WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

تکبر ایک مہلک مرض ہے،، :✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ اتردیناجپور مغربی بنگال

  اللہ تعالی نے انسان کو جن نعمتوں سے مالامال کیا ہے  ان کے بدلے میں اگر انسان اللہ تعالی کا شکر بجا لائے  اور تحدیث نعمت کے طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کرے تو اللہ تعالی مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے

اللہ کریم کا ارشاد ہے
“لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ”
اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا (ابراہیم آیت 7)
لیکن اگر اللہ عزوجل کی دی ہوئی نعمت کو محض اپنی کاوشوں سے حاصل شدہ خیال کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے ظاہر کرے اور اپنے آپ کو اعلی سمجھے اور دوسروں کو حقیر تو یہی تکبر کہلاتا ہے ،تکبر ایک ایسا باطنی مرض ہے جس کو لاحق ہو جائے وہ ہلاک و برباد ہو جاتا ہے جس طرح معلم الملکوت (فرشتوں کے استاد) کامرتبہ پانے والے ابلیس نے تکبر کیا تو اپنے اعلیٰ ترین مقام ومنصب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا،
حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا:کہ تکبر کا علم سیکھنا اہم فرائض میں سے ہے (فتاویٰ رضویہ ج 23 ص 624 )
ذیل میں تکبر کی مذمت کے حوالے سے چند فرامین مصطفی ﷺ تحریر کیے جاتے ہیں ان کو گہری نگاہ سے پڑھئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ کہیں یہ مہلک بیماری ہمارے اندر تو نہیں پائ جاتی ہےاگر احساس ہو تو فوری طور پر صدق دل سے توبہ کیجۓ
(1) حضور پاک ﷺنے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث نمبر91)
(2) آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں (احیاء العلوم ج 3 ص 991 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
یعنی عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ان دونوں میں اس کا کوئ شریک نہیں
جس طرح کوئ شخص اپنی چادر اور تہبند جو کہ اس کا لباس ہوتا ہے اپنے علاوہ کسی غیر کو شریک نہیں کر سکتا
(3)سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا کہ بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار ﷻ کو بھول جائے ،بدتر ہے وہ شخص جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول جائے،بدتر ہے وہ شخص جو غافل ہو اور کھیل کود میں پڑا رہے اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہونے کو بھول جائے (احیاء العلوم ج 3 ص992 العلمیہ المدینہ دعوت اسلامی )
(4)مدینے والے آقا ﷺنے فرمایا ہر سخت مزاج اترا کر چلنے والا، متکبر ،خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جب کہ اہل جنت کمزور اور کم مال والے ہیں (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
(5) جو شخص اس فانی دنیا میں اپنی دولت، شہرت، اور عزت پر تکبر کرے گا تو اسے قیامت کے دن ذلیل و خوار کرکے اٹھایا جائے گا چنانچہ ہمارے پیارے آقاﷺ نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکل والی چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی،انہیں جہنم کے بولَس، نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ،انہیں ،،طینة الخبّال یعنی جہنمیوں کی پیپ ،،پلائی جائے گی (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں اور حدیثیں تکبر کی مذمت پر موجود ہیں جوکہ یہاں لکھنا ممکن نہیں
،اللہ تعالی ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب.. از ۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


آج کل ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مزارات مقدسہ پر جس طرح کے ایمان سوز میلے ٹھیلے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں ہمہ قسم کی دھما چوکڑی مچائ جاتی ہے علماء اہل سنّت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے میلوں پر جانے سے سختی سے روکیں یہ میلے ٹھیلے جہاں مزارات کی سخت بے حرمتی کا سبب ہیں انہیں سے اہل سنت کی بھی شدید بدنامی ہو رہی ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اور خطباء و مقررین کے قلم اور زبانیں اس سلسلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنے سے کیوں عاجز آگیے ہیں اس میں کوی شق نہیں کہ عرس کی محفل. منعقد کرنا شرعی طور پر ایک جائز کام ہے جس سے بہت سے دینی مصالح اور شرعی فوائد وابستہ ہیں لیکن عرسوں کے آڑ میں فواحش و منکرات کا بازار گرم کرنا جوا کھیلنا شراب پینا سرکسیں منعقد کرنا نیم عریاں عورتوں کا رقص کرنا کان پھاڑ نے والی آوازوں کے ساتھ سارے شہر میں گانوں کا گونجنا بدکاری حرام کاری کی دعوتوں کا عام ہونا کیا یہ بھی کوئ عرس کا حصہ ہیں؟ یا پھر عرس کے دنوں میں یہ گندے اور غلیظ کام جائز ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مزارات کے زیر سایہ ان تمام بدکاریوں کو دینی جواز فراہم کر دیا گیا ہے اور جاہل لوگ ان خبیث کاموں کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یہ میلے ٹھیلے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں غنڈے لوفر بدمعاش چور اچکے زانی قاتل ڈاکو لوطی مراثی جواری شرابی غرضیکہ دنیا بھر کے ذلیل ترین اور ننگ انسانیت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ان مقامات مقدسہ پر ہر وہ بدترین کام ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے جس سے اِنسانیت منھ چھپائے پھر تی ہے اور اسلام کا سرعام جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے _
مزید برآں ان میلوں ٹھیلوں کا مسلک اہل سنت کے سر تھوپنا بھی ایک جاہلانہ اور شیطانی حرکت ہے کیونکہ علماء اہل سنّت انہیں کل بھی حرام قرار دیتے تھے اور آج بھی حرام قرار دیتے ہیں ہم میلوں کی ان تمام غیر شرعی رسوم و روایات سے کلیتا بے زاری کا اعلان کرتے ہیں _ لیکن ناجائز کاموں کو دیکھ کر جائز کاموں کو بھی ناجائز قرار دے دینا بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے میلے ٹھیلے منعقد کرنا اگر عملی جہالت ہے تو عرسوں کو ناجائز قرار دینا علمی جہالت ہے لہذا مہر بانی فرما کر ناجائز سے روکیں اور جائز کو جائز رہنے دیجئے
خیر! آمدم برسر مطلب ان میلوں ٹھیلوں کا نہ تو دینی و شرعی جواز ہے اور نہ ہی قانونی و اخلاقی یہ چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے ہزاروں میلے ظلم ہی ظلم اور جرم ہی جرم ہیں ان سے رکنا اور روکنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے خاص طور پر علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ان اسلام کش اور دین دشمن میلوں کا خلاف برسر پیکار ہوجائیں اور اپنی تمام تر علمی و عملی توانائیوں کے ساتھ انہیں رکوا کر ہی دم لیں..
اگر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر اپنا یہ فرض ادا نہ کیا تو پھر وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لیے تیار ہو جائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلط کام کو دیکھے اور اس سے نہ روکے تو وہ گونگا شیطان ہے ہمارے بہت سے خطباء و مقررین جو علم سے کورے ہوتے ہیں اور فقط سُر گُر کی بنا پر عوام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیتے ہیں میلوں ٹھیلوں کا اس جرم میں وہ بھی برابر شریک ہیں کیونکہ وہی ان میلوں پہ جاکر تقریریں کرتے ہیں اور عوام کی صحیح تربیت کر نے کہ بجائے انہیں لطیفے چٹکلے سناتے ہیں نیز انہیں یہ حق ہی کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو وعظ سنائیں جبکہ ان کا وعظ سنا ہی شریعت میں حرام ہے وعظ کرنے کے لیے آدمی کا مستند عالم ہونا ضروری ہے جو نہ صرف یہ کہ شہاۃ العالمیہ پاس ہو بلکہ اس کے ساتھ علم دین پر کامل عبور بھی رکھتا ہو

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔{عرس مفتی اعظم ھند پر خصوصی تحریر}✍️ آصف جمیل امجدی

دوسری قسط

جب فتویٰ اصلاح کی غرض سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو امام احمد رضا نے خط پہچان لیا ۔ دریافت فرمایا کس نے دیا ہے ؟ لے جانے والے نے بتایا کہ چھوٹے میاں نے ( گھر میں لوگ پیار میں حضرت مفتی اعظم کو چھوٹے میاں کہتے تھے ) امام احمد رضا نے طلب فرمایا ۔ مفتی اعظم ہند خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ اعلی حضرت باغ باغ ہیں ۔ پیشانی اقدس پر بشاشت سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں ۔فرمایا اس پر دستخط کرو ۔ دستخط کروانے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہ نے صح الجواب بعون الله العزيز الوهاب لکھ کر اپنے دستخط فرماۓ ۔اس طرح اگر ایک طرف حضرت مفتی اعظم رضوی دارلافتاء کے مفتیان کرام پر سبقت لے گئے ۔ تو دوسری طرف امام احمد رضا بریلوی کی طرف سے فتوی نویسی کی باقاعدہ اجازت مل گئی ۔جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ اختر رضاخاں ازہری، مفتی اعظم کے فتاوی نویسی کے متعلق ارشادفرماتے ہیں:
”مفتی اعظم علم کے دریاۓ ذخار تھے ۔جزئیات حافظے سے بتادیتے تھے فتاوے قلم برداشتہ لکھ دیا کرتے تھے۔“ مولا نا مصطفی رضا خاں قادری اپنی بہت سی علمی وعملی خوبیوں میں امتیازی مقام و مرتبہ پر فائز ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک جامع کمالات شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی پوری زندگی ایک تحریک آفریں زندگی تھی۔ آپ ہر جگہ متحرک نظر آتے تھے ۔ ملت اسلامیہ کو جب بھی اپنی بقا اور تحفظ کی ضرورت درپیش ہوئی آپ اس کے تدارک کی ہرممکن سعی کرتے نظر آۓ ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم رقم طراز ہیں :
”۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کر عبادت وریاضت سے لے کر میدان کے ہنگاموں تک انہوں ( مولا نا مصطفی رضاخاں ) نے جو نمایاں خدمت انجام دیں ہیں ۔ رہتی دنیا تک ان خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ملک وملت سے متعلق ایسے ایسے مسائل پیش آۓ جسے سوچنے کے بعد آج بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ مگر جس جرأت اور مجاہدانہ عزیمت کے ساتھ مفتی اعظم نے اس کا مقابلہ کیا وہ تاریخ ہند کے اوراق پر زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس درویشانہ زندگی بسر کرنے والے شخص کا اس طرح میدان میں آ کر اسلام دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور پھر اعلائے کلمہ حق کر کے فتح و کامرانی سے ہمکنار ہونا بقول شیخ سعدی اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا
”ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نه بخشد خدائے بخشندہ“

مولا نا مصطفی رضا خاں نے اہل سنت و جماعت کے نظریات کی خوب خوب نشر و اشاعت کی اور اس کے لیے متعد تحریکات کا مقابلہ کیا اور نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس سلسلے کی چند تحریکات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں جس سے آپ کی سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

1911 ء میں امام احمد رضا بریلوی نے ”انصار الاسلام“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد حمایت خلافت و حفاظت سلطنت اسلامی تھی ۔ مظلومین تُرک کی اعانت کے لیے عملا اقدام کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا ۔ جماعت انصارالاسلام کے ناظم اعلی مولانا حسنین رضا ( برادرعم زادمولانا احمد رضا بریلوی ) تھے ۔ عالم شباب میں مولانا مصطفی رضا خاں اس کے خاص رکن تھے۔ 1920 ء میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ کا قیام عمل میں آیا ۔ فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقادی پیدا کرنے میں ”جماعت رضاۓ مصطفی“ نے مثالی اور موثر کام کیا ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں اس کے رکن رکین تھے ۔ اس جماعت کے ساتھ منسلک رہ کر مولانا نے اشاعت وتبلیغ اسلام اور تحریک آزادی کے سلسلےمیں اہم کردار ادا کیا۔ چناچہ 1343ھ/1924ٕٕ ٕ میں شردھانند کے فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا اور تبلیغی مشن میں مصروف رہے
اور مولا نا مصطفی رضا خاں نے فتنہ ارتداد کے دور میں پانچ لاکھ ہندٶں کو کلمہ پڑھاکر مسلمان کیا۔
1919 ء میں تحریک خلافت اور 1920 ء میں تحریک ترک موالات کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے تحفظ کی خاطر مولانا مصطفی رضا خاں اپنے والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی اور دوسرے ہمنوا علما کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ 1935 ء میں سکھوں نے انگریز حکام کی پشت پناہی میں لاہور کی مسجد شہید گنج کومسمار کر دیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ جگہ اور عمارت گورو دوارہ ہے ۔ مولا نا مصطفی رضا خاں نے اس ضمن میں ایک اہم فتوی دیا اور آپ نے دلائل شرعیہ سے ثابت کیا کہ اس تحریک میں حصہ لے کر مسلمانوں پر فرض ہے کہ مسجد کو سکھوں سے آزاد کرائیں ۔اس فتوی کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور انہوں نے دوبارہ اپنی اصل جگہ پر مسجد کی تعمیر کی ۔ 1938 ء میں آپ نے اشتراکیت کے فتنے کے خلاف موثر آواز بلند کی۔
1925ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کی داغ بیل پڑی۔مولا نا مصطفی رضا خاں اس کانفرنس کے مرکزی سر پرست تھے ۔ آپ کی سربراہی اور رہنمائی میں آل انڈیا سنی کانفرنس نے برصغیر کی سیاست میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا۔آل انڈیاستی کانفرنس کا ایک اہم اجلاس 1946 ء میں بنارس میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پانچ سومشائخ عظام ، سات ہزار علماء اور لاکھوں سے زائد عوام اہل سنت شریک ہوۓ ۔ یہ اجلاس قیام پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ نے اس اجلاس میں مرکزی کردار ادا کیا ۔
1960 ء میں حکومت ہند نے ایک وقف ایکٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے تدارک کے لیے 1961 ء میں دہلی میں آل انڈیاسنی اوقاف کانفرنس کا انعقاد مولانا مصطفی رضا خاں نے کیا ۔ اور حکومت پر ایسا دباؤ بنایا کہ بالآخر حکومت یہ بل واپس لینے پر مجبور ہوگئی ۔ اس طرح مذہبی ادارے اپنا اسلامی شخص بر قرار رکھ سکے۔
1920ء میں امام احمد رضا محدث بریلوی نے ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کی بنیاد ڈالی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تحر یک بھی حوادث روز گار کا شکارہ ہوتی گئی۔ 1963ء میں جبل پور میں ”کل ہند جماعت رضاۓ مصطفی“ کا مرکزی انتخاب عمل میں آیا ۔ اس طرح مولا نا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں جماعت رضاۓ مصطفی نے مسلمانان ہند کی مذہبی قومی اور اسلامی ضرورت کو پورا کر دیا۔
1963ء میں کان پور میں مولانا مصطفی رضا خاں کی سر پرستی میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانفرنس کا انعقادعمل میں آیا ۔ اس اجلاس میں تقریبا 4/لاکھ افراد نے شرکت کی اور یہ اعلان کیا گیا کہ آل انڈیاسنی جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی معتمد اور نمائندہ جماعت ہے ۔اور پر زور الفاظ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانان ہند کی دینی، تعلیمی، اقتصادی ، لسانی اور اوقاف کے تحفظ کی خاطر حکومت کوئی اقدام جلد از جلد اٹھاۓ۔
1977 ء میں ملک میں ایمرجینسی نافذ تھی اس دوران مسلمانان ہند کے لیے ایک بھیانک طوفان کا دور تھا ۔ حکومت کے حامی مفتیان نے نسبندی کے جواز کا حکم نافذ کر دیا ۔ ایسے پر آشوب ماحول میں مولا نامصطفی رضاخاں اپنے علمی وروحانی وقار سے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کھڑے ہوۓ ۔آپ نے بے با کی اور حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نسبندی کے عدم جواز کا حکم دیا۔ اس طرح مولا نامصطفی رضا خاں کی پوری زندگی ایک تحریک آمیز زندگی تھی ۔ آپ نے قدم قدم پر مسلمانوں کی صحیح رہنمائی فرماتے ہوۓ اسلام کے پر چم کو بلند رکھا۔(علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں۔}
jamilasif265@gmail.com
6306397662

حسن اخلاق کے فضائل و برکات، ،✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ،اتردیناجپور مغربی بنگال

       ’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’پسندیدہ عادتیں،اچھی خصلتیں،اچھابرتاؤ،اور ملنساری وغیرہ(فیروز اللغت) ‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔ 
           حسن اخلاق ایک ایسی پیاری اور اعلی خصلت ہے جس کی وجہ سے صاحب خصلت کو ہر معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج کے اس نفرت آمیز فضا میں حسن اخلاق کی ضرورت واہمیت اور بھی اشد ہوجاتی ہے، 
        ہر مسلمان کو حسن اخلاق کی دولت سے آراستہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے خصوصاً علمائے دین اور مبلغین حضرات کے لیے تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ باخلاق بن کر ہی دین کو پھیلانا ممکن ہے بداخلاقی ہمیشہ تبلیغ دین میں مضر ثابت ہوتی ہے 
    مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے بل بوتے پر نہیں بلکہ حسن اخلاق اور نرمی کی بدولت پھیلا ہے آج پوری دنیا میں جو ہمیں اسلام کا حسین گلشن لہلہاتا نظر آرہا ہے اس میں نبی اکرم نور مجسم ﷺکے اخلاق کریمہ اور آپ کی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے حسن اخلاق اور خوش گفتاری کا بہت بڑا عمل دخل ہے 
*حسن اخلاق کے فضائل احادیث کی روشنی میں*
           احادیث کریمہ میں حسن اخلاق کے فضائل کے متعلق بے شمار روایات پائے جاتے ہیں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں   
  حضرت سیدنا ابو داؤد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺنے ارشاد فرمایا:میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی (سنن ابی داؤد باب فی حسن الاخلاق الحدیث 4799)
        بندہ حسن اخلاق کے ذریعے اعلی مقام مرتبہ حاصل  کر سکتا ہے چنانچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا بندہ حسن اخلاق کی وجہ سے تہجد گزار اور سخت گرمی میں روزے کے سبب پیاسا رہنے والے کے درجہ کو پا لیتا ہے (مکارم الاخلاق صفحہ۱۶ لامام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفّٰی 360ھ) 

اسی صفحہ میں ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی رحمت شفیع امتﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تم میں سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبر نہ دوں،ہم نے عرض کی:کیوں نہیں_ فرمایا:وہ جو تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے
بااخلاق لوگوں کے درمیان صرف بہتر شخص ہی نہیں بلکہ افضل مومن بھی ہے
چنانچہ بارگاہ رسالت ﷺمیں عرض کی گئی:کہ یا رسول اللہ ﷺ أیّ المؤمنين افضل إيماناً یعنی باعتبار ایمان سب سے افضل مومن کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا أحسنهم خلقاً،یعنی جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں
(سنن ابن ماجہ باب ذکر الموت الحدیث 4259)
حسن اخلاق کے دنیاوی اور اخروی فوائد
حسن اخلاق کے گوناگوں دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں دنیاوی فوائد تو یہ ہیں کہ حسن اخلاق سے ہی لوگوں کے درمیان عزت مل سکتی ہے بداخلاق شخص کو لوگوں کے درمیان عزت ملنا ناممکن ہے،حسن اخلاق ہو تو دنیا عزت کی نظر سے دیکھتی ہے، اور تو اور بااخلاق آدمی اپنے کاروبار میں بھی بآسانی ترقی کر لیتا ہے مثلاً جب کوئ دکاندار اہنے گاہکوں (customers) سے خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے تو لوگوں کے دل اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی دکان کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس باخلاق شخص کی کاروبار ترقی ہوجاتی ہے
حسن اخلاق کے اخروی فوائد ملاحظہ کریں
آقاۓ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ قریب اچھے اخلاق والے ہونگے (احیاء العلوم ج 3ص 157)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم بارگاہ رسالت میں حاضر تھے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں پر جھکا ہوا ہے اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان ایک حجاب حائل ہے اس کا حسن اخلاق آیا اور اس نے اسے اللہ کے بارگاہ میں پہنچا دیا (احیاء العلوم ج 3ص 159)

اچھے اخلاق کس سے سیکھیں؟

   اس کا جواب اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا 

   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب 21)

 ترجمۂ کنز العرفان:
بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے
تاجدار رسالت ﷺ کے اخلاق کریمہ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہم آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ پر مکمل طور پر گامزن ہوجائیں تو یقیناً ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں گے
آئیےحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اخلاق حسنہ کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو کامل بنا کر ایک مکمل مسلمان بن جائیں
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟آپ نے کہا کہ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے یعنی گھر والوں کا کام کرتے تھے پھر جب نماز آجاتی تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے(مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص519 الحدیث5816)
اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضور انورﷺ کی بیرونی اور اندرونی زندگی کے حافظ ہونا چاہتے تھے اور امت تک پہنچانا چاہتے تھے اس لیے بیرونی زندگی شریف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے تھے اور اندرونی زندگی ازواج پاک سے خصوصاً ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (مراٰۃ المناجیح جلد ہفتم ص 71)
معلوم ہوا اپنے گھر کا کام کاج کرنا اور اپنی بیوی کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہمارے پیارے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت مبارکہ ہے،لیکن صد افسوس آج جب کوئی شخص اس سنت کو ادا کرتا ہے تو محلے کے لوگ اسے بیوی کا غلام یا مرید کہتے ہیں اللہ تعالی ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
حضورﷺ کا اپنے خادموں کے ساتھ حسن سلوک
ایک حدیث پاک میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبئ کریم رؤف الرحیم ﷺکی دس سال تک خدمت کی کبھی مجھ سے تف نہ فرمایا اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ یہ کہ کیوں نہ کیا (مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص 518 الحدیث 5801)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص خادم تھے آپ رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی اس وقت ان کے والد حضور انور ﷺکی خدمت میں لاۓ اور بولے ہم نے انہیں آپ کی خدمت میں وقف کر دیا،(مراۃالمناجح جلد ہفتم ص 62)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کم عمراور کم سمجھ کی وجہ سے قصور ہوتے تھے اور کبھی نقصان بھی ہو جاتا تھا مگر اس سراپا رحم و کرم نے ان کو کبھی جھڑکا نہیں اور ملامت کے طور پر یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کر دیا یہ کیوں چھوڑ دیا
مال داروں اور اہل ثروت کے لیے یہ سبق آموز حدیث شریف ہے انہیں بھی چاہیے کہ اپنے نوکروں اور خادموں کے ساتھ سختی اور غصے سے پیش آنے کے بجائے نرمی سے پیش آئے اور حسن سلوک کا معاملہ کرے
حضورﷺنے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا
کفار مکہ جو آپ علیہ السلام کے بہت بڑے دشمن تھے اور اتنے بڑے دشمن تھے کہ شاید کوئی ایسی تکلیف اور ظالمانہ برتاؤ باقی ہوگا جو آپ علیہ السلام کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتح مکہ کے دن جب انصار و مہاجرین تمام ظالموں کافروں کا محاصرہ کر لیا تو سب کے سب حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے سب کے جسم لرزہ بر اندام ہو رہے تھے اس وقت رحمت دو عالمﷺ نے ان تمام مجرموں کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا اور سب کو آزاد کردیا
یہ تھا حضور علیہ الصلاة والسلام کا اپنے گھر والوں، خادموں اور دشمنوں کے ساتھ حسن اخلاق،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کے حسن اخلاق کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

       

حضور مفتٸ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔[عرس مفتی اعظم ہند پر خصوصی تحریر] ✍️آصف جمیل امجدی،

(پہلی قسط)

۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں 22/ ذی الحجہ 1310 ھ / 7 / جولائی 1893ع میں بریلی شریف کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ آپ کا نام ”محمد“ رکھا گیا اور عرفی نام’’مصطفی رضا“ تجویز کیا گیا ۔ نوری تخلص تھا اور آپ ”مفتٸ اعظم ہند“ کے لقب سے مشہور ہوۓ۔ سلسلۂ نسب یوں ہے ۔محمد مصطفی رضا ابن امام احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی بن محمد اعظم بن سعادت یارخاں بن سعید اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
مفتی اعظم مولا نامصطفی رضا خاں کی تقریب بسم اللہ خوانی چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں ہوٸی۔ برادرا کبر مولانا حامد رضاخاں نے ناظرہ مکمل کرایا۔ مولانا شاہ رحم الہی صاحب، مولانا بشیراحمدعلی گڑھی ومولانا ظہور الحسین رامپوری وغیرہم سے درسیات کی تکمیل فرمائی ۔ اس کے بعد جملہ علوم وفنون والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی کی آغوش تربیت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ صرف ونحو ، تجوید ، ادب ، فلسفه ، این طریق منطق ، ریاضی علم جفر وتکسیر، علم توقیت وغیرہ جملہ علوم معقولات ومنقولات میں آپ یکتاے روز گار تھے۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں کی عمرابھی چھ ماہ کی تھی کہ مرشد کامل حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی سے والد ماجد نے بیعت کرادیا ۔ مرشد کامل نے بیعت کرنے کے بعد جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

آپ نے ایک طویل عرصے تک بیت وارادت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہندو پاک کے علاوہ حجاز مقدس ، مصر ، عراق ، برطانیہ ، افریقہ ، امریکہ ، ترکستان ، افغانستان وغیرہ کے بڑے بڑے علما مشاٸخ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے مریدوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی متجاوز تھی۔
درسیات سے فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں مند درس و تدریس کو آپ نے رونق بخشی اور تقریبا 30/سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے۔ برصغیر ہند و پاک کی درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالامال ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں نے 1365 ھ / 1946ء میں پہلا اور 1367ھ / 1948ء میں دوسرا ج کیا۔ 1391ھ / 1971 ء میں آپ نے تیسراحج کیا۔اس وقت حج کے لیے فوٹولازمی قرار پا چکا تھا ۔ آپ نے فوٹونہیں بنوایا ۔ حکومت ہند نے ان کے پاسپورٹ کو بغیر فوٹو کے جاری کردیا۔ اور یہ حج آپ نے بغیر فوٹو کے ادا کیا جو ایک تاریخی حج ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علم ظاہر و باطن کے دریاے ذخار تھے۔ آپ شریعت وطریقت کی روشن کتاب تھے۔ ولایت و کرامت کے ماہتاب اور علم وفضلیت ، طریقت و معرفت کا نیر درخشاں تھے۔ ان کے تبحر علمی اور فقہی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوۓ حضرت علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری رقم طراز ہیں:
”مفتی اعظم علم وفضل کے دریاے ذخار تھے۔ جزیات حافظے سے بتا دیتے تھے ۔ فتاوی قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے ۔ ان کا عمل ان کے علم کا آئینہ دارتھا ۔ ان کے عمل کو دیکھنے کے بعد اگر کتاب دیکھی جاتی تو اس میں وہی ملتا جو حضرت کا عمل ہوتا ۔ ہر معاملے میں حضرت کی راۓ اول اور مقدم ہوتی تھی اور جس علمی اشکال میں لوگ الجھ کر رہ جایا کرتے تھے وہ حضرت چٹکیوں میں حل فرمایا کرتے تھے۔“
حضرت مولانا عبدالحکیم شرف قادری کے یہ تاثرات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
” علم وفضل ، زہد وتقوی حق گوئی و بےبا کی ، فقاہت وعلمیت اور معرفت و کرامت میں اس وقت پوری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اہل سنت کے لیے مفتی اعظم کی ذات مقدسہ سایۂ رحمت تھی ۔۔۔ مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ کے علم وفضل زہد وتقوی اورفقہی بصیرت کا کوئی ثانی نہیں۔“
حضور مفتی اعظم ہند جہاں درس نظامی کے ماہر تھے ۔ وہیں قراءت وتجوید ، ادب وفلسفہ منطق و ریاضی اور دیگر علوم وفنون میں بھی یدطولی رکھتے تھے ۔ علم جفر و تکسیر، علم توقیت اور فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔
1328ھ/ 1910 ء میں جب حضرت مولا نا مصطفی رضا خاں کی عمر مبارک 18/سال تھی آپ کسی کام سے رضوی دارالافتاء میں پہنچے تو وہاں ملک العلما مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اور مولانا سید عبدالرشید عظیم آبادی فتوی لکھنے کے لیے رضاعت کے کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ بات کچھ الجھی تو ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری اٹھے تا کہ الماری سے فتاوی رضویہ نکال کر اس سے روشنی حاصل کریں ۔ حضرت مفتی اعظم نےفرمایا:
”نوعمری کا زمانہ تھا ۔ میں نے کہا ! فتاوی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ؟ مولانا نے فرمایا ! ”اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دوتو جانوں“ میں نے فوراً لکھ دیا ۔ وہ رضاعت کا مسئلہ تھا۔“(حوالہ علماۓ اہل سنت کی علمٕ و ادبی خدمات)۔
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
6306397662

مختصر سوانح حیات تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ–از تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت ،،خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ
“اسمِ گرامی” تاجدار اہل سنت شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا پیدائشی اور اصلی نام محمد ہے۔ والد ماجد نے عرفی نام مصطفٰی رضا رکھا۔فنِ شاعری میں آپ اپنا تخلص”نوری” فرماتے تھے۔
القاب۔ مفتیِ اعظم ہند ہے۔
آپ امامِ اہلسنت مجددین وملت شیخ الاسلام امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔
:تاریخِ ولادت: حضور مفتی اعظم قدس سرہ 22/ذی الحجہ 1310ھ 7/جولائی 1893ء بروز جمعہ بوقتِ صبح صادق دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی جائے ولادت محلہ رضا نگر، سوداگران شہر بریلی شریف ، یوپی انڈیا ہے۔ :تحصیلِ علم: حضرت مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اصل تربیت تو اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہٗ سے پائی۔ علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے کی۔
“تصنیف وتالیف” اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا آپ کی تحریروں میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قد سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔امام غزالی کی نکتہ سنجی ،امام رازی کی دقت نظر اور امام سیوطی کی وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ
“علوم وفنون” بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔
(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔
“بیعت و خلافت” 25 جمادی الثانی 1311ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سید المشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داخلِ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
:مرشد کامل کی بشارت: سید المشائخ نے حضرت مفتیِ اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا:”یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا۔ اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے ۔ یہ فیض کا دریا بہائےگا”۔
“پابند شریعت” حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شریعت پر اتباع کا خاص اہتمام فرماتے ۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی احکام پر عمل کی تنبیہ فرماتے بایں وجہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا احکام شرع کا پابند ہوجاتا اور نمازوں کا اہتمام بھی کرنے لگتا۔حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور مفتی اعظم قدس سرہ اس سے متصف تھے اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھے اور اپنی حیات طیبہ سے اسی کا درس بھی دیا۔ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی تحریر فرماتے ہیں :’’حضور مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کے عالی کردار ، بلند اخلاق ، علمی بصیرت ، جودت طبع ، حسن حافظہ، خدمت دینی کے واقعات کثرت سے ہیں اور ان امور میں آپ یگانۂ روز گار تھے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کی محافظت میں نمایاں خصوصیت کے حامل تھے، اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، خدمت خلق آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کا نپور ، مفتی اعظم نمبر مئی ۱۹۸۳ء ، ص۱۶۷)
“سیرتِ مبارکہ” اسلام کا وہ بطل جلیل اور استقامت کا جبل عظیم جس کے جہاد بالقلم نے دینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری فرمائی۔ جس کی نگاہ کیمیا اثر نے لاکھوں گم گشتگان راہ کو جادۂ حق سے ہم کنار کیا۔ جس کے درکی جبیں سائی وقت کے بڑے بڑے مسند نشینوں نے کی۔جس کے ناخن ِادراک میں لا ینحل مسائل کا حل تھا۔ جو بیک وقت علم ظاہر و باطن کا ایسا سنگم تھا جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی و آسودگی کی دولتِ گراں مایہ ملتی تھی۔ جو رسول پاک ﷺ کا سچا نائب، تصدیق حق میں صدیقِ اکبر کا پرتو، باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر، باطل شکنی میں حیدری شمشیر۔ جس میں امام اعظم ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف اور مولائے روم کا سوز و گداز تھا۔
جو علم و فضل میں شہرۂ آفاق، معقولات میں بحر ذخار، منقولات میں دریاے ناپیدار کنار، فقہ روایت میں امیر المومنین اور سلطنت قرآن و حدیث کا مسلم الثبوت وزیر المجتہدین، اعلم العلما عند العلماء، افقہ الفقہا عند الفقہا، قطب عالم علی لسان الاولیاء، فانی فی اللہ، باقی باللہ عاشقِ کاملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مولانا الشاہ الحاج محمد ابو البرکات محی الدین جیلانی محمد مصطفی رضا قادری قدس سرہ جسے دنیا تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم کے نام نامی اسمِ گرامی سے یاد کرتی ہے۔
“وصال باکمال” اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 14/محرم الحرام 1402ھ، بمطابق 12 نومبر 1981ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جنگ آزادی میں علمائے اہل سنت کا نمایاں کردار،،، از :(مولانا) حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج :- دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف باڑمیر راجستھان

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصۂ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیونکہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنےدل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ،اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جزبۂ صادقہ پیدا کیا۔

       مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا ،چنانچہ اس وقت عالمی سطح پر  ہندوستان  نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا ء حاصل کی  اس شہرت و مقبولیت  اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا  اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ  اور شور بلند ہوا  ،اس خاکِ ہند کو افلاک  کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔ہندوستان کی بد نصیبی کہ ۱۸۵۷ ؁ءمیں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ  گیا اور  سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ  بہادر شاہ ظفر کو تختِ ہند سے اتار دیا گیا،سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد  انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے ،پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال "ایسٹ انڈیا کمپنی "کے ذریعہ تجارت کے بہانے سونے کی چڑیا کہے جانے والے بھارت کو لوٹنا شروع کیا ،دھیرے دھیرے  ؁۱۸۵۷ء تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ،ان کم ظرفوں نے  صرف اسی پر بس نہیں کیا  بلکہ ہند کی  حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ  طور پر قبضہ کر لیا اس طرح وطن عزیز تن کے گورے من کے  کالوں (انگریزوں )کے قبضے میں چلی گئی،اور  پھر ملک میں تباہی و بربادی کا تہلکا مچ گیا ، چاروں جانب ظلم کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے  ،جبروتشدد اور وحشت و بربریت  کا حولناک و دہشت انگیز مظاہرہ کیا جانے  لگا ، پورے ملک میں قبرستان  جیسا سنّاٹا چھا گیا ، حد تو یہ ہے کہ  مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا (العیاذ باللہ )فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیں ،اور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا  اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باشی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و آبرو اور جائیداد وغیرہ  کی حفاظت و صیانت  ہو سکے ۔بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اور فریاد اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پہنچ ہی گئی اور علمائے  ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل  ہوئی چنانچہ بطل حریت  علامہ فضل حق خیرا بادی نے فتویٰ لکھا کہ” انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا "اس فتویٰ پر وقت کے  اکابر علمائے کرام  و مشائخ ذوی  الاحترام نے دستخط فرمائے، علامہ فضل حق خیرابادی  اور ان کے ہمنواؤں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی ۔علمائے کرام کے ساتھ  عام مسلمانوں نے بھی  اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا ۔     اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ،اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ،اس وقت کے ان تمام جاں باز علماء نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر کہیں ۱۵  اگست ؁۱۹۴۷ءکو ہند وستان کو آزادی ملی ۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے ،جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے  میدان میں نکل آئے ،انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرۂ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے، نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا  ،لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیا ،اور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش  کردیئے گئے ۔

اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کیا، جنگِ آزادی میں جن علمائے کرام نے نمایاں کردار پیش کیا ان میں حضرت علامہ فضلِ حق خیرابادی رحمة اللہ علیہ ،حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی،حضرت مفتی صدر الدین آزردہ ،مولانا لیاقت اللہ الہ ٰ بادی ،مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہے

علّامہ فضلِ حق خیرا بادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کی فکری دور کا آغاز اس وقت کیاجب آپ لکھنؤ میں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے ،ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے ابھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ،اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی آخر کار ۱۸۷۸؁ھ مطابق ؁۱۸۶۱ء میں یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

فنا کے بعد بھی باقی ہے،شان رہبری تیری

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیرِ کارواں تجھ پر

شہدائے اسلام قرآن و احادیث کی روشنی میں،از۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملتمسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


مسلمان کا مقصدِ حقیقی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے اور جس کو اللہ کی رضا حاصل ہو جائے، اس کا دارین میں بیڑا پار ہے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ شہادت ہے، احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں، شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے، بلکہ اس کے سوا شہادت کی بہت ساری صورتیں ہیں:مثلاً سواری سے گر کر یا مِرگی سے مرا، کسی درندے نے پھاڑ کھایا، وغیرہ
شہید کی تین قسمیں ہیں
شہید حقیقی،شہید فقہی،اور شہید حکمی جواللہ کی راہ میں قتل کیا جاۓ وہ شہیدی حقیقی ہے۔ اور شہید فقہی اسے کہتے ہيں کہ عاقل بالغ مسلمان جس پر غسل فرض نہ ہو وہ تلوار و بندوق وغیرہ آلٸہ جارحہ سے ظلماً قتل کیا جاۓ اور قتل کے سبب مال نہ واجب ہوا ہو۔ اور نہ زخمی ہونے کے بعد کوئی فاٸدہ دنیا سے حاصل کیاہو۔ اور نہ زندوں کے احکام میں سے کوئی حکم اس پر ثابت ہواہو ۔ یعنی اگر پاگل ، نابالغ یا حیض و نفاس والی عورتیں اور جنب شہید کئے جایٸں تو وہ شہید فقہی نہیں۔ اور اگر قتل سے مال واجب ہوا ہو جیسے لاٹھی سے مارا گیا یا قتل خطا کہ مار رہا تھا شکار کو اور لگ گیا کسی مسلمان کو ۔ یا زخمی ہونے کے بعد کھایا، پیا، علاج کیا، نماز کا پورا وقت ہوش میں گزرا اور وہ نماز پر قادر تھا یا کسی بات کی وصیت کی تو وہ شہید فقہی نہیں اور شہید حکمی وہ ہے کہ ظلماً نہیں قتل کیا گیا مگر قیامت کے دن وہ شہیدوں کے گروہ میں اٹھایا جائے گا، حدیث شریف میں ہے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدائے تعالی کی راہ میں شہید کئے جانے کے علاوہ سات شہادتیں اور ہیں۔جو طاعون میں مرے شہید ہے۔ جو ڈوب کر مرجاۓ شہید ہے ۔ جو ذات الجنب نمونیہ میں مرجاۓ شہید ہے۔جو پیٹ کی بیماری میں مرجاۓ شہید ہے۔ جو آگ میں جل جاۓ شہید ہے۔ جو عمارت کے نیچے دب کر مرجاۓ وہ شہید ہے۔ اور جو عورت بچہ کی پیداٸش کے وقت مرجاۓ وہ بھی شہید ہے
(مشکواة شریف صفحہ 136)
اس حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ شہادت جو کہ ایک عظیمُ الشّان منصب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں حاصل ہوتا ہے ، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے مَوسُوم کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کو شہادتِ حُکمیہ کہا جاتا ہے۔
شہداء کرام زندہ ہیں
اللہ تعالی کا فرمان ہے :اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( الطبرانی)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ پاک اس سے فرمائے گا اے ابن آدم! تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گااے میرے رب! بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ پاک فرمائے گا تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔ (سنن نسائی ، کتاب الجہاد،)
مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم میں شہید کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔

معرکہ کربلا مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے،،، تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور،مغربی بنگال

         ہر دور میں حق وباطل کے درمیان بڑی بڑی جنگیں واقع ہوئ ہیں اور تاریخ شاہد  ہے کہ ہر جنگ میں کامیابی و کامرانی حق کو ہی حاصل ہوئی ہے اور باطل ہر زمانے میں ذلیل و خوار ہوا ہے جیسا کہ ابلیس، فرعون اور نمرود وغیرہ پر آج بھی لعنتیں بھیجی جاتی ہیں،ان ہی معرکوں میں سے  ایک‌ عظیم معرکہ میدانِ کربلا  ہے جہاں حق و باطل اور خیر و شر کی ایک ایسی لڑائی ہوئی کہ آج بھی باطل کو یزیدیت اور حق کو حسینیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے ،جنگِ کربلا مسلمانوں کے لئے درسِ عبرت ہے محض محرّم کے مہینے میں محفل امام حسین کا انعقاد کرنا ،سبیل ،شربت، نیاز ،غریبوں اور مسکینوں  کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا، اگرچہ کار ثواب ہے لیکن محبت کی اصل دلیل نہیں ہے  بلکہ امام حسین اور شہدائے کربلا کے تعلیمات پر عمل پیرا ہونا یہ محبت کی اصل دلیل ہے ،امام عالی مقام  حسین ابن  علی رضی اللہ عنہما  نے جو دین اسلام کے لیے اپنے گھر والوں اور دوست و احباب کی قربانی دے دی اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے 

(1) دین اسلام اور شریعت پر جب بھی کوئی حملہ کرے تو ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر نہ بیٹھنا بلکہ دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سربلندی کے لئے ہر جائز کوشش کرنا
(2) جب دین کی حفاظت کے لیے اپنے گھر والوں دوست و احباب بلکہ اپنی جان کو بھی راہ خدا میں قربان کرنا پڑے تو الٹے قدم نہ آنا ،کیونکہ امام حسین نے تو اپنے چھ ماہ بچے حضرت علی اصغر کو بھی راہ خدا میں پیش کر دیا ۔
(3) اگر اس مختصر سی دنیا میں اپنے اوپر ہزاروں مصائب و آلام اور تکالیف آ پڑے تب بھی احکام شریعت کو ترک نہ کرنا بلکہ ان پر عمل کر کے خدا کا شکر بجالانا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشکل گھڑی میں بھی نماز تو نماز جماعت کو بھی بلکہ سنن و مستحبات کو بھی ترک نہ کیا بلکہ آخری وقت میں جب کہ آپ کا جسم اطہر خون سے تر بتر تھا اس وقت بھی آپ نے اپنے رب کے حضور سجدہ کیا،اور آج وہ لوگ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے اور ان کا نعرہ لگاتے ہیں ہفتہ مہینہ بلکہ سال گزر جاتا ہے اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں،اللہ ایسے مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ،آمین
(4) جب بھی شریعت مصطفوی پر حملہ ہو تو یہ کہہ کر احساس کمتری کا شکار مت ہونا کہ ہماری تعداد مٹھی بھر ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا،کیونکہ میدان کربلا میں جہاں دشمنوں کی تعداد ہزاروں کی تھی وہیں ایمان والے صرف بہتر تھے ،یہ حضرات دشمنوں کی بھاری تعداد کو دیکھ کر رمق برابر بھی پیچھے نہ ہٹیں اور نہ خوفزدہ ہوئیں بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل یقین کر کے آخری سانس تک لڑیں،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ،”بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئ ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے”
(سورة البقرہ الآیت 249)
(5) یہ سب سے اہم درس ہے کہ کبھی بھی اقتدار، مال ودولت اور شہرت کے لیے اپنے ایمان کو مت بیچنا، جب یزید پلید نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اقتدار، مال و دولت اور شہرت کی لالچ دینے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے دو تو آپ نے کہا تھا کہ حسین سر تو دے سکتا ہے لیکن اپنا ہاتھ کبھی نہیں دے سکتا،

سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

یہی وجہ ہے کہ آپ نے جب دنیاوی بادشاہت کو ٹھوکر ماری تو اللہ تعالی نے آپ کو ایسی دائمی بادشاہت عطا کردی کہ قیامت تک ہر مسلمان یہی کہے گا جو بات ہند کے بادشاہ میرے خواجہ علیہ رحمۃ نے کہی تھی :

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دیں است حسین، دیں پناہ است حسین