WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حضور کےوجود باجودسے سارے جہان میں شان رحمت کی جلوہ گری ہے۔۔۔۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار خوبیاں اورصفتیں ہیں،ان میں سےآپ کی صفت رحمت ساری کائنات کے اصناف خلق پر عام ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ کی رحمت ہمہ گیر ہے،کائنات کا ذرہ ذرہ،قطرہ قطرہ،پتہ پتہ ،گوشہ گوشہ اورتمام چیزیں آپ کی رحمت سے مستفید ہیں،کوئ بھی آپ کی رحمت سے محروم نہیں ،نیک وبد ،مومن وکافر سب رحمت نبوی سے شاد کام ہو رہے ہیں،اور رب کریم کے اس فرمان عالی شان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں”وماارسلنا ک الا رحمة للعالمین “ اے محبوب ہم نے آپ کو سراپا رحمت بناکر بھیجاہے ۔
اس میں کسی فرد فرید کی تخصیص نہیں، بلکہ تمام جہان کے ہر فرد مخلوق کے لۓ آپ کی رحمت عام ہے ، ہاں بقول مفسرین مسلمان کے لۓ آپ دونوں جہان {دنیا وعقبی}میں رحمت ہیں اور کافروں کےلۓ صرف اس دنیا ہی میں رحمت ہیں کہ رب کریم نے دنیاوی عذاب میں تاخیر کرکے عذاب اخروی ان کے لۓ مقدر کردیا ، لہذا زمانئہ نبوی کے کافروں پرسے دنیاوی عذاب کا ٹل جانا اسی آفاقی رحمت کا ثمرہ ہے جو حضور نبئ کریم کی تشریف آوری کی صورت میں سرزمین مکہ میں جلوہ گر ہوا، کفار مکہ کے نزول عذاب کی اس در خواست پر ”کہ اے اللہ اگر یہ اسلام وقرآن تیری طرف سے حق ہےتو حق نہ ماننے کی پاداش میں ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئ دردناک عذاب لے آ،اس درخواست پر عذاب خداوندی کا نزول ان بد بختوں پر ہوجاناتقاضئہ فہم کے مطابق تھا مگر حضور کی تشریف آوری اور ان کے مابین آپ کی جلوہ گری ان پر نزول عذاب سے آڑ ورکاوٹ بن گئ اور پروانئہ نجات کی صورت میں فرمان الہی یوں ناطق ہوا ” اللہ تعالی کی یہ شان نہیں کہ ان {سرکش} کافروں پر عذاب نازل کرے جب تک اے محبوب آپ ان میں تشریف فرما ہیں“ دیکھا آپ نے ! حضور کے وجود باجود اور ان کی شان رحمت کی جلوہ گری کو کہ مانگے ہوۓ عذاب کو بھی ان سے دنیا میں ٹال دیا گیا اسی لۓ تو امام اہل سنت، اعلی حضرت نے کیا خوب فرمایا
نجدی اس نے تجھ کو مہلت دی کہ اس عالم ہے
کافر ومرتد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی۔
مذکورہ باتیں دار العلوم اہل سنت قادر یہ سراج العلوم بر گدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ”تنظیم نوجوانان اہل سنت بر گدہی“ کے زیر اہتمام منعقد جلسئہ عید میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خطاب کے دوران کہیں ،انہو ں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح پوری دنیا ربوبیت خداوندی سے بہرہ ور ہے اور پوری کائنات کو رب کی ربوبیت کی احتیاج ہے ،اسی طرح انہیں رحمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ضرورت واحتیاج ہے ،اس اعتبار سے ہم محتاج ہیں اور حضور محتاج الیہ اور محتاج الیہ مقدم ہوتاہے اور محتاج اور ضرورت مند مؤخر، اس لۓ اللہ تعالی نے اپنی ربوبیت کے اظہار کے لۓ محتاج الیہ ذات حضور رحمة للعالمین کو پیدا فرمایا تو گویا اگر رحمة للعالمین نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا اسی لۓتو اعلی حضرت نے فرمایا۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو۔
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین موقع پرآپ اپنے کردار کو حسین بنائیں ،خصوصانماز کی پابندی کا آج ہی سے عہد وبیماں کریں ،جلوس نکالیں مگر خلاف شرع حرکات سے اجتناب کریں ،رقص وسرود سے مکمل دور نفور برتیں ،ہونٹوں پر درود وسلام کا ورد رہے،رفتار وگفتا ر میں اسلامی وقار قائم رہے ،جس سے سماج میں اسلام اور مسلمانوں کااچھااثر نمایاں ہو۔
دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم کے پرنسپل مفتی شیر محمد قادری نے میلاد کے فوائدو ثمرات پر مدلل خطاب فرمایا اور کہا کہ جو بھی میلاد نبوی کا اہتمام کرتاہے وہ دنیوی واخروی ثمرات سے لطف اندوز ہوتاہے ، مولانا عبدالمطلب مصباحی ومولانا بختیار مصباحی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے موقع پر پر مغز خطاب فرمایا،قاری توصیف رضا صفوی نے کلام الہی کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز فرمایا ،مولانا کاتب ذوالقرنین نے نعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سامعین کو مسرور فرمایا نظامت کے فرائض مولانا ظفر الدین سراجی نے انجام دیۓ۔ مفتی شیر محمد قادری کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا ۔مولانا رفعت اللہ علیمی ،مولانا مسعود عالم سراجی،مولانا ذوالفقار سراجی وغیرہ شریک مجلس رہے

عید میلادِ النبی کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں..از قلم گوہر رقم:تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین وخلیفہ ارشد ملت عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خادم :سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال رابطہ نمبر_7030 786 828


جاننا چاہیے کہ میلادالنبی کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد کے دن کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد کے دن کو عید کہنا کیسا ہے؟ ولادت کی تاریخ کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد میں اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کرنا کیسا ہے ؟ بلاشبہ عید میلادِ النبی (Birthday of prophet) منانا جائز و مستحسن ہے اور ان تمام امور کی حقیقت قرآن و حدیث , آثار صحابہ اور اِرشادات علماء سے یہ بات بخوبی ثابت ہے, قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے. وذکر ھم بایام اللہ پارہ 13 اس آیت میں رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم (hüküm) دیا کہ بنی اسرائیل کو وہ دن یاد دلاؤ , جن میں اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمتیں نازل فرمائی_ معلوم ہوا کہ نعمتیں ملنے کے دنوں (days) کو یاد گار کے طور پر منانا حکم خداوندی ہے مفسرین نے فرمایا ایام اللہ (days of Allah) سے مراد وہ دن ہیں , جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعامات فرمائے _
کوئی بھی مسلمان (Müsalman) اس حقیقت سے انکار (refuse) نہیں کر سکتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عالمین (universe) کے لئے رحمت بھی ہیں , اور نعمت بھی رحمت کی دلیل یہ آیت ہے وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین پارہ 17
آپ کی نعمت ہونے کی دلیل یہ آیت ہے
الم ترا الی الذین بدالو نعمتۃ اللہ کفرا پارہ 13
اس آیت کی تفسیر(commentary) میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کی نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں.
جب ثابت ہو گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم رحمت بھی اور نعمت بھی ہیں , تو ان دنوں (days) میں اظہار خوشی کرنا اور لوگوں کو ان دنوں کی عظمت و تاریخ سے آگاہ کرنا اور یاد منانا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے.
و اما بنعمۃ ربک فحدث
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر عام کرنے اور خوب چرچا کرنے کا حکم دیا
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بلاشبہ اللہ کی نعمت ہیں تو آپ کی تشریف آوری (advent) کا اجتماعی یا انفرادی طور پر ذکر کرنا قرآن کریم سے ثابت ہوا _اور اسی عمل کا نام میلادالنبی اور محفل میلاد ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت پر خوشی منانے سے کافر (kafir) کو بھی فائدہ ہوتا ہے
بخاری شریف میں ہے: جب ابولہب (Abulahab) مرگیا تو اس کے بعض اہل خانہ نے اس کو خواب میں بہت برے حال میں دیکھا, تو پوچھا تجھ پر کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے جدا (separate) ہو کر مجھے کوئی خیر نہیں ملی
سوائے اس کے کہ میں سیراب کیا جاتا ہوں کلمہ کی انگلی سے کہ اس دن (day) میں نے اس انگلی سے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا.
بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 764
فتح الباری جلد 9 صفحہ 119
عمدۃ القاری جلد 2 صفحہ 95
خصائص الکبریٰ جلد اول


میلاد اور قرآن کریم
سب سے پہلے انبیائے کرام (prophets) کی محفل (روز میثاق) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری (arrival) کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا.
ترجمہ:- اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں (prophets) سے عہد لیا, جو کچھ دیا میں نے تم کو کتاب اور حکمت سے , اور پھر تشریف لائے تمہارے پاس عظمت والا رسول جو تصدیق کرنے والا ہو , اس کی جو تمہارے ساتھ ہے, تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ اور اس کی ضرور مدد کرو گے
(القرآن پارہ 3 رکوع 12)
معلوم ہوا کہ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی محفل, محفل انبیاء ہے جس میں میلاد کرنے والا، اللہ تعالیٰ اور سننے والے انبیاء کرام تھے.
حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی امت کی محفل عام میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد ( ولادت با سعادت) کا یوں چرچا فرمایا
ترجمہ :- اے لوگوں! میں بشارت دیتا ہوں تم کو اس رسول کی جو میرے بعد تشریف لانے والا ہے ، جن کا نام پاک احمد ہے.
القرآن پارہ 28 رکوع 9
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد (arrival) کا ذکر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا.
ترجمہ :- بے شک آگئے تمہارے پاس تم میں سے رسول
پارہ 11 رکوع 5
ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے تذکرے اور محافل میلاد النبی منعقد کروا نے اصل قرآن کریم سے ثابت ہے. اس کو بدعت (Bid’at) کہنے والے عبرت حاصل کریں.
میلادالنبی حدیث شریف کی روشنی میں
خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا میلاد (birthday) منایا :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پیر (Monday) کے دن روزہ (Fasting) کے متعلق پوچھا گیا , تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا , اور اسی دن مجھ پر وحی کی ابتداء ہوئی.
(صحیح مسلم مشکواۃ شریف مسند امام احمد و سنن بیہقی)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام (companions) کی محفل میں اپنا میلاد یوں سنایا
یعنی میں تم کو اپنے ابتدائی معاملات کی خبر دیتا ہوں _میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (dua) اور حضرت عیسی علیہ السلام کی خوشخبری ہوں. اور میں اپنی ماں کا وہ چشم دید منظر ہوں, جو انہوں نے میری ولادت با سعادت (birth) کے وقت دیکھا تھا , کہ ان کے جسم سے ایک ایسا نور نکلا, جس کی روشنی میں انہیں شام (Syria) کے محلات (palaces) نظر آگئے.
مشکوۃ شریف فصل ثانی 513
ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام (sahaba) کے اجتماع میں خود اپنی محفل میلاد منعقد فرمائی ، اور اپنی ولادت (birth) اپنا حسب و نسب بیان فرما کر اپنی امت کو بھی میلاد النبی منانے کی ترغیب دلائی.


صحابہ کرام بھی حضور کا میلاد پڑھتے تھے
حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ، اور عرض کیا کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ نعت سناؤ ، جو تورات (Torah) میں ہے, تو انہوں نے پڑھ کر سنائی.
مشکوۃ شریف فصل اول
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قصیدہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا میلاد پڑھا. قصیدہ کے آخری دو شعر ملاحظہ فرمائیں.
ترجمہ :- یارسول اللہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے نور سے تمام زمین روشن ہو گئ , اور آپ کے نور سے تمام آسمانی فضاء پر نور ہو گئیں__ پس ہم اسی نور میں رشد و ہدایت کے راستوں پر چل رہے ہیں.


محفل میلاد کی اصل حیثیت
محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اصل حیثیت یہ ہے کہ تلاوت قرآن نعت خوانی کے علاوہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت کا ذکر (zikr) ہوتا ہے. فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں. اسلام کی تعلیمات پر تقاریر ہوتی ہیں. صلوۃ و سلام ہوتا ہے اور تعظیم رسول (respect of prophet) شرعاً مطلوب ہے. جیسا کہ حکم قرآنی ہے.
و تعزروہ و توقیروہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و توقیر کرو.
صاحب تفسیر روح البیان اس آیت کی تفسیر (commentary) میں فرماتے ہیں: یعنی میلاد منانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ کی تعظیم (respect) میں داخل ہے.
از قلم گوہر رقم
تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین وخلیفہ ارشد ملت
عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری
خادم :سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
رابطہ نمبر_

7030 786 828

کہانی۔‌۔‌۔‌۔۔۔۔۔۔خدمت کا صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : رفعت کنیز، حیدرآباد۔۔۔۔

ایک شہر میں اک نیک ضعیفہ رہتی تھی ۔وہ بہت نیک اور عبادت گزار تھی ۔سارے لوگ اس ضعیفہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ضعیفہ جس کسی کے لیے دعا مانگتی تھی اس کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ہر شخص اس ضعیفہ کےپاس آتا اور دعائیں کرواتا تھا۔

اس ضعیفہ کی دعا سے کوئ کلکٹر ، کوئ افسر، کوئ تحصیلدار، کوئ عہدیدار تو کوئ طبیب بن گیا۔ سب اس ضعیفہ کو بہت مانتے تھے آور وہ ضعیفہ بہت نیک ، عبادت گزار اور صاف دل کی مالک تھی۔ وہ ہنستے مسکراتے ہر کسی کے لئے دعائیں مانگتی تھی۔ جس شہر میں وہ رہتی تھی، اس شہر میں کبھی کوئ فساد آفت مشکلیں نہیں آءے، سب سےلوگ اچھے سے رہا کرتے تھے ۔

      کسی  دوسرے شہر میں ایک ندیم نامی شخص رہتا تھا۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری کے لیے بہت مشہور تھا ، لیکن جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا افسر ندیم کی قدر نہیں کرتا تھا،  نہ کبھی کوی تعریف کرتا تھا اور نہ ہی اس کو پروموشن دیتا تھا۔

بار بار ندیم پر کام کا بوجھ ڈال دیا کرتا تھا۔ ندیم افسر کے سامنے خاموش رہ جاتا تھا ۔ کچھ سوال نہیں کرتا تھا۔ ندیم کے ایک دوست نے ندیم سے کہا تم اتنی محنت کرتے ہو پھر بھی تمہاری کوئ قدر نہیں تم کہیں اور کام کیوں نہیں کرتے؟ ندیم نے کہا یہ میری آخری جاب ہے اگر یہ چلی گءی تو کہیں اور جاب نہیں ملے گی۔ تو ندیم کے دوست نے کہا ٹھیک ہے پاس کے شہر میں اک ضعیفہ رہتی ہے، سنا ہے وہ جس کے لئے بھی دعا کرتی ہے اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے ،تم اس ضعیفہ سے ملو اور دعا کرو الو.

ایک دن دفتر سے چھٹی لے کر ندیم پاس والے شہر چلا جاتا ہے اور سب لوگوں سے اس ضعیفہ کا پتہ پوچھنا ہے۔ اسی دوران یہ پتہ چلتا ہے ک ضعیفہ بہت بیمار ہے، اب کوئ اس کے پاس نہیں جاتا ،وہ ضعیفہ اب عبادت بھی نہیں کرتی۔ لوگوں نے اس کےپاس جانا بند کردیاہے۔ ندیم نے جب سنا تو واپس لوٹنا چاہا، مگر خیال ایا کہ جب اتنی دور آگیا ہوں تو ضعیفہ سے ملکر ہی جاونگا۔ پھر ندیم کے اصرار پر لوگوں نے ضعیفہ کا پتہ دیا اور ندیم ضعیفہ کے گھر پہونچا۔
دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئ آواز نہیں آءی، دوبارہ کھٹکھٹایا تو دھیمی سی آواز آءی ،
کون ہو بیٹا میں اٹھ نہیں سکتی دروازہ کھول کر اندر آجاؤ، تب ندیم آہستہ سے دروازہ کھولتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت سے اندر جاتا ہے۔

اور ضعیفہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے، امّاں جی آپ کیسی ہیں، کیا ہوا آپ کو ؟ ضعیفہ نے کہا بوڑھی ہو گئ ہوں بیمار ہوں ۔ ندیم نے پوچھا کیا آپ کا کوئ رشتہ دار نہیں ہے؟ ضعیفہ نے کہا جب ٹھیک تھی تو سارے لوگ ملنے آتے تھے، اب بیمار ہوں تو کوئ نہیں آتا ۔

ضعیفہ کی ان
باتوں سے ندیم سوچنے لگتا ہے، کیسے خود غرض لوگ ہیں، صرف اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس بات پر ندیم کو بہت دکھ ہوتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت لےکر ضعیفہ کی خدمت میں کئ دن گزار دیتا ہے ۔شہر کے سارے لوگ شرمندہ رہتے ہیں ، لیکن کچھ نہیں کہتے ،
آہستہ آہستہ ضعیفہ ٹھیک ہونے لگتی ہے ۔جب وہ بلکل ٹھیک ہو جاتی ہے تو کہتی ہے بیٹا تم اجنبی ہوکر میری اتنی خدمت کررہے ہو، بتاو تم کو کیا چاہیے؟ ندیم نے کہا امّاں جی مجھےکچھ نہیں چاہیے ، بس آپ ٹھیک ہوجائیں۔ ضعیفہ نے کہا بیٹا میں ٹھیک ہوجاونگی ، تم اپنا گھر چھوڑ کر کب تک یہاں رہوگے ، تم کو اپنے گھر جانا چاہئے، وہ لوگ پریشان ہوتے ہونگے۔ ندیم نے کہا امّاں جی میرا بھی کوئ نہیں ہے، میرے ماں باپ بھی نہیں ہیں، میرے ماں باپ ہوتے تو شاید …..اتنا کہکر ندیم خاموش ہوجاتا ہے۔ اور ضعیفہ سمجھ جاتی ہےکہ یہ کسی پریشانی میں ہے ، پھر ضعیفہ مسکراکر ندیم کو بہت ساری دعائں دیتی ہے۔

اور کہتی ہے تمہاری خدمت کو اللہ تعلیٰ نے قبول کیا ہے، اب لوگ تمہاری عزّت کرینگے، تم اب واپس جاؤ، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ سنکر ندیم ضعیفہ سے اجازت لےکر اپنے گھر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے دن دفتر جاتا ہے اور وہاں اس کا افسر ندیم کے انتظار میں رہتا ہے اور اور جب ندیم کو دیکھتا ہے تو ندیم کو گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے تم اتنے دن کہاں تھے تمہارے نہ ہونے کی وجہ سے دفتر میں بہت سارا نقصان ہوا ہے، مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے ،تمھارے بغیر کوئ کام پورا نہیں ہوتا، آج سے تم میری کرسی پر بیٹھوگے اور سارا کام سنبھالوگے، سب کچھ اب تمہارے کنٹرول میں ہے اور میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نےتمھارے ساتھ بہت سختی کی ۔ندیم کو حیرانی ہو رہی تھی ک اک خدمت کے بدلے اسے اتنی عزت اور شہرت مل رہی ہے اور ندیم سمجھ جاتا ہے کہ یہ سب ضعیفہ کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا اثر ہے ۔ندیم اپنے دوست سے مل کرسارا واقعہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک کامیابی صرف محنت سے نہیں ملتی ، بلکہ بزرگوں کی خدمت اور انکی دعاؤں سے ملتی ہے اور ندیم اس ضعیفہ کو اپنے گھر لے کر آتاہے اور اپنی ماں کی طرح خدمت کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔ باسمہ تعالیٰ۔۔۔۔۔غلام احمد قادیانی کادعوئ نبوت اور موت۔۔۔پیش کش ۔۔۔سید آل رسول حبیبی ہاشمی خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا


آج کا ایک بہت بڑا فتنہ ، فتنۂ قادیانیت ہے، انگریزوں کے ایماپر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا اور کچھ گنواروں نے اسے نبی مان بھی لیا
افسوس کہ اڈیشا کے بعض خطوں میں بھی یہ فتنہ پایا جاتا ہے
اس لئے آقائی سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ موقع بہ موقع اس کے خلاف مؤثر خطاب فرمایا کرتے تھے
چنانچہ ایک بار مسئلۂ ختم نبوت کو شرح و بسط کے ساتھ پیش فرماتے ہوئے حضرت نے ارشاد فرمایا کہ
“ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبیوں کے خاتم ہیں ، ان کے بعد کوئی نیا نبی نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے
قرآن پاک ببانگ دھل اعلان کرتا ہے
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں خاتم
اور آقائے کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي (سنن ابی داود: ۴۲۵۲ وسندہ صحیح)
اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں”
پھر حضرت نےپورے جوش و امنگ کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ
“یہ مسئلہ ہمیشہ ساری امت میں متفق علیہ رہا ہے مگر مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ خبث و رفث ہے کہ اس نے دعوئ نبوت کرکے امت میں سورش برپا کی اور اپنے انگریز آقاؤں کو شاد کیا۔
عزیزو! مرزا صاحب کذاب نبیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی خباثت و غلاظت ساری امت پر ظاہر و باہر ہے۔ ایسے غلیظ و خبیث کی موت بھی پائخانہ کے اندر واقع ہوئی ہے۔
اگر وہ واقعی نبی ہوتے تو ان کی موت پائخانہ کی غلاظت میں ہرگز نہ ہوتی اور اگر ان کے ماننے والے ان کو دل سے نبی مانتے تو ان کی قبر ضرور پائخانہ میں بناتے ۔
اس لئے کہ نبی جہاں موت کو لبیک کہتا ہے اس کو وہیں دفن بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ آقائے کریم علیہ اکرم التسلیم ارشاد فرماتے ہیں
ما قبض الله نبيا إلا في الموضع الذي يحب ان يدفن فيه (سنن ترمذي:1018)
انبیاء کی وفات وہیں ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں
مگر مرزا صاحب نے موت کو گلے لگایا پائیخانے میں تو دفن بھی انکو وہیں ہونا چاہئے
معاذ اللہ ، معاذ اللہ
یہ کیسی عبرت ناک موت ہے ، افسوس کہ ان کے ماننے والوں کی عقلوں پہ پردہ پڑا ہوا ہے”
۔۔۔۔۔۔پیش کش ۔۔۔۔۔۔۔
سید آل رسول حبیبی ہاشمی
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا

انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا..(موجودہ دور میں علم دین کی ضرورت و اہمیت)از قلم: محمد مجتدٰی رضا خان متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ضلع:ایٹہ [یوپی]

موجودہ دور میں معاشرے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج قوم مسلم صرف مغربیت کو ترجیح دے رہی ہے اور عصری علوم کو حاصل کرنے کے لیے علم دین مصطفیٰ ﷺ سے بیزاری ظاہر کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج حق و باطل کے درمیان خط امتیاز مٹتا جا رہا ہے۔ جبکہ اس پر فتن دور میں علم دین کی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ آج دین اسلام اور مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا ہے، جہاں ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کے جان و مال کو نیست و نابود کرنے کی سخت کوشش کر رہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف فتنۂ وہابیت اور فتنۂ دیوبندیت ہمارے اعمال اور ہمارے عقائد کو مجروح کر رہے ہیں۔ اور اس پرفتن ماحول میں جو سب سے زیادہ مہلک فتنہ ہے وہ صلح کلیت کا فتنہ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے ایمان پہ ڈاکہ ڈال رہا ہے ۔ اسلام کے آستینوں میں چھپ کر سانپ کی طرح ڈس رہا ہے اور اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور ہمارے عقائد پر سختی سے وار کر رہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی ہماری قوم فتنۂ وہابیت اور فتنۂ صلحِ کلیت و دیوبندیت کو پہچاننے میں ناکام ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت اور فرقۂ باطلہ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ علم دین اور علم شرائع سے بہت دور ہو گئی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ اگر ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمیشہ غریبی میں زندگی بسر کریں گے، اگر ہم عالم بن جائیں گے تو دنیاوی شان و شوکت اور دولت و سرمایہ ہاتھ سے چلا جائے گا، غرض کہ پوری امت مسلمہ اس قسم کے باطل اوہام و افکار کے دام فریب میں پھنسی ہوئی ہے۔ سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالی کی ذات پر توکل نہیں کیا بلکہ صرف اسباب پر توکل کیا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بے شمار ایسے علمائے کرام ہیں جن کو اللّٰہ نے بے شمار دولتیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ وہ دین کی نشرواشاعت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان لکھتے ہیں کہ: ” انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا، عربی پڑھنے سے آدمی بدنصیب نہیں ہو جاتا، ملے گا وہی جو رزاق نے قسمت میں لکھا ہے بلکہ تجربہ یہ ہے کہ اگر عالم پورا عالم اور صحیح العقیدہ ہو تو بڑے آرام میں رہتا ہے اور جو لوگ اردو کی چند کتابیں دیکھ کر وعظ گوئی کو بھیک کا ذریعہ بنا لیتے ہیں کہ وعظ کہہ کر پیسے مانگنا شروع کر دیا۔ ان کو دیکھ کر عالم دین سے نہ ڈر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا بچپن آوارگی میں خراب کر دیا ہے اور اب مہذّب بھکاری ہیں ورنہ علمائے دین کی اب بھی بہت قدر و عزت ہے جب گریجویٹ مارے مارے پھرتے ہیں تو مدرسین علماء کی تلاش ہوتی ہے اور نہیں ملتے “۔

محترم قارئین! جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قادر مطلق اور رزّاق مطلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت و سربلندی کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ صوفیاںٔے کرام فرماتے ہیں کہ ” شریعت و طریقت پرکامیابی سے چلنے کے لیے توکّل علی اللّٰه سب سے بڑی عبادت ہے “۔
محترم قارئین! آپ غور فرمائیں کہ ایسی تعلیم سے کیا فائدہ جو آپ کے عقائد و اعمال کی حفاظت نہ کرسکے جو آپ کو شریعت مصطفی ﷺ اور مسلک اعلیٰ حضرت سے دور کر دے۔ ایسی تعلیم لا یعنی ہے جس کے ذریعے آپ اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کا آلۂ کار بن جائیں، جس تعلیم کے ذریعے آپ فتنۂ وہابیت، دیوبندیت و فتنۂ صلحِ کلیت سے خود اور اپنے گھر والوں اور اپنی سوسائٹی اور امت مسلمہ کا دفاع نہیں کرسکتے، اس لیے ہم عصری تعلیم کو صرف بقدر ضرورت ہی حاصل کریں، باقی ہم اجلّ علوم کو حاصل کریں تاکہ ہم اپنے عقائد و اعمال کو بحسن خوبی محفوظ کر سکیں ممکن ہے کہ جب ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمارے پاس دولت کی فراوانی نہیں ہوگی تو اس کی بالکل بھی فکر نہ کریں اور اللّٰه تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکّل کریں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ بے حساب نوازے گا۔
محترم قارئین! جب ہم اپنے معاشرے اور اپنے قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ دنیاوی اعتبار سے ہائی ایجوکیشن تو حاصل کر چکے ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وہ لوگ صحیح طور سے کلمۂ طیبہ شریف بھی پڑھنا نہیں جانتےہیں۔ طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح اور سلیقے سے نہیں پڑھ پاتے اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتے ہیں، حتیٰ کہ حرام و حلال میں تمیز نہیں کر پاتے اور بسا اوقات لاعلمی کی وجہ سے کفریہ کلمات بھی اپنی زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! جب ہم وضو اور غسل کرنا صحیح طور سے نہیں سیکھیں گے تو اس وضو اور غسل سے جتنی نمازیں ادا کریں گے سب رائیگاں ہوں گی اور اس کا اعادہ واجب و ضروری ہوگا اور قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھیں گے تو نماز پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا بھی نہیں جان پائیں گے تو پھر ایسے علوم کے لئے جدوجہد کرنا لا یعنی ہے جس کے ذریعے ہم حرام و حلال میں تمیز نہ کرسکیں۔ جس کے ذریعے ہم وہ مسائل جو ضروریاتِ دین سے ہیں اور ہمارے روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کو حل نہ کر سکیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کو فرقۂ باطلہ سے ممتاز نہ کر سکیں۔
قارئین کرام ہم پر ضروری ہے کہ ہم علوم دین کو اعلیٰ لیول پر حاصل کریں اور گھر گھر علم دین کا چراغ روشن کریں تاکہ ہم اسلام مخالف طاقتوں اور فرقۂ باطلہ کا سدّباب کر سکیں۔
چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سے جہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

یاد رکھیں ! دنیا کی زندگی چار دن کی ہے پھر ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف لوٹنا ہے تو ہمیشہ جہاں رہنا ہے وہاں کا انتظام کرو، جہاں مسافرت کے دن کاٹنے آئے ہو وہاں کی فکر چھوڑو بھوکے مر جاؤ مگر ایمان کے ساتھ مرو۔

حکمتوں سےمعمورمفتئ اعظم اڈیشا کے پر تاثیر کلمات خیر——از سید آل رسول حبیبی ھاشمی سجادہ نشین خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

سیدنا مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ کی ذات اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی ، انکی حق بیانی ،شریں زبانی اور فصاحت لسانی سےایک عالم مستنیر ہے
انکے پاکیزہ جملوں سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹتے اور موتی جھڑتے تھے
ایک بار ایک مصیبت زدہ شخص کی مایوس کن باتوں کو سن کر آپ نے ارشاد فرمایا
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
یہ کلمات مبارکہ کتنے مختصر ہیں لیکن اس سے علم و حکمت کے گوہر آبدار چمکتے ہیں –
اس میں مومن کی قید احترازی ہے ، جس سے تمام بے ایمانوں کو خارج کردیا گیا ہے ، کیونکہ
اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار صرف اور صرف مومن ہے ، ہرگز کوئی کافر نہیں ۔
ارشاد ربانی “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”
میں ضمیر خطاب مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ ما سبق سے ظاہر ہے
یہ حق ہے کہ
دنیا کے مصائب و آلام پر جو بندہ صبر و شکیب کا پیکر بن جاتا ہے اور راضی برضائے الہی رہتا ہے ، وہی حقدار جنت ہوتا ہے اور اسی کو رب کریم نے مژدۂ جنت عطا فرمایاہے ۔
حق فرمایا سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ نے
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
حکمت و موعظت سے بھر پور اس کلام نور و سرور کو سن کر اس دل شکستہ مایوس بندے کو ایسی کامل تسلی ملی اور ایسا قلبی سکون حاصل ہوا کہ
لاس کے دل پر جو مایوسی کی کائی جم گئی تھی وہ یکسر ہٹ گئی اور وہ عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا فالحمد للہ رب العلمین
ایسی بافیض ذات گرامی کا ۲۸ واں
“عرس قدوسی “
4ربیع النور 1444یکم اکتوبر 2022 کو
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا میں شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے
جس میں ہند و بیرون ہند کے درجنوں علما، صلحا اور شعرا کا نورانی قافلہ جلوہ بار ہوکر صاحب عرس کی بارگاہ عالی جاہ میں نظم و نثر کے ڈریعہ عقیدت و محبت کا خراج پیش کریگا
احباب اہل سنت و عزیزان طریقت سے عرس کی نورانی تقریبات میں شرکت کی مخلصانہ اپیل ہے
ملتمس
سید آل رسول حبیبی ھاشمی
سجادہ نشین
خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     اسلام نے معلّم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے، چنانچہ اللّٰہ ربّ العزت نے قرآن مقدّس میں نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شان بحیثیت معلّم بیان کی ہے ،اور خود خاتم النبیین صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا "انما بعثت معلماً” [یعنی مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے] حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” یقیناً اس بات کی بیّن اور واضح دلیل ہے کہ استاذ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے-

     اسلام کی نظر میں انسانیت کا سب سے مقدّس ومعظّم طبقہ پیغمبرانِ اسلام و انبیائے کرام کا ہے- اور پیغمبر ونبی کی حیثیت اپنے امتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدّد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے ارشاد ربانی ہے” یتلو علیھم آیاته و یزکّیھم ویعلّمھم الکتٰب والحکمة” { آل عمران:۱۶۴}… جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے، یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذکہتے ہیں … اساتذہ کے تعلق سے حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ایک فرمان بہت ہی مشہور ہے” من علّمنی حرفاً فقد صیّرنی عبداً ان شاء باع وان شاء عتق” [یعنی جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے] {تعلیم المتعلم ص/۲۱}
  بلاشبہ ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے اور ویسے بھی انسان جس سے بھی کچھ سیکھے یا علم حاصل کرے اس کا ادب و احترام اس کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر سیکھنے والا سِکھانے والے کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ بد نصیب ہے، علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال قابل عزت ہے، اور خاص طور پر علم دین کا سکھانے والا تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لئے قابل احترام ہوتا ہے-
   یقیناً یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو اساتذہ کے بلند مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا ہے، اسلام میں اساتذہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے، اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے "انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم”[یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں]

اساتذہ کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگر “صلبی وجسمانی باپ” ہے تواساتذہ “روحانی باپ”-

          اب آئیے ہم اساتذہ کے ادب و احترام کے تعلق سے اپنے اکابرین و اسلاف کے معمولات وفرمودات پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کی بارگاہوں میں کیسےپیش آنا چاہیے؟ اورکس نوعیت سے ادب و احترام کرنی چاہیے؟

حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ “ہم اپنےاستاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنااحترام کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں” اور حضرت یحییٰ بن معین جو بہت بڑے محدّث تھے ،حضرت امام بخاری ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ “محدّثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا” اور حضرت امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ “میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جواستاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا” {ایضاً ص/۲۲}
امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنےاستاذ کا اتنا ادب و احترام کیا کرتے تھے کہ کبھی استاذ کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے- حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ”میں حضرت امام مالک کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے”- حضرت امام ربیع فرماتے ہیں کہ “حضرت امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی”… بعض بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایاکہ” ہمیں اپنے اساتذہ کی اولاداوران کے متعلّقین کی بھی تعظیم وتکریم کرنی چاہیئے” صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ”بخارا کے ایک بہت بڑے امامِ وقت اپنے حلقۂ درس میں مصروفِ درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے، جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آ جا رہا ہے، تو میں اس کے لیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں”…… اس طرح کے بہت سارے واقعات تاریخ و سوانح کی کتابوں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ تلامذہ کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کس حد تک کرنا چاہیے؟…… لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے!

ادب تعلیم کاجوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگردہیں جوخدمتِ استاد کرتےہیں

بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق سعید بخشے-
آمین!

⚠️یہود کی اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ⚠️✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

دوران مطالعہ ایک بڑا عجیب اور دل دہلا دینے والا واقعہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔۔اس کو میں مختصراً اور بلا تمہید ذکر کرتا ہوں

برطانیہ (britain) میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان نے برطانوی عیسائی دوست سے کہا۔۔ کہ مجھے کوئی انوکھی جگہ دکھاؤ ۔جہاں ہم پکنک کر سکیں۔انگریز دوست نے ایک جگہ جانے کا پروگرام بنایا اور اپنے مسلمان دوست کے لیے وہاں جانے کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس انگریز نے کہا کہ وہ بہت پر اسرار جگہ پر لے کر جائے گا، دونوں وقت پر اپنی گاڑی سے اس پر اسرار مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک جنگل پہنچے۔ مسلمان دوست کا بیان ہے کہ جنگل میں فوجی چھاؤنیاں تھیں، جگہ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اور اجازت نامہ دیکھا گیا۔۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ہمیں اپنی گاڑی بھی چھوڑنی پڑی ۔ عیسائی دوست نے بتایا کہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ جانا ہوگا۔ اور ایک چیز کا خیال رکھنا کہ وہاں کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔۔۔
انٹری گیٹ سے گزر کر ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا ۔ اندر بہت سی عمارتیں تھیں ۔پیدل چلتے ہوئے ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے ۔جہاں کلاس روم بنے ہوئے تھے۔ کلاسوں میں بچے قرآن مجید حفظ کر رہے تھے ۔ کس کلاس میں عربی ، فارسی، تفسیر و حدیث اور فقہی مسائل پڑھائے جا رہے تھے ۔ الغرض ، ان تمام کلاسوں میں اسلامی دینی تعلیم پڑھنے پڑھانے کا انتظام تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہم جنگل سے باہر آئے اور انگریز دوست سے میں نے کہا ۔ یہ کونسا عجوبہ تھا ، ایسے مدارس تو پاکستان میں بہت ہیں۔
تو اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں دیکھا ؟ کہ جگہ ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی ۔
یہ اس لیے کہ یہاں جو بچے قرآن وحدیث اور اسلامیات پڑھ رہے ہیں ۔ وہ تمام یہودی بچے ہیں ۔ انہیں عرب و عجم کے مسلم ممالک کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ (ماہنامہ پیغام شریعت دہلی ، ص 51)

ٹھہریے!!!
اور غور کیجیے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کس قدر سازشی انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں. ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جب دشمن ہمارے قرآن و حدیث اور فقہ کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس کے دفاع کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم بھی اپنی قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کا عالم بنائیں تاکہ جب ان مقدسات پہ وہ اعتراضات لے کر آئیں تو ہم جواب دے کر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرسکیں ۔
قارئین کرام! یاد رکھیں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سب سے اہم ہے، اور فریضے کی ادائیگی عالم بن کر ہی کی جاسکتی ہے اس لیے خود بھی علم دین حاصل کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی سکھائیے ۔ پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی حفاظت کے لیے” بنیان مرصوص “ کا پیکر بن جائیے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

غوث العالم سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا آخری نصیحت نامہ،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


جب حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا دن قریب آیا ماہ محرم الحرام کا تھا ایک محرم الحرام سے لیکر دس محرم الحرام تک حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب کےساتھ ملکر قرآن پاک کی تلاوت مع قرأت کے کرتے رہے اُنہی ایام میں اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ[میری قبر باغ کے درمیان بناو اور طول وعرض اتنا ہوکہ نماز پڑھی جاسکے]حکم کے مطابق مرقد مبارک تیار کیا گیا پھر حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ خود ہی مرقد کے معاٸنہ کیلٸے تشریف لے گٸے پھر اُنہی ایام میں اپنے جملہ اصحاب اور خصوصا اپنے سجادہ نشین حضرت مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور[رضی اللہ عنہما] المعروف حضرت نور العین رضی اللہ عنہ کو صبر و استقامت کی تلقین فرماتے رہے پھر ایک دن حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ چند ورق سادہ کاغذ کا لیکر اس مرقد مبارک پر تشریف لے گٸے جو کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق آپ ہی کے لیٸے بنایا گیا تھا چنانچہ مکمل ایک رات دن اس بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے وقت گذارے اور وہی بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر ان سادھے کاغذوں پر یہ نصیحت نامہ تحریر فرماکر تشریف لاٸے جس میں حمد ونعت کے بعد یہ تحریر تھا کہ[میرے برادان احباب اور اصحاب کو معلوم ہو کہ میں اللہ(عزوجل)اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتا ہوں اور اسلام کے احکام کا پابند ہوں میرا عقیدہ ہیکہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے سب اصحاب(رضی اللہ عنہم اجمعین)مسلمین و تابعین افضل تھے اور اصحاب (یعنی اصحاب مُحَمَّد ﷺ)میں افضل واعلی ابو بکر(رضی اللہ عنہ)ہیں اُن کے بعد عمر۔پھر۔عثمان۔پھر۔مولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)میرے فرزندوں اور معتقدوں کو معلوم ہوکہ میرا یہی عقیدہ تھا۔یہی ہے۔اور یہی ابد تک رہے گا۔جس شخص کا یہ اعتقاد نہ ہووہ گمراہ اور زندیق ہے میں(یعنی سید اشرف سمنانی) اس سے بیزار ہوں اور خدا اس سے راضی نہیں۔حق سبحانہ کی تجلی ستر ہزار بار اس فقیر پر ہوٸی۔اور اس قدر نوازش اور مرحمت ہوٸی کہ تحریر میں نہیں آسکتی۔عالم ملکوت سے ندا آٸی کہ اشرف ہمارامحبوب ہے۔اس کے سب مریدوں کے گناہ ہم نے معاف کٸے اور اُن کو اشرف کے طفیل میں بخشا۔یہ آخری بشارت میں(سید اشرف سمنانی) سب بھاٸیوں اور دوستوں کو پہنچاتا ہوں](ماخوذ از رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف)
بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت
ہر سال کی طرح اس سال بھی عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوگی ان شاءاللہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین کو بشارت عظمہ سنائی ہے سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہیکہ جو شخص میری قبر پر حاضری دیگا ان شاء اللہ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی(بشارت المریدین قلمی-بحوالہ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبر ص ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء)
ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ
اشرفی تو ناز کر اشرف پر
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﮐﺤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﺒﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺠﺎﺩﮦ ﻧﺸﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﻼﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺑﮍﯼ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﮔﺬﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺷﺒﮩﯿﮧ ﻏﻮﺙ ﺍﻻﻋﻈﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻗﻄﺐ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪﻃﺎﮨﺮ
ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻ ﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﺸﺎﺋﺦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺑﮭﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔

۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔
تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی
خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال
مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
7030786828

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار,, تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو،، از قلم ،محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف

فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَار
تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو

آج میرے ساتھ ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا ۔کہ

جیسے ہی میں لائبریری میں داخل ہوا ۔اور استاذ محترم سے کچھ عرض کرنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا۔کہ یکایک ایک کبوتر اڑا اور پنکھےکی زد میں آ کر اس کا ایک بازو کٹ کر الگ ہو گیا۔ استاذ محترم نے فوراً اپنے روم سے مرہم منگایا،پٹی بھی کی گئی۔لیکن! وہ بچ نہ سکا۔افسوس…… اس دکھی منظر کو دیکھنے کے بعد انگریزی کا ایک بڑا پیارا جملہ یاد آگیا ۔ شاید اس نے بھی ایسا دکھی منظر دیکھا ہو؟ وہ جملہ کچھ اس طرح سے ہے ” A CHILD WITHOUT EDUCATION IS LIKE A BIRD WITHOUT WINGS” یعنی۔ جس طرح پر(wing) کے بغیر پرندہ، پرندہ نہیں بالکل اسی طرح علم کے بغیر انسان، انسان نہیں اور علم بغیر محنت کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کہا جاتا ہے۔۔
“Study while others are sleeping ..
Work while others are loafing .
Prepare while others are playing.
Dream while others are wishing.”

یعنی “آپ اس وقت مطالعہ کریں جب سب مزے سے سو رہے ہوں،
آپ اس وقت محنت کریں جب دوسرے لوگ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوں،
اس وقت آپ تیاری کریں جب دوسرے کھیل رہے ہوں
اور آپ خواب دیکھیں جب سب خواہش کر رہے ہوں، سیدھا سا مطلب یہ کہ- ان نصائح پر عمل کرنے کے بعد آپ تو اپنے خوابوں کو پورا کر چکے ہوں گے ، رہے دوسرے لوگ تو وہ صرف خواہشات میں گرفتار ہوں گے”۔۔۔
یہ وہ اصول ہیں، کہ جن پر ہمیشگی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ عربی شاعر کہتا ہے۔
“بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالي”
۔ یعنی ۔کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم جامعہ احسن البركات مارہرہ شریف