مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جنکے نشاں کبھی
یوں تو برِصغیر ہندو پاک میں بہت سے اجلہ علماء اور مشائخ کی ولادت ہوئی جنہوں نے اسلام و سنیت کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور لوگوں کے لیے اپنی تصنیفات و تالیفات اور باقیات صالحات کو مشعل راہ بنا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں 20 / ویں صدی کے نصف میں پیدا ہونے والا وہ مرد قلندر بھی ہے جس کی تصانیف ساری دنیا کے اردوداں حضرات کے قلوب و اذہان کو مسخر اور فتح کر چکی ہیں – جس کی تحریروں نے بدعقیدگی و گمراہی و ضلالت کے سیلاب اور طوفان کا رخ موڑ دیا، ملکی پیمانہ پر بدمذہبی اور لا دینی کے پھوٹنے والے چشموں کے سوتے جس کے نوکِ قلم کی سیاہی سے بند ہوتے نظر آئے – جس نے بروقت اور بلا تاخیر اپنی تحریروں، تقریروں، اور فتاووں کے ذریعہ اکناف و اطراف ہند سے اٹھنے والے ہر فتنہ کا سد باب کیا – اس ذات گرامی کو زمانہ فقیہ اعظم ہند، نور دیدۂ مشائخ مارہرہ، برکاتی مفتی ، شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی برکاتی علیہ الرحمہ کے نام سے موسوم کرتا ہے –
فقیہ أعظم ہند جماعت اہل سنت کی آبرو اور ایک قیمتی امانت ہونے کے ساتھ، عظیم دینی و مذہبی رہنما بھی ہیں جماعت، اہل سنت کو اس عظیم شخصیت پر ہمیشہ ناز رہا – آپ آفاقی فکر و نظر کے حامل، پر عزم حرکت و عمل کی چلتی پھرتی تصویر اور جہد مسلسل، سعی پیہم، اخلاص و وفا کے پیکر جمیل، علم و حکمت کے بحرِ بے کراں، عمل و کردار کے سیلِ رواں اور گونا گوں فضائل و کمالات کے جامع تھے –
آپ کی ولادت ١٣٤۰ھ / 1921 ء میں ضلع مئو کے نہایت مشہور اور مردم خیز خطہ قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور میں ہوئ – آپ نے مقامی مکتب میں ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور صدرالشریعہ علامہ امجد علی رضوی اعظمی مصنف بہار شریعت کے منجھلے بھائی حکیم احمد علی علیہما الرحمہ سے گلستاں بوستاں پڑھی – اس کے بعد ١٠شوام المکرم ١٣٥٣ھ / ١٩٣٤ء کو دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے حضور حافظ ملت کے زیر اثر رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے فارسی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی سے لیکر حمداللہ، ہدایہ اور ترمزی شریف تک کتابیں بڑی محنت اور جاں سوزی کے ساتھ پڑھیں، اور حافظ ملت کے فیضان سے آپ کا سینہ موجزن ہونے لگا –
محرم الحرام ١٣٦١ھ / ١٩٤٢ء میں سات آٹھ ماہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ اندرکوٹ میرٹھ کے بھی آپ طالب علم رہے، یہاں آپ نے صدرالعلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے حاشیہ عبد الغفور اور شمس بازغہ وغیرہ اور خیر الازکیاء، حضرت مولانا غلام یزدانی اعظمی سے خیالی و قاضی مبارک وغیرہ اہم کتابوں کا درس لیا اور پھر شوال ١٣٦١ھ ١٩٤٢ء میں آپ نے مظہرِ اسلام بریلی شریف پہنچے جہاں آپ نے محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد صاحب سے اکتساب فیض کیا – اور ١٥/ شعبان ١٣٦٢ھ / ١٩٤٣ء کو آپ کی فراغت ہوئ- مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا قادری نوری برکاتی، صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،اور صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآباد، اور دیگر اجلہ علماء مشائخ اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دستار فضیلت اور جبہ سے نوازا –
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری علیہ الرحمہ وہ شخصیت ہیں جن کے اندر قدرت نے متعدد صلاحیتیں نہایت فیاضی سے کاشت کی ہیں – فقیہ اعظم ہند شہنشاہِ قلم و لسان بھی ہیں، اور صاحب طرز و بیان بھی، فقیہ اعظم ہند ادیب شہیر بھی ہیں اور مناظر اسلام بھی اور مقرر بے بدل بھی۔
اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے شارح بخاری عہد طالب علمی ہی سے اساتذہ اور مشائخ کے معتمد اور مرکز عنایت رہے – چاہے سرکار مفتی اعظم علامہ محمد مصطفیٰ رضا قادری ہوں یا صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ہوں یا حافظ ملت علامہ عبد العزيز محدث مبارکپوری ہوں یا محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری ہوں، غرض کہ سبھی کی نگاہ کرم سے سرشار، سرچشمہ عنایت سے فیض یاب اور پاکزہ دعاؤں سے سرفراز تھے، اسی سلسلہ میں فیض رضا اور مشائخ مارہرہ مطہرہ کے کرم کو منفرد خصوصیت حاصل ہے – بالخصوص مارہرہ مطہرہ کے مشائخ نے شارح بخاری پہ کو الطاف و عنایات کی برسات کی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی ۔
تاج العلماء کی کرم نوازی :
شارح بخاری نے حالات کے آگے سپرانداز ہونے کا سبق نہیں پڑھا تھا آپ نے قلم سے مجاہد کی تلوار کا کام لیا۔ اگر آپ کے رشحات قلم میں غور و فکر کی نظر ڈالی جائے تو آپ کی داعیانہ و قائدانہ شخصیت تہہ بہ تہہ کھلتی جائے گی اور دنیا کو فقیہ اعظم علیہ الرحمہ کی سیاسی بصارت و بصیرت کے مقام و مراتب کا علم و ادراک ہو سکے گا.
آپ نے تقسیم وطن سے پہلے مسلم لیگ اور کانگریس کے سیاسی پلیٹ فارم سے کچھ عجیب سی آوازیں اٹھ رہی تھیں، اس وقت مسلمانوں کے اسلامی اور سیاسی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت فقیہ اعظم ہند نے” اشک رواں “ کے نام کی ایک مدلل اور انقلاب انگیز کتاب تحریر فرمائی – یہ کتاب جب مارہرہ مطہرہ میں مسند غوثیہ کے تاجدار، تاج العلماء حضرت مولانا سید شاہ اولاد رسول محمد میاں مارہروی قدس سرۂ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے مصنف کو بے شمار دعائیں دیں – تحسین و آفریں س نوازا اور حوصلہ آفزائی کرتے ہوئے دعائیہ کلمات تحریر فرمائے –
مارہرہ کے نورانی فیضان کی یہ پہلی لہر تھی – جس نے شارح بخاری کو ایسا نوازا کہ خاندان برکات کا بچہ بچہ حضرت شارح بخاری کی قدردانی، والہانہ شیفتگی اور دینی محنت سے سرشار نظر آتا ہے – خاندان برکات کے سرچشمہ فیض سے قریب ہونے کے بعد حضرت فقیہ اعظم ہند علیہ الرحمہ پر برکاتی فیضان خوب برسا –
سید العلماء کی قدر شناسی:
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اور مشائخ مارہرہ کے درمیان تعلقات کا جب ہم تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشائخ مارہرہ میں سب سے پہلے آپ کی ملاقات حضرت سید العلماء سے (گیا /بہار) میں ہوئ – [شارح بخاری ص 65]جب سید میاں بہار کے مظلومین کے لیے ریلیف لے کر تشریف لائے تھے – غائبانہ تعارف تو پہلے سے ہی تھا، اس لیے ملنے کے بعد شارح بخاری کو فوراً گلے سے لگا لیا۔
اس کے بعد سید العلماء نے خصوصی دعوت نامہ شارح بخاری کے نام سے بھیجا۔ مفتی صاحب جب مارہرہ شریف تشریف لائے اور مبارک عرس میں حاضر ہوئے تو سید العلماء نے آپ سے تقریر کرائی – جب سید العلماء نے خطاب سنا تو فرمایا: مفتی صاحب! قل سے پہلے ہمیشہ میری تقریر ہوتی تھی اب یہ وقت میں آپ کو پیش کرتا ہوں اب اس وقت میں ہمیشہ آپ کی تقریر ہوا کرے گی –
سید العلماء کا عطا کردہ یہ اعزاز شارح بخاری کی زندگی کے آخری لمحات تک قائم رہا اور ہمیشہ قل سے پہلے آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی –
مارہرہ کی مقدس سرزمین سے جاری ہونے والا وہ چشمہ روحانیت جو متحدہ ہندوستان کا مرکز قادریت ہے اور جس سے ہزاروں لاکھوں تشنہ قلوب و ارواح کو سیرابی حاصل ہوئی انہیں میں شارح بخاری کی بھی ذات گرامی ہے ۔
حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کو اس عظیم الشان خاندان میں دو بہت وجیہ اور اہم شخصیتوں کو دیر تک برتنے کا موقع ملا – ان میں سے ایک حضرت سید العلماء مولانا سید شاہ محمد آل مصطفےٰ قادری برکاتی کی ذات گرامی تھی – اور دوسری گرامی شخصیت حضرت احسن العلماء مولانا سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ذات بابرکات تھی – دونوں حضرات ہندوستان کے ممتاز ترین عالم دین اور بہت عالیشان خانقاہ کے سجادہ نشین اور ہزارہا ہزار لوگوں کے مرکز عقیدت اور مرشد طریقت تھے-
حضور احسن العلماء کی عنایتیں اور برکاتی مفتی کا خطاب :
امین ملت سید شاہ محمد امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ بیان فرماتے ہیں کہ: میرے والد ماجد حضور سیدی احسن العلماء علیہ الرحمہ نے فرمایا انسان کے لیے لازم ہے جس طرح چھان بین کے بعد اپنے معالج کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح غور و فکر اور تحقیق کے بعد کسی کو اپنا مفتی بنائے، مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے بعد سوچ سمجھ کر ہم نے نائب مفتی اعظم مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو اپنا مفتی بنایا ہے - یہ برکاتی مفتی ہیں -[ معارف شارح بخاری ص 30]
حضور احسن العلماء فقیہ اعظم کے فتویٰ پر بھر پور اعتماد فرماتے جب کہ وہ خود افتاء کے بے نظیر محرم راز تھے - حضور احسن العلماء سے جب کوئی فتویٰ پوچھتا تو فرماتے شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب سے استفتاء کرو ان کا جو فتویٰ ہوگا وہی ہمارے فتویٰ ہے -[شارح بخاری ص95] اور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد علیہ الرحمة و رضوان شارح بخاری سے بڑی انسیت رکھتے تھے - عرس قاسمی کی آمد میں تاخیر ہوتی تو والد ماجد فکر مند ہو جاتے اور احباب کی ڈاک اسٹیشن سے گھر تک دوڑ لگا دی جاتی اور جیسے مفتی صاحب آجاتے تو حضور احسن العلماء فرماتے کہ "عرس شریف مکمل ہو گیا" -
حضرت نظمی میاں صاحب کی نوازشات :
سرکار نظمی حضرت سید ملت برکاتہم القدسیہ نے شارح بخاری کو سب سے عظیم نعمت یعنی جملہ سلاسل خاندانی کی اجازت و خلافت عطا فرمائ۔ اور آپ اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:” حضور فقیہ اعظم ہند حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ہمارے برکاتی مفتی ہیں۔ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی محبت ہم مارہرہ کے بچوں بچوں کی گھٹی میں پڑی ہے –
حضور امین ملت کی نظر میں :
حضور امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ ،بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ فرماتے ہیں: ہم نے فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کو آنکھوں پر چڑھا کر رکھا اس لیے نہیں کہ مفتی صاحب کوئی لمبا چوڑا نذرانہ ہم لوگوں کو پیش کرتے ہیں یا یہ نہیں کہ جب مفتی صاحب کے گھر جاؤ تو بہت زبردست والی خاطر تواضع کرتے ہیں – باہر سے آتے ہیں تو ہمارے لیے کچھ میٹھائی لے کر آتے ہیں – بلکہ مفتی صاحب سے ہم اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ہماری اور ان کی منزل ایک ہے وہ منزل اترپردیش کا وہ شہر ہے جسے ہم بریلی شریف کے نام سے جانے ہیں- جس کا نام سنتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں – [ماہنامہ اشرفیہ مارچ 2000 جشن شارح بخاری نمبر 27]
اور آگے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ انسان کی پہچان تین وقتوں میں ہوتی ہے (1)سفر۔ (2)معاملات اور (3)پڑوس میں ۔ مجھے عمرہ کے واسطے سے اور افریقہ کے دورے میں ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا – معاملات کے بھی کئ معاملے سامنے آئے اور دوران سفر ان کا پڑوس بھی ملا – بفضلہ تعالیٰ میں نے انہیں ہر مقام پر مفتی پایا، پر جگہ شریف دیکھا اور ہر موقع پر حق پایا –
حضور امین ملت کے یہ جملے بڑے معنیٰ خیز اور نکتہ آفرین ہیں، آپ نے شارح بخاری کے نام (مفتی شریف الحق) کو اپنے لفظوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال فرمایا ہے کہ نام بھی ادا ہوگیا اور معنویت میں کمی کیا آتی، معنویت میں تو چار چاندلگ گئے ۔
حضور رفیق ملت کی نظر میں:
اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب حضور احسن العلماء قدس سرہ کی وصال پر ملال کی اطلاع ملتے ہی فقیہ اعظم گھوسی سے دو بجے رات ہی میں روانہ ہو کر بھاگم بھاگ مارہرہ شریف پہنچے – اس غمزدہ ماحول میں جب کہ پوری فضا، خانقاہ کے درو بام اس عارف اسرار الٰہی کی رحلت پر ماتم کناں تھے – خاندان برکات کے شہزادے فقیہ اعظم کے اعزاز میں مصروف نظر آئے – حضور احسن العلماء کے عرس چہلم میں دیکھا گیا کہ فقیہ اعظم کے اعزاز کا وہی انداز برتا گیا جو حضور احسن العلماء کی حیات مبارکہ میں تھا – چلتے وقت نذر بھی پیش کی گئی تو فقیہ اعظم آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: مخدوم زادے! اس وقت تو آپ حضرات خود ہر صورت سے دلداری اور غمگسار کے مستحق ہیں از راہ کرم یہ تکلیف نہ فرمائیں – یہ سن کر حضور رفیق ملت (ابا حضور) رو پڑے اور بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا! اگر آپ کی خدمت میں ہم سے ذرا بھی کوتاہی ہو گئ تو والد ماجد علیہ الرحمہ کی روح ہم سے ناراض ہوگی –
شرف ملت کی نظر میں:
شرف ملت سید محمداشرف میاں صاحب فرماتے ہیں کہ : فقیہ اعظم ہندکئی اعتبار سے اعظم ہیں تمام اعظموں پر نظر رکھ کر اس فقیر برکاتی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجئے –
(1) مذہب اعظم، مشرب اعظم اور مسکن بھی اعظم ہے اور ان کا قلم بھی طاقتور ہے اور ان کا فن بھی اعظم ہے
(2) مفتی شریف الحق صاحب کے سارے حوالے ارفع ہیں چاہنے والا سواد اہل سنن بھی اعظم ہے
(3 ) صدر شریعت، حافظ ملت، احسن العلماء مفتی اعظم ۔ سارے بڑوں کو ہم نے ان پر خوب ہی مائل دیکھا ہے
(4) فیض شریعت فیض طریقت کیوں نہ ان سے جاری ہو
حب نبی میں ہم نے ان کو گھائل دیکھا ہے -
( بحوالہ خطاب ۳۰ جنوری ۲۰۰۰ مستان تالاب ممبئی )
مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوراً وہ کتاب لکھتے اور بصیرت انہیں چار واسطوں سے ملی تھی، حافظ ملت نے میدان تدریس میں، صدرالشریعہ نے فقہی، علامہ سید احسن العلماء اور مفتی اعظم نے خانقاہی؟ بصیرتیں عطا کیں تھیں اب وہ عالم بقا کو چلے گئے ان کا کوئی نعم البدل نظر نہیں آتا ہے -
سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے
تب جا کے اس انداز کا میخانہ بنا ہے
مشائخ مارہرہ کی طرف سے جو قددانی اور جو اعزاز اخیر لمحات حیات میں انہیں نصیب ہوا معاصرین میں کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا – ان آقاؤں کے ساتھ فقیہ اعظم کی والہانہ عقیدت اور خاندان برکات کی فقیہ اعظم کے ساتھ بے پناہ محبت و اعزاز کے دو آتشہ ہی کی سرمستی تھی کہ فقیہ اعظم کے وصال کی اطلاع ملتے ہی علالتوں کے باوجود برکاتی شہزادے بمبئی اور علی گڑھ سے فوراََ تشریف لے آئے اور فقیہ اعظم کا آخری سفر بھی انہیں مخدوم زادگان عالی وقار کے دست ہائے گرامی کے سہارے اختتام پزیر ہوا – عقیدتوں کی اس سے بڑھ کر سرفرازی اور کیا ہو سکتی ہے – وصال ایک عظیم حقیقت ہے مگر بڑے مبارک ہیں وہ نفوس قدسیہ جو مشیت کی طرف سے تفویض کردہ اپنے حصے کا کام مکمل کر جاتے ہیں اور حضور فقیہ اعظم اسی جماعت کے نمائندہ تھے وہ اپنے حصے کا کام ہر کام بحسن و خوبی مکمل کر کے دار الجزاء کی طرف روانہ ہو گئے فجزاہ اللہ عنا و عن جمیع المسلمين –