WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

Eulogy of Ghause Azam–By: Sayed khadime Rasul Aini

Greatest arbitrator our Ghause Azam
The truth propagator our Ghause Azam

He is flourishing like flower of the heaven
Progeny of Haider our Ghause Azam

He quenches the thirst of many many people
The soul heart nourisher our Ghause Azam

He converted many dacoits to wise saints
The greatest creditor our Ghause Azam

He was enabled to see the world even
In the womb of mother,our Ghause Azam

Do not fearful! disciples of master
Saver and rescuer our Ghause Azam

Followers are eligible for heaven
“Aini “great leader our Ghause Azam
………………
By: Sayed khadime Rasul Aini

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم–از: سید خادم رسول عینی

صرف اک طبقے کے ہوں جو ، وہ ، نبی ایسے نہیں
امت شہ جو نہ ہوں ، ایسے کہیں بندے نہیں

وصف ایسا کس میں ہے اپنے پیمبر کے سوا
“مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں “

اس میں کیسے چمکیں ایماں کی شعاعیں بولیے
جس کے دل میں حب شاہ دین کے شیشے نہیں

سر کے اوپر گر رہے دست کرم سرکار کا
ہے یہ نا ممکن کہ پتھر ظلم کا سرکے نہیں

وہ پرندہ ہو کہ ہو گل ، جن ہو یا قدسی ، بشر
کس کے لب پر مصطفیٰ کی مدح کے نغمے نہیں

سوئے شہر یاد شاہ طیبہ جو ہر دم چلے
خوب چمکے وہ نصیبہ اور کبھی سوئے نہیں

نعتیہ اشعار کی تنویر سے شرمائے چاند
کون کہتا ہے کہ میرے پاس سرمائے نہیں

جس کنویں میں ڈال دیں اپنا لعاب پاک وہ
اس کا شیریں پن کبھی بھی دہر میں بگڑے نہیں

جس میں کلیاں الفت شاہ مدینہ کی کھلیں
کوئی پھول ایسے چمن کا “عینی” مرجھائے نہیں
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ایک دلچسپ مکالمہ۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔

بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:

“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “

بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:

“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔

بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس‌ کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام‌ بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)

دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)

معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔

میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :

“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”

میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:

مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے

نظم کا‌ معاملہ نثر سے جدا ہے ۔

تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔

نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔

تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو

اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔

تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے ‌کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔

تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔

تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔ ‌

تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔

مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم

لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔

ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :

محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ

تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔

پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔

حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح‌ غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک–از:- محمد کہف الوری مصباحی

گلوں میں آج آ گئی ہے رنگت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رتوں میں بھی آ گئی ہے زینت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

لبوں پہ ان کا ہی تذکرہ ہے ہر ایک خوش دل یہ کہ رہا ہے

دلوں میں آج آ گئی ہے راحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

زمیں یہ شاداب ہو گئی ہے سما کی رونق بھی بڑھ گئی ہے

فضاؤں میں آ گئی ہے فرحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

انہیں سے گلزار نور مہکے انہیں سے مہتاب و خور چمکے

ستاروں میں آ گئی ہے طلعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رضائے مولی کے در کھلے ہیں عطا و بخشش کے سلسلے ہیں

جہاں کو ملتی ہے جن سے نعمت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

مسرتوں میں ہیں لاکھوں لذت ہر ایک لذت میں ان کی جلوت

ہے جلوتوں میں بھی جن کی لمعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

یگانہ گلشن یگانہ گل ہیں حسیں چمن میں حسین کل ہیں

ہر ایک نے جن سے پائی نکہت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

اسیر ان کا ہر اک یہاں پر خلوص کی ڈالیاں سجا کر

چلا ہے جن کی وہ کرنے مدحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

نہ ثانی ان کا نہ کوئی ہم سر بیان کیا کیا کرے یہ ازہر

ہے جن کے قدموں میں شان و شوکت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل نیپال

نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال

قوم بے حس ترے کردار پہ رونا آیا—از:- محمد کہف الوری مصباحی

فضول باتیں کرو نہ ہم سے ہمارا بھیجا پکا ہوا ہے

سوال بے جا کی سوزشوں سے دماغ میرا تپا ہوا ہے

جہالتوں کی ہے مارا ماری علوم سے اب کسے ہے یاری

جدھر بھی دیکھو گلی گلی میں فتن کا میلہ لگا ہوا ہے

مخالفت کے شرارے دل میں موافقت کے ڈھکوسلے ہیں

لباس رہبر میں آج رہزن سماج سیوک بنا ہوا ہے

بہار تنقید کی جوانی پہ بوکھلوں نے ہے پھیرا پانی

پڑھا تھا جن سے’الف’ ‘با’ ‘عم’ انہیں کا ابا بنا ہوا ہے

بڑا مہذب خلیق اعظم سخن چیں یوں کہ فدا ہو عالم

زباں پہ اللہ چھری بغل میں کسے خبر یہ بکا ہوا ہے

زبانی دعوائے اعتدالی لبوں پہ ان کے حسین گالی

کسے بتائیں ہم ان کے نخرے گلے پہ چاقو دھرا ہوا ہے

بتائے سب کو بڑا فسادی کسی کو حاسد کھلا عنادی

صلاح دیتا ہے سب کو علمی جہل کا امرت پیا ہوا ہے

زنانی زلفیں گھنیراسرمہ ولی کی صف میں کھڑا بے دھرما

دھرم کو سنکٹ ہوا ہے جس سے وہی تو اگوا بنا ہوا ہے

شرافتوں کے ہیں جبے قبے زباں پہ سیٹھوں کے لمبے خطبے

شرارتوں کا وہ ہے مجسم شریف لیبل لگا ہوا ہے

ملی جو پیری جناب والا خزانوں کا کھل گیا ہے تالا

بنا کے چیلہ امیروں کو خود مرید ان کا بنا ہوا ہے

موالی غنڈوں کا بھی ہے دادا مرید کم ہیں مریدہ زیادہ

کسی نے مانگا نہ منہ سے پانی مرا جو اس کا ڈسا ہوا ہے

خلافت ان کی سراپا آفت سراپا ان کا سراپا زحمت

فریب کو وہ کہے کرامت خرافتوں میں گھرا ہوا ہے

بنا مدرسوں کا ناظم الہڑ نظام گھٹیا پڑھائی گڑ بڑ

خبر نہیں ہے مدرسوں کی صدر مدرس بنا ہوا ہے

حکیم ہے حکمتوں سے خالی دوائیں اس کی بڑی نرالی

کھرل میں کوٹے وہ گھاس بھوساکہے یہ نسخہ جچا ہوا ہے

ہمہ کارہا کے حوصلے ہیں فقط دکھاوے کے چونچلے ہیں

ترقی ان کی ثری میں پہنچی بلند پرچم کیا ہوا ہے

ہر ایک شعبے میں ہے ملاوٹ اندھیر نگری ہے راج چوپٹ

ہر ایک ٹیچر پھٹیچروں کے ستم کا دھندا بنا ہوا ہے

بہت نا ہانکو تعلی ازہر کہانی تیری ہے سب کو ازبر

ذرا سا تاکو تم اپنے اندر گریباں تیرا پھٹا ہوا ہے

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپال

موبائل نمبر:-9779814516787+

حضرت شیر اہل سنت کے ساٹھ سالہ یوم ولادت کے پر مسرت موقع پر سید خادم رسول عینی ناظم نشر و اشاعت خانقاہ قدوسیہ کی جانب سے عظیم منظوم پیش کش ——

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

مبارک ہو بلند اقبال کا یوم ولادت ہے

ہے جس کی زندگانی پر ہمیشہ غوث کا سایہ

اک ایسے عاشق ابدال کا یوم ولادت ہے

غریبوں بے سہاروں کا رہا حامی جو بچپن سے

اک ایسے ماحیء اشکال کا یوم ولادت ہے

نہیں لاتا ہے جو خاطر میں غم کو اور حوادث کو

مبارک ہو کہ اس خوش حال کا یوم ولادت ہے

بنائی خانقاہ خیر جس نے خوب محنت سے

اک ایسے صاحب افعال کا یوم ولادت ہے

بھلائی کی بقا کے واسطے آواز اٹھائی ہے

ہے نازک جس سے شر کا حال کا یوم ولادت ہے

وہ جس کے قول پر دانائی کو ہے فخر اے عینی

خوشا کہ ایسے خوش اقوال کا یوم ولادت ہے

نعت محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کے روضے کی دید پائی ہے

بدلی خوش قسمتی کی چھائی ہے

میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر

“جان عیسیٰ تری دہائی ہے”

فخر کرتے نہیں نبی ، گرچہ

منسلک ان سے ہر بڑائی ہے

لائے تشریف جان امن‌ و اماں

اب کہاں ظلم کی رہائی ہے؟

اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں

کس قدر عام بے حیائی ہے

یا نبی کیجیے کرم کی سحر

رات پھر زندگی میں آئی ہے

ان کی یادوں میں رہتا ہوں مسرور

اک عجب لذت جدائی ہے

یہ ہے دربار شاہ ، اور یہاں

بھید بھاؤ کی کب رسائی ہے؟

نور سے ہوگئی فضا معمور

نعت ” عینی ” نے جب سنائی ہے

از: سید خادم رسول عینی

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست:- نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست

بے شک برائے عظمت ہے لازمی سیاست

مکر و فریب سے گر ہے قوم کو بچانا

بہر دفاع امت ہے لازمی سیاست

تعلیم و معیشت کا بحران دور ہوگا

کرنی ہے گر تجارت ہے لازمی سیاست

اب اس جہاں میں کوئی نہ کام تیرا ہوگا

گر ہے عمل سے رغبت ہے لازمی سیاست

فرش زمیں پہ ظالم کی حکمرانی کیوں ہے؟

کرنے کو اب بغاوت ہے لازمی سیاست

رہبر کی کرسیوں پر قبضہ ہے رہزنوں کا

کرنی ہے گر حفاظت ہے لازمی سیاست

تیرا وقار و شہرہ ہے مٹ گیا جہاں سے

بہر حصول شہرت ہے لازمی سیاست

یوں قوم کیوں جہاں سے ہے خوف زدہ ازہر

بہر بحال سطوت ہے لازمی سیاست

نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپالنگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپالموبائل نمبر+9779814516787

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں–محمد کہف الوری مصباحی،

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں

وہی جو خدا نے کہا لکھ رہا ہوں

عقیدے لکھے ہیں جو قرآن میں میں

انہیں کو یہاں باخدا لکھ رہا ہوں

وہی رحمت کل جہاں ہیں یقیناً

بفضل خدا باخدا لکھ رہا ہوں

وہی غیب داں ہیں خدا کی عطا سے

خدا بھی نہ ان سے چھپا لکھ رہا ہوں

خدا نے کہا ہے سلام ان پہ بھیجو

فرشتوں کی ہے یہ ادا لکھ رہا ہوں

خدا نے بنایا انہیں نور عالم

بشر ان کو نوری کیا لکھ رہا ہوں

خدا نے کیا ان کا چرچا جہاں میں

انہیں ارفع اعلی کیا لکھ رہا ہوں

خدا ان کی مرضی عطا یوں کرے کہ

فترضی کو اس کی رضا لکھ رہا ہوں

انہیں کی رضا سے ہوا کعبہ قبلہ

زہے کعبہ تجھ پہ فدا لکھ رہا ہوں

وہی یٰسیں طٰہٰ وہی والضحٰی ہیں

انہیں نجم اسریٰ پڑھا لکھ رہا ہوں

کریں کیوں نہ تعظیم ہم مصطفٰی کی

یہی حکم رب نے دیا لکھ رہا ہوں

شفاعت کرے جو قیامت میں سب کی

اسے شافع کل وریٰ لکھ رہا ہوں

وسیلہ گناہوں کی بخشش کا ان کو

خدا نے کیا ہے کیا لکھ رہا ہوں

مقام ستائش پہ تم جلوہ گر ہو

تمہیں حمد کا سلسلہ لکھ رہا ہوں

عنایت ہوئی کثرت خیر تم کو

تمہیں کو میں خیرالوری لکھ رہا ہوں

وہ روکیں تو رکنا وہ دیں کچھ تو لینا

خدا کا اسے فیصلہ لکھ رہا ہوں

کرو نہ کبھی ان سے آواز اونچی

یہ لاترفعوا میں ملا لکھ رہا ہوں

پکارو نبی کو نہ تم اپنے جیسا

منع رب نے اس سے کیا لکھ رہا ہوں

کلام الہی سے جلوہ نبی کا

بیاں مجھ سے جو ہو سکا لکھ رہا ہوں

کمال نبی اب حدیثوں میں دیکھو

سنو ان کا میں معجزہ لکھ رہا ہوں

بہے چشمے انگلی سے، آب دہن سے

کنواں کھارا میٹھا ہوا لکھ رہا ہوں

کمال لعاب دہن ان کا دیکھو

جڑا پیر ٹوٹا ہوا لکھ رہا ہوں

لٹکتی ہوئی آنکھ کو مصطفی نے

دوبارہ دیا ہے جلا لکھ رہا ہوں

نمازوں میں یاد ان کی ہے شرک کیسے

نمازوں کو ان کی ادا لکھ رہا ہوں

نمازی کو گر وہ بلائیں کہ آجا

تو فوراً حضوری کو جا لکھ رہا ہوں

نمازی ہی کیا جب شجر کو بلایا

تو فوراً وہ حاضر ہوا لکھ رہا ہوں

شجر کیا انہوں نے کہا جو قمر کو

تو ٹکڑے ہوا برملا لکھ رہا ہوں

قمر ہی نہیں بلکہ سورج بھی ان کے

اشارے پہ الٹا چلا لکھ رہا ہوں

زمیں کیا فلک کیا،زماں کیا ملک کیا

سبھی کو میں ان کا گدا لکھ رہا ہوں

مریضوں کو کر دو ہوا کے رخوں پر

ہوا پہ درود شفا لکھ رہا ہوں

جو پوچھو کہ نعت نبی کس سے سیکھی

سنو! نام احمد رضا لکھ رہا ہوں

خموش ہو گیا ان کو یہ کہ کے ازہر

بڑا سب سے بعد خدا لکھ رہا ہوں

*محمد کہف الوری مصباحی، نائب صدر لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال،نگران اعلی: فروغ اردو زبان تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال،موبائل نمبر:-9779814516787+

حجۃالاسلام کی نعتیہ شاعری۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی۔

۔اعلیٰ حضرت کے خلف اکبر، مجاہد ملت کے مرشد خلافت حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی سیدی حامد رضا علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین، مفتیء شرع متین ، فقیہ اسلام ، مناظر اہل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم‌ ادیب اور باکمال شاعر بھی تھے۔آپ نے حمد، نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں جنھیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور قلب کو قرار ملتا ہے۔حجۃ الاسلام کی نعتیہ شاعری میں فصاحت و بلاغت کا حسن ہے تو تشبیہات و استعارات کی رعنائی بھی۔ الفاظ و محاورات کا جمال ہے تو صنایع و بدائع کی خوب صورتی بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام دیگر شعرا کے کلام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔”معارف رضا “میں سرکار حجۃالاسلام کا ایک نعتیہ کلام نظر سے گزرا۔اس کلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مستفید و محظوظ ہوں :ہے عرش بریں پر جلوہ فگن محبوب خدا سبحان اللہ

اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف

پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ

سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن و الفت کے

خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ

اس کلام کے ارکان ہیں :فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

اور اس بحر کا نام ہے :بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثلم بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثرم مسکن گویا آپ نے اس کلام میں زحاف ثلم، ثرم، تسکین کا استعمال کیا ہے اور چند مقامات پر زحاف تسبیغ کا بھی استعمال فرمایا ہے۔اشعار کے مختلف مقامات پر، صدر، ابتدا، حشو ، ضرب، عروض میں اتنے سارے زحافات کا استعمال کرنا حجۃالاسلام کے استادانہ کمال اور مہارت در علم عروض کا پتہ دیتا ہے۔ حجۃالاسلام کے اس کلام میں صنعت تلمیح بھی ہے اورصنعت اشتقاق بھی، صنعت عکس بھی ہے اور صنعت تجنیس زائد بھی۔صنعت تضاد بھی ہے اور صنعت تنسیق الصفات بھی۔صنعت تفویت بھی ہے اور صنعت تہذیب و تادیب بھی ،صنعت ترتیب بھی ہے اور صنعت طباق بھی۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور صنعت مراعاۃ النظیر بھی۔ صنعت فرائد بھی ہے اور صنعت کنایہ بھی۔

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔یہ جملہ خبریہ ہے اور صدق خبر بھی، کیونکہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اک آن میں مکہ سے بیت المقدس، پھر آسمان، سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں تشریف لے گیے اور واپس کرہء ارض پر تشریف بھی لے آئے ۔اس مصرع میں برق کا استعمال اپنے موقف میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ مقتضیء حال کے مطابق بھی ہے ۔ سائنس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں سب سے تیز جو شیء حرکت کرتی ہے وہ روشنی ہے اور روشنی کی ایک شکل ہے برق ۔ برق کی رفتار کتنی ہے ؟ برق کی رفتار ہے ١٨٦٠٠٠ میل فی سیکنڈ ، جبکہ آواز کی رفتار ہے ٣٤٣ میٹر فی سیکںڈ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی پہلے دکھائی دیتی ہے اور گرج کی آواز بعد میں سنائی دیتی ھے۔ نظر کی رفتار روشنی / برق سے بھی کم ہوتی ہے۔کرہء ارض سے سورج تک دوری ہے ٩٣ ملین میل۔سورج ، کرہء ارض سے سب سے نزدیک کا ایک ستارہ ہے ۔اگر سورج کی دوری ٩٣ ملین میل ہے تو اندازہ لگائیں ساتوں آسمان، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں کی دوری کتنی ہوگی۔ اور حضور صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک آن میں لامکاں جاکے تشریف لے آئے۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کے سامنے نظر/ روشنی/ برق کی رفتار کی کیا حیثیت ؟اس لیے حجۃالاسلام نے کہا:

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔اس مصرع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی رفتار کو نظر اور برق سے تشبیہ دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ ہے تیزی ۔ برق کے استعمال سے بصری پیکر تراشی کا حسن بھی جلوہ گر ہوگیا ہے ۔

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

۔اس مصرع میں راکب کے ساتھ ساتھ مرکب کے استعمال نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہاں راکب سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرکب سے مراد براق/ رف رف ۔حجۃالاسلام ایک اور نعتیہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

نہ کوئی ماہ وش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوب خدا تم ہو ۔حجۃالاسلام نے اس شعر کے ذریعہ تشبیہات و استعارات جن سے عموما” مجازی فضا تیار کی جاتی ہے ان کو رد کیا ہے اور رد کرتے ہوئے ممدوح گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی توصیف بیان کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔اس قبیل کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ و خورشید سیاروں ستاروں کی ضیا تم ہو

وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا

اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو

نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر

تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو

تم ہو حبیب کبریا پیاری تمھاری ہر ادا

تم سا کوئی حسیں بھی ہے گلشن روزگار میں ؟

صنعت اقتباس کے حسن سے مزین یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن

بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں

عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

سرکار حجۃالاسلام کے اشعار میں پیکر تراشی کے جلوے ملاحظہ فرمائیں:

ماہ تری رکاب میں نور ہے آفتاب میں

بو ہے تری گلاب میں رنگ ترا انار میں

گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں

جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہ تمام دو

سارے بہاروں کی دلھن ہے میرے پھول کا چمن

گلشن ناز کی پھبن طیبہ کے خار خار میں

سوسن و یاسمن سمن سنبل و لالہ نسترن

سارا ہرا بھرا چمن پھولا اسی بہار میں

ان کی جبین نور پر زلف سیہ بکھر گئی

جمع ہیں ایک وقت میں ضدین صبح و شام دو

حجۃالاسلام کے ان اشعار میں بصری پیکر تراشی بھی ہے اور سماعی پیکر تراشی بھی، لمسی پیکر تراشی بھی ہے اور مشامی پیکر تراشی بھی۔ در حقیقت حجۃالاسلام کے کلاموں میں لفظوں کی ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے کہ جس کے سبب قاری کے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں اور اس کا قلب جمالیاتی چاشنی سے بھر جاتا ہے۔سرکار حجۃالاسلام نے خاتم الاکابر حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت کہی ہے جسے پڑھ کر قلب میں ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور دل و دماغ میں ایک روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

فانی ہوجاؤں شیخ میں اپنے

ہو بہو ہو ادائے آل رسول

حقہ حق ہو ظاہر و باطن

حق کے جلوے دکھائے آل رسول

دل میں حق حق زباں پہ حق حق ہو

دید حق کی کرائے آل رسول

پھر الی اللہ فنائے مطلق سے

پورا سالک بنائے آل رسول

ان اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشق رسول اور محبت آل رسول ہی وہ محور ہیں جن کے گرد حضرت حجۃالاسلام کی پاکیزہ نعتیہ و منقبتیہ شاعری حرکت کناں نظر آتی ہے ۔