WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

۞۞۞ درس حدیث ۞۞۞ حدیث نمبر:3 حدیث جبرئیل:ازقلم: (مفتی)محمد شعیب رضا نظامی فیضی پرنسپل: دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یوپی رابطہ نمبر 9792125987


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکِتَابِهِ وَلِقَائِهِ وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوبَةَ وَتُؤَدِّيَ الزَّکَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَلَکِنْ سَأُحَدِّثُکَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتْ الْأَمَةُ رَبَّهَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا کَانَتْ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُئُوسَ النَّاسِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلَا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَ ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 100 حدیث متواترومرفوع،متفق علیہ)
Abu Hurairahرضی اللہ عنہ reported: One day the Messenger of Allahﷺ appeared before the public that a man came to him and said: Prophetﷺ of Allah, (tell me) what is Iman (Faith). Upon this he (the Holy Prophet) replied: That you affirm your faith in Allah, His angels, His Books, His meeting, His Messengers and that you affirm your faith in the Resurrection hereafter. He (again) said: Messenger of Allah, (tell me) what does al-Islam signify. He (the Holy Prophet) replied: Al-Islam signifies that you worship Allah and do not associate anything with Him and you establish obligatory prayer and you pay the obligatory poor-rate (Zakat) and you observe the fast of Ramadan. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, what does al-Ihsan imply? He (the Holy Prophet) replied: That you worship Allah as if you are seeing Him, and in case you fail to see Him, then observe prayer (with this idea in your mind) that (at least) He is seeing you. He (the inquirer) again said: Messenger of Allah, when would there be the Hour (of Doom)? He (the Holy Prophet) replied: The one who is asked about it is no better informed than the inquirer. I, however, narrate some of its signs (and these are): when the slave-girl will give birth to her master, when the naked, barefooted would become the chiefs of the people – these are some of the signs of (Doom). (Moreover) when the shepherds of the black (camels) would exult themselves and compete with others in the construction of higher buildings, this is one of the signs of (Doom). (Doom) is one of the five (happenings wrapped in the unseen) which no one knows but Allah. Then he (the Messenger of Allahﷺ) recited (the verse):” Verily Allah! with Him Alone is the knowledge of the Hour and He it is Who sends (down the rain) and knows that which is in the wombs and no person knows whatsoever he shall earn tomorrow, and a person knows not in whatsoever land he shall die. Verily Allah is Knowing, Aware. He (the narrator, Abu Hurairahرضی اللہ عنہ ) said: Then the person turned back and went away. The Messenger of Allahﷺ said: Bring that man back to me. They (the Companions of the Holy Prophetﷺ present there) went to bring him back, but they saw nothing there. Upon this the Messenger of Allahﷺ remarked: he was Gabriel (علیہ السلام), who came to teach the people their religion

اردو ترجمہ:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن لوگوں کے مجمع عام میں تشریف فرما تھے اتنے میں ایک آدمی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ ایمان کیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کی ملاقات پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت میں قبر سے اٹھنے پر ایمان لاؤ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ اسلام کیا ہے؟ فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز پابندی سے پڑھو، فرض کی گئی زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ احسان کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا قیامت کب ہوگی؟ ارشاد فرمایا: جس سے اسکے بارے میں سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا، ہاں میں تمہیں اس کی علامات بتاتا ہوں : جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی، تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں رہنے والے لوگوں کے سردار ہوجائیں گے، تو یہ قیامت کی علامت ہے جب اونٹوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر فخر کریں گے، تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے، قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہﷺ نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ ) 31 ۔ لقمان : 34) پھر وہ شخص واپس لوٹ گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس کو واپس لاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ جبرئیل تھے تاکہ لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج حدیث: اس حدیث کی تخریج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے امام بخاری نے2، امام مسلم نے3، امام ابن ماجہ نے2، امام ابوداؤد و امام نسائی نے1-1جگہ اور امام احمد نے3 جگہ کی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس حدیث کو الفاظ مختلفہ، کچھ کمی و زیادتی، قدرے تقدیم وتاخیر کے ساتھ حضرت عمر، حضرت انس، حضرت جریر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوعامر اشعری، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے صحاح ستہ ومسنداحمد وبزار وطبرانی وصحیح ابن حبان وغیرہ میں روایت موجود ہے۔

فوائد و مسائل
اس حدیث میں سوال کرنے والے حضرت جبریل امیں تھے اسلئے یہ “حدیث جبریل” سے مشہور ہے
حدیث مذکورہ اپنے مضامین کے لحاظ سے نہایت جامع حدیث ہے جس میں ایک طرف قلبی تصدیق (ایمان) کا بیان ہے تو دوسری جانب اعمال جوارح کا ساتھ ہی ساتھ دلوں کے اخلاص کا تذکرہ بھی موجود ہے اسی لئے امام قرطبی نے اس حدیث کو “ام السنة” قرار دیا ہے کہ یہ احادیث کے جملہ علوم کو متضمن ہے۔ قرآن کریم میں سورہ فاتحہ ام الکتاب ہے اور احادیث میں یہ ام السنة۔
امور ایمان:جن امور پر ایمان ضروری ہے انہیں امور ایمان کہا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں
۞اللہ تعالی کی ذات وصفات، وجود و وحدانیت پر اور تمام عیوب سے منزہ ہونے پر
۞تمام فرشتوں پر
۞تمام آسمانی کتابوں پر جو اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی
۞اللہ رب العزت سے آخرت میں ملاقات پر
۞اللہ رب العزت کے تمام نبیوں اور رسولوں پر
۞بعث بعد الموت، حشر ونشر پر
۞تمام ضروریات دین پر جو قرآن وحدیث یا دیگر ادلہ شرعیہ سے ثابت ہیں
۞حدیث پاک میں ایمان و اسلام کے بابت الگ الگ سوال کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الگ ہیں ایسا نہیں بلکہ دونوں ایک ہیں ہاں اعمال کی تعبیر اسلام سے ضرور کی گئی ہے
۞حدیث پاک میں سوال قیام قیامت کے جواب میں نبی کریمﷺ کا فرمان مبارک “ماالمسؤل عنھا باعلم من السائل” کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں کو اسکا علم ہی نہیں بلکہ دونوں کو اسکا علم تو ہے لیکن سائل(حضرت جبریل) اور مسؤل(نبی اکرمﷺ) دونوں اس علم میں برابر ہیں، صرف قیامت کے متعلق زیادتی علم کی نفی ہے کہ نفی اسم تفضیل پر داخل ہے اسی پر شارحین بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ بدرالدین عینی کا اتفاق ہے۔
حدیث پاک میں قیامت کی تین علامتوں کا بیان ہوا ہے “اذا ولدت المرأة ربتھا” جس کا مطلب ہے کہ روساء معززین بلکہ بادشاہان وقت بھی لونڈیوں کو بیویوں کی طرح رکھیں گے ان سے اولاد ہوگی یہ اولاد اپنی ماؤں کے ساتھ وہی برتاؤ کرے گی جو آقا لونڈی کے ساتھ کرتا ہے بلکہ بادشاہ وقت کی لونڈی کے بطن سے جواولاد ہوگی ان میں بادشاہ ہونگے اور یہ مائیں ان کی رعایا ۔یا مراد یہ ہے کہ لونڈیوں کی بہت زیادہ کثرت ہوگی خدانا ترس لوگ ام ولد کو بھی بیچ ڈالیں گے اور وہ پھر دست بدست بکتی ہوئی اپنی اولاد کی ملکیت ہوگی۔ یا یہ کنایہ ہوستکا ہے کہ لوگ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ نوکرانیوں جیسا سلوک کرینگے، انہیں تکلیف پہنچائیں گے۔۞دوسری نشانی یہ کہ ننگے بدن وننگے پاؤں رہنے والے کم درجہ کے لوگ سردار وحکمراں ہوجائیں گے ۞سوم کہ بھکاری اور کالے اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے اونچے اونچے مکانات بنواکر باہم فخر کرینگے۔
۞آج دنیا کی جو حالت ہے وہ چودہ سو سال قبل میرے آقاﷺ کے ذریعہ بیان کی گئی غیب کی ان تمام باتوں کو حرف بحرف مستلزم ہے۔
☜کل سے ایمانیات پر احادیث پیش کیئے جائیں گے ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

अज़ क़लम: (मुफ्ती) मोहम्मद शोऐब रज़ा निज़ामी फ़ैज़ी

रोज़ाना दर्स-ए-कुरआन व हदीस पढ़ने के लिए हमारा ग्रुप ज्वाइन करें!
https://chat.whatsapp.com/BxYkxPBuFvQEQkRw5XgN4C

نعتِ رسولِ اکرم ﷺ از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

سرکار کی آمد آمد ہے میلاد منایا جائے گا
گلیاں بھی سجائی جائیں گی گھر بار سجایا جائے گا

بیواؤں، یتیموں کا حامی اِس صبح میں آنے والا ہے
روتے ہیں یہ غم کے مارے جو، اب ان کو ہنسایا جائے گا

یہ دن ہے ربیع الاول کا، ہے چاند کی یہ بارہ تاریخ
وہ نور، خدا کا آج کے دن اِس جگ میں لایا جائے گا

درگور کیا کرتے تھے جو،کل تک اپنے ہی ہاتھوں سے
اب اُن ننھی سی کلیوں کو سینے سے لگایا جائے گا

عربی نہ کوئی عجمی ہوگا کالا نہ کوئی گورا ہوگا
ہیں مؤمن آپس میں بھائی، یہ فرق مٹایا جائے گا

از فرش زمیں تا اوج فلک بس نور کی کرنیں پھوٹیں گی
جبریلِ امیں کے ہاتھوں سے جھنڈا بھی اُڑایا جائے گا

محبوب خدا کی آمد پر نغمے بھی سنائے جائیں گے
سرکار کی آمد آمد پر نعرہ بھی لگایا جائے گا

وہ امن و اماں کا پیکر ہیں وہ صادق ہیں وہ عادل ہیں
ان سا نہ کوئی انسان ہوا یہ سب کو بتایا جائے گا

یہ چاند ستارے اور سورج صدقہ ہیں انہی کی آمد کا
پیزار نبی سے مَس کرکے ان سب کو جلایا جائے گا

وہ ایک اشارے سے اپنے دوٹکڑے کریں گے چندا کے
پھر ان کی دعا سے صہبا میں سورج کو پھرایا جائے گا

کل بھی تھا مقدرمیں جلنا ابلیس اور اس کے چمچوں کے
سرکار کی آمد پر ان کو ہر روز جلایا جائے گا

جب پیاس لگے گی شدت کی آقا کے غلاموں کو اختر
پھر ساقئ کوثر کے ہاتھوں سے جام پلایا جائے گا

وفا کا جام پلاتے ہیں وارثین نبی..از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

وفا کا جام پلاتے ہیں وارثین نبی
حیا کا درس سکھاتے ہیں وارثین نبی

ہمیشہ سب کو خدا کی طرف بلاتے ہیں
نبی کا دین پڑھاتے ہیں وارثین نبی

دلوں سے جہل کی تاریکیاں مٹا کر کے
چراغ علم جلاتے ہیں وارثین نبی

خدا کے قہر سے وہ لوگ بچ نہیں سکتے
جو تم پہ ظلم یوں ڈھاتے ہیں وارثین نبی

ٹرسٹیان مدارس کو رب ہدایت دے
دعا یہ روز کراتے ہیں وارثین نبی

صدر خجانچی ناظم ہیں باپ شیطاں کے
یہ عہدہ اب کہاں پاتے ہیں وارثین نبی

کلیجہ پھٹا ہے روتا ہے دل بہت اختر
جب اپنے غم کو سناتے ہیں وارثین نبی

محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنے یا بدن کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟ از قلم، مفتی احمد رضا صاحب دارالفکر بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنا یا کوئی اور کام انجام دینے سے مثلاً موبائل-فون بند کرنے یا بدن کے کسی حصے کو کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

العارض
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسئولہ میں کہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون واطمینان مطلوب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز شروع کرنے کے بعد نمازی کا کوئی عضو بلاوجہ حرکت نہ کرے؛ تاہم معمولی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی؛ بلکہ نماز اس وقت فاسد ہو تی ہے جب کہ یہ حرکت اس قدر کثیر ہو کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، ایک رُکن میں تین مرتبہ کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یعنی ایک بار کُھجا کر ہاتھ ہٹایا پھر دوسری بار کُھجا کر ہٹایا اب تیسری بار جیسے ہی کھجائے گا نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند بار حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کُھجانا کہا جائیگا، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلی ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا
(بہار شریعت ج1 صفحہ 614،مکتبۃ المدینہ)،
اور فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کہ حالت نماز میں کجھلی ہو تو کھجائے یا نہیں اور کھجاوے تو کتنی مرتبہ ، میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ضبط کرے اور نہ ہو سکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو تو کھجالے مگر ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یا رکوع یا سجود میں تین مرتبہ نہ کھجائے دو بار تک اجازت ہے،(فتاوی رضویہ قدیم ج3 صفحہ 446)،
تو واضح ہو گیا کہ دائیں ہاتھ سے کھجائے یا بائیں ہاتھ سے دو بار تک اجازت ہے، اور اگر تین بار کھجائے نماز ہی فاسد ہو جائے گی،جیسا کہ مذکورہوا، ہاں قیام کی حالت میں کھجانے کی ضرورت ہو تو دائیں ہاتھ سے کھجائے جیسا کہ نظام شریعت میں جماہی روکنے کے تعلق سے اخیر میں ہے: قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ سے ڈھانکے اور دوسرے موقع پر بائیں سے(نظام شریعت صفحہ 140)، اور فتاوی عالمگیری جلداول مطبوعہ مصر صفحہ ٩٧)* 
میں ھے ،، *اذا حک ثلاثا فی رکن واحد تفسد صلاته ھٰذا اذا رفع یدہ فی کل مرة ۔ اما اذا لم یر فع فی کل مرة فلاتفسد کذا فی الخلاصة* ۔
 (فتاوی فیض الرسول جلداول باب ما یفسد الصلاة صفحہ ٣٥٠)* 
یہی حکم فون بند کرنے کا ہے کہ دوران نماز ایک رکن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے کی اجازت ہے کہ اس عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر ایک رکن میں مثلا صرف قیام میں یا صرف رکوع میں تین بار گھنٹی بند کی تو نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح ایک رکن میں تین بار کھجلانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ (موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ 111 112)خلاصہ : دوران نماز موبائل کی گھنٹی بجے تو ایک رکن میں ایک یا دو مرتبہ موبائل کی گھنٹی بند کر سکتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ایک رکن میں تین بار گھنٹی بند کرنے سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ نمازی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ نماز کے وقت جب موبائل جیب میں تو سوئچ آف کر دینا چاہئیے یا کم سے کم سائلنٹ تو کر ہی دینا چاہئیے تاکہ کہ خود کے نماز میں خلل نہ ہو اور دوسروں کے نماز میں بھی خلل نہ ہو؛۔لہذ ا حالت نماز فون بند کرنا  یا کھجلانا اگر عمل قلیل کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہٗ احمد رضا قادری منظری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 8 /ستمبر 2022

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا،از قلم : شیخ منتصر احسنی متعلم – جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے اور تاریخ تھی 15 اگست کی، پورا ملک آزادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اچانک غیر معروف (unknown) نمبر سے دو تین کالیں (calls) آئیں لیکن آزادی کے جشن میں محو تھا کہ جس کی وجہ سے کال ریسیو نہ کرسکا ۔ اور یوں بھی کال ریسو ( receive) نہ کر پانا معمولی سی بات ہے، لیکن بعد میں جب اس نمبر پہ ریٹرن کال کیا تو پتا چلا کہ وہ دار العلوم مینائیہ سے ہے –
ایک جانب تو دل کی دھڑکنیں اس اندیشے کے زیر اثر بڑھ چکی تھیں کہ خدا جانے کیا خبر آنے والی ہے؟ ریجیکشن کی مایوسی چہرے بگاڑ دے گی یا سلیکشن کا مژدۂ جاں فزا اچھلنے پہ مجبور کردے گا-
مگر ابھی کچھ کنفرم نہ ہوا، کیوں کہ ادھر سے صرف آدھار کارڈ طلب کرنے کے لیے فون آیا تھا ۔ مگر اس طلب پر ہمارے بعض احباب نے یہ امید دلائی کہ آدھار کارڈ کی طلب یہ انتخاب کی دلیل ہے ۔ پھر بھی ابھی دل مکمل مطمئن نہیں تھا-
بالآخر رات گیارہ بجے کے بعد ہاشم بھائی کے واٹس ایپ پر یہ خوشخبری موصول ہوئی کہ آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں ساڑھے چھ سو طلبہ میں سے ٹاپ ٹین منتخب شرکاء میں آپ نے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے –
یہ خبر سنتے ہی جماعت فضیلت میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی – ہمارے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں حالانکہ اس سے پہلے کچھ طلبہ کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہیں تھیں کہ ملکی پیمانے پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں نمبر حاصل کرنا محال ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے زبان پر قفل لگ گئے اور خوشی کا دیکھاوا کرنے لگے اور کچھ تو ہاشم احسنی کو سپورٹ کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے انشاءاللہ ہو جائے گا- –
پھر 26 / اگست بروز جمعہ برادر محترم نے احباب و اساتذہ کی دعاؤں کا توشہ لیے خانقاہ برکاتیہ سے خانقاہ مینائیہ گونڈہ پہنچے اور وہاں پہنچنے کے بعد آخر کار وہ گھڑی آہی گئ جس کا تمام طلبہ اور اساتذہ کو انتظار تھا یعنی مقابلے کا پروگرام شروع ہوا، مدرسے کے بہت سے طلبہ یوٹیوب کے ذریعے لائیو پروگرام ملاحظہ کر رہے تھے، اور بڑی بے صبری اور اضطراب کے ساتھ ہاشم بھائی کے نمبر کا انتظار کر رہے تھے بالآخر سوا بارہ بجے ان کے نام کا اعلان ہوا اور بھائی نے بہت ہی شاندار اور اچھوتے انداز اور مقررانہ لب و لہجے میں اعتماد سے بھرپور خطاب کیا اور اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ۔
اب ایک اور آزمائش تھی رژلٹ کی، ہم تو پر اعتماد تھے کہ ٹرافی تو مارہرہ ہی آئے گی مگر اپنے اس اعتماد کے تارو پود بکھرنے سے ڈر بھی رہے تھے ۔ اگلے دن رزلٹ آوٹ ہونا تھا ۔
جامعہ کے تمام طلبہ اور اساتذہ رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ نتیجہ کب برآمد ہو گا؟ اس میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور کچھ طلبہ کہہ رہے تھے کہ ٹاپ ٣ میں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔
آخر کار اگلی صبح کا سورج نوید مسرت لے کر افق عالم پر چمکا ۔ ٨/ بجے رزلٹ آؤٹ ہوا اور ہاشم بھائی کی تقریر نے ان تمام بدگمانیوں اور حوصلہ شکنیوں سے لبریز خیالات کو مسترد کرتے ہوئے دوم پوزیشن حاصل کی – اور پچیس ہزار کی خطیر رقم، توصیفی سند اور خوبصورت ٹرافی سے بطور انعام و اکرام سرفراز کیا گیا ۔
استاذ مکرم مفتی شاداب امجدی صاحب کا حوصلہ افزائی سے لبریز اعلان خوش خبری سوشل میڈیا پہ مبارکبادیاں بٹورنے لگا، استاذ مکرم فرط شادمانی کےساتھ ہشاش بشاش ہوکر جب درسگاہ میں آئے تو ہم نے انہیں بھی مبارکباد دی، کیوں کہ تقریری مواد کی فراہمی انہیں کی طرف سے تھی ۔ حضرت نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے مگر ہاشم کی تقریر سننے کے بعد مجھے ایک نمبر کی امید تھی-
سرپرست جامعہ ابا حضور، پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و طلبہ کے سینے اس کامیابی سے چوڑے ہورہے ہیں ۔ اس کامیابی کو صرف ایک طالب علم کی کامیابی نہیں قرار دیا گیا بلکہ پورے جامعہ کی کامیابی قرار دیا گیا، کیوں کہ اس سے پورے جامعہ اور خانقاہ کا نام روشن ہوا ہے-
ہاشم بھائی یہ کامیابی حاصل بھی کیوں نہ کرتے جس کو خانقاہ برکاتیہ کے مخدوموں نے اپنی دعاؤں سے نوازا ہو، چاہے وہ سرکار امین ملت ہوں یا رفیق ملت (ابا حضور) ہوں یا شرف ملت –
آج مجھے وہ لمحہ رہ رہ کے یاد آ رہا ہے جب ابا حضور نے 15/ اگست کو ہاشم بھائی کو انعام سے نوازتے وقت فرمایا تھا: بیٹا! اللہ تمہارے زبان و قلم دونوں کو مضبوط کرے –
اور میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ہاشم بھائی کو اگر دوم پوزیشن حاصل ہوئی ہے تو ان کی محنت تو مسلم ہے ہی مگر ابا حضور کی اس دعا کی قبولیت کا یہ اعلان بھی ہے اور یہ مخدوموں اور ہمارے مشفق و مہربان اساتذہ کی محنت اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
بالخصوص ہمارے جامعہ کے پرنسپل حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کی حوصلہ افزائیاں اور حضرت مولانا شاداب امجدی صاحب قبلہ کی محنت بھری رہنمائیاں بھی پشت پناہی کرتی رہیں –
اللہ رب العزت ہاشم احسنی کو مزید ترقیوں سے نوازے اور حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے اور ان مخدومان گرامی اور اساتذہ کے صدقے ہمیں بھی دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین –
اقبال کے اس شعر پہ اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ :
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

کیا ماہ صفر منحوس ہے؟،، از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور 7030786828


ماہ صفر المظفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے اس مہینے میں شریعت مطہرہ نے نہ تو کوئی خاص عبادت مقرر کی ہے اور نہ ہی اس مہینے کے بارے میں کوئ خاص توہم پرستی کی تعلیم دی ہے مگر بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مہینہ بدبخت اور منحوس ہے اسی وجہ سے اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد سے پرہیز کیا جاتا ہے یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ماہ صفر المظفر کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے کی کوئ حقیقت نہیں۔ اسلام میں بد شگونی اور نحوست کا کوئ تصور نہیں اسلام میں اگر کوئی بد شگونی اور نحوست کی چیز ہے تو وہ انسان کے بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحاشی عریانی اور اللہ و رسول کی نافرمانیاں ہیں جو گھر گھر میں ہو رہی ہیں اگر ہم واقعی نحوست و بد شگونی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحش و عریانی سے بچنا پڑے گا
دن اور مہینے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے کسی خاص وقت، دن یا مہینے کو منحوس قرار دینا سراسر جہالت ہے،علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں دور جاہلیت میں ماہ صفر کے بارے میں لوگ اس قسم کے وہمی خیالات بھی رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت نازل ہوتی ہیں، اسی وجہ سے وہ لوگ ماہ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے
( عمدۃ القاری ج 7 ص 110)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید ان الفاظ میں فرمائی ” لاصفر” یعنی صفر کچھ نہیں ہے۔ (اس میں کوئی مصیبت و آفت نہیں ہے)اس حدیث کی تشریح میں محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں عوام اسے بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وقت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے
( اشعۃ اللمعات ج ٣ / ص ٦٦٤)۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں حدیث میں فرمایا کہ ’’صفر کوئی چیز نہیں یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے( بہار شریعت حصہ ١٦ / ص ٥٦٩) صاحب تفسیر روح البیان علامہ شیخ اسمٰعیل حقی لکھتے ہیں”صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وقت کو منحوس سمجھنا درست نہیں، تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وقت میں بندۂ مومن اللہ کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وقت مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کے لیے منحوس ہے ۔ در حقیقت اصل نحوست تو گناہوں میں ہے ۔ ( تفسیر روح البیان ج ٣ ص ٤٢٨)اخیر میں ان لوگوں کے لیے عرض ہے جو اس مہینے میں شادی کرنے سے منع کرتے ہیں کہ :پہلی ہجری کے اسی مہینے ( صفر المظفر) میں مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا خاتون جنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے عقد نکاح یعنی شادی ہوئی
صفر المظفر یعنی کامیابی کا مہینہ کہا جاتا ہے،اس مقدس اور برکت والے مہینے میں کئی عظیم الشان تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ماہ صفر المظفرمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی ہوئی ،صفر کے مہینے میں مسلمانوں کو فتخ خیبر نصیب ہوئی ، صفر کے مہینے میں سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ،صفر کے مہینے میں مدائن جس میں کسریٰ کا محل تھا کی فتح ہوئی۔صفر المظفرکے مہینے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کے دور خلافت میں 16ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایوان محل کسریٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق کی مملکت میں پڑھا گیا ،صفر المظفر کے مہینے میں 11ھ میں ہی جھوٹی نبوت کے دعویدار اسود عنسی کذاب سے مسلمانوں نے نجات پائی
جس مقدس مہینے میں ایسے ہم اواقعات ہوئے ہوں وہ مہینہ کس طرح منحوس ہوسکتا ہی افسوس علم دین سے دوری اور بری صحبت کے سبب لوگوں کی ایک تعداد صفر المظفر جیسے بارونق اور بابرکت مہینے کو بھی مصیبتوں اور آفتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتی ہے باالخصوص اس کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کے بارے میں بہت سی خلاف شریعت باتیں مشہور ہیں
ماہ صفر کے آخری بدھ
ماہِ صفرُالمظفّر کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہوئے کئی انداز اختیار کئے جاتے ہیں،مثلا اس دن لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں،سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں،پوریاں پکتی ہیں نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرض شِدَّت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع (جھوٹی)ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ بہارشریعت، حصہ۱۶،۳/۶۵۹
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں سُوال کیا گیا کہ اس دن عورتیں بطورِسفرشہر سے باہر جائیں اور قبروں پر نیاز وغیرہ دلائیں جائز ہے یانہیں؟ تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :(ایسا ) ہر گز نہ ہو( کہ اس میں)سخت فتنہ ہےاور چہار شنبہ(بدھ کا دن منانا ) محض بے اصل۔( فتاوی رضویہ،۲۲/۲۴۰)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشیاں مناتے ہیں کہ مَنحوس شَہْرچل دیا یہ بھی باطل ہے۔

از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت
خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور
7030786828

مقالاتِ بدر،،مقالہ نگار : حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی(علیہ الرحمۃ والرضوان)

رسم اجرإ: شہزادہ صدرالشریعہ حضور محدث کبیر علامہ ضیإالمصطفٰے قادری امجدی کے ہاتھوں 28/ اگست کو ہوگا۔

جمع و ترتیب: محمد ذیشان رضا قادری امجدی صاحب

ناشر: اسلامک اکیڈمی گھوسی مئو یوپی

صفحات: 550


مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہتا ہے بلکہ اسے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔

اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔
مقالات مفتی اعظم ہند ،مقالات نعیمی، مقالاتِ شارح بخاری ، مقالاتِ سعیدی، مقالات مصباحی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ انہیں میں سے ایک حضرت علامہ مولانا بدرالقادری مصباحی (علیہ الرحمۃ والرضوان)
(٢٥ اکتوبر ١٩٥٠ء-١٧اگست ٢٠٢١ء) بھی ہیں۔

ماہنامہ اشرفیہ کے پہلے ایڈیٹر ہونے کے علاوہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور المجمع اسلامی کے مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ٣٠ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں سیکڑوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں بزم اولیاء ، اسلام اور خمینی مزہب ، جادہ و منزل ، مسلمان اور ہندوستان ‘ پیکر عشق سیدنا ابوذر غفاری، اسلام اور امن عالم، اور حیات حافظ ملت ‘ زیادہ معروف ہیں

مقالاتِ بدر

ان ٨٥ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں ماہنامہ اشرفیہ اور ماہنامہ حجاز دہلی، ماہنامہ قادری میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ اسلامیات، تزکرہ، تاریخ، سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

حسینیت کے طرف دار کم نہیں ہونگے
خدا کے دیں کے مددگار کم نہیں ہونگے

تمہارا وصف نرالا ہے ، خوب سیرت بھی
تمھارے واصف کردار کم نہیں ہونگے

تمھارا عشق ہے پیوست دہر کے دل میں
تمھارے عشق کے عمار کم نہیں ہونگے

تمھارے چاہنے والوں نے یوں سجائے چمن
تمھارے پیار کے اشجار کم نہیں ہونگے

مشن پہ آپ کے چلتے ہیں اہل دیں اب بھی
جہاں میں صاحب کردار کم نہیں ہونگے

پلایا عشق محمد کا جام آپ نے یوں
کبھی بھی عاشق سرکار کم نہیں ہونگے

کہا یہ ابن مظاہر نے ہم بہتر ٧٢ ہیں
کبھی بھی اس سے اے سرکار کم نہیں ہونگے

یزیدی شر کو جلا ڈالا نار ذلت نے
تمھارے خیر کے انوار کم نہیں ہونگے

اے سبط سرور کون و مکاں شہا تم سے
جڑے ہیں قلب کے جو تار کم نہیں ہونگے

ہے شکر “عینی” خداوند کا، عزیمت کے
چراغ ان سے ہیں ضو بار کم نہیں ہونگے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

सेहलाऊ शरीफ में हर्ष व उल्लास के साथ मनाया गया 76 वाँ स्वतंत्रा दिवस

रिपोर्टर:बाक़िर हुसैन क़ादरी बरकाती अनवारी।खादिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,तह:रामसर,ज़िला:बाड़मेरराजस्थान

हर वर्ष की तरह इस वर्ष भी इलाक़ा-ए-थार की मरकज़ी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा दरगाह हज़रत पीर सय्यद हाजी आ़ली शाह बुखारी पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ में जश्ने यौमे आज़ादी [स्वतंत्रा दिवस] जोश व जज़्बा के साथ मनाया गया।
सब से पहले “ध्वजारोहण” हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी के हाथों किया गया।
फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के बच्चों द्वारा क़ौमी व वतनी तराने पढ़े गए,उस के बाद मुख्य अतिथि नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी व हज़रत मौलाना मोहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने बच्चों के ज़रिया पेश किये जाने वाले प्रेड का निरीक्षण किया और दारुल उ़लूम के कई बच्चों ने हिंदी,उर्दू व अंग्रेज़ी भाषा में देश की आज़ादी के लिए अपनी जान की बाज़ी लगाने वाले जाँबाज़ों के बारे में लोगों को संबोधित किया।
प्रोग्राम का संचालन अनवारे मुस्तफा माध्यमिक विद्यालय सेहलाऊ शरीफ के प्रधानाचार्य मास्टर मोहम्मद यूनुस खान साहब व मास्टर अहमद रजा ने कीॆ-
आखिर में हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी ने लोगों को मुजाहिदीने आज़ादी और देश से मुहब्बत करने के बारे में खिताब करने के साथ सभी लोगों को 76 वें स्वतंत्रा दिवस की मुहारकबाद पेश की।
फिर अमृत महोत्सव कार्यक्रम के तहत तिरंगे के साथ शांदार रैली निकाली गई।
बच्चों के रंगारंग कार्यक्रम ने सब का मन मोह लिया।
इस जश्ने आज़ादा में शरीक सभी लोगों का शान्दार मिठाइयों से मुंह मीठा किया गया, और लोगों ने एक दोसरे को यौमे आज़ादा की मुबारकबाद पेश की-
दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्थान के प्रबंधक पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की तरफ से प्रोग्राम में हिस्सा लेने वाले सभी बच्चों को इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा गया।
इस प्रोग्राम में विशेष तौर पर यह हज़रात उपस्थित रहे।
हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम हाज़ा,पीर सय्यद ग़ुलाम मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी,मौलाना सय्यद जान मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी,हज़रत मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना खैर मोहम्मद क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना जमालुद्दीन क़ादरी अनवारी, हज़रत मौलाना अ़ब्दुर्रऊफ जामई, हज़रत मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही, मौलाना इल्मुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना इस्लामुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना अ़ब्दुल हलीम क़ादरी अनवारी,हाफिज़ व क़ारी बरकत अ़ली क़ादरी,मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी,हाफिज़ क़मरुद्दीन क़ादरी अनवारी,क़ारी अरबाब अ़ली अनवारी,मौलाना मोहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर शेर मोहम्मद खान,मास्टर मोहम्मद इस्हाक़ खान, मास्टर ताहिर साहब सेहता,मास्टर मक़बूल खान,मास्टर मोहम्मद सुलेमान,मास्टर मुरीद साहब वग़ैरहुम…

]

یوم آزادی اور ہماری ذمہ داری،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

ہمارا ملک “ہندوستان” بیش بہا قربانیوں اور ہندوستانیوں کے آپسی اتفاق و اتحاد اور طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تھا، اس اعتبار سے 15 اگست تاریخ ہند کا ایک انتہائی سنہرا باب ہے، باشندگان ومحبان وطن آج سے 74 سال قبل ہندوستان کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے، اور 15 اگست 1947 ء کو ہندوستان کے تمام شہریوں کو انگریزوں کی غلامی سےنجات ملی ‘اس لیے 15 اگست ہمارا قومی دن ہے-
یقینا ملک کی آزادی ملک کے ہر شہری کے لئے قابل فخر اور باعث صد افتخار ہے، آزادی کے تعلق سے اپنے والہانہ جذبات کا اظہار اور مجاہدین آزادی کی سرفروشانہ جد وجہد اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا حب الوطنی اور وطن دوستی کا تقاضا ہے- آزادی کی جدوجہد میں جس طرح مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر ملک کے سبھی انصاف پسند اور محب وطن شہریوں نے اپنی متحدہ قوت اور جوش و جذبات کی اجتماعیت کا مظاہرہ کیا وہ ملک کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس اجتماعیت و یکتائیت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح مٹھی بھر شر پسند و ملک دشمن عناصر نے انگریزوں کی وفاداری اور چاپلوسی کی مگر وہ مجاہدین آزادی کے آہنی عزم و استقلال کے سامنے ناکام و نامراد رہے آج بھی اسی طرح فرقہ پرست و شر پسند عناصر کو اسی متحدہ قوت اور عزم و استقلال سے ناکام و نامراد بنایا جا سکتا ہے اور ملک کو ٹوٹنے اور برباد ہونے سے بچایا جاسکتا ہے-
ہمارے وطن عزیز میں ہر سال جیسے ہی یوم آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے ہر چہار جانب خوشیوں کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور ہندوستان کا قومی پرچم “ترنگا” آن بان اور شان سے لہرایاجاتا ہے، سرفروشان حریت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ مجاہدین آزادی کو سلامی دی جاتی ہے، ملک و ملت کے لیے اپنی جان کو نچھاور کرنے والے جیالوں کو یاد کیا جاتا ہے- اور یہ سب کچھ ہونا بھی چاہییے کیونکہ انہیں عظیم سپوتوں کی وجہ سے سامراجیوں وفرنگیوں کا غرور خاک میں ملا، طاغوتی قوتوں کے پرخچے اڑے، تمام تر سکوت و سطوت کی ہوا نکل گئی، ظلم و عدوان کی منہ زور آندھی کا منہ پھر گیا، غلامی کے طوق و سلاسل پرزہ پرزہ ہوگئے، اور ہمارا عظیم ملک ہندوستان آزاد فضا میں سانس لینے لگا- مگر یہ سب کچھ یکبارگی نہیں ہوگیا بلکہ اس کے لیے ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی، ہمارے جاں بازوں نے اپنے پیارے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی زندگیوں کو تج دیا، جان و مال بھینٹ چڑھائے، تختۂ دار پر چڑھے، اور پھانسی کےپھندوں کو بخوشی گلے لگایا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ منظم تحریک چلائی تب کہیں جاکر آزاد ہندوستان کا یہ حسین شیش محل اپنے تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نکھر کر سامنے آیا- اس تحریک میں ہندو مسلم سکھ وجملہ برادران وطن بالخصوص علمائے کرام سب نے مل کر حصہ لیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے دور اقتدار سے آزاد کرایا-
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 15 اگست جسے ہم یوم آزادی کہتے ہیں یہ ہم سبھی برادران وطن کے لیے انتہائی فرحت وشادمانی کا دن ہے اور اب تو الحمد للہ سبھی باشندگان ہند یہاں تک کہ نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سبھی یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ۲۶/جنوری اور ۱۵/اگست ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے انتہائی عظیم اور یادگار دن ہیں، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں، لیکن ان خوشی کے دنوں میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم “یوم آزادی” محض رسماً نہیں بلکہ جوش وخروش سے منائیں اور ایسی تقاریب میں سبھی برداران وطن کے سامنے آزادی کی مستندتاریخ پیش کریں، اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے ان کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین آزادی کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبۂ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی-