WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category مارہرہ شریف

امیر القلم علامہ عبد المبین صاحب نعمانی کی خانقاہ برکاتیہ میں آمد اور طلبہ جامعہ احسن البرکات سے خطاب…از قلم : محمد ہاشم رضا برکاتی. متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف.


جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، متعدد کتب کے مصنف علامہ عبد المبین صاحب نعمانی ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ، خانقاہ برکاتیہ میں تشریف لائے اور جامعہ احسن البرکات کے طلبہ کو دو نشستوں میں خطاب و نصیحت فرمایا ۔ پہلی نشست میں خامسہ تا فضیلت کے طلبہ کو بہت ہی قیمتی نصیحتوں سے سرفراز فرمایا، آپ نے فرمایا کہ : آپ میں سے کچھ طلبہ فراغت کے بعد کسی شعبہ میں تخصص کریں گے، چاہے تخصص فی الفقہ ہو یا تخصص فی الحدیث ہو لہٰذا ان طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اور قابل مفتی بنیں. ہمارے یہاں مفتیوں کی کمی نہیں ہے لیکن اچھے مفتیوں کی ضرور کمی ہے۔ اور جو طلبہ تدریسی فرائض انجام دینے لگیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ لغت ساتھ میں رکھیں.اگرچہ آپ کو کسی لفظ کا معنی معلوم ہو لیکن اس کا معنی لغت میں ضرور دیکھ لیا کریں. تحقیقی ذہن بنائیں اور طلبہ کو بھی تحقیق سے پڑھایا کریں. اور جو طلبہ خطابت کے میدان میں اتریں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطابت کو اپنا پیشہ ہرگز نہ بنائیں. اور خطابت کی آج کل جو کتابیں بک رہی ہیں ان میں موضوع روایات کی بھرمار ہے اس لئے تقریر پہلے خود لکھیں پھر بولیں. اور حضرت نے بہت ہی زیادہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری صفوں میں اچھے قلم کاروں کی افسوس ناک حد تک کمی ہے. اگر آج کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو اچھا قلم کار ضرور بننا چاہئے. اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ جمعہ اور جمعرات کے اوقات کو کار آمد بنایا جائے اور ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر جمعہ کو کم از کم ایک صفحہ ضرور لکھے اس طرح آپ کا قلم آہستہ آہستہ چلنے لگے گا ایک دن آپ کا نام بھی مشہور قلم کاروں میں شمار کیا جائے گا.

دوسری نشست! کچھ دیر بعد ایک اور اجتماعی نشست منعقد ہوئی جس میں تمام طلبہ جامعہ نے شرکت کی ۔
طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے حضور امیر القلم نے خصوصی طور پر تجویدو قراءت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ : آج کے حالات کے اعتبار سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے. آج ہمارے مدارس سے نکتہ رس مدرس اور زبان آور خطیب تو بہت پیدا ہو رہے ہیں لیکن اچھے قاریوں کی بہت کمی ہے. اور مزید فرمایا کہ طالبان علوم نبویہ کو ہمارے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور آپ نے حضور مفتئ اعظم ہند اور حضور برہان ملت اور حضور سید العلماء ،حضور مجاہد ملت، رئیس القلم علامہ ارشد القادری رحمہم اللہ کی سوانح پر سیر حاصل گفتگو فرمائی. اور فرمایا کہ مجھ احقر کو ان شخصیات کے ساتھ رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے. ان شخصیات کے اندر دین کا کام کرنے کا جزبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا. اور ہر چہار جانب جو سنیت کی ہریالی دکھ رہی ہے وہ انہیں بابرکت نفوس قدسیہ کےدم قدم سے ہے، اس لئے طلبہ کو ان شخصیات کی سوانح کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، آپ نے علامہ ارشد القادری کی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی خصوصی دعوت دی بالخصوص زلزلہ، زیرو زبر، بزبان حکایت، لالہ زار وغیرہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
اور آخر میں حضور امان اہلسنت نے طالبان علوم نبویہ کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا اور کہا کہ ہماری ہمیشہ یہی سوچ رہتی ہے کہ آپ لوگ کامیاب ہو جائیں. اس لئے آپ کو سال میں تقریباً چار پانچ مشہور شخصیات سے میٹنگیں کروائی جاتی ہیں. لہذا آپ لوگ محنت کریں اور اپنی تعلیم کی جڑوں کو مضبوط بنائیں ان شاءاللہ آگے چل کے کامیاب ہوں گے اس کے بعد صلوٰۃ وسلام اور علامہ صاحب کی دعا پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی.
دوسری نشست میں حضورامان اہلسنت اور جملہ اساتذہ جامعہ احسن البرکات و قاسم البرکات اور تمام طلبہ نے شرکت کی ۔

تو زندہ ہے و اللّٰہ،.انبیائےکرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک چشم کشا تحریر ازقلم :- فخر عالم اسماعیلی احسنی بارہ بنکوی متعلم : جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

اللّٰہ تبارک و تعالی نے اس خاک دان گیتی پر سب سے اشرف و اعلیٰ مخلوق انسان کو پیدا فرما کر اس کے سر پر اَحْسَنِ تَقْوِیمْ کا تاج زریں سجایا۔ اور ذاتِ لَمْ یَزَلْ نے انہی میں سے انبیائے کرام کی شکل میں ایسے ستارے درخشاں کیے جنہوں نے کائنات کو علم و ہدایت کے نور سے منور کر دیا ان میں آخر میں وہ ستارہ طلوع ہوا جس کا وجود ہر شی کی اصل ہے،جس کو قَدْجَاءَكُم مِنْ اْللّٰهِ نُوْرٌ کاپیکر اور اَوَّلُ مَاْخَلَقَ اللّٰهُ نُورِىْ کا جامہ پہناکر مبعوث فرمایا۔ یہ انبیائے کرام کی مقدس جماعت کے آخری فرد فرید ہمارے آقا علیہ السلام ہیں۔ یہ تمام انبیاءاس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے اور خدائی پیغام کو بندوں تک پہنچایا اور وقت مقررہ پر اس عالم فانی سے پردہ فرما گئے۔ چونکہ وعدۂِ ”كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْت“ بر حق ہے۔ اس وعدے کے مطابق موت انبیاء کو بھی آئی مگر ایک پل کےلیے۔ پھر اللہ نے انہیں برزخی زندگی عطا فرما دی۔ اسی کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں: ۔
انبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے

   تمام بنی آدم ذائقۂ موت چکھنے کے بعد پھر انہی اجسام عنصریہ کے ساتھ روز قیامت زندہ کیے جائیں گے۔ اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللہ تعالی بعض نفوس قدسیہ ( انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے، اگر آپ کی عقل اسے تسلیم نہیں کر سکتی ہے تو عالم آخرت کی زندگی کا ادراک بھی قدرت الٰہیہ کے علاوہ اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 

انبیائے کرام علیہم السلام کے لیےموت صرف تصدیق اور وعدۂِ الٰہیہ کےمطابق ایک آن کے لئے آتی ہے، پھر وہ ابد تک حیات حقیقی دنیاوی اور جسمانی کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی قبروں میں حصول لذت کے لیے نماز بھی پڑھتے ہیں انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں اور ساری کائنات پر حکومت بھی کرتے ہیں، انبیائے کرام کی زندگی کے بارے میں علمائے امت محمدیہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے انبیائے کرام دنیاوی و حقیقی زندگی کے ساتھ حیات ہیں اور حیات انبیاء کا انکار کرنے والے لوگ گیارہویں صدی ہجری کے بعد ہی رونما ہوئے ہیں۔
مندرجہ ذیل سطروں میں انبیائے کرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر چند دلائل نقلیہ وعقلیہ ملاحظہ فرمائیں،

نقلی دلائل:
(١) اللٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ! وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِي سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتَ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَا تَشْعُرُوْن،(ترجمہ) اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں،
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام ہر اعتبار سے شہداۓکرام سے افضل و اعلیٰ ہیں، گروہ شہداء کا درجہ انبیاۓ کرام سے کم ہے اور جب شہداء کے لئے اس آیت کریمہ سے حیات ثابت ہے تو انبیاء و مرسلین جو سب سے اعلی و ارفع گروہ ہیں، ان کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ حیات ثابت ہوگی، اسی طرح جب قرآن میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے تو انبیائے کرام کو بھی بدرجۂ اولیٰ مردہ کہنے سے منع ہوگا۔
صحابہ ،تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء ،صالحین، اسلاف، اور تمام عاشقان محبوبِ ذاتِ لم یزل کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاۓ کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور اپنی امت کے احوال پر بھی مطلع ہیں،
(٢) اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ! وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃَ لِلْعَالَمِین: اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور آپ ﷺ کا رحمت ہونا تمام جہانوں کے لئے عام ہے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آپ اپنے ظاہری حیات میں اور بعد وفات بھی رحمت ہیں اور تمام جہانوں کیلئے رحمت ہونا آپ کی حیات کا تقاضہ کرتا ہے۔
(٣) حدیث پاک میں ہے: ”عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قالَ قالَ رسولُ اللّٰهِ ﷺ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى اْلاَرْضِ اَنْ تَاكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ“ (سنن نسائی،کتاب الجمعہ،ص: ۱۸۶/ ۱۸۷۔) رسول کریم ﷺنے فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر اجسام انبیاء کھانے کو حرام فرمادیا ہے۔ علامہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں؛ کہ ” اللہ کے نبی دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں“ ۔ حضرت ملا علی قاری فرماتےہیں : ” لَا فَرْقَ لَهُمْ فِي الحالَيْنِ وَلِذاقِيْلَ اَوْلِياءُ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ وَلٰكِنْ يَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلىٰ دَارٍ، وَاِنَّ اْلْاَنْبِياءَ فِي قُبُوْرِهِمْ اَحْيَاءٌ“.(انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کی اللّٰہ کے دوست مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں، اور بلاشبہ انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
(۴) سب سے بڑی دلیل حدیث پاک ہے ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قالَ قَالَ رسولُ اللّٰه ﷺ اَلْاَنْبِيَاءُ اَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّونَ“(حياة الانبياء فى قبورهم ص:٣) کبار محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ زندہ ہی نہیں بلکہ ایسے زندہ ہیں کہ وہ اپنی قبر انور سے سنتے بھی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں، ان کی حیات کا کوئی زوال نہیں ہے جب انبیاۓ کرام کا قبروں میں زندہ ہونا ثابت ہے تو سیدالانبیاء کا قبر انور میں زندہ ہونا بدرجۂ اتم ثابت ہوگا،
اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیزش اور تاویل کا وہم بھی نہیں ہے۔ اور امت کے ہر شخص کی نیت واعمال پر حاضر و ناظر بھی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو حضور کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے ہیں۔
حضور نور مجسم ﷺ دنیاوی زندگی سے لاکھوں کروڑہا درجہ بہتر اپنی قبر انور میں زندہ ہیں ۔
(۵) شب معراج آقا ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء و مرسلین کی امامت فرمائی تو اس سے یہ بات روز روشن کی طرح منور ہوگئ کہ انبیاۓ کرام بعد وصال بھی زندہ ہیں۔
(٦) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت پر صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکرصدیق کے جنازے کو بابِ روضۂ رسول پر رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کے الفاظ دہرائے، ” یَا رَسُولَ اللّٰهِ ه‍َذَا اَبُوبَکْرٍ یَسْتَأذِنُ (اے اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر ہے آپ سے اجازت طلب کر رہا ہے) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دروازہ خود بخود کھل گیا اور روضۂ رسول سے یہ آواز آئی کہ حبیب کو حبیب سے ملا دو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے اس عمل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اپنے غلاموں کی فریاد سنتے بھی ہیں اور ان کو نوازتے بھی ہیں۔
(۷) اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی االلہ عنہا کا روضۂ رسول و ابو بکر پر بغیر پردے کے جانا اور حضرت عمر فاروق اعظم کے مدفون ہونے کے بعد پردے کے ساتھ جانا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ عمرین بھی زندہ ہیں۔
(۸) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا چہرہ قبرِ انور پر رکھنا اور مروان بن حکم سے یہ کہنا: کہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
صحابئ رسول کا یہی نظریہ تھا کہ یہ قبر محض مٹی کا ڈھیر نہیں ہے بلکہ اس میں نبی پاک ﷺ جلوہ گر ہیں ، صحابۂ کرام، تابعین عظام آپ ﷺ کو زندہ سمجھ کر ہی قبر انور پر حاضری دیا کرتے تھے۔

عقلی دلائل:
(۱) اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللّٰہ ﷻ بعض نفوس قدسیہ (انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے ،
(۲) انبیاۓ کرام کا بعد وصال ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہےاور ان کی بیویاں عدت گزارنے کے بعد بھی دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں۔ کیونکہ زندوں کاترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بعد وفات تقسیم کیا جاتا ہے اور انبیاۓ کرام زندہ ہیں اس لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک شوہر زندہ ہےعورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی ہےاور انبیاۓ کرام کی بیویاں بھی کبھی بھی دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی ہیں اس لئے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں۔
(۳) انبیاۓ کرام کا تو الگ ہی مقام ہے ان کے خاص غلام بھی اپنی قبروں میں باحیات ہیں مثلا صحابئ رسول حضرت حذیفہ و حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو تیرہ سو سال بعد قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا اور جسم مبارک کا بلکل صحیح و سالم ہونا، ان کے چہرۂ زیبا کو دیکھ کر ہزاروں لوگوں کا اسلام قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء و اولیاء مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔
اولیاء و شہداءکی قبورکھلنے پر ہم انہیں حرکت و عمل اور عبادت الٰہیہ کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ ذات مدفونہ ہی معطل عن الافعال ہیں،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں وہ قوت ہی نہیں ہے کہ ہم ان کے مصروف بالعبادت ہونے کا ادراک کر سکیں، ہاں! اللہ تعالیٰ جس سے وہ پردہ اٹھا لے وہ تمام عالم کے حالات مشاہدہ کر لیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنے جسم و روح کے ساتھ اپنی قبر میں زندہ ہیں اس کو یوں سمجھیں مثلا ” زیدٌ عالمٌ “ کا ترجمہ ہر عربی داں یہی کرے گا کہ زید فی الحال عالم ہے یہ کوئی نہیں کہے گا کہ زید عالم تھا۔ اسی طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ کا ترجمہ ہر شخص یہی کرے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ کوئی نہیں کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، بلکہ ہر چھوٹا بڑا یہی کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس کا ملخَّصِ کلام یہ ہے کہ آقا ﷺ ہر زمانے میں حیات ظاہری کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور یہ کلمۂ طیبہ ہمارے نبی کے زندہ ہونے کی بہت بڑی
دلیل ہے لہذا ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ انبیاۓ کرام جسم و روح کے ساتھ زندہ ہیں _
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میرےچشم عالم سےچھپ جانےوالے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی…از قلم۔محمد توحید رضا اویسی احسنی متعلم: جامعہ احسن‌البرکات مارہرہ شریف

گزشتہ چند برسوں میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی ترقّی نے انسان کو جن بلندیوں پر پہونچا دیا ہے یہ تمام کتاب و مطالعہ کی مرہونِ منّت ہیں لیکن جس کتاب کی بدولت یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں،اسی کتاب سے بحیثیتِ مجموعی ہمارا رِشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
آج تمام نوجوان کمپیوٹر اور موبائل کے سحر میں اتنی بری طرح سے گرفتار ہیں کہ جو وقت کتاب بینی کا حق تھا وہ بھی کمپیوٹر و موبائل کی نذر ہو گیا۔ اور اب فیس بُک ،وہاٹس ایپ ،ٹویٹر موبائل فونز اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث کُتب بینی کے رجحان میں بہت کمی آ گئی ہے۔انسان اور کتاب کا پرانا تعلق ماند ہوتا جا رہا ہے۔نئی نسل میں کتابیں پڑھنے کا رجحان وہ نہیں ہے جو ہمارے اسلاف کے دور میں تھا۔
اب تو تعلیمی اداروں میں بھی کتاب اور طالب علم کا تعلق صرف نصابی کُتب تک محدود ہو کر ره گیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے جادو کے زیرِ اثر طلبہ کی ایک بڑی تعداد غیر نصابی کتب کو ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتی اور نصابی کُتب کا مطالعہ بھی صرف امتحان پاس کرنے کے لیے کیاجاتا ہے۔
اگر چہ آج کمپیوٹر و موبائل میں مطالعہ کرنے کے متعدّد مواقع موجود ہیں۔لیکن مطالعے کی جو اہمیت و افادیت کتاب سے وابستہ ہے۔اس کا مقابلہ دیگر ذرائع نہیں کر سکتے۔کتاب اور انسان کا رِشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ قدیم ہے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تہذیبِ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو۔
یاد رکھیں کُتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتا ہے۔علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی مشعل راہ کا کام دیتا ہے،یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ، لگن، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہوں وہ اس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے در نایاب چن سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے اسی لیے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی ان کے نام آسمان علم کی افق پر جگمگا رہے ہیں۔
امام غزالی،ابو نصر الفارابی، ابن رشد،جابر بن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدراشخاص کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں، ویسے تو ہمارے علاقے میں علمی دنیا کے وہ قدآور ستون موجود ہیں جن کے ناموں اور کاموں کا احصاء دشوار ہے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے مطالعہ اور کتب بینی کا ذوق ابھارنے کا درس دیا۔
اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تابانی سے عالم کو منور کرنے والے اور ہر سو اجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اقوالِ دانشوراں: ذوق مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں: کہ تیل کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا
تھا‌۔
امام زہری کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اِدھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔ بیوی ان کے اس عادت سے سخت ہیچ و تاب کھاتی۔ ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔
میں کالے کا قول ہے کی وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کومطالعہ کا شوق نہیں۔
“مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے” مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اور اس کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔”امریکا کا مشہور صدر ابراہم لنکن کہتا ہے” کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے.
“والٹیئر کا قول ہے”وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں.
اپنے ڈیسک کارٹیس کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے: کہ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کے بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی زندہ کردار موجود ہیں، جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اور دن دوگنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں، ان لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
کُتب بینی کے نقصانات: ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق تقریبا دم توڑ چکا ہے بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو ذوق کتب بینی کی حلاوت سے آشنا،کتاب دوستی پے نازاں اور کتابوں کی معیت میں فرحاں و شاداں ہیں ورنہ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہوئے ہیں وہ اپنی نظروں کے سامنے “کتاب” کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی برداشت کرسکتے ہیں۔
کتاب پڑھنا ان کے لئے ہاتھ میں انگارہ لینے کے مترادف ہے وہ دنیا کی رنگینیوں، فضول اور واہیات مجلسوں، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ وجوہ راضی و قانع ہیں۔
ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود، ناچنے تھرکنے، نت نئی فیشن اختیارکرنے، ملبوسات کے نئےاسٹائلز زیب تن کرنے، بالوں کی تراش و خراش درست کرنے اور خوب سے خوب تر بلکہ خوب رو ہونے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ان امور سے کئی گنا اہم کام ان کی نگاہ میں فضول، بے معنی،بےوقعت اور ہیچ ہیں۔
عدمِ رغبت کے اسباب اور انکا تدارک: لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب ان کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح و تربیت کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ چکے ہیں وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا درس دے کر ان کی مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوس کر دیتے ہیں۔
اس لئے کہ یہی نونہالان قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھرمار کا پلندہ ہے۔
یہ کتب بینی سے دوری اور بُعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدردانی اور مرتبہ شناسی کا عنصرناپید ہے۔
اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدمِ واقفیت اپنے عروج پر ہے اس سے زیادہ پُرخطر، باعث تشویش، قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابل افسوس، قابل ماتم،اور قابل مذمت ہے۔
رغبت کے اسباب:کُتب بینی انسان کو نئے خیالات سے روشناس کراتی ہے اور دوسروں کے خیالات کو جاننے میں موقع فراہم کرتی ہے۔ کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں اور بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں اسرار موتی بند
ہیں۔
کتابیں شخصیت سازی کا ایک کارساز ذریعہ ہی نہیں بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر ہیں۔زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں جو قومیں کتابوں سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں جن کا تعلق کتب بینی سے مضبوط رہا ہو۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل رک جاتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا جب تک کہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرہ کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے ۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت، حلاوت، شیرینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور انہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں۔ اپنے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ سچے مسلمان ہونے کا درس دیں تو قوی امید اور مہذب ترین اقوام میں شمار ہونے لگے گا- [ان شاءاللہ]

      کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے
    یہ آخری صدی ہے ،کتابوں سے عشق کی ۔

شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ… از قلم :شیخ منتصر احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جنکے نشاں کبھی
یوں تو برِصغیر ہندو پاک میں بہت سے اجلہ علماء اور مشائخ کی ولادت ہوئی جنہوں نے اسلام و سنیت کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور لوگوں کے لیے اپنی تصنیفات و تالیفات اور باقیات صالحات کو مشعل راہ بنا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں 20 / ویں صدی کے نصف میں پیدا ہونے والا وہ مرد قلندر بھی ہے جس کی تصانیف ساری دنیا کے اردوداں حضرات کے قلوب و اذہان کو مسخر اور فتح کر چکی ہیں – جس کی تحریروں نے بدعقیدگی و گمراہی و ضلالت کے سیلاب اور طوفان کا رخ موڑ دیا، ملکی پیمانہ پر بدمذہبی اور لا دینی کے پھوٹنے والے چشموں کے سوتے جس کے نوکِ قلم کی سیاہی سے بند ہوتے نظر آئے – جس نے بروقت اور بلا تاخیر اپنی تحریروں، تقریروں، اور فتاووں کے ذریعہ اکناف و اطراف ہند سے اٹھنے والے ہر فتنہ کا سد باب کیا – اس ذات گرامی کو زمانہ فقیہ اعظم ہند، نور دیدۂ مشائخ مارہرہ، برکاتی مفتی ، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی برکاتی علیہ الرحمہ کے نام سے موسوم کرتا ہے –
فقیہ أعظم ہند جماعت اہل سنت کی آبرو اور ایک قیمتی امانت ہونے کے ساتھ، عظیم دینی و مذہبی رہنما بھی ہیں جماعت، اہل سنت کو اس عظیم شخصیت پر ہمیشہ ناز رہا – آپ آفاقی فکر و نظر کے حامل، پر عزم حرکت و عمل کی چلتی پھرتی تصویر اور جہد مسلسل، سعی پیہم، اخلاص و وفا کے پیکر جمیل، علم و حکمت کے بحرِ بے کراں، عمل و کردار کے سیلِ رواں اور گونا گوں فضائل و کمالات کے جامع تھے –
آپ کی ولادت ١٣٤۰ھ / 1921 ء میں ضلع مئو کے نہایت مشہور اور مردم خیز خطہ قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں ہوئ – آپ نے مقامی مکتب میں ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی رضوی اعظمی مصنف بہار شریعت کے منجھلے بھائی حکیم احمد علی علیہما الرحمہ سے گلستاں بوستاں پڑھی – اس کے بعد ١٠شوام المکرم ١٣٥٣ھ / ١٩٣٤ء کو دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے حضور حافظ ملت کے زیر اثر رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی سے لیکر حمداللہ، ہدایہ اور ترمزی شریف تک کتابیں بڑی محنت اور جاں سوزی کے ساتھ پڑھیں، اور حافظ ملت کے فیضان سے آپ کا سینہ موجزن ہونے لگا –
محرم الحرام ١٣٦١ھ / ١٩٤٢ء میں سات آٹھ ماہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ اندرکوٹ میرٹھ کے بھی آپ طالب علم رہے، یہاں آپ نے صدرالعلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے حاشیہ عبد الغفور اور شمس بازغہ وغیرہ اور خیر الازکیاء، حضرت مولانا غلام یزدانی اعظمی سے خیالی و قاضی مبارک وغیرہ اہم کتابوں کا درس لیا اور پھر شوال ١٣٦١ھ ١٩٤٢ء میں آپ نے مظہرِ اسلام بریلی شریف پہنچے جہاں آپ نے محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد صاحب سے اکتساب فیض کیا – اور ١٥/ شعبان ١٣٦٢ھ / ١٩٤٣ء کو آپ کی فراغت ہوئ- مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا قادری نوری برکاتی، صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،اور صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآباد، اور دیگر اجلہ علماء مشائخ اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار فضیلت اور جبہ سے نوازا –
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری علیہ الرحمہ وہ شخصیت ہیں جن کے اندر قدرت نے متعدد صلاحیتیں نہایت فیاضی سے کاشت کی ہیں – فقیہ اعظم ہند شہنشاہِ قلم و لسان بھی ہیں، اور صاحب طرز و بیان بھی، فقیہ اعظم ہند ادیب شہیر بھی ہیں اور مناظر اسلام بھی اور مقرر بے بدل بھی۔
اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے شارح بخاری عہد طالب علمی ہی سے اساتذہ اور مشائخ کے معتمد اور مرکز عنایت رہے – چاہے سرکار مفتی اعظم علامہ محمد مصطفیٰ رضا قادری ہوں یا صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ہوں یا حافظ ملت علامہ عبد العزيز محدث مبارکپوری ہوں یا محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری ہوں، غرض کہ سبھی کی نگاہ کرم سے سرشار، سرچشمہ عنایت سے فیض یاب اور پاکزہ دعاؤں سے سرفراز تھے، اسی سلسلہ میں فیض رضا اور مشائخ مارہرہ مطہرہ کے کرم کو منفرد خصوصیت حاصل ہے – بالخصوص مارہرہ مطہرہ کے مشائخ نے شارح بخاری پہ کو الطاف و عنایات کی برسات کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی ۔
تاج العلماء کی کرم نوازی :
شارح بخاری نے حالات کے آگے سپرانداز ہونے کا سبق نہیں پڑھا تھا آپ نے قلم سے مجاہد کی تلوار کا کام لیا۔ اگر آپ کے رشحات قلم میں غور و فکر کی نظر ڈالی جائے تو آپ کی داعیانہ و قائدانہ شخصیت تہہ بہ تہہ کھلتی جائے گی اور دنیا کو فقیہ اعظم علیہ الرحمہ کی سیاسی بصارت و بصیرت کے مقام و مراتب کا علم و ادراک ہو سکے گا.
آپ نے تقسیم وطن سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کے سیاسی پلیٹ فارم سے کچھ عجیب سی آوازیں اٹھ رہی تھیں، اس وقت مسلمانوں کے اسلامی اور سیاسی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت فقیہ اعظم ہند نے” اشک رواں “ کے نام کی ایک مدلل اور انقلاب انگیز کتاب تحریر فرمائی – یہ کتاب جب مارہرہ مطہرہ میں مسند غوثیہ کے تاجدار، تاج العلماء حضرت مولانا سید شاہ اولاد رسول محمد میاں مارہروی قدس سرۂ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے مصنف کو بے شمار دعائیں دیں – تحسین و آفریں س نوازا اور حوصلہ آفزائی کرتے ہوئے دعائیہ کلمات تحریر فرمائے –
مارہرہ کے نورانی فیضان کی یہ پہلی لہر تھی – جس نے شارح بخاری کو ایسا نوازا کہ خاندان برکات کا بچہ بچہ حضرت شارح بخاری کی قدردانی، والہانہ شیفتگی اور دینی محنت سے سرشار نظر آتا ہے – خاندان برکات کے سرچشمہ فیض سے قریب ہونے کے بعد حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ پر برکاتی فیضان خوب برسا –
سید العلماء کی قدر شناسی:
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اور مشائخ مارہرہ کے درمیان تعلقات کا جب ہم تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشائخ مارہرہ میں سب سے پہلے آپ کی ملاقات حضرت سید العلماء سے (گیا /بہار) میں ہوئ – [شارح بخاری ص 65]جب سید میاں بہار کے مظلومین کے لیے ریلیف لے کر تشریف لائے تھے – غائبانہ تعارف تو پہلے سے ہی تھا، اس لیے ملنے کے بعد شارح بخاری کو فوراً گلے سے لگا لیا۔
اس کے بعد سید العلماء نے خصوصی دعوت نامہ شارح بخاری کے نام سے بھیجا۔ مفتی صاحب جب مارہرہ شریف تشریف لائے اور مبارک عرس میں حاضر ہوئے تو سید العلماء نے آپ سے تقریر کرائی – جب سید العلماء نے خطاب سنا تو فرمایا: مفتی صاحب! قل سے پہلے ہمیشہ میری تقریر ہوتی تھی اب یہ وقت میں آپ کو پیش کرتا ہوں اب اس وقت میں ہمیشہ آپ کی تقریر ہوا کرے گی –
سید العلماء کا عطا کردہ یہ اعزاز شارح بخاری کی زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا اور ہمیشہ قل سے پہلے آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی –
مارہرہ کی مقدس سرزمین سے جاری ہونے والا وہ چشمہ روحانیت جو متحدہ ہندوستان کا مرکز قادریت ہے اور جس سے ہزاروں لاکھوں تشنہ قلوب و ارواح کو سیرابی حاصل ہوئی انہیں میں شارح بخاری کی بھی ذات گرامی ہے ۔
حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کو اس عظیم الشان خاندان میں دو بہت وجیہ اور اہم شخصیتوں کو دیر تک برتنے کا موقع ملا – ان میں سے ایک حضرت سید العلماء مولانا سید شاہ محمد آل مصطفےٰ قادری برکاتی کی ذات گرامی تھی – اور دوسری گرامی شخصیت حضرت احسن العلماء مولانا سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات تھی – دونوں حضرات ہندوستان کے ممتاز ترین عالم دین اور بہت عالیشان خانقاہ کے سجادہ نشین اور ہزارہا ہزار لوگوں کے مرکز عقیدت اور مرشد طریقت تھے-

           حضور احسن العلماء کی عنایتیں اور  برکاتی مفتی کا خطاب :
            امین ملت سید شاہ محمد امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ بیان فرماتے ہیں کہ: میرے والد ماجد حضور سیدی احسن العلماء علیہ الرحمہ نے فرمایا انسان کے لیے لازم ہے جس طرح چھان بین کے بعد اپنے معالج کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح غور و فکر اور تحقیق کے بعد کسی کو اپنا مفتی بنائے، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے بعد سوچ سمجھ کر ہم نے نائب مفتی اعظم مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو اپنا مفتی بنایا ہے - یہ برکاتی مفتی ہیں -[ معارف شارح بخاری ص 30]
             حضور احسن العلماء فقیہ اعظم کے فتویٰ پر بھر پور اعتماد فرماتے جب کہ وہ خود افتاء کے بے نظیر محرم راز تھے - حضور احسن العلماء سے جب کوئی فتویٰ پوچھتا تو فرماتے شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب سے استفتاء کرو ان کا جو فتویٰ ہوگا وہی ہمارے فتویٰ ہے -[شارح بخاری ص95] اور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد علیہ الرحمة و رضوان شارح بخاری سے بڑی انسیت رکھتے تھے - عرس قاسمی کی آمد میں تاخیر ہوتی تو والد ماجد فکر مند ہو جاتے اور احباب کی ڈاک اسٹیشن سے گھر تک دوڑ لگا دی جاتی اور جیسے مفتی صاحب آجاتے تو حضور احسن العلماء فرماتے کہ "عرس شریف مکمل ہو گیا" -

            حضرت نظمی میاں صاحب کی نوازشات :

سرکار نظمی حضرت سید ملت برکاتہم القدسیہ نے شارح بخاری کو سب سے عظیم نعمت یعنی جملہ سلاسل خاندانی کی اجازت و خلافت عطا فرمائ۔ اور آپ اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:” حضور فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ہمارے برکاتی مفتی ہیں۔ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی محبت ہم مارہرہ کے بچوں بچوں کی گھٹی میں پڑی ہے –

حضور امین ملت کی نظر میں :
حضور امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ ،بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ فرماتے ہیں: ہم نے فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو آنکھوں پر چڑھا کر رکھا اس لیے نہیں کہ مفتی صاحب کوئی لمبا چوڑا نذرانہ ہم لوگوں کو پیش کرتے ہیں یا یہ نہیں کہ جب مفتی صاحب کے گھر جاؤ تو بہت زبردست والی خاطر تواضع کرتے ہیں – باہر سے آتے ہیں تو ہمارے لیے کچھ میٹھائی لے کر آتے ہیں – بلکہ مفتی صاحب سے ہم اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہماری اور ان کی منزل ایک ہے وہ منزل اترپردیش کا وہ شہر ہے جسے ہم بریلی شریف کے نام سے جانے ہیں- جس کا نام سنتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں – [ماہنامہ اشرفیہ مارچ 2000 جشن شارح بخاری نمبر 27]
اور آگے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ انسان کی پہچان تین وقتوں میں ہوتی ہے (1)سفر۔ (2)معاملات اور (3)پڑوس میں ۔ مجھے عمرہ کے واسطے سے اور افریقہ کے دورے میں ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا – معاملات کے بھی کئ معاملے سامنے آئے اور دوران سفر ان کا پڑوس بھی ملا – بفضلہ تعالیٰ میں نے انہیں ہر مقام پر مفتی پایا، پر جگہ شریف دیکھا اور ہر موقع پر حق پایا –
حضور امین ملت کے یہ جملے بڑے معنیٰ خیز اور نکتہ آفرین ہیں، آپ نے شارح بخاری کے نام (مفتی شریف الحق) کو اپنے لفظوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال فرمایا ہے کہ نام بھی ادا ہوگیا اور معنویت میں کمی کیا آتی، معنویت میں تو چار چاندلگ گئے ۔

حضور رفیق ملت کی نظر میں:
اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب حضور احسن العلماء قدس سرہ کی وصال پر ملال کی اطلاع ملتے ہی فقیہ اعظم گھوسی سے دو بجے رات ہی میں روانہ ہو کر بھاگم بھاگ مارہرہ شریف پہنچے – اس غمزدہ ماحول میں جب کہ پوری فضا، خانقاہ کے درو بام اس عارف اسرار الٰہی کی رحلت پر ماتم کناں تھے – خاندان برکات کے شہزادے فقیہ اعظم کے اعزاز میں مصروف نظر آئے – حضور احسن العلماء کے عرس چہلم میں دیکھا گیا کہ فقیہ اعظم کے اعزاز کا وہی انداز برتا گیا جو حضور احسن العلماء کی حیات مبارکہ میں تھا – چلتے وقت نذر بھی پیش کی گئی تو فقیہ اعظم آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: مخدوم زادے! اس وقت تو آپ حضرات خود ہر صورت سے دلداری اور غمگسار کے مستحق ہیں از راہ کرم یہ تکلیف نہ فرمائیں – یہ سن کر حضور رفیق ملت (ابا حضور) رو پڑے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا! اگر آپ کی خدمت میں ہم سے ذرا بھی کوتاہی ہو گئ تو والد ماجد علیہ الرحمہ کی روح ہم سے ناراض ہوگی –

شرف ملت کی نظر میں:
شرف ملت سید محمداشرف میاں صاحب فرماتے ہیں کہ : فقیہ اعظم ہندکئی اعتبار سے اعظم ہیں تمام اعظموں پر نظر رکھ کر اس فقیر برکاتی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجئے –
(1) مذہب اعظم، مشرب اعظم اور مسکن بھی اعظم ہے اور ان کا قلم بھی طاقتور ہے اور ان کا فن بھی اعظم ہے
(2) مفتی شریف الحق صاحب کے سارے حوالے ارفع ہیں چاہنے والا سواد اہل سنن بھی اعظم ہے

(3 ) صدر شریعت، حافظ ملت، احسن العلماء مفتی اعظم ۔ سارے بڑوں کو ہم نے ان پر خوب ہی مائل دیکھا ہے
(4) فیض شریعت فیض  طریقت کیوں نہ ان سے جاری ہو
حب نبی میں ہم نے ان کو گھائل دیکھا ہے - 

( بحوالہ خطاب ۳۰ جنوری ۲۰۰۰ مستان تالاب ممبئی )

 مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوراً وہ کتاب لکھتے اور بصیرت انہیں چار واسطوں سے ملی تھی، حافظ ملت نے میدان تدریس میں، صدرالشریعہ نے فقہی، علامہ سید احسن العلماء اور مفتی اعظم نے خانقاہی؟ بصیرتیں عطا کیں تھیں اب وہ عالم بقا کو چلے گئے ان کا کوئی نعم البدل  نظر نہیں آتا ہے - 
  سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے
   تب جا کے اس انداز کا میخانہ بنا ہے

مشائخ مارہرہ کی طرف سے جو قددانی اور جو اعزاز اخیر لمحات حیات میں انہیں نصیب ہوا معاصرین میں کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا – ان آقاؤں کے ساتھ فقیہ اعظم کی والہانہ عقیدت اور خاندان برکات کی فقیہ اعظم کے ساتھ بے پناہ محبت و اعزاز کے دو آتشہ ہی کی سرمستی تھی کہ فقیہ اعظم کے وصال کی اطلاع ملتے ہی علالتوں کے باوجود برکاتی شہزادے بمبئی اور علی گڑھ سے فوراََ تشریف لے آئے اور فقیہ اعظم کا آخری سفر بھی انہیں مخدوم زادگان عالی وقار کے دست ہائے گرامی کے سہارے اختتام پزیر ہوا – عقیدتوں کی اس سے بڑھ کر سرفرازی اور کیا ہو سکتی ہے – وصال ایک عظیم حقیقت ہے مگر بڑے مبارک ہیں وہ نفوس قدسیہ جو مشیت کی طرف سے تفویض کردہ اپنے حصے کا کام مکمل کر جاتے ہیں اور حضور فقیہ اعظم اسی جماعت کے نمائندہ تھے وہ اپنے حصے کا کام ہر کام بحسن و خوبی مکمل کر کے دار الجزاء کی طرف روانہ ہو گئے فجزاہ اللہ عنا و عن جمیع المسلمين –

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے… (ہدیۂ تبریک بخدمت: رفیق محترم محمد ہاشم احسنی)از قلم :محمد سلطان رضا احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ مطہرہ

شعر و شاعری اور مضمون نگاری کی طرح اظہار خیال و رائے کا ایک اہم اسلوب اور موثر ذریعہ خطابت ہے، جس کے ذریعےاحساسات وتخیلات کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کو مبلغین اسلام نے بھی اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لئے اپنا ہتھیار بنایا ہے-
اگر خطاب اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق ہو تو موثر اور قابل تعریف ہے،بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کار کو انجام دیا ہے ۔ جب حضورﷺ خطاب فرماتے تو مجلس انسانی سروں سے بھر جاتی تھی اور لوگوں کا ایک جم غفیر ہوجاتاتھا ، تاریخ اسلام میں آپ کے خطبات کو ایک خاص مقام و اہمیت حاصل ہے جو آج بھی مبلغین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہ خطابت صرف عہد رسالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر دور میں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت سے برتا گیا ہے، خلفا اور سلاطین اسلام کے خطبے تاریخ کے صفحات پہ منقش ہوکر اس دعوے کی دلیل فراہم کر رہے ہیں ۔
اس لیے قوم و ملل کے زعماء کےلئے فصیح اللسان ہونا لازمی امر ہے، تاکہ وہ قیادت و امامت کا حق ادا کرسکیں اور قوم کو صحیح سمت گامزن کریں۔
اس پس منظر میں اگر ہم غور کریں تو بطور تجزیہ یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے طلبہ کو خطابت کا ذوق رہا ہے، میدان خطابت میں جامعات و مدارس کے لائق وفائق فارغین کا کردار اظہرمن الشمس ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہمارے جامعہ کے طلبہ بھی ہیں، چند دن پہلے دارالعلوم مینائیہ گونڈہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسابقہ خطاب میں مادر علمی جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف میں ہمارے ہم سبق ساتھی محمد ہاشم نے شرکت کی اور اپنی کدو کاوش سے دوسری پوزیشن حاصل کی،
جب یہ خوشخبری میرے کانوں سے ٹکرائی کہ عزیزم محمد ہاشم نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے تو دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو گیا۔ اور میں اسی وقت سے مبارک بادی پیش کرنے کا مشتاق تھا ۔ پھر جب وہ جامعہ تشریف لائے اور ابھی کمرے میں داخل نہ ہوئے تھے کہ مبارکبادیوں کی برسات ہونے لگی، جب وہ اپنی محنتوں اورکوششوں کا ثمرہ ہاتھوں میں لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو سارے احباب دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھےاور سبھی لوگوں نے مصافحہ و معانقہ کرنے کے بعد ہدیۂ تبریک پیش کی اور اخیر میں میں نے سکون واطمنان کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کیا اور صمیم قلب کے ساتھ مبارک بادی پیش کیا۔ پھر مغرب کے بعد عزیزم اپنے پورے انعامات کے ساتھ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے کمرے میں گئے پھر یکے بعد دیگرے سب اساتذۂ کرام کے پاس جا کر ملاقات کی اور سبھی معزز ومکرم اساتذہ نے مبارک بادی کے ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا۔
جناب محترم نے سب کا اور جامعہ کا شکریہ ادا کیا.
اور میں پھر سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ،اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اور تمام طلبہ کیے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی طلبہ کو خوب خوب عروج و ارتقاء عطاء فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
(فہیم جوگاپوری)

خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف میں ہوا محفل ایصال ثواب کا انعقاد،، رپورٹ :محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف


ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ میں 26 اگست بروز جمعہ کی شام حضور احسن العلماء حضرت سید مصطفی حیدر حسن رحمہ اللہ تعالی علیہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی یاد میں ایک پر کیف اور روح پرور محفل کا انعقاد کیا گیا جس کی سرپرستی حضور رفیق ملت دامت برکاتہم القدسیہ نے فرمائی اور صدارت ان کے برادر مکرم حضور شرف ملت حضرت سید اشرف میاں قادری برکاتی دام ظلہ العالی نے فرمائی۔ یہ نورانی و عرفانی محفل جامعہ احسن البرکات کے صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد عرفان ازہری کی زیر نگرانی ہوئی۔
محفل پاک کی ابتداء اسلاف کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔جس کے لیے حافظ و قاری نعمان برکاتی (جماعت اولیٰ) کو بلایا گیا اور انہوں نے بہترین انداز میں تلاوت قرآن پاک کرکے حاضرین کے دلوں کو محظوظ فرما یا پھر اس کے بعد جماعت ثالثہ کے طالب علم محمد رفیع نے کلام اعلی حضرت” ہے کلام الہی میں شمس الضحیٰ تیرے چہرئےنور فزا کی قسم”کو پرکشش انداز میں پڑھا اس کے بعد پھر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لیے محمد اکرم (جماعت اعدادیہ) تشریف لائے بعدہ جماعت کی فضیلت کے ایک ہونہار طالب علم فخر عالم نے حضور شرف ملت کی ایک بہترین منقبت “اس سخی کے ہاتھوں نے خوب خوب بانٹا تھا” جوانہونے اپنی والدہ ماجدہ کی یاد میں رقم فرمائی تھی ۔جس کو سن کر محفل پر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔فری وی نعت و منقبت کا سلسلہ چلتا رہا اور ناظم بزم حضرت قاری عرفان صاحب برکاتی نے جامعہ کے ایک بہترین عالم و فاضل حضرت علامہ مولانا محمداسلم نبیل ازہری صاحب کو نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت سخن دی حضرت اسلم نبیل ازہری صاحب حضرت نظمی علیہ الرحمہ کا مشہور زمانہ کلام”بسی ہے جب سے وہ تصویر یار آنکھوں میں”کو اپنی بہترین لب و لہجہ میں پیش فرما کر محفل کو لطف اندوز فرمایا، پھر اس کے بعد محفل کا رخ نظم سے نثر کی طرف منتقل ہوا اور خطاب نایاب کے لیے جامعہ کی ایک نہایت قابل عالم دین حضرت مولانا مفتی انیس القمر صاحب امجدی حفظہ اللہ ورعاہ کو دعوت دی گئی جنہوں نے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی زندگی کے انمول لمحات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، اور انہونے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی وہ عادات کریمہ بیان فرمائی جن کا اب کسی عورت میں پایا جانا نا ممکن نظر آتا ہے اور موصوف کی خطاب سے مجلس پر کیف وسرور فرحت وانبساط کی لہر دوڑ پڑی بعدہ ابا حضور نے اپنی والدہ محترمہ کے اوصاف کریمانہ بیان فرمائے اور تمام حاضرین کو یہ درس دیا کہ جس طرح اپنے استاد، پیر اور دیگر علماء کرام کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیتے ہو یونہی اپنے والدہ کے ہاتھ پیر کو بوسہ دیا کرو پھر اباحضور نے حضرت قاری عرفان صاحب کو نعت پڑھنے کے لئے مدعو فرمایا اس کے بعد حضور شرف ملت نے اپنے مشفقہ سیدہ عابدہ زاہدہ والدہ ماجدہ کے کچھ قصائص بیان فرمائے اور انہوں نے اپنی گفتگو ایک مشہور شاعر نور کے اس شعر “میں تو غزل سناکے اکیلا کھڑا رہا_ سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے”پر مکمل فرمائی،اس کے بعد صلاۃوسلام و فاتحہ خوانی پر محفل اختتام پزیر ہوئ اور چلتے چلتے ابا حضور نے حیدر آباد کے ایک بی جے پی لیڈر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہنے کی بنا پر پر زور مذمت فرمائی ۔
رپورٹ:
محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)
متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف.

⚠️یہود کی اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ⚠️✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

دوران مطالعہ ایک بڑا عجیب اور دل دہلا دینے والا واقعہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔۔اس کو میں مختصراً اور بلا تمہید ذکر کرتا ہوں

برطانیہ (britain) میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان نے برطانوی عیسائی دوست سے کہا۔۔ کہ مجھے کوئی انوکھی جگہ دکھاؤ ۔جہاں ہم پکنک کر سکیں۔انگریز دوست نے ایک جگہ جانے کا پروگرام بنایا اور اپنے مسلمان دوست کے لیے وہاں جانے کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس انگریز نے کہا کہ وہ بہت پر اسرار جگہ پر لے کر جائے گا، دونوں وقت پر اپنی گاڑی سے اس پر اسرار مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک جنگل پہنچے۔ مسلمان دوست کا بیان ہے کہ جنگل میں فوجی چھاؤنیاں تھیں، جگہ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اور اجازت نامہ دیکھا گیا۔۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ہمیں اپنی گاڑی بھی چھوڑنی پڑی ۔ عیسائی دوست نے بتایا کہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ جانا ہوگا۔ اور ایک چیز کا خیال رکھنا کہ وہاں کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔۔۔
انٹری گیٹ سے گزر کر ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا ۔ اندر بہت سی عمارتیں تھیں ۔پیدل چلتے ہوئے ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے ۔جہاں کلاس روم بنے ہوئے تھے۔ کلاسوں میں بچے قرآن مجید حفظ کر رہے تھے ۔ کس کلاس میں عربی ، فارسی، تفسیر و حدیث اور فقہی مسائل پڑھائے جا رہے تھے ۔ الغرض ، ان تمام کلاسوں میں اسلامی دینی تعلیم پڑھنے پڑھانے کا انتظام تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہم جنگل سے باہر آئے اور انگریز دوست سے میں نے کہا ۔ یہ کونسا عجوبہ تھا ، ایسے مدارس تو پاکستان میں بہت ہیں۔
تو اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں دیکھا ؟ کہ جگہ ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی ۔
یہ اس لیے کہ یہاں جو بچے قرآن وحدیث اور اسلامیات پڑھ رہے ہیں ۔ وہ تمام یہودی بچے ہیں ۔ انہیں عرب و عجم کے مسلم ممالک کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ (ماہنامہ پیغام شریعت دہلی ، ص 51)

ٹھہریے!!!
اور غور کیجیے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کس قدر سازشی انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں. ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جب دشمن ہمارے قرآن و حدیث اور فقہ کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس کے دفاع کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم بھی اپنی قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کا عالم بنائیں تاکہ جب ان مقدسات پہ وہ اعتراضات لے کر آئیں تو ہم جواب دے کر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرسکیں ۔
قارئین کرام! یاد رکھیں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سب سے اہم ہے، اور فریضے کی ادائیگی عالم بن کر ہی کی جاسکتی ہے اس لیے خود بھی علم دین حاصل کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی سکھائیے ۔ پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی حفاظت کے لیے” بنیان مرصوص “ کا پیکر بن جائیے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار,, تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو،، از قلم ،محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار
تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو

آج میرے ساتھ ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا ۔کہ

جیسے ہی میں لائبریری میں داخل ہوا ۔اور استاذ محترم سے کچھ عرض کرنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا۔کہ یکایک ایک کبوتر اڑا اور پنکھےکی زد میں آ کر اس کا ایک بازو کٹ کر الگ ہو گیا۔ استاذ محترم نے فوراً اپنے روم سے مرہم منگایا،پٹی بھی کی گئی۔لیکن! وہ بچ نہ سکا۔افسوس…… اس دکھی منظر کو دیکھنے کے بعد انگریزی کا ایک بڑا پیارا جملہ یاد آگیا ۔ شاید اس نے بھی ایسا دکھی منظر دیکھا ہو؟ وہ جملہ کچھ اس طرح سے ہے ” A CHILD WITHOUT EDUCATION IS LIKE A BIRD WITHOUT WINGS” یعنی۔ جس طرح پر(wing) کے بغیر پرندہ، پرندہ نہیں بالکل اسی طرح علم کے بغیر انسان، انسان نہیں اور علم بغیر محنت کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتا ہے۔۔
“Study while others are sleeping ..
Work while others are loafing .
Prepare while others are playing.
Dream while others are wishing.”

یعنی “آپ اس وقت مطالعہ کریں جب سب مزے سے سو رہے ہوں،
آپ اس وقت محنت کریں جب دوسرے لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوں،
اس وقت آپ تیاری کریں جب دوسرے کھیل رہے ہوں
اور آپ خواب دیکھیں جب سب خواہش کر رہے ہوں، سیدھا سا مطلب یہ کہ- ان نصائح پر عمل کرنے کے بعد آپ تو اپنے خوابوں کو پورا کر چکے ہوں گے ، رہے دوسرے لوگ تو وہ صرف خواہشات میں گرفتار ہوں گے”۔۔۔
یہ وہ اصول ہیں، کہ جن پر ہمیشگی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ عربی شاعر کہتا ہے۔
“بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي”
۔ یعنی ۔کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ مطہرہ میں “جشن یوم آزادی” تزک واحتشام کےساتھ منایا گیا”” محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)


غیر منقسم ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ”خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ شریف” کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض گراونڈ میں یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں جامعہ کے سرپرست حضور رفیق ملت (ابا حضور) سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی مد ظلہ النورانی ورعاہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی-صاحب سجادہ(جنہیں ہم تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ پیار کی بولی میں ابا حضور کہتے ہیں) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پرچم کشائی فرمائی، اور جامعہ کے دو شاہین صفت طلبہ (محمد برکت علی برکاتی راجستھانی درجہ سادسہ اور محمد اکرم علی برکاتی گجراتی درجہ اعدادیہ) نے شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا لکھا ہوا مشہور زمانہ ترانۂ ہندی “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا” اپنی دل نشیں اور اچھوتے انداز میں پیش کیا- اس کے بعد جامعہ کے سرپرست صاحب سجادہ حضور رفیق ملت نے جنگ آزادی کا مطلب سمجھایا اور تحریک آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علما اور ہمارے آباء و اجداد نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ملک ہندوستان ہمارا ہے اور اس ملک میں ہمارے آباء واجداد اور اولیائے کرام کے مزارات ہیں- الحمدللہ ہم بائی چوائز ہندوستانی ہیں اور اخیر میں صاحب سجادہ (ابا حضور) حضور رفیق ملت نے اپنی گفتگو کے دوران مجھ احقر کو نام لے کر پکارا کہ محمد ہاشم برکاتی سلمہ جہاں بھی ہوں آگے آئیں، جیسے ہی ابا حضور کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا دل باغ باغ سا ہوگیا اور فوراً آگے آیا پھر ابا حضور نے مائک میں بتایا کہ ہاشم برکاتی نے ابھی حال ہی میں جو مضمون لکھا تھا اسے میں نے حضور امین ملت،حضور شرف ملت، احمد مجتبیٰ صدیقی اور جناب عتیق برکاتی کانپوری اور اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے پاس بھیجا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ہیں سب نے اس مضمون کی خوب خوب تعریف کی،اور شرف ملت نے خصوصی طور پر دادو تحسین سے نوازا اور کہاکہ ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالٰی میرے بچے کو سلامت رکھے اور حضور امین ملت مد ظلہ النورانی ورعاہ نے دعائیہ وحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مارہرہ شریف میں نہیں ہوں ورنہ میں خود اس بچہ کو انعام و اکرام سے نوازتا. آپ میری طرف سے اس بچہ کو 1100 دے دینا. آپ نے یہ کلمات ارشاد فرماتے ہوئے 1100 گیارہ سو روپیے اپنی جیب سے نکالے اور مجھے عطا فرمایا. اس کے بعد دوبارہ 1100 نکالا اور جامعہ کے پرنسپل استاذگرامی وقار حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعہ کی طرف سے آپ اپنے ہاتھ سے اس بچے کو بطور انعام دے دیجیے. اس کے بعد جب فقیر انعام حاصل کرکے جانے لگا تو آپ نے اپنے پیارے اور مخصوص لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بیٹا ابھی کہاں جا رہے ہو؟ تو فقیر وہیں کھڑا ہو گیا بعدہ ابا حضور نے اپنے گلے سے رومال نکالا اور فرمایا کہ یہ مدینہ شریف کا رومال ہے میں اپنی طرف سے یہ رومال عطا کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے کندھے پر رومال رکھ دیا اور دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم اور آپ کی زبان(چونکہ ابا حضور کے سامنے کئی مرتبہ تقریر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے اور آپ میری تقریر کو کافی پسند بھی فرماتے ہیں) دونوں کو تقویت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر پریشانیوں کو دور فرمائے- ابا حضور کے یہ جملے سن کر فقیر کے دل کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ آج کے بعد ان شاءاللہ کبھی بھی فقیر کو کم از کم کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں ہوگی- پھر ابا حضور نے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ شاگرد چاہے جتنا بھی قابل ہو جائے اپنے استاذ کے سامنے ہمیشہ چھوٹا سا چوزہ ہی رہتا ہے (چونکہ میری اس تمام کامیابی کے پیچھے خصوصی طور پر ہمارے مشفق و مہربان استاد حضرت علامہ مفتی شاداب امجدی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے) اس کے بعد ابا حضور نے مفتی صاحب قبلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا اور مفتی صاحب قبلہ کو بھی مدینہ منورہ کا مصلی عطا فرمایا. اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس مصلی پر نماز پڑھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرمایا کریں. اسکے بعد جامعہ کے کانفرنس ہال میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا اس میں اول پوزیشن جماعت اعدادیہ نے حاصل کی اور دوم پوزیشن جماعت خامسہ نے حاصل کی. اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو بھی جامعہ کی طرف سے گراں قدر انعام و اکرام سے نوازا گیا-
صلوٰة و سلام اور دعا پر پروگرام تکمیل کو پہنچا-

محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)