WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

نعت‌ رسول ﷺ ۔۔شہداءے کربلا کی تعداد کی مناسبت سے ٧٢ بہتر اشعار پر مشتمل کلام،، از: سید خادم رسول عینی

نہ ذہن و فہم نہ محنت نے کامیاب کیا
مجھے نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

کسی کو لہجہء جدت نے کامیاب کیا
کسی کو حسن روایت نے کامیاب کیا

نبی نے اپنی دعاؤں سے خور کو ٹھہرایا
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

وہ جاں نثار جو اسلام کے بہتر تھے
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

ہے جس کی زیست اطیعوا الرسول کی تفسیر
اسے نبی کی اطاعت نے کامیاب کیا

جو مومنون کے سورے پہ ہیں عمل پیرا
انہیں ادائے امانت نے کامیاب کیا

زباں نے فزۃ بربی کہا تھا کٹ کر بھی
صحابی کو اسی الفت نے کامیاب کیا

اثر سے جس کے گناہوں کے پیڑ گرتے گئے
اسی ہوائے ہدایت نے کامیاب کیا

یہ کنکری کے لب شکر سے صدا آءی
مجھے تو کلمہء وحدت نے کامیاب

بتوں سے پاک کیا کس نے کعبہء جاں کو
اسے وجود نبوت نے کامیاب کیا

ہر ایک غزوے کے ماتھے پہ لکھا دیکھا ہے
صحابہ آپ کو ہمت نے کامیاب کیا

قبائے فکر کو نعتوں سے سیتا رہتا ہوں
شہ انام کی مدحت نے کامیاب کیا

یہ تاج فتح کا کہتا ہے ، حضرت خالد !
تمھیں تو موءے نبوت نے کامیاب کیا

وظیفہ میں نے اغثنی کا پڑھ لیا ، مجھ کو
نداءے شاہ کی برکت نے کامیاب کیا

اسی سے زیست کے لمحات ہیں بہت شاداب
نبی کے عشق کے شربت نے کامیاب کیا

خزیمہ ہوگءے اعلیٰ تریں ، انھیں ان کی
نبی کے حق میں شہادت نے کامیاب کیا

تمام شعلے عداوت کے بجھ گیے ، ہم کو
نبی کے ابر عنایت نے کامیاب کیا

اگر خدا ہے تو خور کو نکال مغرب سے
خلیل کو اسی حجت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے آیت خدا کی “فوز العظیم “
کہ اہل حق کو صداقت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے یہ سیرت صحابہء شہ کی
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

حنین و بدر کے غزوے بھی اس کے ہیں شاہد
نبی کو رب کی حمایت نے کامیاب

نبی کی ہجرت طیبہ کا راز کیا جانو
ہمارے دین کو ہجرت نے کامیاب کیا

بھٹک رہے تھے بیابان میں سبھی انسان
انھیں نبی کی شریعت نے کامیاب کیا

خدا کی آءی تھی تاءید، قوم مسلم کو
اک ایسی صلح نبوت نے‌کامیاب کیا

ہمارا دیں سبھی انصار کا رہا مرہون
مدینے والوں کی نصرت نے کامیاب کیا

جو بدعتیں ہیں وہ ناکامیوں کی ہیں باعث
ہمیں رسول کی سنت نے کامیاب کیا

گلاب پھولوں کا راجہ ہے تو ، مگر تجھ کو
عرق کی شاہ کے نکہت نے کامیاب کیا

زمانہ شرک کے طوفان سے پریشاں تھا
نبی کے کلمہء وحدت نے کامیاب کیا

زیارت ایسی کہ واجب شفاعت ان پہ ہوءی
در نبی کی زیارت نے کامیاب کیا

صحابہ بول اٹھے بعد بیعت رضواں
ہمیں رسول کی بیعت نے کامیاب کیا

ہے قول حضرت صدیق قول حق ہر دم
انھیں رسول کی قربت نے کامیاب کیا

تمام دہر میں انسانیت کی خوبی کو
شہ انام‌ کی سیرت نے کامیاب کیا

خدا کے نام پہ پڑھنا ہے ، کہتی ہے اقرأ
کہاں کسی کو جہالت نے کامیاب کیا ؟

خدا نے حضرت آدم کی توبہ کرلی قبول
نبی کے ‌اسم کی برکت نے کامیاب کیا

پہنچ گیا در محبوب پر میں بالآخر
یوں مجھ کو قلب کی حسرت نے کامیاب کیا

خدا کے فضل سے دامن نہ صبر کا چھوٹا
ہمیں تو صبر کی آیت نے کامیاب کیا

حرا و ثور ہیں افضل تمام غاروں میں
انھیں تو جلوہء رحمت نے کامیاب کیا

کنوے میں حضرت یوسف تھے سالم و محفوظ
انھیں خلیل کی برکت نے کامیاب کیا

برائیوں سے جو بچتے ہیں کام کرتے ہیں نیک
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

ملےگا ثمرہ ہمیں نیکیوں کا دونوں جگہ
یوں مومنین کو قدرت نے کامیاب کیا

نہیں ہوئے کبھی مایوس زیست میں اپنی
ہمیں توکل قدرت نے کامیاب کیا

تھا شعر کعب کا باطل پہ مار تیروں کی
انھیں کمال فصاحت نے کامیاب کیا

جناب ابن رواحہ تھے سید الشعراء
انھیں جمال مدیحت نے کامیاب کیا

یزیدیو نہ یوں اتراو ، ہیں یہ ابن علی
انھیں تو ان کی شہادت نے کامیاب کیا

ہے سچ ، ہیں حضرت عثمان شاہ ذوالنورین
انھیں دو نور کی نسبت نے کامیاب کیا

رضا و صدق و وفا ہیں عتیق کی عادت
عتیق کو اسی عادت نے کامیاب کیا

براءے رشد و ہدایت نبی کی عترت ہے
ہمیں محبت عترت نے کامیاب کیا

قریب شاہ رہوں ، تھی عتیق کی خواہش
انھیں نبی کی اجازت نے کامیاب کیا

شریک دین کی تبلیغ میں ہمیشہ رہیں
خدیجہ آپ کی دولت نے کامیاب کیا

عتیق اور عمر کے مشیر تھے حیدر
انھیں علی کی رفاقت نے کامیاب کیا

سمجھ سکو تو سمجھ لو کہ قوم مسلم کو
علی کی غزووں میں شرکت نے کامیاب کیا

وہ دور رہ کے بھی دیتے ہیں ساریہ کو ندا
عمر کی ایسی کرامت نے کامیاب کیا

وہ رات دن رہا کرتے تھے شہ کی خدمت میں
انس کو شاہ کی خدمت نے کامیاب کیا

جناب عاءشہ کی عظمتوں پہ سب ہیں نثار
کہ ان کو آیت عصمت نے کامیاب کیا

زبیر کو شہ کونین نے حواری کہا
انھیں حضور سے الفت نے کامیاب کیا

بنایا شاہ نے صدیق کو امیر الحج
انھیں نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

رضا کے جیسا کوءی نعت گو نہیں ملتا
رضا کو حسن بلاغت نے کامیاب کیا

نگاہ ایک ہے کافی حبیب رحماں کی
ہمیں حبیب کی صحبت نے کامیاب کیا

ولی کو معرفت رب نہیں ملی یونہی
خدا کے ذکر کی کثرت نے کامیاب کیا

رضا کے مسلک حق میں ہی کامیابی ہے
رضا کے حسن وصیت نے کامیاب کی

مجدد ایسے کہ مانا ہے ان کو دنیا نے
رضا کو علمی جلالت نے کامیاب کیا

مجاہد ایسے کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گءے
حبیب کو یوں عزیمت نے کامیاب کیا

بتایا راز طریقت کا لیکے دامن میں
ہمیں مجاہد ملت نے کامیاب کیا

حواس باختہ جادو ہے ، قوم مسلم کو
معین دیں کی کرامت نے کامیاب کیا

سبھوں سے کہتا ہے جنت نشیں یہی قطمیر
مجھے ولیوں کی الفت نے کامیاب کیا

حضور عالم رویا میں آپ آءے تھے
حبیب آپ کی رویت نے کامیاب کیا

وہ آنا عالم رویا میں ، کرنا بیعت بھی
حبیب آپ سے بیعت نے کامیاب کیا

ہمیں ملی ہے خلافت سبھی سلاسل کی
حضور ارشد ملت نے کامیاب کیا

یہ زودگوءی ، تخیل یہ شعر کی ندرت
کسی کی خوبیء صحبت نے کامیاب کیا

ملی خلافت پر نور فیض سے اس کے
ہمیں تو نعت رسالت نے کامیاب کیا

ضرورت اپنی تو ہوتی ہے مادر ایجاد
ہمیں ہماری ضرورت نے کامیاب ک

ہوائے بدعت دنیا سے “عینی” ہے محفوظ
اسے ردائے شریعت نے کامیاب کیا
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

وہ ہیں رسول انور قرآن کہہ رہا ہے
اور آخری پیمبر قرآن کہہ رہا ہے

پڑھ کے تو دیکھ تکویر ، اور اس کی روح تفسیر
ہیں غیب داں پیمبر قرآن کہہ رہا ہے

مزمل و محمد، یسین اور احمد
ہیں وہ حبیب داور قرآن کہہ رہا ہے

قد جاءکم‌ سے ظاہر ہے صاف کس قدر یہ
ہیں نور کے وہ پیکر قرآن کہہ رہا ہے

یوحی’ کی آیت اس کی برہان ، قول رب ہے
قول حبیب داور ، قرآن کہہ رہا ہے

ھے آیت ‌ ید اللہ شاہد ، ھے فعل آقا
فعل خدا کا مظہر قرآن کہہ رہا ہے

لا ترفعو سے سب کو یہ ہوگیا ھے ظاہر
ان کا ادب ھے برتر قرآن کہہ رہا ہے

تطہیر سے ھے ثابت، آل شہ مدینہ
ہیں خوب تر مطہر ، قرآن کہہ رہا ہے

ہم مومنین پر ھے ، بعثت شہ امم کی
احسان رب اکبر ، قرآن کہہ رہا ھے

ھے القلم کی سورۃ برہان اس پہ “عینی”
ان‌ کا ھے خلق برتر قرآن کہہ رہا ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت سرور دیں صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

مجھ کو تلاش سنگ در آستاں کی ہے
اپنی جبیں کے واسطے اک سائباں کی ہے

مجھ کو نئی زمین پہ لکھنی ہے نعت پاک
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

ہے قول ان کا چرخ فصاحت میں ضو فشاں
پر نور ہے وہ بات ، جو ان کی زباں کی ہے

دریا سخا کا ان کے کرم پر ہوا نثار
ایسی ادا عطا میں مرے مہرباں کی ہے

اس جامع الکلم کی ہے مدحت پہ وقف یہ
اردو میں خوبی ایسی زبان و بیاں کی ہے

کلیاں ہیں خوشبوئیں بھی ہیں گل بھی ہیں باغ میں
اب جستجو چمن کو فقط باغباں کی ہے

جس کارواں میں سرور دیں اور صحابہ ہوں
“عینی” مجھے تلاش اسی کارواں کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

نعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

یوں گلستاں بنا مرے دل کو، خدائے دل
نعتوں کے گل سے تر رہے ہر دم فضائے دل

گہوارہ ان کے حب کا نہیں گر ہے جائےدل
مطلب نہیں ہے اس سے کہیں بھی یہ جائے دل

سمت حضور ایسی توجہ بنی رہے
غیروں کی جانب اپنا کبھی بھی نہ جائے دل

پشت فلک خمیدہ ہے ان کے سلام کو
کہتا ہے کھا کے رب کی قسم یہ سمائے دل

منزل مری دیار رسول کریم ہے
سنتا ہوں میں شروع سے ہی یہ صدائے دل

مجھ کو عطا ہو رہ گزر مصطفی’ کی دھول
ارض مدینہ سے ہے یہ عرض صفائے دل

حمد خدا و مدح حبیب خدائے پاک
جز اس کے اور کیا ہے براۓ شفائے دل

حب نبی ہو گر تو رہے دل میں تازگی
بغض نبیء پاک سے ہوگی قضائے دل

اس میں ہوئی ہے آمد محبوب کبریا
یہ جان‌ لینا آپ ، اگر مسکرائے دل

اظہار پر ہے منحصر ایمان آپ کا
ظاہر زبان بھی کرے ، جو ہے رضائے دل

ابروئے شاہ کون و مکاں پر نثار ہے
ہم کو بہت پسند ہے “عینی “ادائے دل
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

عید قرباں ،،از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


۔‌۔۔‌‌

منائیں نہ کیوں مل کے ہم عید قرباں
حدیثوں میں ھے جب رقم عید قرباں

براہیم کا ہے کرم عید قرباں
ہے اپنے لیے ذی حشم عید قرباں

پسندیدہ چشم شریعت میں تو ھے
ھے عظمت پہ سر اپنا خم عید قرباں

ہے سنت خلیل الہی کی اس میں
دلاتی ہے یاد حرم عید قرباں

ہمیں جذبہء بندگی اور ایثار
سکھاتی ھے ہر ہر قدم عید قرباں

خیال خلیل ‌خدا‌ میں ہیں گم ہم
مٹاتی ھے درد و الم عید قرباں

زمانے میں ھے یہ ہمارے لیے شاں
اٹھاتی ہے دیں کا علم عید قرباں

ہر اک بال کے بدلے ملتی ہے نیکی
ہمارے لیے ہے اہم عید قرباں

خدا‌ نے دیا جن کو انعام ، ان کا
دکھاتی ہے نقش قدم عید قرباں

ہمیں دیتی ہے پھول خوشیوں کا “عینی”
کہ ہے قاطع خار غم عید قرباں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت ساقیء کوثر صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

جو شخص در ساقیء کوثر میں رہیگا
پیاسا وہ کہاں کس گھڑی محشر میں رہےگا؟

مقصد ترا گر مدحت آقا ہو اے شاعر
خوشبو کا رسالہ ترے دفتر میں رہےگا

اس پر اثر انداز بھلا کیسے ہوں کانٹے
جو پھول گلستان پیمبر میں رہیگا

سانچے پہ ڈھلیں سیرت اصحاب نبی کے
ایمان کا جوش آپ کے تیور میں رہےگا

جس نام سے منظور ہوءی توبہء آدم
اس نام کا صدقہ ہی مقدر میں رہیگا

محبوب کی گر یاد نہ ہو زیست میں شامل
کیا کیف کا امکاں کسی منظر میں رہےگا؟

گر چھوڑ دیا ہاتھ سے سرکار کا دامن
بربادی کا عنصر ہی مقدر میں رہیگا

طیبہ کے کھجوروں سے تو رکھ گھر کو مزین
برکت کا اجالا ترے گھر گھر میں رہےگا

گر حیدر کرار سا ہو عزم مصمم
تب نور ظفر زیست کے خیبر میں رہےگا

جو نور عیاں دھرتی کے طیبہ میں ہے” عینی “
وہ نور کہاں چرخ کے اختر میں رہےگا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت پاکِ مصطفیٰ ﷺ غیر منقوط (صنعتِ مہملہ) رشحاتِ قلم، محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی


☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گھُٹ رہا ہے دم مسلسل گرمیِ آلام سے
دو سکوں اہلِ الم کو سردیِ اکرام سے

ہاں وہاں ہم کو عطا ہوگی مئے رحم و کرم
واسطہ ہم کو کہاں ہے وادیِ اوہام سے

ہم کو حاصل ہے حصارِ “سَلّمِ” مولاے کل
سو ارم کی راہ ہوگی ہم سے طے آرام سے

ہادیِ کل کی عطاؤں کا سراسر ہے کمال
ہے معطر سارا عالم وردۂ اسلام سے

لمحہ لمحہ مدح گوئیِ محمد کی مہک
آئے اے مولاے عالم! آہوے احرام سے

مہرِ گردوں کی دمک کو واسطہ کس طور ہو
مدحِ ممدوحِ امم کے مطلعِ الہام سے

در دلِ مداح ہے اک اہرمِ مہرِ رسول
حال اس کا اور ہی ہے مصر کے اہرام سے

کر گئے مردِ دلاور کارِ صمصامِ دو دم
مالکِ کل کے کرم سے، ڈال کی صمصام سے

اسمِ احمد کو مدارِ طائرِ ارواح کر
گھوم اسی کے گِرد آ کے سرحدِ اعلام سے

کر سحَر گاہِ ورَع اعمال کی ہر کوٹھڑی
ہو کے محکومِ الہی لولوے احکام سے

حصہ داری سے ہوئے سر معرکے امکاں سے دور
کام کوئی ہے ہوا ؟ ہٹ کے حدِ اِسہام سے


نوری اک امرِ مسلم، روحِ گل کی ہار، ہے
سرورِ ہر دو سرا کے کاکلِ کاللام سے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رشحاتِ قلم
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۷ / ذو القعدہ ۱۴۴۳ ہجری
۲۸ / جون ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

نعتِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ،،از قلم زاہد رضا فانی بدایونی

مکمل کلام براۓ بزم فن شاعری

اپنی رحمت سے خدا رکھے گا ہر آن الگ
ان کے دامن سے ہوۓ تم جو شریمان الگ

جاۓ گا جان جو آقا پہ نچھاور کرکے
خلد میں اس کا کیا جاۓ گا سمان الگ

یادِ سرکار سے ہر لمحہ رہے وابستہ
ایک لمحے کے لیے بھی نہ رہے دھیان الگ

اُن کے جیسا نہیں انسان زمانے میں کوئی
سارے انسانوں میں سرکار ہیں انسان الگ

ہے نگاہوں کو مدینے کی زیارت کی طلب
اور مرنے کا وہیں دل میں ہے ارمان الگ

شوقِ دیدِ نجف و کرب و بلا ہے دل میں
دیدِ بغدادِ معلی کا ہے ارمان الگ

کیجے احکامِ شریعت کی اطاعت دل سے
دائمی آپ سے ہو جاۓ گا شیطان الگ

جب کبھی نعت پڑھی آپ کی آقا میں نے
فضلِ رحمان ہوا آپ کا فیضان الگ

سامنے رب کے کھڑے ہوں گے صفِ محشر میں
دیو کے بندے الگ سنی مسلمان الگ

اے بریلی کے رضا خان تمہارا مسلک
“ہم غلامانِ محمدﷺ کی ہے پہچان الگ”

شیخ محمود کی بھی ہو گئی رحلت جگ سے
سنیت کا ہوا اک اور یہ نقصان الگ

واصفِ شاہِ ہدی لوگ تجھے کہتے ہیں
اور کیا چاہیے فانی تجھے پہچان الگ

نتیجۂ فکر ۔زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

نعت سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

جو ذکر سید کونین کی محفل سے آئے ہیں
وہ رافت کے سمندر کے لب ساحل سے آئے ہیں

حضور اپنا رخ زیبا دکھا دو ، کیف مل جائے
تمھاری بارگہ میں ہم بڑی مشکل سے آئے ہیں

ہمیں رستہ دکھا دو منزل حسان کا آقا
تمھاری نعت کی ہم پہلی ہی منزل سے آئے ہیں

عصائے نعرہ ء تکبیر سے ان کو کچل ڈالو
عجب ہیں سانپ زہریلے جو باطل بل سے آئے ہیں

نبی کے واقعے قرآن و سنّت سے ہیں وابسطہ
نہ سمجھیں آپ یہ قصے کسی ناول سے آئے ہیں

ہماری زیست میں جو راحت و آرام کے ہیں نور
وہ بحر رحمت شہ کے لب ساحل سے آئے ہیں

چھپالے گا انھیں دست شفاعت میرے آقا کا
اگرچہ بل گناہوں کے مری فائل سے آئے ہیں

حقیقی عشق اور تبلیغ سیرت کے حوالے سے
طریقے مجھ میں حضرت مرشد کامل سے آئے ہیں

طریق عشق محبوبی میں وہ کامل نظر آئے
جو بزم الفت احمد میں” عینی” دل سے آئے ہیں
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

روداد قلب مضمحل، از کہف الوریٰ مصباحی صدر راشٹریہ علما کونسل لمبنی پردیس بانکے نیپال

غزل

اس دل کی وسعت کیا کہنا اک دنیا ہے آباد یہاں
پر اس کی ندرت کیا کہنا ہر کوئی نہیں ہے شاد یہاں
یوں کہنے کو تو ملتے ہیں دل دار یہاں دل شاد یہاں
پر دل کی حقیقت کیا جانے ہم راز دل ناشاد یہاں
دل ٹوٹ گیا ہے جب سے پھر دل جوڑنے والا مل نہ سکا
ہر دل کا معالج بیٹھا ہے دل بر کی لیے فریاد یہاں
بس شیریں لیلی کرتے ہیں یہ دل کے لٹیرے کیا جانیں
ہر خبطی مجنوں بن بیٹھا ہر شخص بنا فرہاد یہاں
اس دنیا کے مے خانے میں دل دوز ہیں ساغر کے فتنے
اب توڑ دے جام و مینا تو ہے جام لیے صیاد یہاں
دل عشق بنا ویران ہوا جب عشق ہوا حیران ہوا
کیا کیا دل پر قربان ہوا ہے کس کو خبر تعداد یہاں
ہم دل کے مریضوں کا ازہر اب کوئی نہیں حامی یاور
کیوں دل کی سنائے جاتا ہے دردوں سے بھری روداد یہاں