیا ہے کہ ان کو اس میں کچھ شبہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ علماء سے ان مسائل کی تحقیق وتفتیش کریں اور بعض علماء کو بھی ان غلطیوں میں عوام کے مبتلا ہونے کی اطلاع نہیں ہو پاتی کہ وقتاًفوقتاً علمائے کرام ہی ان کا ازالہ کرتے رہیں- البتہ میری معلومات کی حد تک کچھ علمائے کرام بالخصوص حضرت مولانا تطہیر احمد صاحب بریلوی،حضرت مولانا کوثر امام صاحب قادری،حضرت مولانا محمداسلم رضاقادری اشفاقی اور مولانا محمد حنیف اختر صاحب نے اس طرح کےموضوعات پر اچھا کام کیا ہے-چنانچہ انہیں علمائے کرام کی روش کو اپناتے ہوئے محبّ گرامی حضرت مولانا مفتی محمد سفیر الحق صاحب رضوی استاد: دارالعلوم غریب نواز الہ آباد نے علمائے اہل سنت کی معتبر و مستند کتب و رسائل اور درجنوں معتمد کتب فقہ و فتاویٰ کی مدد سے سے ایسے بہت سارے مسائل کو زیر نظر کتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح” میں جمع کر دیا ہے جو عوام میں غلط طور پر مشہور مروّج ہیں- ساتھ ہی ساتھ ان کے مسئلہ اصلیہ وشرعیہ کو بھی کتب فقہ وفتاویٰ کے حوالے سے انتہائی عام فہم انداز میں درج کر دیا ہے- یوں تو حضرت مفتی محمد سفیرالحق صاحب رضوی نے اس موضوع پر احقر کی تحریک اور پیر طریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف کی فرمائش پر دارالعلوم انوار مصطفیٰ میں [۱۴۳۴ ھ میں] اپنے زمانۂ تدریس میں ایک مختصر کتابچہ ترتیب دیا تھا جو کسی صاحب خیر کی طرف سے بیک وقت اردو ہندی اور گجراتی میں چھپ کر مقبول عوام وخواص ہوا- پھر آپ نے ان مسائل اور کچھ دیگر مسائل کواہل سنّت کےترجمان” ماہنامہ کنزالایمان” دہلی میں طباعت کے لیے بھیجنا شروع کیا جو کئی سالوں تک مسلسل اور گاہے بگاہے “فقہی احکام و مسائل” کے کالم میں شائع ہوتا رہا،جسے ملک و بیرون ملک کے دینی ذوق رکھنے والے قارئین نے بہت پسند کیا اور بہت سے اکابر علماء نے دعاؤں کےساتھ حوصلہ افزا کلمات سے بھی نوازا اور اسے باضابطہ کتابی شکل میں ترتیب و اشاعت کی گزارش و فرمائش کی- خود احقر نے آپ سے کئی بار اس کی ترتیب و اشاعت کی گزارش کی اور ساتھ ہی ساتھ اسے فقہی ابواب کے طرز پر ترتیب دینے کی گزارش کی- چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے فقیر کے اس مشورہ ودیگر علماء ودانشوران کی گزارش و فرمائش پر سوال و جواب کی شکل میں بڑی حکمت و دانائی کے ساتھ مستند کتب فقہ وفتاویٰ کے حوالوں سے مزین کرکے شوق و تجسس کو ذریعہ بناکر زیرنظرکتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح” کو ترتیب دیا ہے- اس کتاب میں آپ نے جہاں نہایت ہی مفید و دلچسپ فقہی مسائل کو درج کیا ہے وہیں آپ نے ایسے بہت سارے موضوع اور بے اصل روایات کو بھی جمع کر دیا ہے جن کو پیشہ ور مقررین و واعظین اور بعض خطباء اپنی علمی افلاس کے باعث بڑے زور و شور سے بیان کرکے قوم کی واہ واہی لوٹتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم نے تبلیغ دین کا اہم فریضہ ادا کر دیا حالانکہ فرضی اور موضوع روایات کا بیان کرنا اور سننا ناجائز و حرام ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں کہ “روایات موضوعہ پڑھنا بھی حرام،سننا بھی حرام، ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کمال ناراض ہیں، ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور اس حال سے آگاہی پا کر بھی حاضر ہونے والا سب مستحق غضب الہی ہیں”…( فتاوی رضویہ مترجم ج/۲۳ ص/۷۳۵،رضا فاؤنڈیشن لاہور) اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند تحریر فرماتے ہیں کہ “وہ لوگ جو من گڑھت موضوعات بکتے ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم بتائیں ہرگز منبر کے مستحق نہیں، نہ ان کی روایات کاذبہ ذکر، نہ ان کا سننا جائز”… (فتاویٰ مصطفویہ ص/۴۳۷)__ ایسے میں موضوع اور من گھڑت روایات کی نشاندہی کس قدر ضروری ہے یہ اہل علم پر مخفی نہیں-کتاب کے شروعات میں آپ نے اپنے مادرعلمی”دارالعلوم غریب نواز الہ آباد”کے سابق پرنسپل شفیق ملّت حضرت علّامہ مفتی شفیق احمدشریفی کے تقریظ جلیل اور حضرت علّامہ مفتی مجاہد حسین صاحب رضوی مصباحی کے تقریظ جمیل جب کہ شہزادۂ فقیہ ملّت حضرت مفتی ابراراحمد صاحب امجدی کے کلمۂ تحسین کو شامل کیا ہے-ان سبھی حضرات نے اپنی تقریظات وتاثرات میں مرتب کتاب کی تحسین وتبریک کے ساتھ کتاب کو لائق مطالعہ اور معلوماتی بتایا ہے-کتاب کے آخر میں آپ کے شاگردعزیز حضرت مولانا ارشادالقادری مصباحی نے “حالات مصنّف” کے عنوان سے آپ کی حیات وخدمات پر بالاختصار روشنی ڈالی ہے-حالات مصنّف کے مطالعہ اور دوسالہ تدریسی مرافقت ومصاحبت سے احقر اس نتیجہ پر پہنچا کہ بلاشبہ حضرت مفتی محمدسفیرالحق صاحب رضوی ایک راسخ العلم مدرس،بالغ نظر مفتی اور خوش بیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس،متدین،خوش مزاج اچھے اخلاق واوصاف سے مزین،سنجیدہ اور سلجھے ہوئے عالمِ باعمل ہیں- ۳۶۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب یقیناً اپنے محتویات کے اعتبار سے عوام و خواص کے لیے یکساں طور پر نفع بخش ثابت ہوگی- احقر پوری کتاب پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت مفتی محمد سفیرالحق صاحب رضوی نے شرعی مسائل کےان بکھرے موتیوں کو حوالہ جات کے ساتھ جس عرق ریزی اور حزم و احتیاط سے جمع کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین و تبریک اور قابل تحسین ہے-اس کتاب کی طباعت واشاعت پردرج ذیل درج علمائے کرام نے حضرت مفتی صاحب کو اپنی دعاؤں سے نوازنے کے ساتھ مبارکباد بھی پیش کی-حضرت مفتی شفیق احمد صاحب شریفی قاضی شہر الہ آباد،حضرت مفتی مجاہد حسین رضوی مصباحی نائب قاضی شہر الہ آباد،صاحب زادہ فقیہ ملت مفتی ابرار احمد امجدی اوجھا گنج بستی،علامہ خورشید انور نظامی استاذ دارالعلوم غریب نواز الہ آباد،علامہ محمود عالم سعدی پرنسپل دارالعلوم غریب نواز الہ آباد،مفتی نہال احمد نظامی معین الافتاء غریب نواز الہ آباد،مفتی غلام ربانی شرف نظامی الہ آباد،مولانا باقر حسین قادری برکاتی سہلاؤشریف، مولانامحمّداسماعیل نوری امجدی، مولانازین العابدین مصباحی، مولانا حافظ منوّرعلی قادری، مولانا اسلام الدین قادری،مولانا عبدالحلیم قادری انواری،مولانا جمیل الرحمن مصباحی کلکتہ،مولانا حفیظ الرحمن کرنا ٹک،مولانا حبیب الرحمن سبحانی کٹرہ الہ آباد،مفتی شاہ جمال الہ آباد،مولانا منصور عالم پونہ،مولانا منصور عالم ،مولانا ابو صالح ریوا ایم پی ومولانا جمال الدین صاحب دربھنگہ وغیرہم-اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں!7860587171

✒️محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

منقبت سلطان الہندخواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ☆☆ عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی ۵/ رجب المرجب ۱۴۴۳ ہجری۷/ فروری ۲۰۲۲ عیسوی بروز: پیر

دل سے جب پہنچا ہے کوئی مدّعی اجمیر میں

اس کی حسرت لازماً پوری ہوئی اجمیر میں

زائرِ اجمیر کے لب پر مسلسل ہے یہی

“چار سو پھیلی ہوئی ہے روشنی اجمیر میں”

بالیقیں ہوتا ہے شب میں بھی گمانِ نیم روز

سر پٹکتی پھرتی ہے تیرہ شبی اجمیر میں

در پہ ہوتا ہے سدا مستانِ خواجہ کا ہجوم

میں نے جا کے دیکھی ہے دیوانگی اجمیر میں

ہے مئے میخانۂ خواجہ نشانِ معرفت

آئیے کرتے ہیں چل کے میکشی اجمیر میں

جس کو بھی مطلوب ہو خلدِ بریں کا راستہ

وہ پڑھے جا کر دروسِ راستی اجمیر میں

با ادب ، نظریں جھکائے حاضرِ دربار رہ

نا روا ہے نفس! تیری سرکشی اجمیر میں

فلسفہ نوری! سمجھنا ہو غلامی کا اگر

جا کے پڑھیے داستانِ بندگی اجمیر میں

” سہ ماہی عرفان رضا” ٭ “فکر رضا” کی کہکشاؤں میں۔آصف جمیل امجدی

امام اہل سنت سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ذات وستودہ صفات علمی کہکشاؤں میں اپنی ایک الگ جہاں آباد کئے ہے۔ جہاں پر لوگوں نے عقیدت و محبت کا نذرانہ اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ اسی سلسلتہ الذہب کی ایک نایاب کڑی “سہ ماہی عرفان رضا” ہے۔ جو بزرگوں کی مقبول دعاؤں کے ساۓ میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کو “عرفان رضا” کے نام سے رسالے کی صورت میں عوام اہل سنت تک پہنچانے کی اس کے جملہ مدیر اور علمی ٹیم شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں ۔ آج کل میرے دن کا چوتھائی حصہ ڈیجیٹل دنیا میں ہی گزرتا ہے، کیوں کہ میں ریسرچ سینٹر لکھنؤ کا ایک طالب علم ہوں۔ ایسی صورت میں زندگی کی زلف برہم کو سنوارنے میں ڈیجیٹل دنیا بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ وہیں پر مجھے متعدد دینی،ادبی و ثقافتی رسائل بھی بصر نواز ہوتے رہتے ہیں۔ انہی متنوع رسائل کی جھرمٹ میں حضرت مولانا محمد نفیس القادری امجدی صاحب کے توسل سے ایک پی ڈی یف بنام “فقیہ اہل سنت نمبر” بھی نظر نواز ہوئی۔ دیکھ کر بحمدہ تعالیٰ بڑی خوشی محسوس ہوئی اور عرفان رضا کی پوری ٹیم کے لیے دل سے دعا نکلی کہ “اللہ عزوجل آپ سبھی حضرات کو خوب خوب کامیابی عطا فرمائے آمین” (یوں ہی فکر رضا کی ضیاباریوں کو عرفان رضا کے ذریعہ عام کرنے میں سرگرم رہیں۔) اسلاف شناسی کا یہ طریقہ نسل نو کی ذہن سازی میں بہت مفید ثابت ہوگا۔ عرس رضوی کے حسین موقعے پر “مصلح اعظم نمبر” جو کہ سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ذات و شخصیت اور آپ کے احوال و کوائف پر مشتمل اسلاف شناسی کے نایاب سلسلے کا آغاز خصوصی شمارہ کے طور پر کیا گیا تھا۔ جس کو حلقۂ ارباب و دانش میں خوب پزیرائی ملی دوسرا خصوصی شمارہ بنام “فقیہ اہل سنت نمبر”فقیہ اہل سنت استاذ گرامی وقار حضرت علامہ و مولانا مفتی آل مصطفے مصباحی صاحب علیہ الرحمہ کی گراں قدر و بے لوث دینی و ملی، فقہی و تدریسی اور تصنیفی و تحریری خدمات و کارناموں پر مشتمل مختلف قلم کاروں کی تخلیقات سے مزین ہوکر جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔ ایسی صورت میں سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے ذریعہ وابستگان قرطاس و قلم کو باضابطہ دعوت تحریر دی جا چکی ہے۔ اس رسالے کے مدیر اعلیٰ مولانا محمد نفیس القادری امجدی صاحب مرادآبادی و مدیر اعزازی مولانا محمد ناظر القادری مصباحی صاحب و مدیر معاون مولانا محمد شہباز مصباحی صاحب و مدیر مسؤل مولانا محمد افتخار امجدی صاحب و مشیر اعلیٰ مفتی مشتاق احمد امجدی صاحب و تزئین کار مولانا محمد رضاء المصطفے امجدی صاحب اور کمپوزر مولانا مطلوب خان نوری صاحب نیز مجلس مشاورت و مجلس معاونت سہ ماہی عرفان رضا علمی ٹیم کی صلاحیت،بالغ نظری اور ملی شعور و حمیت کے ساتھ اپنے ہم عصر علماء میں امتیازی شان و شوکت رکھتے ہیں۔ میں عرفان رضا کی سبھی علمی ٹیم کو خصوصی شمارہ بنام “فقیہ اہل سنت نمبر” نکالنے پر صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

خدا کرے “سہ ماہی پیام بصیرت سیتامڑھی” روز افزوں ترقی کی شاہ راہ پر ہو۔آصف جمیل امجدی {انٹیاتھوک،گونڈہ}رکن: تنظیم فارغین امجدیہ 2010؁ء

بحمدہ تعالیٰ گزشتہ کئی ماہ سے مختلف رسائل و جرائد سے فقیر کا علمی رشتہ ایسا منسلک ہوا کہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ ( جس شخص کے اندر تحریری طور پر قوم و ملت کے لیے کام کرنے کا جزبۂ بے کراں پیدا ہوتا ہے، پھر ہر لمحہ سوچ و فکر میں نئے نئے زاوۓ پرقلم چلاتے رہنے کی ایک جادوئی اثر کار فرما ہوجاتی ہے۔ اور اس پر مداومت بخشنے سے دینی، ملی، سماجی و اصلاحی خدمات میں ہر دن آسانیاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ایسا مشغلہ ہے جسے ہر عصر میں صاحب فہم و فراست نے مستحسن مشغلہ گردانا ہے۔) انہی متعدد رسالوں کے مابین قوس و قزح کی طرح مختلف النوع مضامین سے مزین “سہ ماہی پیام بصیرت سیتامڑھی” ہے۔ جو ملی، سماجی، ثقافتی، دینی، اقتصادی، معاشرتی تعلیمی حالات و مسائل پر اور بین الاقوامی معاملات و کوائف پر مستند و فکر انگیز تحریر شائع کرنے کی بنیاد پر حلقۂ ارباب و دانش میں ایک نمایاں نام تو پیدا ہی کیاہے، مگر ڈیجیٹل دنیا میں نیرتاباں و شہاب ثاقب بن کر ابھرا ہوا ہے۔ سہ ماہی ہذا کے مدیران و مجلس ادارت کی ٹیم اور جماعت رضاۓ مصطفے شاخ سیتا مڑھی کے اعلیٰ اراکین، خاص کر “مولانا محمد فیضان رضا علیمی صاحب مدیر اعلیٰ و مولانا محمد عامرحسین مصباحی صاحب نائب مدیر نیز مولانا محمد شفاء المصطفے مصباحی صاحب معاون مدیر سہ ماہی پیام بصیرت” کی صلاحیت عصری حالات و کوائف سے (کماحقہ) آگہی کے معیار بالغ نظری اور ملی شعور و حمیت کی بنیاد پر اپنے ہم عصر علماء میں امتیازی شان رکھتے ہیں۔ اس کے مدیران کی نظر صرف موٹی موٹی باتوں پر ہی نہیں بل کہ ایسے نازک اور لطیف پہلو پر بھی گئی ہے جو بظاہر معمولی محسوس ہوتے ہیں۔ مگر جب ان کی جانب توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ یقیناً قابل توجہ پہلو تھا۔ جیسے ماضی قریب میں کنزالدقائق مفتی حسن منظری قدیری صاحب، فقیہ اہل سنت استاذی الکریم مفتی آل مصطفے مصباحی صاحب اور معمار ملت علامہ شبیہ القادری علیہم الرحمہ جو جماعت اہل سنت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تھے۔ جن کی بقا اہل سنت کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔ ان عظیم المرتبت علمی شخصیات کی حیات و خدمات پر مشتمل خصوصی شمارہ نکالنے کا عزم مصمم کرکے وابستگان قرطاس و قلم کو مجموعی طور پر دعوت تحریر دینا شروع کر دیئے ہیں۔
بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ سہ ماہی پیام بصیرت سیتامڑھی کو خوب خوب ترقی عطا فرما۔ اور اس کے مدیران کے بازؤں میں قوم و ملت کی خدمت کے لیے غیبی طاقت پیدا فرما۔ آمین

ماہ رجب تاریخ اسلام کے ساۓ میں،، از:- آصف جمیل امجدی {انٹیاتھوک،گونڈہ}

ماہ رجب کو قبل از ظہور اسلام حرمت والے مہینے کا درجہ حاصل ہے۔ تاریخ اسلام میں ماہ رجب کے اندر کئی تاریخی واقعات کا ذکر ملتا ہے۔★ اسلام کے چوتھے خلیفہ اور داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی ماہ کی 13/ تاریخ کو دنیاۓ فانی میں تشریف لائے۔آپ کی ولادت کی تاریخی سال کتب تواریخ میں 30؁ھ عام الفیل ملتا ہے۔★ حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال کتب تواریخ میں ماہ رجب کی 9؁ھ تاریخ مل رہی ہے۔یاں تک کہ پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام از خود اطلاع پا کر اپنے اصحاب کی معیت میں غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی الحمدللہ۔★ 9؁ھ میں پیش آنے والا عظیم غزوہ ، غزوۂ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا۔ جسے غزوۂ ذات العسرہ کا نام دیا گیا، یہی وہ غزوۂ ہے جس میں سیدنا امیرامؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر بار خالی کرکے تن من دھن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا۔ اور امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ نے تہائی لشکر کا ساز و سامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ حاصل کیا۔★ ہجرت حبشہ اولی مسلمانوں کے لیے بہت دل سوز ہجرت تھا۔ جب مسلمان کفار مکہ کی سختیاں برداشت نہ کر سکے تو باذن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عازم حبشہ ہوۓ۔اس مقدس مختصر سے قافلے میں 12/مرد اور 4/ عورتیں تھیں (باختلاف روایات) امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قافلۂ سالار مہاجرین تھے ، یہ 5؁ نبوی کا دل سوز سانحہ تھا۔★ سریہ عبد اللہ بن جحش الاسدی یہ سریہ بھی اسی مقدس ماہ یعنی ماہ رجب میں پیش آیا تھا۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت، پہلاخمس، پہلاشہید، اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا۔★ دمشق کی تاریخی فتح 14/ہجری 635؁ء میں مقدس ماہ رجب میں ہویی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جو ربیع الثانی 14/ہجری سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوۓ تھے۔ بفضلہ تعالیٰ بڑی شان و شوکت والی فتح ملی، اس کے بعد اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو من و عن منظور کر لی گئی۔★ سلطان صلاح الدین ایوبی رضی اللہ عنہ نے 583/ ہجری سن 1187/ عیسوی میں رجب ہی کے مہینہ میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدۂ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔★ ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل اعلان نبوت بے پناہ مصائب سے گھرا ہوا تھا۔ تو اللہ کریم نے ماہ رجب کی 27/ تاریخ کو اپنے محبوب سے ملاقات کا اہتمام فرمایا۔ آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنی گوناگوں نشانیوں کا مشاہدہ بھی کرایا۔ اسی کو معراج النبی کہا گیا۔ (1)سفر معراج شریف کا پہلا مرحلہ مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک کا زمینی سفر رہا۔ (2) سفر معراج شریف کا دوسرا مرحلہ مسجداقصیٰ سے لے کر سدرت المنتہٰی تک کا ہے یہ کرۂ ارض سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے ماشاءاللہ۔ (3) سفر معراج شریف کا تیسرا مرحلہ سدرت المنتہٰی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا سفر ہے۔ چوں کہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا۔ اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہذا اس روداد محبت کو گوشۂ راز میں رکھا گیا۔

ماہِ رجب المرجب کی پرخلوص مبارک باد🌹🌹🌹 (ماہِ رجب کی فضیلت) :- از،، آصف جمیل امجدی صاحب

•2فروری2022 عیسوی•

مکرمی!۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم ورحمتہ اللہ
الحمدللہ ثم الحمدللہ رجب شریف کا چاند نکل آیا، اور اس بابرکت مہینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے۔ اور اس نام کی ایک خاص *وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب* ترجیب’ سے ماخوذ ہے اور ترجیب کا معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینے میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے *الاصم رجب’ کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس ماہ کو *اصب’ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس ماہ میں اللہ عزوجل اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کا خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں #عبادات اور #دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ اس مقدس ماہ کی ستائیس تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو #معراج کرایا، آسمانوں کی سیر کرائی اور ملاقات کا شرف بخشا۔ #سلطان صلاح الدین ایوبی نے سن 583ھ، 1187ء کو رجب شریف میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ داخل ہوکر عاجزانہ سجدۂ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ “الجامع الصغیر (ص 7948) میں ہے کہ رجب کے پہلے دن کا #روزہ تین سال کا کفارہ ہے۔ اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا، اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے۔پھر ہر دن کا روزہ ایک مہینے کا کفارہ ہے۔

              ⁦✍️⁩#آصف_جمیل_امجدی

اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو،،از :- آصف جمیل امجدی

آج (29/جنوری 2022؁ء)نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے ہر دن کی طرح گنے چنے چند لوگ آۓ ہوۓ تھے(جیسا کہ بیشتر جگہوں کا حال ہے) جنہیں باسانی انگلیوں کے انامل پر گنا جا سکتا تھا۔ انہی نمازیوں کے ساتھ ایک ننھا بچہ بھی آیا ہوا تھا اس ننھی سی جان کے چہرے پر جہاں معصومیت نے غلاف ڈال رکھا تھا، وہیں کچھ سچی نیت سے کر گزرنے کا جذبۂ شوق بھی خوب عیاں تھا۔ پہلے تو بچے نے مسجد میں اپنی طبیعت بھر خوب تفریح کی۔ پھر یکلخت میرے قریب آ کر مسکراتے ہوۓ کہتا ہے “حافظ جی میں بھی نماز پڑھوں گا” ابھی میں کچھ کہہ بھی نہیں پایا تھا کہ بچے نے جلدی سے ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہا کہ “مجھے تو کچھ آتا بھی نہیں، میں اب کل پڑھوں گا اپنی امی سے پوچھ کر آؤں گا تب۔ اچھا جی! (آواز بڑی پیاری لگ رہی تھی صاحبزادے کی)۔ میں نے کہا بیٹا آۓ ہو تو میرے ساتھ پڑھ لو۔ حافظ جی کہا نا کہ مجھے کچھ نہیں آتا(شاید صاحبزادے کو میرے اصرار کرنے پر بہت جلال آ گیا تھا)میں نے کہا ” اچھا جیسے میں پڑھ رہا ہوں ویسے تو آپ پڑھ ہی سکتے ہو نا؟”۔ جی! ۔۔۔۔۔۔۔ میں نیت باندھ کر پڑھنے لگا۔ بچہ میری نقل کرتا ہوا اپنی نماز مکمل کرلی۔ میں دعا مانگنے لگا تو بچے کی دعا سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ دھیمی دھیمی آواز میں اپنے رب سے کہہ رہا تھا۔ “اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو”۔ بچہ بڑی لگن اور معصومیت سے اس دعا کو کئے جا رہا تھا۔ میں اس بچے کی دعا میں آہستہ آہستہ آمین کہتا ہوا شامل ہوگیا۔ جب بچے کی دعا ختم ہوئی۔ تو میں نے پوچھا منی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟بیٹا۔۔۔۔!!!! حافظ جی وہ میری بہن ہے ، وہ نانی کے یہاں ہے۔ میرے ابو خوب زیادہ پیسہ لائیں گے تو اپنی منی کی دوا لینے جاؤں گا ۔ میں بھی نانی کے یہاں جاؤں گا ۔ بچے نے جب اپنی بات ختم کی۔ تو میں نے پوچھا بیٹا منی کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ حافظ جی بیمار ہے منی میری، آپ دعا کرو نا حافظ جی میری منی کے لیے۔(آواز غم سے بہت نڈھال لگ رہی تھی، شاید منی کافی دن سے بیمار تھی) ہاں بیٹا دعا کروں گا ان شاءاللہ۔ پھر آگے ہمت نہ پڑی کہ بچے سے غم کی داستاں کچھ اور سنوں۔ یہ آواز اب بھی میرے کان میں گونج رہی ہے اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو” بچے کی عمر تین سے چار سال کے آس پاس رہی ہوگی۔ اور اس کی چھوٹی بیمار بہن جسے بچہ محبت سے منی کہہ کر اپنے رب سے شفا کی بھیک مانگ رہا تھا، اس کی عمر تقریبا ڈیڑھ سے دو سال ہوگی۔(یااللہ اس بچے کی منی کو شفاء کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ آمین)

شریک غم

آصف جمیل امجدی

♻️Ⓜ️♻️ ♥️ والدین سے درخواست ♥️✅ نکاح آسان کرو، یہاں تک کے زنا مشکل ہو جائے ۔!

جنسی  بے راہ روی اور جھوٹے عشق و محبت کے تعلقات کو فروغ ملنے میں سب سے بڑا کردار ان والدین کا ہے جنہوں نے ایک تو اپنے بچوں کی تربیت قرآن و سنت کے‌مطابق نہیں کی، اور دوسری یہ کہ لڑکے، لڑکیوں کے مقررہ مدت میں رشتے کرنے میں دیری کی کیونکہ نکاح ایک فطری عمل ہے اگر شریعت کے مطابق بلوغت کو پہنچنے پر لڑکے، لڑکیوں کا انکے مناسب جوڑ کے لحاظ سے نکاح نہیں کروایا گیا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہونگے اور اسکا وبال والدین پر ہوگا، آج رشتہ کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ لڑکا کتنا ہی آوارہ قسم کا کیوں نہ ہو، اس میں دینداری نام کیلیے بھی باقی نہ رہے، اس کے بغیر نکاح کے جنسی تعلقات کئ کئی فاحشہ عورتوں سے ہو، بد اخلاق بد کردار ہو، تعلم یافتہ نہ بھی ہو، نہ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو، پھر بھی لڑکی والوں کا رشتہ تلاش کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اسکی دولت، زمین، کھیتی، پیسہ، بنگلہ، گاڑی، اسٹیٹس، دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی دین داری اور اخلاق کی بات کریں تو اسے یہ کہے کر خاموش کردیا جاتا ہے کہ اللہ ہدایت دینے والا ہے سدھر جائے گا، اور وہی اگر کسی مڈل کلاس کے با اخلاق با کردار لڑکے کا رشتہ آجائیں تو اسے خالی ہاتھ واپس کردیا جاتا ہے کہ ہماری لڑکی کے خرچے بہت ہیں یہ برداشت نہیں کر پائے گا، یہ کیسا اندھا انصاف ہے اور کیسا معیار معاشرے میں رواج عروج پارہا ہے کیا اللّٰه تعالیٰ قادر نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے تو کیا وحدہُ لا شریک اس دیندار میڈل کلاس لڑکے کو مال و دولت سے نہیں نواز سکتا اصل چیز تو آخرت ہے اللہ اتنا مہربان ہے کہ آخرت کی کامیابی دے رہا ہے دنیا کونسی بڑی بات ہے اور دنیا کا نظام تو اللہ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہیں جب چاہے حالات تبدیل کر دیتا ہے، اور پھر اگر لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کو پسند بھی کرلیں تو وہاں والدین آڑ بن جاتے ہے حالانکہ کے یہ انکا حق ہے کے ایک دوسرے کو  ایک نظر دیکھیں تاکہ آگے چل کر کوئی پریشانی یا رشتہ میں دراڑ کا سبب نہ بن جائے ایسے بہت سے حادثات ہماری اطراف میں دیکھنے میں آتے ہیں کہ ماں باپ لڑکی پسند کرنے جاتے ہیں اور رشتہ بھی طے کرلیتے ہے لڑکے کو لڑکی نہیں بتائی جاتی اور لڑکی کو لڑکا نہیں بتایا جاتا، اور والدین سمجھتے ہے کہ ہم گھر کے بڑے ہے ہم نے جو طے کرلیا وہی ہوگا، اور پھر کچھ ہی دنوں یا مہینے میں وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر معیار پر دونوں خاندان اتر بھی گے تو ذات اور برادری کو دیکھا جاتا ہے ایسے بہت سے عمدہ رشتہ ذات و برادری کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں میں ایسے عمدہ رشتہ جانتا ہوں کہ لڑکی مفتیہ ہے اور لڑکا بھی تھوڑا بہت دینی تعلیم سے آراستہ مگر کیا برادری دونوں کی مختلف ہے بس پھر کیا اسی بے حس معاشرہ کے نظام کی نظر چڑھ گئے حالانکہ رشتے طے کرنے کا معیار یہ ہے کہ لڑکی کی دینداری دیکھی جائے نا کے حسن اور مال و دولت کو، دونوں طرف سے اگر یہ شریعت کے مطابق باتیں پائی جاتی ہے تو نکاح میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔

نکاح کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شوہر لڑکی کا کھانے پہنے رہنے کا خرچ اٹھانے کے قابل ہو، ایسی کئی احادیث نکاح کی تعلق سے ملتی ہے جس میں نکاح میں جلدی کرنے کیلیے کہا گیا ہے، آج معاشرے میں بگاڑ کا سبب خود والدین بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہی لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنے‌ معیار کے مطابق رشتے تلاش کرنے میں اپنے بچوں کی جوانیاں برباد کررہے ہیں، آج لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جاتی ہے میرا کہنے کا‌مقصد تعلیم سے روکنا نہیں ہے لیکن جو آج اعلیٰ تعلیم کے نام پر لڑکیوں کی عمریں شادی کی عمر سے تجاوز کر جاتی ہے اور پھر اخبارات اور ویب سائٹ، پر اشتہارات دیے جاتے ہیں اور پھر کوئی لڑکا نہیں ملتا جو ان تعلم یافتہ لڑکیوں سے شادی کریں یا پھر انکے معیار کا لڑکا نہیں مل پاتا جو انہیں اپنا سکے، ایسی ہزاروں لڑکیاں گھروں میں سسکیاں لے کر مر‌ رہی ہے، اور‌ معاشرے کا یہ رواج بن گیا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کیا جاتا بیوہ خواتین سے نکاح نہیں کیا جاتا اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیواؤں سے نکاح کیا۔

معاشرہ جنسی استحصال کا شکار ہورہا ہے، لڑکے لڑکیوں کے بروقت نکاح نہ کرنے کی بنا پر بے حیائی (فحاشی)، درندگی بڑھتی جارہی ہے۔

آج حالات یہ بنے ہوئے ہیں کے لڑکے لڑکیاں نکاح کی عمر کو پہنچ جاتے ہے اور کالجوں یونیورسٹیوں میں غیر محرموں سے تعلقات قائم کرلیتے ہے یہاں تک کے لڑکوں سے لڑکیاں عشق و محبت کے نام پر اپنے والدین اور دین و ایمان  کو خیرباد کہہ دیتی ہیں ایسی کئ خبریں مل چکی ہیں۔والدین سمجھتے ہیں لڑکی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ بلا تحقیق بھروسے پر گاؤں سے شہروں کی طرف اپنی بچیوں کو ہاسٹل میں داخل کراتے ہیں، اور وہ غیروں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔

آج یہ معاشرہ اور ہمارے نوجوان جس میں اکثر یونیورسٹیوں کے لڑکے لڑکیاں موجود ہوتی ہے جو ایسی  پارٹیوں کو شان سے سلیبریٹ کرتے ہیں جس میں ناچ گانا ہوتا ہے جہاں پر بنت حوا عشق و محبت کے جھوٹے بندھن میں پھنس کر اپنی عصمتیں گنوا دیتی ہیں اور پھر عمر بھر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچتا، یہ حالات اس وجہ سے عروج پارہے ہیں کیونکہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بالغ ہونے پر نکاح میں دیر کی جارہی ہیں اور وہ اپنی حوس کو مٹانے کیلیے ایسے غیر شرعی راستے اپناتی ہے بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہوتے ہے جو ایسے حالات میں خود پر قابو رکھ پاتے ہیں لیکن والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بالغ ہونے پر جوڑ کا رشتہ دیکھ کر فوراً نکاح کردیں، اگر صحیح اسلامی طریقہ پر فطری عمل کو پورا نہیں کیا گیا تو انسان کی فطرت ہے وہ غلط راستہ اختیار کرسکتا ہی اس لیے ضروری ہےکہ رشتوں کو اپنے اپنے معیار پر نہ پرکھے اور نا ہی اناؤ ذات پات برادری کے بت باندھ کر رکھے بلکہ شریعت کے معیار پر رشتہ کو ترجیح دیں اور نکاح کو آسان بنائیں تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔

یا اللّٰه ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔
ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما۔ ہمیں گمراہی کے راستے سے بچا۔ آمین۔

منقبت حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ،،،، مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے،، از. قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب

خدا کی مجھے ایک نعمت ملی ہے
مجھے مصطفے کی عنایت ملی ہے
میں اپنے مقدر پہ قربان جاؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

غم و رنج میں جب بھی ان کو پکارا
ملا پھر مجھے مشکلوں میں سہارا
پریشانیوں میں بھی میں مسکراؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

سجی ہےمرےدل میں الفت انہیں کی
عقیدت انہیں کی ہے چاہت انہیں کی
شب و روز نغمہ یہ میں گنگناؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

تصور میں بغداد جایا کروں میں
کلی دل کی یوں ہی کھلایاکروں میں
درغوث پر ایسے ہی جاؤں آؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

کروں غوث اعظم کی مدح و ثنا اور
مراتب لکھوں ان کے صبح و مسا اور
نصیب اپنا سویا ہوا جگمگاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

خبر گیری کرتے ہیں وہ خوب میری
کہوں المدد تو کریں دستگیری
زمانے کو میں جھوم کر یہ بتاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

مجھے آفتاب ان کی نسبت ملی جب
مرے گھر سے ہر ایک آفت ٹلی تب
رسول خدا کا نہ کیوں فیض پاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

از ـ محمد آفتاب عالم صفدر کیموری