السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ کیا فرماتے ہیں علما ئے دین ومفتیان کرام مسئلہ کے بارے میں کہ لوگ اس دعا پے اعتراض کرتے ہیں یا رسول اللہ کرم کیجیئے خداکے واسطے حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی بڑا کرم ہوگا
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیجا اعتراض ہے۔ ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے انہی الفاظ کا استعمال فرمایا ہے جو قرأن و احادیث سے ثابت ہیں ۔۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات موجود ہیں جس میں اللہ تعالی نے خود اپنے آپ کو اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو ان صفات سے مخاطب فرمایا ہے۔ ان سب سے مراد اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانوں پر اور خصوصا امت مسلمہ پر رحمت وکرم اس کی عنایت اور اس کی نعمتوں اور آسانیوں کا نزول ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہ ساری صفات اللہ تعالی کی ذاتی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عطائی ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالی نے فرمایا :
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا :
بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(التَّوْبَة، 9 : 128)
مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں
کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے مہربان اور رحم کرنے والے ہیں مومنین پر۔
اسی طرح اللہ تعالی کریم ہے، علیم ہے یہ ساری کی ساری صفات اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں موجود ہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صفاتی اسماء میں بھی ہیں۔
اس کی تفصیل تو ہر عام وخاص جانتا ہے، سینکڑوں آیات ہم روزانہ پڑھتے ہیں جن میں یہ ساری صفات مذکور ہیں۔ :امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد ﷺ میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم ﷺکے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی
یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔
(فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور)
علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی ﷺ میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘
(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)
علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں
( یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ )
یعنی’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ ﷺ آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔
(ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)
اس مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر ۔بہراٸچ۔شریف۔1.2.19