WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شرعی مسائل

زید اپنے آپ کو سنی حنفی بھی کھتا ھے اور غیر مذھبوں وھابی امام کے پیچے نماز بھی پڑہتا ھے تو اب زید کے اوپر شریعت کا کیا حکم ھوگا؟ ؟از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیافرماتےہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارےمیں کہ زید اپنے آپ کو سنی حنفی بھی کھتا ھے اور غیر مذھبوں وھابی امام کے پیچے نماز بھی پڑہتا ھے تو اب زید کے اوپر شریعت کا کیا حکم ھوگا
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔دیوبندی وھابی اپنے عقاٸد کفریہ کے سب بحکم شریعت اسلامیہ کافر ومرتد اور بیدین ہیں ۔بطایق فتاوی حسام الحرمین اور الصوارم الھندیہ۔انے کے پیچھے نماز ہرگزنہ ہوگی اور پڑھنے والا سخت گنگار ہوگا ۔۔(ایسا ہی مذکور فتاوی فیض الرسول جلد اول ٢٨٧ )شیخ الاسلام اعلی حضرت امام احمدر رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ فتاوی رضویہ جلد سوم ص ٢٣٥ میں فرماتے ہیں ” دیوبندی عقیدے والوں کے پیچھے نماز باطل محض ہے ہوگی ہی نہیں فرض سرپر رہےگا اور ان کے پیچھے پڑھنے کا شدید عظیم گناہ اھ۔لہذا اگر زید جان بوجھکر ایسا کرتا ہے اور ان بد مذھبوں کو اچھا گمان کرتا ہے اور ان کو مسلمان جانتا ہے تو اس پر توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح سب لاز ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔کتبہ احمد رضا منظری۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ۔شریف۔١١۔١۔١٩۔

ایک آدمی اپنی بیوی سے 8 سال سے الگ ہے اور بیوی طلاق ماںگ رہی ہے تو کہتا ہے کی طلاق نہی دوںگا تو اسکی بیوی دوسری شادی کر سکتی ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اسلام علیکم ایک سوال ہے حضرت۔۔ایک آدمی اپنی بیوی سے 8 سال سے الگ ہے اور بیوی طلاق ماںگ رہی ہے تو کہتا ہے کی طلاق نہی دوںگا تو اسکی بیوی دوسری شادی کر سکتی ہے
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسٶلہ میں اگر وہ آدمی بیوی کو پریشان کرنا چاہتا ہے نہ اسے طلاق دیتا ہے نہ لے جاتا ہے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسے طلاق دینے یا لے جانے پر مجبور کریں ۔اگر وہ نہ مانے اور کوٸ وجہ معقول بھی نہ بیان کرے تو سب مسلمان اس کا باٸکاٹ کریں ۔بہر صورت طلاق حاصل کٸے بغیر دوسرا نکا ح ہرگز نہی کر سکتی۔اھ۔(فتاوی فیض الرسول جلد اول ص ٦٣٤)۔۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ احمدرضا قادری منظری۔مدرس ۔دارالفکر ۔بہراٸچ شریف۔11.1.19

زید کے والد نے زید کی بیوی سے ہمبستری کی تو اب زید کی بیوی زید پر حلال ہے یا نہیں؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیافرماتےہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارےمیں کہ زیدکےوالدبکرنےاپنی بہوہندہ یعنی زیدکی بیوی کےساتھ اپنامنھ کالاکیاجسکوبکرکی بیوی یعنی ہندہ کی ساس نے دکھکرشورمچایاجب سماج کےلوگوں نے اکٹھاہوکراس سے پوچھاتوبکرنےپہلےانکارکیالیکن جب سماج نےدباٶبنایاتوبکرنےکہاکیاتوکیا نہیں کیاتوکیاپھرجب ہندہ سےپوچھاگیاتوہندہ نےکہا کی یہ کوٸ پہلی بارتھوڑی ہےیہ کافی عرصہ سےچل رہاہےکہ میرےسسرمیرےساتھ ایساکررہےہیں اب ایسی صورت شریعت مطھرہ اس مسٸلہ میں کیاحکم نفذ فرماتی ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماٸں نیزیہ بھی بتاٸیں کی ہندہ کواپنے شوہرزیدکےساتھ کیلۓحکم ہے
اسیرتاج الشریعہ الفقیر
عبدالقدوس قادری بہراٸچی
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔برصدق مستفتی صورت مستفسرہ میں زید پر ہندہ ہمیشہ کے لٸے حرام ہوگٸ زید وہندہ دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے فوراً الگ ہوجاٸیں اور آپس میں زن وشوہرکے تعلقات ہرگزہرگز نہ رکھیں ۔نیز زید پر فرض ہے کہ اپنی بیوی سے متارکہ کرے مثلا کہدے کہ میں نے اسے چھوڑا ۔اس کے بعد عدت گزار کر دوسرے سے نکاح کر سکتی ۔فتاوی عالم گیری جلد اول مطبوعہ مصری ص ٦٢٥ میں ہے تحرم المزنی بھا علی آبإ الزانی واجدادہ وان علواوابناٸہ وان سفلو۔اھ۔اور درمختار ج ٤ ص ١١٤ میں ہے بحرمة المصاھرة لایرتفع النکاح حتی لا یحل لھا التزوج باخر الا بعد المتارکة وانقضإ العدة۔اھ۔اور ایسا ہی مذکور ہے ۔فتاوی فیض الرسول ج اول ص ٥٨١ میں۔اور فتاوی علیمہ ج دوم ص ٨٥ پر۔۔۔ نیز زید کی بیوی اور نالاٸق و ظالم باپ پر توبہ لازم ہے۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدر رضاقادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ۔9.1.19

بغیر ٹوپی نماز پڑھ نا کیسا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
بغیر ٹوپی نماز پڑھ نا کیسا ہے
حدیث۔ کے ساتھ جواب دیجئے
ذرا مہربانی ہوگی۔۔المستفتی۔محمد۔ممتاز عالم۔میڑتاسٹی۔۔راج۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔نماز کی حالت میں ستر عورت فرض ہے۔ مرد کا ستر ناف سے لے کے گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر تمام جسم ہے، صرف چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا کھلا ہونا مستثنیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے توفیق اور وسعت دی ہو تو بہتر ہے ٹوپی یا عمامہ پہن کر نماز پڑھے جیسا کہ امام بخاری، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
إِذَا وَسَّعَ اﷲُ فَاوْسِعُوْا.
بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة فی الثياب، باب الصلاة فی القميص و السر اويل والتبان والقباء، 1 : 143، رقم : 358
’’جب اللہ تعالیٰ وسعت دے تو وسعت اختیار کرو۔‘‘
امام شعرانی لکھتے ہیں :
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں عمامہ یا ٹوپی کے ساتھ سر ڈھانپنے کا حکم دیتے تھے اور ننگے سر نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔‘‘
شعرانی، کشف الغمة، 1 : 87
اور بہار شریعت حصہ سوم ص ١٤٠ میں ہے کہ سستی سے ننگے سر نماز پڑھنا یعنی ٹوپی بوجھ معلوم ہوتا ہو یا گرمی معلوم ہوتی ہو مکرہ تنزیہی ہے اور اگر تحقیر نماز مقصود ہے مثلا نماز کوٸ ایسی مہتم بالشان چیز نہیں جس کے لٸے ٹوپی ، عمامہ پہناجاے تو یہ کفر ہے اور خشوع خضوع کے لٸے سر برہنہ پڑھی تو مستحب ہے۔اھ۔(درمختار ج ١ول ص ٥٩٩) ،، لہذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کا طریقہ عمامہ یا ٹوپی سے سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا تھا۔ اس لیے جب انسان کے لیے عمامہ یا ٹوپی حاصل کرنے کی وسعت ہو تو وہ ننگے سر نماز نہ پڑھے۔ عمامہ باندھ کر یا ٹوپی پہن کر نماز پڑھے۔ واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمد رضاقادری منظری۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔10.1.19

مرزا قادیانی کو کس بنا پر کافر قرار دیا گیا تھا اور کس سنہ میں دیا گیا تھا اور کس نے دیا تھا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ مرزا قادیانی کو کس بنا پر کافر قرار دیا گیا تھا اور کس سنہ میں دیا گیا تھا اور کس نے دیا تھا مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔ ۔۔۔المستفتی۔ابوالحسن۔فروسی۔
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔مرزا قادیانی کو اس کی کفری عقاٸد کی بنا پر کافر ومرتد قرار دیا گیا ہے ۔جیساکہ فتاوی امجدیہ جلد چہارم ص ١٠٩ پر ہے کہ یہ شخص کھلاہو کافر ومرتد تھا ۔اس نے اپنی نبوت کا دعوی کیا ۔اور انبیا ٕ کرام علیہم السلام خصوصا حضرت عیسی علیہ الصلاةوالسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ حضرت مریم کی شان رفیع وجلیل میں طرح طرح کی گستاخیاں کی ۔بیہودہ کلمات ااستعمال کٸے ۔اس شخص نے اپنی نبوت کا دعوی کرکے ضروریات دین کا انکار کیا ۔نیز انبیإ کرام کی تکذیب وتوہین کی اور قرآن عظیم کابھی انکار کیا ہے۔(١) ازالہ اوہام ص ٥٣٣ میں مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے ۔خداٸے تعالی نے باہین احمدیہ ۔میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا اور نبی بھی۔ اور اسی کتاب کے ص ٦٨٨ میں ہے ۔حضرت رسول خدا ﷺ کے الہام و وحی غلط نکلی تھیں۔اسی کتاب کے ص ٢٦ ۔٢٨۔میں لکھتا ہے ۔قرآن شریف گندگی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبان کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔اھ۔ اور:مرزا کا ایك رسالہ ہے جس کا نام”ایك غلطی کا ازالہ”ہے،اس کے صفحہ ۶۷۳ پر لکھتا ہے:میں احمد ہوں جو آیت ” مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعْدِی اسْمُہٗۤ اَحْمَدُ ؕ”میں مراد ہے،[1] آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا مسیح ربّانی عیسٰی بن مریم روح اﷲ علیہما الصلوٰۃ والسلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ مجھے اﷲ عزوجل نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے توریت کی تصدیق کرتا اور اس رسول کی خوشخبری سناتا جو میرے بعد تشریف لانے والا ہے جس کا نام پاك احمد ہے ؐ۔ازالہ کے قول ملعون مذکور میں صراحتًا ادّعا ہوا کہ وہ رسول پاك جن کی جلوہ افروزی کا مژدہ حضرت مسیح لائے معاذ اﷲ مرزا قادیانی ہے۔
کفر دوم:توضیح مرام طبع ثانی صفحہ ۹ پر لکھتا ہے کہ”میں محدث ہوں اور محدث عــــــہ بھی ایك معنی سے نبی ہوتا ہے۔[2]

عــــــہ:لا الٰہ الا اﷲ لقد کذب عدوّ اﷲ ایھا المسلمون(اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں،دشمن خدا نے جھوٹ بولا اے مسلمانو!۔ ت)سید المحدثین عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ ہیں کہ انہیں کے(باقی اگلے صفحہ پر)
[1] توضیح المرام مطبوعہ ریاض الہند امرتسر،ص۱۶
[2] توضیح المرام مطبوعہ ریاض الہند امرتسر،ص۱۶ ۔اور اربعین نمبر ٢ ص ١٣ پر لکھا ۔کامل مہدی نہ موسی تھا نہ عیسی۔اس طرح کے توہین آمیز کلمات اورانکار ضرورت دین سے مرزا کی کتابیں بھری ہیں۔مزید تفصیل کے لیٸے تصانیف اعلی حضرت ۔(رساٸل رضویہ )کا مطالعہ کریں۔1۔ جزاء اﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ: یہ رسالہ 1317ھ میں تصنیف ہوا۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت پر 120 حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کرام کی تیس تصریحات پیش کی گئی ہیں۔
2۔ السوء والعقاب علی المسیح الکذاب: یہ رسالہ 1320ھ میں اس سوال کے جواب میں تحریر ہوا کہ اگر ایک مسلمان مرزائی ہوجائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی؟ امام احمد رضا نے دس وجوہات سے مرزا غلام قادیانی کا کفر ثابت کرکے احادیث کے نصوص اور دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ سنی مسلمہ عورت کا نکاح باطل ہوگیا۔ وہ اپنے کافر مرتد شوہر سے فورا علیحدہ ہوجائے۔
3۔قہرالدیان علی فرقہ بقادیان: یہ رسالہ 1323ھ میں تصنیف ہوا۔ اس میں جھوٹے مسیح قادیان کے شیطانی الہاموں‘ اس کی کتابوں کے کفریہ اقوال سیدنا عیسٰی علیہ الصلواۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم رضی اﷲ عنہا کی پاک و طہارت اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
4۔ المبین ختم النبین: یہ رسالہ 1326ھ میں اس سوال کے جواب میں تصنیف ہوا کہ ’’خاتم النبین میں لفظ النبین پر جو الف لام ہے‘ وہ مستغرق کا ہے۔ یہ عہد خارجی کا ہے۔ امام احمد رضا نے دلائل کثیرہ واضح سے ثابت کیا ہے کہ اس پر الف لام استغراق کا ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔
5۔ الجزار الدیان علی المرتد القادیان: یہ رسالہ 3محرم الحرام 1340ھ کو ایک استثنیٰ کے جواب میں لکھا گیا اور اس سال 25صفر المظفر 1340ھ کو آپ کا وصال ہوا۔
6۔ المعتقد: امام احمد رضا کے مستند افتاء سے ہندوستان میں جو سب سے پہلا رسالہ قادیانیت کی رد میں شامل ہوا‘ وہ ان کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خان نے 1315ئ/1896ء الصارم الربانی علی اسراف القادیانی کی نام سے تحریر کیا تھا جس میں مسئلہ حیات عیسٰی علیہ السلام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور غلام قادیانی کذاب کی مثیل مسیح ہونے کازبردست رد کیا گیا ہے۔ امام احمد رضا نے خود اس رسالے کو سراہا ہے۔مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ منکرین نبوت اور قادیانیوں کی رد میں امام احمد رضا کس قدر سرگرم‘ مستعد متحرک اور فعال تھے۔ وہ اس فتنے کے ظہور ہوتے ہی اس کی سرکوبی کے درپے تھے۔ اس فتنے کی رد میں امام احمد رضا کی مساعی جمیلہ اس قدر قابل ستائش اور قابل توجہ ہے کہ ہر موافق و مخالف نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔۔واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ ۔احمد رضاقادری منظری ۔مدرس ۔المرکز الاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ۔6.1.19.

کچھ لوگ اس دعا پر اعتراض کرتے ہیں،، یا رسول اللہ کرم کیجے خدا کے واسطے،، کیا اعتراض درست ہے؟؟؟از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ کیا فرماتے ہیں علما ئے دین ومفتیان کرام مسئلہ کے بارے میں کہ لوگ اس دعا پے اعتراض کرتے ہیں یا رسول اللہ کرم کیجیئے خداکے واسطے حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی بڑا کرم ہوگا
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیجا اعتراض ہے۔ ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے انہی الفاظ کا استعمال فرمایا ہے جو قرأن و احادیث سے ثابت ہیں ۔۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات موجود ہیں جس میں اللہ تعالی نے خود اپنے آپ کو اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو ان صفات سے مخاطب فرمایا ہے۔ ان سب سے مراد اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانوں پر اور خصوصا امت مسلمہ پر رحمت وکرم اس کی عنایت اور اس کی نعمتوں اور آسانیوں کا نزول ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہ ساری صفات اللہ تعالی کی ذاتی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عطائی ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالی نے فرمایا :
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا :
بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(التَّوْبَة، 9 : 128)
مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں
کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے مہربان اور رحم کرنے والے ہیں مومنین پر۔
اسی طرح اللہ تعالی کریم ہے، علیم ہے یہ ساری کی ساری صفات اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں موجود ہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صفاتی اسماء میں بھی ہیں۔
اس کی تفصیل تو ہر عام وخاص جانتا ہے، سینکڑوں آیات ہم روزانہ پڑھتے ہیں جن میں یہ ساری صفات مذکور ہیں۔ :امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ،السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی،’’ اے محمد ﷺ میں اپنی حاجت (ضرورت )میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کووسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم ﷺکے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی
یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ‘‘۔
(فتاوی رضویہ :ج،۲۳،ص۶۸۰مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور)

علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی ﷺ میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ،السلام علیک یا حبیب اللہ ،السلام علیک یا نبی الرحمۃ‘‘
(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص،747،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں
( یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ :صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا :قرت عینی بک یارسول اللہ )
یعنی’’مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت( اشھد ان محمد رسول اللہ ) سنے تو کہے۔صلی اللہ علیک یارسول اللہ ۔اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ ( اشھد ان محمد رسول اللہ )سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ ﷺ آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں)‘‘۔
(ردلمحتار ،ج:۲،ص:۶۸،مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)
اس مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر ۔بہراٸچ۔شریف۔1.2.19

حضرت على رضي الله عنه كعبه شريف ميں ،پیدا ہوئے کیا یہ روایت صحیح ہے؟؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اسلام علیکم کیا فرماتے ہیں علماءےکرام ومفتیان اہلسنت کسی نے ہم سے سوال کیا کہ حضرت على رضي الله عنه كعبه شريف مين ،پیدا ہوئے مجھے دلیل چاہئے کس کتاب میں لکھا ہے قران وحديث کی روشنی میں جواب عنایت فرماءے نوازش ہوگی

خادم مدرسه اشفاق احمد صابري بهراءچ
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔امام حاکم اپنی مشہور حدیث کی کتاب المستدرک للحاکم میں فرماتے ہیں۔
فقد توارت الاخبار ان فاطمه بنت اسد ولدت امير المومنين علی ابن ابی طالب کرم الله وجهه فی جوف الکعبه.
(المستدرک للحاکم، ج : 3، ص : 484)
فرماتے ہیں اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں کہ فاطمہ بنت اسد نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو کعبہ شریف کے اندر جنی تھیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”واز مناقب علي رضی اللہ عنہ کہ در حین ولادت او ظاہر شد یکی آن است کہ در جوف کعبہ معظمہ تولد یافت․ قال الحاکم في ترجمة حکیم بن حزام قول مصعب؛ فیہ: ”ولم یولد قبلہ ولا بعدہ في الکعبة أحد“ مانصہ: ”وھم مصعب في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ في جوف الکعبة“․(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ۶/۳۵۹) واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ۔احمد رضا قادری منظری ۔مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ شریف۔31/12/2018

زید نے اینٹا بٹھا والے سے چھ ہزار کے درسے اینٹا خریدا جب کہ اینٹا کا ریٹ نو ہزار ہے بٹھے والے نے کہا ہم آپ کو اینٹا چھ ماہ کے بعد دینگےکیا یہ بیع از روئے شرع جائز ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں
زید نے اینٹا بٹھا والے سے چھ ہزار کے درسے اینٹا خریدا جب کہ اینٹا کا ریٹ نو ہزار ہے بٹھے والے نے کہا ہم آپ کو اینٹا چھ ماہ کے بعد دینگے
کیا یہ بیع از روئے شرع جائز ہے
المستفتی نوشاد عالم موہنیاں پلاسی ارریا بہار
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔شریعت نے ایسی چیز کی بیع کی اجازت دی ہے جو معدوم ہو جبکہ اس کے اوصاف وزن اور مدت وغیرہ معلوم ہو جائیں اور اس میں کسی قسم کی جہالت باقی نہ رہے‘‘فقہاے کی اصطلاح میں ایسی بیع کو بیع سلم کہاجاتا ہے سلم کا لغوی معنی: بیعٌ یتعجّل فیہ ثمن یعنی وہ بیع جس میں ثمن فوری واجب الادا ہوتا ہے۔
    سلم کے اصطلاحی معنی: أخذ الآجل بالعاجل یعنی نقد ثمن کے عوض ادھار مال لینا۔ یعنی بیع سلم وہ ہے جس میں ثمن نقد اور مبیع ادھار ہو۔ اور قدوری باب السلم میں ہے ولا بأس في السلم باللبن والآجر إذا سمى ملبناً۔ اھ۔۔۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 13/12/22

انگریزی نئے سال کی مبارک باد دینا کیسا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے مین کہ ۱ جنوری نیا سال کا مبارک باد کہنا اور منانا کیسا ہے
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔۔ اسلامی نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو چھ حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اسے خوشی پہنچے تو اسے مبارک باد دے۔
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے الاوسط میں درج کیا‘ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ:
كان أصحاب النبي صلی الله علیه وآله وسلم يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة و الإسلام، و رضوان من الرحمن، و جواز من الشيطان.
(الطبراني، الأوسط: 6241)
نئے سال یا مہینے کی آمد پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے: اے اللہ! ہمیں اس میں امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما۔ شیطان کے حملوں سے بچا اور رحمن کی رضامندی عطاء فرما۔
البتہ انگریزی سال کی مبارک باد دینا بہتر نہیں کہ پہلی جنوری کو happy new year کہنا یہودو نصاری وغیرہ کا طریقہ ہے اس لٸے احتراز کرنا چاہٸے ۔حدیث شریف میں ہے ۔من تشبہ بقوم فہو منھم“ اھ (ابوداٶد ص٥٥٩)واللہ تعالی اعلم ۔
کتبہ ۔احمدر رضا قادری منظری ۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔ ۔۔۔1.1.19.

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد ہوگا یا نہیں؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد ہوگا یا نہیں؟
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔سالی سے نکاح حیات زوجہ میں منعقد نہی ہوگا ۔ایک مرد کا دوسگی بہنوں کو بیک وقت رکھنا سخت ناجاٸز وحرام ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے وان تجمعوا بین الاختین ۔یعنی دوبہنوں کو اکٹھا کرنا حرام ہے ۔اور حدیث شریف میں ہے من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یجمعنّ ما َٕ ہ فی رحم اختین ۔یعنی جو اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے نطفہ کو ہرگز دوبہنوں کے رحم میں جمع نہ کرے ۔یعنی دوبہنوں سے عقد نہ کرے ۔اور فتاوی عالمگیری جلد اول مطبوعہ مصر ص ٣٥٩ میں ہے لایجمع بین اختین بنکاح ۔اھ یہاں تک اگربیوی کو طلاق دیدے تو جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجاے اسکی بہن سے نکاح نہی کرسکتا جیساکہ شرح وقایہ جلد ثانی میں ہے کون المرأة فی نکاح رجل او فی عدتہ ولو من طلاق باٸن یحرم نکاح امرأة ایتھا فرضت ذکرالم تحل لہ الاخری ۔لہذا اگر کرلے تو وہ نکاح فاسد وباطل ہوگا ۔واللہ تعالی اعلم ۔کتبہ احمد رضا قادری منظری ۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔۔۔۔۔1.1.19.