بڑی دل کو مسرت ہو رہی ہے
رقم جو ان کی مدحت ہو رہی ہے
ترے رخ کی زیارت ہو رہی ہے
عبادت پر عبادت ہو رہی ہے
ترے شیریں تکلم پر اے جاناں
فدا خود ہی فصاحت ہو رہی ہے
پیام وصل لے کر آۓ کوئی
بپا ہم پر قیامت ہو رہی ہے
تو ان کو کہہ رہا ہے اپنے جیسا!
ابے، یہ تیری ہمت ہو رہی ہے؟
خرد والوں نے پائی پھر نصیحت
جنوں کی آج عزت ہو رہی ہے
مجھے بھی عشق کا تمغہ ملا ہے
مری بھی اعلیٰ قیمت ہو رہی ہے
اغثنی یا رسول اللہ، اغثنی
گناہوں پر ندامت ہو رہی ہے
کرا دو اب مجھے دیدار اپنا
بڑی بےچین حالت ہو رہی ہے
ہیں قبضے میں خزانے دو جہاں کے
مگر وا! کیا قناعت ہو رہی ہے
اٹھانے والے ہیں وہ رُخ سے پردہ
نثار اس رُخ پہ زینت ہو رہی ہے
عطا کر کے دعائیں دے رہے ہیں
عجب شان سخاوت ہو رہی ہے
نبی ہیں مقتدی اقصٰی میں سارے
شہ دیں کی امامت ہو رہی ہے
رقم نعت نبی میں کر رہا ہوں
ادا حساں کی سنت ہو رہی ہے
جہانِ آب و گل میں ان کے دم سے
ازل سے خوب نکہت ہو رہی ہے
اے میری جاں کے مالک اب تو آ جا
مری دنیا سے رحلت ہو رہی ہے
دعا ہے پھر آذان عشق گونجے
قضا ان کی محبت ہو رہی ہے
چھڑا ہے ذکر نعل مصطفیٰ کا
مرے گھر میں بھی برکت ہو رہی ہے
ثناۓ شاہ بطحا میں مگن ہوں
بہت اعلیٰ عبادت ہو رہی ہے
علی کے گھر کا ہے یہ خاصہ جو
سرِ نیزہ تلاوت ہو رہی ہے
مجھے بھی دیں وہ بوصیری سا مژدہ
مرے دل میں یہ چاہت ہو رہی ہے
وہاں سے سن رہے ہیں دوجہاں کی
بڑی اچھی سماعت ہو رہی ہے
چراغِ عشق روشن ہے جہاں میں
کدورت کی فضیحت ہو رہی ہے
نبی کے حسن کا صدقہ ملا ہے
جو مہر و مہ کی طلعت ہو رہی ہے
قمر ٹکڑے ہوا سورج بھی پلٹا
نبی کی یوں اطاعت ہو رہی ہے
فرشتے بزم میں کیونکر نہ آۓ
بیاں شانِ رسالت ہو رہی ہے
صداۓ اذھبو دیں انبیاء بھی
مگر ان کی شفاعت ہو رہی ہے
معطر ہے فضا ذکرِ نبی سے
بڑی خوش دل طبیعت ہو رہی ہے
کہو آمد ہوئی گلشن میں کس کی
گلوں میں کیسی رنگت ہو رہی ہے
چلیں آؤ، درِ شمس الضحٰی پر
وہاں تقسیم نعمت ہو رہی ہے
خدا کا واسطہ اب ایک ہو جا
کہ ٹکڑے ٹکڑے ملت ہو رہی ہے
جو رکھتا ہے نبی سے بعض و کینہ
اسی پر رب کی لعنت ہو رہی ہے
کرم فرمائیے شاہ مدینہ
پریشاں حال امت ہو رہی ہے
الست جام کا ہوں پھر سے طالب
مجھے اس مے کی عادت ہو رہی ہے
یہ جاں ان کی محبت میں لٹائی
ادا رسم شہادت ہو رہی ہے
وہ مکہ کے در و دیوار روۓ
مرے آقا کی ہجرت ہو رہی ہے
گلِ باغ تفکر کھل رہا ہے
ثناگوئی سے بہجت ہو رہی ہے
نبی کے اسم سے مہکی ہے محفل
عطا مائل بہ قدرت ہو رہی ہے
کرم کے پھول گلشن میں کھلے ہیں
طبیعت خوب فرحت ہو رہی ہے
سنبھالو مجھ کو اب یارو سنبھالو
کہ پیش رو وہ صورت ہو رہی ہے
پلاؤ گھول کر خاک مدینہ
اگر بےحس طبیعت ہو رہی ہے
جبیں کو خم کروں میں ان کے در پر
تجھے نجدی کیوں دقت ہو رہی ہے
میں ان کا نام لیتا جا رہا ہوں
مری پوری ضرورت ہو رہی ہے
مٹا کر خود کو ان پر خلد لے لوں
بڑی اچھی تجارت ہو رہی ہے
فصاحت ان کے قدموں کی بھکارن
ہبا شہ پر بلاغت ہو رہی ہے
درودِ پاک میں بھی پڑھ رہا ہوں
مرے اوپر بھی رحمت ہو رہی ہے
ثنا کے پھول کھلتے جا رہے ہیں
عنایت پر عنایت ہو رہی ہے
تری شان کریمی پر میں قرباں
دلوں پر بھی حکومت ہو رہی ہے
فراقِ یار میں آنسو رواں ہیں
عجب یہ میری حالت ہو رہی ہے
نبی کی نعت لکھنے کا صلہ ہے
تری جو آج شہرت ہو رہی ہے
بہت برسیں گے اب یہ آب رحمت
بیاں آقا کی سیرت ہو رہی ہے
افق پر ایماں کا خورشید چمکا
اپاہج اب ضلالت ہو رہی ہے
لگی ہے آخرت کی فکر مجھ کو
“مجھے دنیا سے نفرت ہو رہی ہے”
میں پلکوں سے بہاروں خاک طیبہ
یہی اب دل کی چاہت ہو رہی ہے
نبی کی نعت پڑھتے جا رہا ہوں
سخن گوئی سے رغبت ہو رہی ہے
خدا کا گھر بتوں سے پاک ہوگا
مبارک، ان کی بعثت ہو رہی ہے
پڑھی جاتی ہے اب میلاد گھر گھر
بہت اچھی یہ بدعت ہو رہی ہے
ترا انجام کیا ہوگا اے نجدی
تری قسمت پہ حیرت ہو رہی ہے
کلام پاک پڑھتے جا رہے ہیں
بیاں آقا کی عظمت ہو رہی ہے
میں ان کی مدح گوئی میں لگا ہوں
مجھے ان کی اجازت ہو رہی ہے
جو ان کے نام پر گردن کٹا دے
فدا خود اس پہ جنت ہو رہی ہے
رقم کرنے ہیں اب اشعار تریسٹھ
دعا دیں، نیک نیت ہو رہی ہے
انہی کا فیض ہے لاریب، اختر
یہ جو گلشن میں نزہت ہو رہی ہے