WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔

استقبال رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داریاں__از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

یقیناً ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ایک بار پھر ماہ رمضان المبارک کی سعادت نصیب ہونے والی ہے، ہمارے بہت سے دوست احباب، اعزاء واقرباء ایسے ہیں جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں اور بعض ایسے بھی ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا،اللّٰہ تعالیٰ اگلارمضان بھی ہمیں دیکھنا اور اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہونا نصیب کرے- دنیا کا یہ اصول ہے کہ اگر مہمان اپنے آنے سے قبل آمد کی اطلاع دے دے تو سنجیدہ معاشرہ اس کا دل وجان سے استقبال کرتا ہے،رمضان المبارک بھی اللّٰہ کامہمان ہے اور اپنے آمد کی خبر ماہ رجب سے ہی دیناشروع کردیتا ہے،ماہ رمضان اخروی مہمان ہے، دنیوی مہمان کی آمدپراگربروقت تیاری نہ کی جائے تو جس قدر سبکی وشرمندگی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ رب کے مہمان کی آمد پر اگر کماحقہ تیاری نہ کی جائے تو کس قدر افسوس اور خسارے کی بات ہے،اس لیے ہمیں چاہییے کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے استقبال اور طلب کے لیے دل سے آمادہ ہوکر ذوق و شوق کے ساتھ رمضان کے احکام ومسائل کا علم حاصل کرنے کا اہتمام کریں-جس طرح ہم اپنے کسی محبوب ومحترم مہمان کی آمدپر اہتمام اور تگ ودو کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ رمضان کی آمدپر ہمارے لیے ظاہری وباطنی تیاری ضروری ہے تاکہ ہمارا روحانی رشتہ اپنے خالق ومالک [رب] سے جڑ جائے،کیونکہ یہ اشتیاق براہ راست رب کائنات کی رضامندیوں، رحمتوں اور مغفرتوں کے حصول کا ہی اشتیاق ہے-اور ویسے بھی مہمان کی آمدہر تیاری کی جاتی ہے اور مہمان جتنابڑااور اہم ہوتا ہے تیاری بھی اسی لحاظ سے کی جاتی ہے مثلا گھر صاف کیاجاتاہے، فرش کی صفائی کی جاتی ہے، دروازوں اور دریچوں کے پردے تبدیل کیے جاتے ہیں،گلدستوں سے گھر کو آراستہ کرکے گھر کی رونق بڑھا دی جاتی ہے،رمضان بھی ایک مہمان ہے اس کی بھی تیاری ہونی چاہییے، گھر کی صفائی کی طرح دل کی صفائی ہو،فرش کی صفائی کی طرح عقائد واعمال کی درستگی اور اصلاح ہو،گھر کو آراستہ کرنے کی طرح اخلاق وکردار کو سنوارناچاہییے، رمضان ہمارا انتہائی معزز مہمان ہے ہمیں اپنے اس معزز مہمان کی خوب خوب قدر کرنی چاہییے اور اپنے اعضاء وجوارح کو اللہ کی معصیت و نافرمانی سے محفوظ رکھ کر اس ماہ کاتقدس باقی رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہییے-ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی تیاری اور استقبال خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا ہے بایں طور کہ دیگر مہینوں کے مقابل اس ماہ میں زیادہ عبادت وریاضت کے لیے مستعدی کا اظہار فرمایا ہے۔اور اپنےاہل خانہ کو بھی اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار فرمایاکرتے تھے-جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں (ترجمہ) جب رمضان المبارک شروع ہوتاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے اور جب تک رمضان گزر نہ جاتا آپ بستر پر تشریف نہ لاتے (شعب الایمان)۔اس کے علاوہ اور بھی احادیث مبارکہ اس امر پردال ہے کہ مالک کونین آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان بلکہ رجب سے ہی رمضان کےاستقبال کےساتھ اس کے برکات و حسنات حاصل کرنے کےلیے تیار ہوجاتےاور شدت سےاس کی آمد کا انتظار فرماتے۔اوربارگاہ الہی میں دعائیں کرتے ”اَللّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَان“ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما۔( مجمع الزوائد وغیرہ)حاصل کلام یہ ہے کہ استقبالِ رمضان حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان وعمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو، کیونکہ جب دل ودماغ کی زمیں زر خیز ہوگی، قبولِ حق کے لیے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا‘ اعمالِ خیر کی طرف رغبت ہوگی اور شجرِ ایمان ثمر آور اور بار آور ہوگا ـویسے عام زندگی میں سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی تیاری کی جاتی ہے-چنانچہ رمضان المبارک بھی تقویٰ،تزکیۂ نفس اور اللہ کو راضی کرنے کے اہم ترین سفر پر مشتمل ایک بابرکت مہینہ ہے-لہٰذا رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اس کی تیاری کریں-اپنے روزمرّہ مشاغل ابھی سے کم کرکے زیادہ وقت عبادت وریاضت، تلاوت قرآن،ذکر واذکار اور دعاؤں کے لیے فارغ کریں نیز عیدالفطر کی تیاری اور شاپنگ ابھی سے کرلیں تاکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی قیمتی راتیں بازاروں کی نذر نہ ہوجائیں-رمضان المبارک یہ بڑا عجیب مہمان ہے۔ اس کی آمد کا طریقہ تو عجیب تر ہے۔ دبے پاﺅں تحفوں، نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لدا پھندا چپ چاپ ہماری زندگی میں چند ساعتوں کے لیے آتا ہے۔ جس نے اس کو پہچان لیا اور آگے بڑھ کر اس کا پرجوش خیرمقدم کیا، اس پر تو وہ اتنی بے حساب نعمتیں برساتا اور تحفے نچھاور کرتا ہے کہ جل تھل کردیتا ہے اور جس نے تن آسانی، سستی اور غفلت سے اس کا نیم دلانہ استقبال کیا، تو یہ پیکرِ جود سخا، دو چار چھینٹیں اس پر بھی چھڑک ہی جاتا ہے۔ اسی لیے اس میخانے کا محروم بھی محروم نہیں کہلاتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے مہینے میں میری امت کو پانچ ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ اول: رمضان کی پہلی رات میں اللہ ان پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر اللہ نظر کرم کرتا ہے، اسے کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔ دوم: فرشتے ہر رات اور اور ہر دن اس کے لیے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔ سوم: اللہ اس کے لیے جنت واجب کردیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے کہ روزہ دار بندے کی خاطر خوب آراستہ وپیراستہ ہوجاﺅ تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔ چہارم: روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ پنجم: رمضان کی آخری رات روزہ دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔رمضان کی یہ ساری نعمتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو حقیقی معنوں میں روزے دار ہوں۔ حقیقی روزے دار کون ہوتا ہے؟ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے کھانے پینے چھوڑنے سے غرض نہیں۔ رمضان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑدے اور باقی خرافات میں لگا رہے۔ روزہ اصل میں زبان کا بھی ہو، ہاتھ کابھی ہو اور پاﺅں کا بھی ہو۔ آپ نے فرمایا روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ گالی گلوچ اور فضول گوئی چھوڑنے کا نام ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ جھگڑنے لگے تو تم کہو میں روزے سے ہوں۔“ جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار کو چاہیے بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔ روزہ معاشرے کے غربا اور فقرا سے تعلق پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرکے معاشرے میں امیر وغریب کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب امیر کے درمیان جو دوری پیدا ہوئی ہے، وہ معاشرے کے امن وامان اور بھائی چارے کے لیے زہر قاتل ہے۔ روزے کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجتماعی افطار وسحر اور مل جل کر کھانے پینے کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان میں نمازوں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ نماز محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح زکوٰة کی ادائیگی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ سحری، افطاری اور تراویح مسلمانوں پر اللہ کی ایسی خاص عنایات ہیں جو مسلمان معاشرے کو ایک الگ ممتاز حیثیت دلاتی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا استحصال ہو۔*رمضان المبارک کے استقبال کے لیے کچھ اہم ہدایات:* (۱)رمضان المبارک میں راتوں کی عبادت (تراویح تہجد وغیرہ) کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اس لیےان عبادات کو اچھے انداز میں بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں مشکل پیش نہ آئے۔ (۲)رمضان المبارک میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے آج کل انٹرنیٹ و سوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں لہذا رمضان المبارک سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں۔ (۳)رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے لہذا ابھی سے اپنے آپ کو دعائیں مانگنے کا عادی بنائیں نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کو زبانی یاد کیا جائے کیونکہ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے اور قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ (۴)رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے، خوش نصیب لوگ اس ماہ میں تلاوت کی کثرت کا معمول بناتے ہیں لہٰذا ابھی سے تلاوت قرآن کو زیادہ وقت دینا شروع کردیں قرآن پاک صحیح مخارج کے ساتھ آرام آرام سے غنہ مد وغیرہ کو اچھی طرح ادا کرکے پڑھیں تاکہ رمضان المبارک کی آمد تک آپ کثرت سے اور اچھی طرح تلاوت کرنے کے عادی بن جائیں اگر آپ حافظ قرآن ہیں تو ابھی سے قرآن پاک دہرانا شروع کردیں۔(۵)چونکہ رمضان المبارک کا ایک اہم مقصد “گناہوں کی بخشش” ہے،اسی لیے اسے “شھرالمغفرة” کہا جاتاہے اور ایک مشہور حدیث میں اس انسان کے لیے بددعا کی گئی ہےجورمضان المبارک پائے اور اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراپائے-چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس سے وہی انسان لطف اٹھا سکتا ہے جو گناہوں سے تائب ہو اور اس نے اپنے آپ کو موسم بہار سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنایا ہو اس لیے رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اپنے گناہوں کی مغفرت کرانی چاہییے اور اس کے لیے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوکر بصدق دل توبہ واستغفار کرنی چاہییے-(۶)رمضان المبارک سے پہلے ایک اور اہم بلکہ سب سے اہم کام رمضان المبارک کے احکام ومسائل سیکھنا ہے-یعنی رمضان المبارک کی تمام عبادات کے فضائل واحکام،روزہ رکھنے کے لیے کون سی چیزیں ضروری ہیں؟روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے مکروہ ہوجاتاہے؟تراویح کا کیا حکم ہے اور تراویح کی ادائیگی کاصحیح طریقہ کیا ہے،تراویح میں ختم قرآن کی کیا اہمیت وفضیلت ہے اور تراویح میں کل کتنی رکعتیں ہیں؟اعتکاف کا طریقہ کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟اعتکاف کے دوران مسجد سے نکلنا کن حالات میں جائز ہے؟اعتکاف کب اور کیسے فاسد ہوجاتاہے؟ان کے علاوہ اور بھی رمضان المبارک کے بہت سے ایسے احکام ومسائل ہیں جن کا علم نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ بہت سارے حضرات وہ چیزیں کر گذرتے ہیں جن سے روزہ،تراویح یا اعتکاف فاسد ہوجاتاہے اور پھر مسئلہ معلوم کرتے ہیں حالانکہ اب اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں،عقلمندی تو یہ ہے کہ ان عبادات کے آنے سے پہلے ان کے احکام ومسائل سیکھیں-بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ: ہم سبھی مسلمانوں کو بار بار ماہ رمضان المبارک نصیب کرے، اور اس کے فیضان سے مستفیض فرمائے-

تکبر و گھمنڈ کی نحوست:احادیث کی روشنی میں – – از:۔سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

آج معاشرہ میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبّر (گھمنڈ) کی مذمّت کی ہے۔ خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“اس کے علاوہ قرآن مقدس میں بہت سی آیتیں ہیں جو تکبّر کی مذمّت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اِس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبّرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔ اب ذیل میں تکبر و غرور کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اِس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہو جائیگا کہ کبریائی اور بڑائی در حقیقت صرف ذات وحدہ لا شریک کے شایانِ شان ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی موت و حیات اور ہر ایک کی عزّت و ذلّت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ”اللہ ہی کے لیے بڑائی اور کِبریائی ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے“(مفہوم قرآن)اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا بھی قطعی علم حاصل ہوگا کہ کسی انسان کے لیے ہرگز ہرگز یہ مناسب نہیں کہ وہ کبریائی اور بڑائی کا دعویدار بنے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ غرور و گھمنڈ کا رویہ اپنائے۔ اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اللہ وحدہ لا شریک کا حریف بنتا ہے۔ اِس لیے ایسا شخص بہت بڑا مجرم ہوگا اور اُس کے لیے سخت ترین سزائیں ہوں گی ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کہ کِبریائی (بڑائی) اور عظمت میری خاص صفتیں ہیں جو مجھے ہی زیب دیتی ہیں جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا (یعنی عظمت و کبریائی اپنے لیے ثابت کرےگا) میں اُس کو آگ میں داخل کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”میں اُسے آگ میں پھینک دونگا” (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳) ٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائےگا (یعنی سخت ناراض ہوگا) اور نہ ہی انہیں پاک فرمائےگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی انہیں دیکھے گا۔ اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا فقیر مُتکبّر (گھمنڈی) (مشکوٰۃ ص: ۴۳۳)٭حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ ”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا “ (مسلم شریف ج :۱، ص:۶۵مشکوٰۃ ص:۴۳۳)٭حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اِختیار کرو کیونکہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ”جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبّر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رُسوا ہوتاہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتّے اور سُوّر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے“۔ (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳)اب آخر میں ایک تفصیلی حدیث شریف ملاحظہ کریں جو تکبّرکی رگوں کو کاٹ ڈالنے والی ہے، اور گھمنڈ کی عمارت کو ڈھانے والی۔٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”برا بندہ وہ ہےجو غرور (گھمنڈ) کرے اور اکڑ کر چلےاور بڑی شان والے رب کو بھول جائے۔برا بندہ وہ ہے جو ظلم و زیادتی کرے اور قہاراعلیٰ (رب) کو بھول جائے، برا بندہ وہ ہے جو غفلت سے کھیل میں لگ جائے اور قبر کو اور اُس میں سڑنے گلنے کوبھول جائے، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو حد سے گزرنے والا متکبّر اور سرکش ہو اور اپنی ابتدا اور انتہا (یعنی کیسے پیدا ہوا اور کہاں ٹھکانا ہوگا) کو بھول جائے، کتنا برا ہے وہ بندہ جو دین کو شبہات کے ذریعہ دھوکا دے (یعنی متّقی و پرہیز گار بن کر دیندار ظاہر کرے تاکہ لوگوں میں مقبول ہو، حالانکہ عمل خیر اللہ کے لیے ہونا چاہیے)، برا بندہ وہ بندہ ہے کہ ہوس اور لالچ اُس کو کھینچے لیے جا رہی ہے (یعنی وہ حرص و ہوس کا پابند ہو گیا ہو)، بڑا برا ہے وہ بندہ جسے خواہشات نفسانی گمراہ کرے، وہ بندہ بہت برا ہے جسے رغبتیں اور خواہشیں ذلیل کریں ۔ (ترمذی شریف ۔ مشکوٰۃ ص: ۴۳۴)تکبّر ہی وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ اُس کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ! تو ابلیس نے تکبّر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں ، کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے ہوئی ہے، لہٰذا اِس تکبّرانہ جواب پر اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت و ملامت کی، اور اُسے جنّت سے نکال کر جہنم اُس کا ٹھکانا کیا۔ اِس لیے انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ مردودِ بارگاہِ خدا ابلیس لعین کے نقش ِقدم پر نہ چل کر قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی اِس رزیل و ذلیل خصلت و عادت کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اترانے کے بجائے اپنے اندر انکساری و عاجزی، فروتنی و نرم خوئی پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے اِس بری عادت سے توبہ و اِستغفار کر لیں۔یوں تو قرآن و احادیث و دیگر کتابوں میں بہت سی جگہوں پر غرور و تکبّر کی شدید مذمّت کی گئی ہے اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں سے ڈرایا گیا ہے لیکن ہم نے صرف چند حدیثیں ہی پیش کی ہیں ۔ نہاں خانۂدل میں اگر حق و صداقت کی کچھ بھی روشنی ہوگی تو یقینًا یہی مذکورہ حدیثیں ہی عبرت کے لیے کافی ہوں گی ۔طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہدو بوند ہی بہت ہے اگر کچھ اثر کرےبارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو تکبر و گھمنڈ جیسی سبھی بیماریوں و برائیوں سے بچنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !

صوفی اور تصوف۔۔از: سید خادم رسول عینی


صوفی اور تصوف – – – – – – – –

صوفی کی عظمت کا اعتراف زمانہ کرتا ہوا آیا ہے ۔تصوف کے حامل کو صوفی کہتے ہیں ۔تصوف کسے کہا جاتا ہے ؟ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔

صوفی وہ ہے جو نفس کی آفتوں اور اس کی برائیوں سے دور رہتا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو ہدایت کے نیک راستے پر چلتا رہتا ہے۔ صوفی وہ ہے جو حقائق کو گرفت میں لیے ہوتا ہے۔صوفی وہ ہے جو راہ سلوک کو طے کر چکا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو مقصود حقیقی کو پاچکا ہے۔مسلسل ریاضت کے ذریعہ صوفی کا نفس شکستہ ہوجاتا ہے۔اس کی دنیاوی خواہشات زائل ہوجاتی ہیں ۔اس کی دنیاوی آرزوئیں اور تمنائیں نابود ہو جاتی ہیں۔صوفی اپنے نفس کو مجاہدہ اور ریاضت میں لگادےتا ہے۔صوفی جو کام کرتا ہے وہ آخرت کی غرض سے کرتا ہے۔صوفی نوافل کے ذریعہ قرب حق حاصل کرتا ہے اور وہ خدا کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے۔ صوفی اپنی زندگی میں خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

جب بات صوفیت کی آتی ہے تو ہمارے ذہن میں جن کا نام فوری طور پر یاد آتا ہے وہ ہیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ۔ آپ ہندوستان عطائے رسول بن کر تشریف لائے اور جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے خلائق کا دل جیت لیا۔ آپ کے کردار، آپ کے حسن اخلاق، آپ کی کرامات سے متاثر ہو کر غیر مسلم نہ صرف آپ کے شیدا ہوگئے بلکہ ایمان سے سرفراز بھی ہوئے۔

جب حاسد حکمرانوں نے خواجہ کے استعمال کے لئے پانی بند کردیا تو آپ نے اپنی کرامت کے ذریعہ سارے دریا کے پانی کو ایک کوزے میں بھر دیا۔پھر جب خیال آیا کہ مخلوق خدا کو پانی کی قلت کی وجہ سے پریشانی ہوگی تو آپ نے کوزے کے پانی کو حکم دیا اور آپ کے حکم سے کوزے کا پانی دریا میں چلاگیا اور دریا پھر سے پانی سے لبالب ہوگیا۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کا کردار، ایک صوفی ء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

جب کسی جوگی نے خواجہ کو ہوا میں اڑنے کا چیلینج دیا تو آپ نے اپنی کھڑاؤں کو ہوا میں اڑنے کا حکم دیا اور کھڑاؤں حکم خواجہ کی تعمیل کرتے ہوئے آسمان میں اڑی اور اس نے جوگی کو واپس خواجہ کے قدموں پہ لا کھڑا کیا۔یہ کرامت دیکھ کر جب جوگی ایمان لایا تو خواجہ نے اسے اپنے گلے لگا لیا ، اس کی غلطیوں کو معاف کردیا اور اسے اپنی خانقاہ میں جگہ دی۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کی شان ، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء ایثار۔

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ کام آتی ہیں شمشیریں

جب مفتیء اعظم اڑیسہ کے جد اعلیٰ ، حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے اپنے قرب و جوار میں مخلوق خدا کو پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے عصا کو زمین پر مارا اور صاف و شفاف پانی کا چشمہ ابلوایا جس سے مخلوق خدا کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی میسر آیا ۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کا کردار اور ایک صوفی ء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی ‌نے کیا خوب فرمایا ہے:

بہر تشنہ لب عصا سے کردیا چشمہ رواں
دہر نے یہ فیض دیکھا سید السادات کا

جب حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے یہ محسوس کیا کہ مخلوق خدا کو دھوپ میں آرام کے لیے اور ماحولیات کی بہتری کے لیے ایک وسیع و عریض درخت کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنی مسواک کو زمین میں پیوست کیا اور اچانک اس سے زمین میں ایک وسیع و عریض درخت نمودار ہوگیا جس سے مخلوق خدا کو دھوپ اور کثافت و آلودگی سے راحت ملی۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کی شان اور ایک صوفیء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی نے کیا خوب شعر کہا ہے :

گاڑ دی مسواک دھرتی پر ، شجر وہ بن گئی
خرق عادت ہے یہ کس کا سید السادات کا

میں نے اپنی آنکھوں سے پیر و مرشد حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کو دیکھا ہے ، آپ کے روز و شب کا مشاہدہ کیا ہے، آپ کے انسانیت نما کردار کا ملاحظہ کیا ہے ۔مجاہد ملت کا جب انتقال ہوا اس وقت میں اسکول میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔
مجاہد ملت کے جنازہ / وصال کے دوسرے دن جب میں اسکول گیا تو کلاس میں ایک عجیب و غریب چیز کا میں نے مشاہدہ کیا۔ ہمارے کلاس ٹیچر ایک غیر مسلم دھام نگری تھے۔ وہ خود مجاہد ملت کی داستان سنانے لگے اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ یہ بولنے لگے کہ ان کی پڑھائی کے لیے اخراجات مجاہد ملت برداشت کرتے تھے ۔اور انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صرف ان کی نہیں بلکہ دھامنگر کے کئی غیر مسلم غرباء کی مالی امداد مجاہد ملت کرتے تھے ۔ افسوس کہ اب مجاہد ملت کا انتقال ہوگیا ! “

یہ ہے ایک مومن کا کردار، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

کسی شاعر نے منقبت در شان حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ میں کیا خوب کہا ہے:

پیار یکساں کیا چھوٹا ہو یا بڑا
اس خلوص و محبت پہ لاکھوں سلام

افسوس کا مقام ہے کہ آج صوفیوں کو دہشت گرد سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ صوفیوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جب کہ صوفیوں نے ملک عزیز میں اخوت کے پیڑ اگائے، محبتوں کے چراغ روشن کیے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ نظام الدین اولیاء ، سیدنا شاہ دریا علیہم الرحمہ سے لےکر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ تک سارے صوفیائے کرام کی تاریخ کے ابواب شاہد ہیں کہ آپ کی زندگی کے لمحات خدمت خلق میں گزرے تھے۔

تو پھر کوئی صوفی ازم کو دہشت گردی سے کیسے جوڑ سکتا ہے ؟

جہاں تک غیر مسلم سے مسلم بننے کا معاملہ ہے تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم ، مومنوں کے اخلاق و کردار اور اولیاے کرام کی کرامات کے نور کو دیکھ کر ایمان لائے، نہ کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک کو نکال کر درست تاریخ کا مطالعہ کریں۔اڑیسہ کے سابق گورنر ڈاکٹر بشسمبر ناتھ پانڈے نے اپنی کتابوں ( اسلام اینڈ انڈین کلچر ، اورنگ زیب) میں مدلل ثابت کیا ہے کہ مسلم دور حکومت میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا ۔ ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک ، اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ ء میں ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے کا اسپیچ سنا تھا ۔انھوں نے اپنی لمبی گفتگو میں یہ ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں بھی زبردستی تبدیلیء مذہب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی غیر مسلم پلیس آف ورشپ کو مسمار کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے نے اورنگ زیب عالمگیر کی تعریف میں پل باندھ دیے تھے اور انہوں نے اورنگ زیب کو ایک سچا مسلمان اور ایک صوفی بزرگ سے تعبیر کیا ۔

پھر بھی صوفی ازم کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے ، تعجب ہے۔

٢٠١٦ میں دہلی کے صوفی کانفرنس میں وزیر اعظم ہند
نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں اپنے اسپیچ کے دوران انھوں نے کہا تھا:

“تصوف کراہتی انسانیت کو سکون دے سکتا ہے۔
تصوف کے نزدیک خدا کی خدمت کا مطلب انسانیت کی خدمت ہے۔
بلھے شاہ کی تعلیمات آج کے دور میں زیادہ ضروری ہوگئی ہیں اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔تصوف امن ، بقائے باہم ، ہمدردی اور مساوات کی آواز ہے۔
ہمیں تصوف کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ہوگا جو اسلام کے اصولوں اور اعلی انسانی اقدار کی بات کرتا ہے۔”

پھر بھی آپ کہیں گے کہ صوفی ازم آتنک باد ہے؟

“صوفی ازم آتنک باد ہے ” یہ جملہ کذب پر مبنی ہے۔

صوفی ازم اسلام کی روحانی اصطلاح ہے ۔
صوفی ازم امن پسند اسلام کا آئینہ دار ہے ۔
صوفی ازم اپنے اندرونی خود کو پاکیزہ کرنے کا نام ہے ۔
صوفی ازم ضبط نفس/تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
خالق سے قربت حاصل کرنے کے طریقے کو صوفی ازم کہا جاتا ہے۔
صوفی ازم وہ ہے جس سے سلسلہ قادریہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ وغیرہ جڑے ہویے ہیں ۔
صوفی ازم محبت اور اخوت کا پیغام ہے ۔

دہشت گردی سے تصوف جیسی مقدس طریق کا کوئی واسطہ نہیں ۔

کورٹ کا فیصلہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔l

کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حجاب کے خلاف آیا۔یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا کیونکہ یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ مڈل کلاس کے خلاف بھی ہے۔اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ ایلایٹ فیمیلی کی مستورات نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتیں ،البتہ جو مستورات مڈل کلاس یا لوور کلاس سے وابسطہ ہیں وہ کالجوں میں برقع یا نقاب کا استعمال کرتی ہیں ۔ یہ ان کا پرسنل چوائس ہے۔انھیں علمائے کرام نے مجبور نہیں کیا کہ آپ لوگ نقاب / حجاب میں ہی رہو۔نقاب پہننا ان کا پرسنل ڈیسیزن/ فیصلہ ہے کیونکہ وہ موڈیسٹی / حیا پسند کرتی ہیں اور ان کے گھر میں ان کی تربیت بھی ایسی رہی ہوگی۔نقاب پہننا شریعت اسلامی میں لازم ہے کہ نہیں یہ ایک الگ مسءلہ ہے ۔کورٹ کا حجاب کے خلاف فیصلہ دینا انسان کی آزادی کے خلاف ہے، مستورات کے رائیٹس کے خلاف ہے ۔ہمیں کورٹ سے ایسے فیصلے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کیرلا کے ایک اسکول میں ایک عیسائی طالب علم مورننگ پرئیر کے وقت نیشنل اینتھم پڑھنے سے انکار کردیا اس وجہ سے کہ اس گیت کے پڑھنے کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔یہ معاملہ کورٹ تک پہنچا اور کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ انڈین کانسٹیچیوشن کے مطابق سب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، لہذا طالب علم کے لیے نیشنل اینتھم کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اس عمل کو ملک سے غداری سے تعبیر کیا جائےگا۔لیکن افسوس کہ آج کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف مذہبی آزادی کے خلاف رہا بلکہ انسانی آزادی کے بھی خلاف ہوا۔لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے‌۔ایوری کلاؤڈ ہیز اے سلور لاءننگ ٹھو۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر مہاراشٹرا کے ہائی کورٹ نے حجاب کی حمایت میں فیصلہ صادر کیا۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہر سال مارچ ١٥ کو عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا۔اسلامو پھوبیا کسے‌ کہتے ہیں ؟ عوام کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف پیوست کرنا اسلامو پھوبیا ہے۔سماج میں یہ احساس دلانا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اسلامو پھوبیا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے اسلامو پھوبیا ہے۔جارج برنارڈ شا نے کبھی کہا تھا کہ اسلام از دی بیسٹ ریلیزین اینڈ مسلمز آر دی ورسٹ کامیونیٹی۔اس قسم کے کئی کوٹس غیر مسلم دانشوروں کی جانب سے تاریخ میں رقم ہیں ۔ان کوٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمو پھوبیا پہلے بھی تھا ، لیکن اسلامو پھوبیا نہیں تھا ۔مذہب اسلام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اسلامو پھوبیا ایک نئی اصطلاح ہے۔غالبا” سن ٢٠٠٠ ء سے اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے اور اسلام کے خلاف ، اسلام کے قوانین کے خلاف سازشیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں میڈیا نے اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے اس لفظ کی خوب تشہیر کی۔ انڈین جرنلسٹ برکھا دت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بھی اسلامو پھوبیا کی شکار ہے اور ڈرتی ہے کہ شاید اس کے پڑوسی فلیٹ میں رہتا ہوا مسلم شخص بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دہشت گرد بن گیا ہو ۔اسلامو پھوبیا کے خلاف اس سے پہلے بھی آوازیں اٹھی ہیں ۔ ٢٦ ستمبر ٢٠١٨ میں بروسیلس کے پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پاس ہوا تھا جس کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی تھی کہ پورے یوروپ میں اسلامو پھوبیا کے خلاف ایک مہم چلائی جاۓ اور لوگوں کو سمجھایا جاۓ کہ اسلام ایک پر امن مذہب کا نام ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردی نہیں سکھاتا ۔لیکن بروسیلس کا یہ قرار داد یوروپ کے لیے تھا ، اس‌کا دائرء عمل یوروپی ممالک تک محدود تھا ۔پورے کرہء ارض کے لیے اس قسم کی تحریک کبھی چلائی نہیں گئی تھی ۔پہلی بار ایسا ہوا جیسا کہ اقوام متحدہ نے ١٦ مارچ ٢٠٢٢ میں یہ فیصلہ لیا کہ ہر سال ١٥ مارچ ٢٠٢٢ عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا تاکہ عوام کا نظریہ اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے تعلق سے صاف ہوجائے اور عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ شانتی کے پرتیک ہیں ۔ہم اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے ساتھ کرتے ہیں :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔

اعمال شب برات ،ان میں ہے امت محمدیہ کے لیے پروانہ نجات–مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم بر گدھی مہراج گنج یوپی۔ورکن مرکزی اصلاحی رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری کٹیہار ، بہار

۔ اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے شعبان المعظم سال کا آٹھواں مہینہ ہے اور پندرہویں شعبان کی رات مخصوص فضیلت و اہمیت کی حامل ہے ۔ کیوں کہ رب کریم کا فرمان عالی شان ہے “وذکرھم بایام اللہ” اور انہیں اللہ کے دن یا دلاؤ۔ اس آیت میں چند مخصوص دنوں کو اللہ نے یاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان مخصوص دنوں کے تعلق سے مفسرین صحابہ کرام حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنھم اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایام اللہ سے مراد وہ ایام و دن ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر انعامات و احسانات فرمایا ۔ یہ ظاہر و باہر ہے کہ شب قدر اور شب ولادت کی طرح شب برات بھی اللہ کے مخصوص ایام میں سے ایک خاص دن ہے ۔ اس کا مخصوص دنوں میں شمار ہونا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ” جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ کیوں کہ اس رات میں اللہ تعالی کی تجلی آفتاب غروب ہونے کے وقت سے آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالی فرماتا ہے کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ اسے بخش دوں۔ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ اسے عطا کردوں ۔ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے چھٹکارادلاؤں ۔کیا کوئی ایسی ایسی حاجت والا ہے کہ میں حاجت کو پوری کردوں ۔ یہاں تک کہ صبح ہو لے ” اس ارشاد رسول سے اس امر کی تاکید مترشح ہوتی ہے کہ اس مبارک رات میں بندہ کثرت عبادت کے ذریعہ اپنے معبود کی رضا و خوشنودی حاصل کرکے قرب خداوندی کا حقدار بن جائے ۔ جو ایک صالح انسان کا منزل مقصود بھی ہے ۔ رب کریم کی رضا کے متلاشی کے لیے یہ رات ایسی پر مسرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے رحم و کرم کا دریا جوش پر ہوتا ہے ۔ اور بے شمار گناہ گاروں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔حدیث پاک میں ہے ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گنہ گاروں کو بخشتا ہے ” سرکار علیہ السلام کے مذکورہ فرمان سے واضح ہوگیا کہ یہ رات ہم گنہ گاروں کے لیے عبادات نافلہ کرکے پروانہ نجات حاصل کرنے کی رات ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ” بے شک اللہ تعالی اس رات تمام مسلمانوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ اسی حدیث میں آقانے فرمایا کہ اور کچھ لوگوں کو یہ نجات کا پروانہ نہیں ملتا وہ یہ ہیں ” کاہن ، جادو گر ، ہمیشہ کا شرابی ، ماں باپ کا نافرمان اور زنا کے خوگر یعنی زنا جن کی عادت بن گئی ہو ” ۔ اعمال شب برات کے فائدے بہت ہیں ان میں سے چند یہ ہیں نماز: اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی نماز پڑھی اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی اے علی جس نے پندرہویں شعبان کی شب میں سو رکعت نمازپڑھی اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ بار قل اللہ پڑھی ، کاتبین کو حکم ہوگا میرے اس بندے کے گناہ مت لکھو اور اس کے حسنات آئندہ سال تک برابر لکھتے رہو ۔ جو کوئی یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالی اس کے لیے اس رات کے عابدوں میں حصہ مقرر کردیتا ہے ۔صالحین امت سے یہ طریقہ بھی معروف ہے کہ شب برات میں دورکعت نماز اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر رکعت سورئہ فاتحہ کے بعد آیتہ الکرسی ایک مرتبہ سورئہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں تو خالق کائنات اس کو دوزخ سے آزاد کردے گا اور بہشت میں بہترین محل عطا فرمائےگا علمائے کرام ایک طریقہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شخص شب برات میں چار رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کے پچاس برس کے گناہ معاف فرما دے گا۔نماز شب برات کی فضیلت ”نزھة المجالس“میں بایں مفہوم موجودہے ،ایک مرتبہ سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلام ایک پہاڑ کی سیر میں مصروف تھے کہ آپ کو اس جگہ ایک خوب صورت اور صاف وشفاف چٹان نظر آئ ۔جس کی خوب صورتی آپ کو اتنی پسند آئ کہ آپ اس کو بغور دیکھنے لگے۔خالق کائنات نے دریافت فرمایا،اے عیسی! کیا یہ چٹان بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، عرض کیا ۔ہاں۔ ارشاد ربانی ہواکہ تم اس کے اندر کی چیز کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو،عرض کیا ضرور،رب کائنات کے حکم سے وہ چٹان بیچ میں پھٹ گئ، حضرت عیسی علیہ السلام نے دیکھاکہ چٹان کے اندر ایک نورانی شخص نماز پڑھ رہاے۔اس کےقریب ہی پانی کا چشمہ بہہ رہا ہےاور ایک طرف انگور کی بیل بھی ہے جس میں انگور کے ترو تازہ خوشے لگے ہیں،جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ،تو آپ نے اس کو سلام کیااور مصافحہ فرمایا۔حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تم کون ہو؟اور کب سے ہو اور کیا کرتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیامیں حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام کی امت کاایک شخص ہوں ،میں نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ مجھے عبادت کرنے کےلۓسب سےالگ جگہ عنایت فرما۔چنانچہ اس نے مجھے یہ تنہائ کی جگہ عطا فرمائ ۔یہاں میں چارسو سال سےعبادت میں مصروف ہوں،پیاس لگتی ہےتواس چشمہ سے پانی پی لیتاہوں۔اور بھوک محسوس ہوتی ہے تو اس بیل سے انگور توڑ کر کھا لیتا ہوں۔ حضرت عسی علیہ السلام بہت مسرور و شاداں ہوۓ اور عرض کیا ،یا اللہ اس سے بڑھ کر کون عبادت گذار ہوگااور اس سے زیادہ ثواب کس نے جمع کیا ہوگا۔ ارشاد باری ہوا ،اے عیسی!” من صلی لیلة النصف من شعبان من امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فھو افضل من عبادة اربع ماءة سنة“ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سےجو شخص شعبان کی پندرہویں شب کو دورکعت نماز پڑھےگا وہ چار سو سال کی عبادت سے زیادہ ثواب پاۓ گا۔اللہ تعالی اس طرز کی کسی بھی نماز کی ادائے گی سے ہماری جبینوں کو آشنا فرمادے ، اس رات اور اس شب کی عبادت کےطفیل ہمارے ملک کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا دے اور اسلامیات پر عمل پیرا رہنے کے مواقع عطا فرما آمین

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

ज़कात

अस्सलामु अलैकुम व रहमत उल्लाह व बर्कातुहु

जबरदस्त मिसाल है।
हम, “तरबूज” खरीदते हैं.
मसलन 5 किलो का एक नग
जब हम इसे खाते हैं
तो पहले इस का मोटा छिलका उतारते हैं.
5 किलो में से कम से कम 1किलो
छिलका निकलता है.
यानी तकरीबन 20%
क्या इस तरह 20% छिलका
जाया होने का हमे अफसोस होता है?
क्या हम परेशान होते हैं. क्या हम सोचते हैं के हम तरबूज को
ऐसे ही छिलके के साथ खालें.
नही बिलकूल नाही!
यही हाल केले, अनार, पपीता और
दीगर फलों का है. हम खुशीसे
छिलका उतार कर खाते हैं, हालांके हम ने इन फलों को छिलकों समेत
खरीदा होता है.
मगर छिलका फेंकते वक्त हमे
बिल्कुल तकलीफ नाही होती.
इसी तरह मुरगी बकरा साबीत
खरीदते हैं. मगर जब खाते हैं, तो
इस के बाल,खाल वगैरे निकाल कर
फेंक देतें हैं.
क्या इस पर हमें कुछ दुःख होता है ?
नही और हरगीज नही।
तो फिर 40 हजार मे से 1 हजार देने पर
1लाख मे से 2500/-रूपये देने पर
क्यो हमें बहुत तकलीफ होती है ?
हालांके ये सिर्फ 2.5% बनता है यानी 100/- रूपये में से सिर्फ (ढाई) 2.50/-रूपये ।
ये तरबूज, आम, अनार वगैरे के छिलके और गुठली से कितना कम है,
इसे शरीयत मे जकात फरमाया गया है,
इसे देने से
माल भी पाक, इमान भी पाक,
दिल और जिस्म भी पाक
और माशरा भी खुशहाल,
इतनी मामूली रकम यानी 40/-रूपये मे से सिर्फ 1 रूपया
और फायदे कितने ज्यादा,
बरकत कितनी ज्यादा।
समझ गए हो तो आगे भेजो।
●ज़्ज़ाक़ल्ला खेर●
🌹🌷वस्सलाम 🌷

معراج النبی کاپیغام:امت مسلمہ کے نام:از:- مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کی حیاتِ بابرکت میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو پیغام و سبق نہ ملتا ہو اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی ذات کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا، جس کو دیکھ کر صاف و شفاف آئینہ میں صبح قیامت تک آنے والے لوگ اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کو سدھار سکتے ہیں، الجنھوں اور پریشانیوں میں راہ عافیت تلاش کرسکتے ہیں، آلام و مصائب کے دشوار گزار حالات میں قرینۂ حیات پاسکتے ہیں، یورشِ زمانہ سے نبرد آزمائی اور فتنہ و فساد کے پر خطر ماحول میں حکمت و تدبر کے ذریعہ منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیرت کا کوئی واقعہ اور کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لئے ان گنت نصائح نہ ہوں۔ چنانچہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حیرت انگیز واقعات میں سے واقعۂ معراج بھی ہے،جو بہت ہی مشہور ومعروف ہے ۔اسے علمائے اسلام نے نہایت تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اور اکثر واقعہ تفسیرِ قرآن کریم اور صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے۔اس سارے واقعہ سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو کیا سبق ملتا ہے ؟اور اِس واقعہ کو مدنظر رکھ کر آئندہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ،یہ سوالات نہایت اہم ہیں-
عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)یہ واقعہ جو اصطلاحا ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صَعصَعہ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو سعید خدری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں
جو تاریخ انسانی کا نہایت محیرالعقول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے اللہ تعالی نے اپنے نبی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی کے کچھ حصے میں جسم و روح کے ساتھ، بیداری کی حالت میں عالم بالا کی سیر کرائی اور اپنے قرب کا اعلی ترین مقام عنایت فرمایا، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایا، نیکوں اور بدوں کے سزا و جزا کا معائنہ کروایا، نبیوں سے ملاقات ہوئی، ہر جگہ آپ کی عظمت و رفعت کا چرچہ کروایا، رحمتوں کی بارش فرمائی اور انعامات و الطاف سے خوب نوازا اور امت کے لئے عظیم الشان تحفہ ’’نماز‘‘ کی شکل میں عطا کیا، اور قیامت تک کے لئے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا۔ واقعۂ معراج بے شمار سبق آموز پہلوؤں اور عبرت خیز واقعات کا مجموعہ ہے۔
اس واقعۂ معراج کی روشنی میں ہمارے لئے موجودہ عالمی حالات میں بھی کئی ایک نصیحت آموز ہدایات ملتی ہیں جس کے ذریعہ گرد و پیش میں چھائے ہوئے تاریک ماحول اور ظلم و ستم کی اندھیری رات میں ہم چراغ ایمان کو فروزاں کرسکتے ہیں اور مایوسی و ناامیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی شمع روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں واقعۂ معراج کے پس منظر کو ذہنوں میں تازہ کرنا پڑے گا اور ان حالات کی چیرہ دستیوں کو دیکھنا ہوگا جس کے بعد یہ ایک عظیم الشان سفر کروایا گیا-
ہمیں چاہییے کہ ہم آج جہاں معجزہ معراج النبی کا جشن منائیں وہیں لوگوں کو اس کے جامع پیغام کو اپنانے کی تاکید وتلقین کریں۔کیونکہ جس امت کے رسول معراج کی بلندیوں تک پہنچے اس امت کو پستیوں کا قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے سے امت کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کا سبق ملتا ہے۔امت مصطفیٰ کی معراج اطاعت مصطفیٰ ؐمیں موجودہے۔جو عرش کی بلندیوں سے ساری کائنات کا مشاہدہ کر رہے تھے ان کا دیا ہوا نظام اور ضابطۂ حیات ہی سب سے جامع اور کامل ترین ہوسکتا ہے۔آپ کی وسعتِ نگاہ نے ہر خطے اور ہر صدی کے مسائل کا حل عطا فرمایا ہے۔معراج مصطفی نظام مصطفی کامل ہونے کی دلیل ہے۔معجزۂ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ دینی احکام اور دنیاوی امور کے لحاظ سے کوئی شخص بھی علوم مصطفی کے ہم پلہ نہیں۔معراج کا جشن منانا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔معجزہ معراج کے مطالعہ سے نسل نو کیلئے انکشافات کی راہیں کھلتی ہیں۔معراج کی رات کے مشاہدات نبوی میں امت کیلئے فکر آخرت کے بہت بڑے بڑے اسباق موجود ہیں۔سفرِ معراج میں دو مسجدوں کا ذکر واضح کر رہا ہے کہ امت کے دل میں مسجد کا شوق کس قدر ہونا چاہیے۔
اور حضور کے معراج سےواپسی پر اللّٰہ وعزوجل کی طرف سے نمازوں کاتحفہ ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس تحفہ کی قدر کرتے ہوئے نمازوں کی پابندی کریں-
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)کے ناظم تعلیمات اور معروف قلمکار حضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں بتائی-

कामियाबी के लिए आपसी इत्तिफाक़ और दीनी व अ़सरी तअ़लीम की ज़रूरत:अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी!

नेगरड़ा,शिव,बाड़मेर:20 फरवरी 2022 ईस्वी दिन:रविवार हज़रत मौलाना सूफी अ़ब्दुल करीम साहब के बच्चों की शादी खाना आबादी के मुबारक मौक़े पर जश्ने ईद मीलादुन्नबी व सुन्नते रसूल सल्लाल्लाहु अ़लैहि वसल्लम मनाया गया।इस जश्न की शुरुआ़त तिलावते कलामे पाक से की गई।फिर यके बाद दीगरे हज़रत पीर सय्यद मुहम्मद अशरफ साहब जमाली जामसर,बीकानेर व मद्दाहे रसूल जनाब क़ारी मुहम्मद अमीरुद्दीन सिकन्दरी ने बारगाहे रसूल में नअ़ते रसूल के नज़राने पेश किए।बादहु हज़रत मौलाना शाहमीर साहब सिकन्दरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम क़ादरिया फैज़े सिकन्दरिया जैसलमेर ने बहुत ही इस्लाही खिताब किया।फिर दारुल उ़लूम फैज़े राशिदिया सम के साबिक़ सदर मुदर्रिस पैकरे इख्लास व मुहब्बत हज़रत मौलाना अल्हाज मुहम्मद पठान साहब सिकन्दरी सरबराहे आला: मदरसा अहले सुन्नत फैज़े गुल्शने सिकन्दरी लाखाणियों की बस्ती,रीवड़ी,फतेहगढ़,जैसलमेर ने ज़िक्रे इलाही की अहमियत व फज़ीलत को बयान करते हुए कहा कि “बेशक अल्लाह का ज़िक्र ही एक एैसा अ़मल है कि जिस से दिलों को चैन व सुकून नसीब होता है,और यही क़ुरआन का फैसला भी है,लिहाज़ा हम सिकन्दरियों के पीराने तरीक़त ने हमें जो ज़िक्र की तअ़लीम व ताकीद की है हमें चाहिए कि हम नमाज़ें की पाबंदी करते हुए बराबर ज़िक्र करते रहें “आखिर में दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के मुहतमिम व शैखुल हदीष व खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ के साहिबे सज्जादा नूरुल उ़ल्मा पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली ने खुसूसी व सदारती खिताब फरमाया।आप ने अपने खिताब में आपसी इत्तिफाक़ व इत्तिहाद और अपने बच्चों को दीनी व अ़सरी तअ़लीम दिलाने पर ज़ोर देते हुए फरमाया कि ” किसी भी काम में कामियाबी व कामरानी हासिल करने का उम्दा और बेहतर तरीक़ा इत्तिफाक़ व इत्तिहाद है,जिस क़ौम या जमाअ़त में इत्तिफाक़ व इत्तिहाद नहीं वोह कमज़ोर है, इत्तिफाक़ व इत्तिहाद की बरकत से हम हर एक मंज़िल पर कामियाबी हासिल कर सकते हैं,इत्तिफाक़ व इत्तिहाद में वह ताक़त है जो कभी खतम नहीं होती, इत्तिफाक़ हर जगह ज़रूरी है,इस लिए हम सभी लोगों को चाहिए कि आपसी इत्तिफाक व इत्तिहाद और भाई चारा के साथ अपनी ज़िन्दगी ग़ुज़ारें और जहाँ तक हो सके अपने बच्चों को दीनी व दुनियावी तअ़लीम से ज़्यादा से ज़्यादा आरास्ता करें,क्यों कि इल्म चाहे दीनी हो या दुन्यवी इंसान को बुलंदियों पर पहुंचा देता है।सलातो सलाम

और दुआ़ पर यह मज्लिसे सईद इख्तिताम पज़ीर हुई

रिपोर्टर:मुहम्मद नसीर अनवारी S/O मुहम्मद आदम[तालसर]

मुतअ़ल्लिम :दर्ज ए फज़ीलत :दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ (राजस्थान)