WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں……پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:عبدالرزاق سہروردی ایٹادوی متعلم: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، گرڈیا،تحصیل:رامسر، ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:”یَااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ”(۶)
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر وتوضیح مفسرین کرام نے کچھ یوں کی ہے {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا: اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں  بجالا کر، گناہوں  سے باز رہ کر،اپنے گھر والوں  کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں  علم و ادب سکھا کراپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں  ۔

            یہاں  آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں  اور معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدیدحرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں  جلتی بلکہ ان چیزوں  سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

            مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں  کہ جو جہنمیوں  پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں  اور ان کی طبیعتوں  میں  رحم نہیں ،وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمانوں پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اپنے اہلِ خانہ ورشتہ داروں کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی ان پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں ۔ترغیب کے لئے یہاں اہلِ خانہ کی اسلامی تربیت کرنے اور ان سے احکامِ شرعیہ پر عمل کروانے سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے ،اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔( بخاری)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔( ابو داؤد)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اُٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی (نماز کے لئے) جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللّٰہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھے،پھرنماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے ،اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔( ابو داؤد، کتاب التطوّع، باب قیام اللیل، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۱۳۰۸)

        پانی کے چھینٹے مارنے کی اجازت اُس صورت میں  ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں  خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اہلِ خانہ کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے…مذکورہ خیالات کااظہار مغربی راجستھان کی عظیم و ممتاز دینی درسگاہ" دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان" کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے حضرت پیرمیاں ولایت شاہ بُکیرا شریف کی یاد میں  عیدگاہ میدان ایٹادا،تحصیل سیڑوا،باڑمیر میں 27 ذی الحجہ 1443 ہجری مطابق 27 جولائی 2022 عیسوی بروز بدھ [خمیس کی رات] "سیرت کمیٹی" کے زیراہتمام منعقدہ عظیم الشان "جلسۂ اصلاح معاشرہ" میں خطاب کے دوران کیا-

مزید آپ نےاپنے ناصحانہ خطاب کے دوران یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنے مرشدان طریقت کے نام اور یاد میں مجالس کا انعقاد ضرور کریں مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ ان کی تعلیمات وفرمودات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ان بزرگان دین کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کریں،آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان مجالس کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی لوگ ان مجالس میں اپنے علمائے کرام سے جو مواعظ سنیں ان پر عمل پیرا ہونے کی ہرممکن کوشش کریں،نماز پنجگانہ باجماعت کی پابندی کریں،اپنے مالوں کی زکوٰة اداکریں،اللہ تعالیٰ نے اگر صاحب استطاعت بنایا ہے تو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں،ماہ رمضان المبارک میں پابندی سے روزے رکھیں حاصل کلام یہ کہ مکمل ارکان اسلام پر عمل کریں، آپ نے اپنے آخری جملوں میں پردہ کے اہتمام اور علاقہ میں پھیلی بدعات وخرافات سے پرہیز کرنے پر خصوصی زور دینے کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت پڑھنے کی تاکید وتلقین کی اور ساتھ ہی سرتاج الصوفیاء والشعراء حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے عارفانہ سندھی اشعار کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہوئے اس کی ایسی فاضلانہ تشریح وتوضیح کی جس سے جلسہ میں موجود علماء وعوام جھوم اٹھے-
آپ کے علاوہ کچھ دوسرے علاقائی علمائے کرام اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے طلبہ نے نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائےکرام شریک رہے-
حضرت مولاناغلام رسول قادری خطیب وامام جامع مسجد ایٹادا،حضرت مولانالعل محمد صاحب سہروردی، حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب سہروردی خطیب وامام جامع مسجد کونرا،حضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی، ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب مصباحی، حضرت قاری محمدحنیف، حضرت مولاناعبیداللہ صاحب،حضرت مولانا خالدرضا صاحب سہروردی انواری تالسر،حضرت مولانا الحاج علم الدین صاحب اشفاقی،حضرت مولانا راناخان صاحب،حضرت مولانا محمدعرس سکندری انواری-حضرت مولانامحمد ابراہیم صاحب گلزاری خطیب وامام:مسجد جھڑپا ومولانا عبدالحکیم صاحب اشفاقی ایٹادا وغیرہم-
نظامت کے فرائض خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ ومولوی محمدنظام الدین انواری ایٹادوی متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے مشترکہ طور پر بحسن وخوبی نبھائی-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء قبلہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

عید قرباں ،،از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


۔‌۔۔‌‌

منائیں نہ کیوں مل کے ہم عید قرباں
حدیثوں میں ھے جب رقم عید قرباں

براہیم کا ہے کرم عید قرباں
ہے اپنے لیے ذی حشم عید قرباں

پسندیدہ چشم شریعت میں تو ھے
ھے عظمت پہ سر اپنا خم عید قرباں

ہے سنت خلیل الہی کی اس میں
دلاتی ہے یاد حرم عید قرباں

ہمیں جذبہء بندگی اور ایثار
سکھاتی ھے ہر ہر قدم عید قرباں

خیال خلیل ‌خدا‌ میں ہیں گم ہم
مٹاتی ھے درد و الم عید قرباں

زمانے میں ھے یہ ہمارے لیے شاں
اٹھاتی ہے دیں کا علم عید قرباں

ہر اک بال کے بدلے ملتی ہے نیکی
ہمارے لیے ہے اہم عید قرباں

خدا‌ نے دیا جن کو انعام ، ان کا
دکھاتی ہے نقش قدم عید قرباں

ہمیں دیتی ہے پھول خوشیوں کا “عینی”
کہ ہے قاطع خار غم عید قرباں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت ساقیء کوثر صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

جو شخص در ساقیء کوثر میں رہیگا
پیاسا وہ کہاں کس گھڑی محشر میں رہےگا؟

مقصد ترا گر مدحت آقا ہو اے شاعر
خوشبو کا رسالہ ترے دفتر میں رہےگا

اس پر اثر انداز بھلا کیسے ہوں کانٹے
جو پھول گلستان پیمبر میں رہیگا

سانچے پہ ڈھلیں سیرت اصحاب نبی کے
ایمان کا جوش آپ کے تیور میں رہےگا

جس نام سے منظور ہوءی توبہء آدم
اس نام کا صدقہ ہی مقدر میں رہیگا

محبوب کی گر یاد نہ ہو زیست میں شامل
کیا کیف کا امکاں کسی منظر میں رہےگا؟

گر چھوڑ دیا ہاتھ سے سرکار کا دامن
بربادی کا عنصر ہی مقدر میں رہیگا

طیبہ کے کھجوروں سے تو رکھ گھر کو مزین
برکت کا اجالا ترے گھر گھر میں رہےگا

گر حیدر کرار سا ہو عزم مصمم
تب نور ظفر زیست کے خیبر میں رہےگا

جو نور عیاں دھرتی کے طیبہ میں ہے” عینی “
وہ نور کہاں چرخ کے اختر میں رہےگا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

تلاوت قرآن کی اہمیت و فضیلت اور کچھ ضروری آداب, ،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر(راجستھان)mdshamimahmadnoori@gmail.com

قرآن کا لفظ قراءت سے ماخوذ ہے ،جس کے معنیٰ پڑھنے کے ہیں اور چوں کہ اس کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں، قرآن دینِ اسلام کا سرچشمہ، رشد و ہدایت کا منبع، دعوت وارشادکا مصدر ،علم و عرفان کا خزانہ اور بے شمار کمالات و محاسن کے ساتھ پوری دنیائے باطل کے لیے چیلنج ہے

قرآن مقدس اللّٰہ تعالیٰ کی وہ آخری اور مستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے اللّٰہ عزّوجل نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اپنے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا

اس اعتبار سے یہ آخری پیغمبر کی طرح آخری آسمانی کتاب ہے ،جس طرح رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اسی طرح قرآن مقدس کے نزول کے بعد اب کوئی آسمانی وحی کسی پر نازل نہیں ہوگی، اسی لیے قرآن کو اللّٰہ تعالی نے تمام جہانوں کے لیے نصیحت فرمایا

اب یہی قرآن قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت اور دستور حیات ہے جن لوگوں یا قوموں نے اسے دستور العمل بنایا وہ یقیناً دین و دنیا کی سعادت سے ہمکنار ہوئے، اور اس سے اعراض و روگردانی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے جیسا کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اللّٰہ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو پستی میں ڈھکیل دیتا ہے”( مسلم شریف جلد/۱ صفحہ/۲۷۲،مجلس برکات)۔

حقیقی بلندی وسرفرازی اللّٰہ کے حکم سے اُنہی کو حاصل ہوتی ہے جو قرآن کے احکام کی پیروی کرتے ہیں جیسا کی ابتدائی چند صدیوں میں جب مسلمان ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور تھے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے الگ کردیا تب سے ہی مسلمانوں پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلّط ہے-اسی لیے تو شاعرمشرق ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا تھا

درس قرآن اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

کاش : مسلمان دوبارہ اپنا رشتہ قرآن کریم سے جوڑ لیتے تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس آ سکےقرآن پاک کو دوسری کتابوں پر اسی طرح برتری حاصل ہے جیسے اللّٰہ تعالی کو مخلوق پر، اس دنیا میں پائی جانے والی کتابوں میں اگر سب سے زیادہ فضیلت پر فائز کوئی کتاب ہے تو بلاشبہ وہ کلام اللّٰہ {قرآن پاک} ہے جس کا پڑھناثواب، دیکھنا ثواب، سننا ثواب، گھر میں رکھنا ثواب،باعث ِ خیروبرکت،دافعِ آفات و بلیّات اور فلاح دنیا وآخرت ہے
قران کیا ہے؟اس کی خصوصیات وامتیازات کیاہیں؟اس کی تعلیمات وہدایات کیاہیں؟

ان سب پرتفصیل سے روشنی ڈالنے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے آئیے سرِدست تلاوت قرآن کے فضائل ومناقب، اس کی اہمیت اور آداب ملاحظہ کریں

تلاوت قرآن کی فضیلت

قرآن مقدّس کتاب ہدایت بلکہ سراپا ہدایت و باعثِ خیروبرکت ہے مگر اس بابرکت کتاب سے انسان باقاعدہ اسی وقت فائدہ حاصل کرسکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا

اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے اس عظیم ترین کلام کی تلاوت پر اجر جزیل و ثواب عظیم سے نوازا ہے جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےارشادفرمایا کہ “جو شخص کلام اللّٰہ کا ایک حرف پڑھے گا ربّ العالمین اس کے ہر حرف پر ایک نیکی عنایت کرے گا، جو دس گنا بڑھ کر دس نیکیاں بن جائیں گی، پھر حضور نے فرمایا: میں نہیں کہتا ہوں کہ “الم” ایک حرف ہے بلکہ “الف” ایک حرف ہے، “لام” ایک حرف ہے، اور “میم‘ ایک حرف ہے” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

بلاشبہ قرآن مقدّس کی تلاوت مسلمانوں کے لیے لاجواب نعمت و دولت اور خیر و برکت کی ضمانت ہے، اس کا ایک ایک لفظ دلی سکون، ذہنی ارتقا اور روحانی تازگی کا ذریعہ ہے ،دنیاوی معاملات {روٹی کپڑا اور مکان وغیرہ}کےحصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر محض رضائےالٰہی اور جِلاءِ باطن کے لیے اس کی تلاوت کی جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔

تلاوت قرآن کو معمولی سمجھنے والے کو تنبیہ: حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “جس نے قرآن پڑھا پھر اس نے یہ سمجھا کہ اُس کوجو ثواب ملا ہے اس سے بڑھ کرکسی اور کو ثواب مل سکتا ہے تو اس نے یقیناً اس کو معمولی سمجھا جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے عظیم کیا ہے” (طبرانی)۔

اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن عظیم ترین عبادت ہے اور اس حدیث شریف میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ تلاوت قرآن کے اجر و ثواب کو ہرگز کوئی معمولی نہ سمجھے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا زبردست ثواب مقرر فرمایا ہے

اس کو بھی پڑھیں: قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں

تلاوت قرآن سب سے افضل عبادت

قرآن کی تلاوت سب سے افضل عبادت ہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ” میری امت کی سب سے افضل اور بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے” ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا “لوگوں میں سب سے بڑاعبادت گزار وہ ہےجوسب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہے

تلاوت قرآن کرنے والوں کو قیامت کے دن اعزاز

قیامت کے دن قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو یہ اعزازو مرتبہ حاصل ہوگا کہ قرآن کی سفارش سے ان کو عزت و شرف کے تاج سے آراستہ کیا جائے گا اور انھیں حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاج دار کا ئنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا قیامت کے دن آئے گا تو اسے عزت و شرف کا تاج پہنایا جائے گا

پھر قرآن کہے گا: اے پروردگار: اسے اور نواز دے اس کے بعد اسے عزت و شرف کا جوڑا پہنایا جائے گا، پھر وہ قرآن کہے گا: اے رب !اس سے راضی ہوجا، اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا ،پھر قرآن مقدس کی تلاوت کرنے والوں سے کہا جائے گا: تم قرآن پڑھتے جاؤ اور بلندی پر چڑھتے جاؤ یہاں تک کہ وہ ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بڑھتا جائے گا” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

قرآن پڑھنے والے کے والدین کا اعزاز

قرآن پڑھنے والے کے والدین کو نہایت ہی روشن تاج پہنایاجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہےکہ حضرت بریدہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ” جو قرآن پڑھے گا اس کی تعلیم حاصل کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی کی طرح ہو گی اور اس کے والدین کو دو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا نہ ہوسکے گی تو وہ دونوں کہیں گے کہ ہمیں کیوں پہنایا؟ تو کہا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے

ایک دوسری روایت کے راوی حضرت معاذ جہنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں آپ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ “جو قرآن پڑھے اور اس کے مطابق عمل کرے قیامت کے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی بہتر ہوگی اگر وہ سورج دنیا کے گھروں میں اتر آئے، پھر تمہارا کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جس نے خود قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کیا”( التّرغیب والّترہیب جلد/۲ صفحہ/۵۷۵)۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین کہ جن کی اولاد قرآن مقدس پڑھتی اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں قیامت کے دن یہ عظیم الشان اعزاز ملے گا
سبحان اللّٰہ ! کیا فیضان ہے تلاوت قرآن کا کہ روزِ قیامت اس کے والدین کو ایسا روشن چمکتا دمکتا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی گھروں کے اندر سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہوگی تو جب قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو یہ اعزاز نصیب ہوگا تو خود اس کے اعزاز کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔

ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ قرآن پڑھنے والے اور اس کے والدین کو قیامت کے دن کن کن انعامات سے نوازا جائے گا لہذا ہمیں اور آپ کو اور سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو کم ازکم ناظرہ قرآن مجید اور دین کے ضروری مسائل کی تعلیم ضرور دلائیں، تاکہ بچہ قرآن پڑھ سکے اور اس پر عمل کر سکے، جس کے باعث قیامت کے دن آپ کو بھی وہ اعزاز نصیب ہوگا، ہر باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو دین کی اتنی تعلیم ضرور سکھا دے کہ جس سے وہ ارکان اسلام پر عمل کر سکے اور آپ کی نماز جنازہ تو کم ازکم صحیح طور پر ادا کرسکے

آپ کے نام فاتحہ خوانی کر سکے تاکہ دوسروں کا محتاج نہ ہو، کیوں کہ قیامت کے دن ہر باپ سے اس کی اولاد کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیساکہ بخاری شریف کی ایک مشہورحدیث کامفہوم ہے تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے اور جن کی ذمہ داری ان کے سر ہے ان کے بارے میں ان سے سوال ہوگا لہٰذا ہرشخص پر اپنی اولاد کی تعلیم واصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے

جن لوگوں نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم اور علوم دینیہ کی طرف متوجہ کیا قیامت کے دن ان کے سروں پر نور کا تاج بھی ہوگا اور وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہوجائیں گے اور جن لوگوں نے اپنی اولاد کو غلط راہوں پر لگادیا بظاہر ان کو بہت ساری دولت تو حاصل ہوگئ، دنیاوی اعزازات بھی مل گئے لیکن ان میں اگراسلامی تعلیمات کی روح باقی نہ رہی اوروہ بےراہ روی کے شکار ہوگئے تو اس کا خمیازہ خود اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بھگتنا ہوگا

قرآن دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت

حضرت عبداللّٰہ بن اوس ثقفی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”کسی شخص کا قرآن بغیر دیکھے پڑھنا ایک ہزار درجہ رکھتا ہے اور اس کا قرآن دیکھ کر پڑھنا اس سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ جاتا ہے (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔
قرآن کو دیکھ کر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہو جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ طیّبی علیہ الرّحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ “قرآن کا دیکھنا،اس کا اٹھانا ،اس کا چھونا، قرآن پر غور و فکر کا موقع فراہم ہونا، اور اس کے معنیٰ و مفہوم کا سمجھنا ان سب کی وجہ سے اس کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے”(مرقاة شرح مشکوٰۃ)۔

تلاوت قرآن سے دلوں کا علاج

حضرت عبداللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے جب اسے پانی لگ جائے ،عرض کیا گیا: ان کی صفائی کس طرح ہوتی ہے؟ فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے سے” (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔

تلاوت قرآن سے سکون و رحمت اور فرشتوں کانزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو لوگ اللّٰہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللّٰہ کی کتاب [قرآن] کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے ہیں [یا درس دیتے ہیں] تو ان پر [ اللّٰہ کی طرف سے ] سکینت [ تسکین و رحمت ] نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کا ذکرفرماتا ہےجواس کے پاس ہوتے ہیں”( صحیح مسلم ج/۲،ص/۱۰۸)۔

یقیناً تلاوت قرآن وہ مبارک و پسندیدہ عمل ہے جس کے سننے کے لیے نہ صرف سلیم الطبع جن وانس مضطرب وبے چین رہتے ہیں بلکہ آسمان سے فرشتے بھی اتر آتے ہیں جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ “ایک صحابی نماز تہجد میں سورۂ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک گھر ہی میں بندھاہوا ایک جانور [گھوڑا] بدکنے لگا

سلام پھیرنے کے بعد نظر دوڑایا تو اوپر بادل جیسا ایک ٹکڑا نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا[صبح ہونے کے بعد] اس واقعہ کا تذکرہ انہوں نے نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے کیا، جس پر آپ نے فرمایا: اے فلاں! تم اپنی تلاوت جاری رکھو یہ سکینت تھی جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے آسمان سے اتری تھی (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۰۸ مجلس برکات )۔

علّامہ حافظ ابن حجرعلیہ الرّحمہ فرماتے ہیں کہ “سکینہ سے مراد فرشتے ہیں، جو آسمان سے قرآن سننے کے لیے اترتے ہیں-( بخاری ج/۱،ص/۱۳۳-شرح مسلم للنووی ج/۶،ص/۸۲)۔
اس واقعہ سے ملتا جلتا حضرت اسید بن حضیر کا واقعہ بھی ہےکہ وہ رات میں سورۂ بقرہ کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ان کا گھوڑا ان کے صاحبزادے یحییٰ کے قریب ہی بندھا ہوا تھا بدکنے لگا، خاموش ہونے پر وہ بھی پرسکون ہو گیا، یہ عمل بار بار ہوا، آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو بادل کی ایک ٹکڑی نظر آئی، جس میں قندیلیں روشن تھیں- نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے کے لئے تمہارے قریب آئے تھے، اور اگر تم تلاوت جاری رکھتے تو وہ فرشتے بھی اسی طرح صبح تک ٹھہرےرہتے اور لوگ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے” (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۶۹)۔

تلاوت قرآن گھر کو شیطان سے پاک کرنے کا علاج: درحقیقت ہمارے سامنے دو آواز ہیں، ہمیں یہ اختیار ہے کہ ہم ان میں سے جس آواز کو بھی چاہیں اپنے گھر کی زینت بنائیں، مگر دونوں کے ظاہری اثرات اس گھر پر ڈائریکٹ بغیر کسی واسطے کے پڑیں گے ،جس میں سے ایک آواز گانا باجا وغیرہ کی ہے، اور دوسری آواز تلاوت قرآن اور نیک باتوں کی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ” اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے” ترمذی ج/۲ص/۱۱۵، مشکوٰۃ ص/۱۸۴)۔

تلاوت قرآن نور ہے

سیّد عالم، نور مجسم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:” قرآن مقدس کی تلاوت؟ کرو یہ تمہارے لیے دنیا میں نور ہوگا اور آسمان میں تمہارے لئے بےشمار نیکیوں کا ذخیرہ ہوگا”( کنز العمّال ج/۱،ص/۲۶۸)
تلاوت قرآن شفاعت کا سبب: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلّی اللّہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے کہ “قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا (مسلم ج/۱،ص/۲۷۰) ۔

اس طرح کی بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں سے ایک اور حدیث ملاحظہ ہو
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ “رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کہ “روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ عرض کرے گا: کہ یا اللّٰہ! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا میری شفاعت قبول کرلے ،اور قرآن کہے گا: یا اللہ! میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا میری شفاعت قبول فرما لے، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائےگی” مشکوٰۃ ج/۱،ص/۱۷۳)۔

قرآن سے خالی دل ویران گھر کی طرح ہے: وہ لوگ جن کے سینے میں قرآن نہیں ہے وہ ویران گھر کی طرح ہیں جیسا کہ ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 115 میں ہے کہ حضرت عبداللّٰہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے” یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اور رہنے والوں سے خالی ہوتا ہے ایسے ہی اس شخص کا دل خیروبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو قرآن شریف کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یاد کرنا اور رکھنا چاہیے تا کہ وہ اس وعید سے محفوظ رہے

تلاوتِ قرآن کرنے والوں کے تین درجے

غیرِعرب [عجمی] مسلمانوں میں قرآن مقدس کو پڑھنے وتلاوت کرنے والے عام طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں

۔(۱) وہ جو قرآن کی زبان سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کے اصل مطلب کو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ تلاوت قرآن کی سب سے بہتر صورت ہے
۔(۲) دوسرے وہ لوگ جو قرآن کی زبان سے تو واقف نہیں ہیں تاہم اس کتابِ ہدایت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں چنانچہ وہ اپنی زبان میں موجود تراجم قرآن کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور یہ پہلی صورت سے ایک درجہ کم ہے
۔(۳) تیسرے وہ جو نہ قرآن کی زبان کو جانتے ہیں اور نہ ان کے پیش نظر اسے سمجھنا ہی ہوتا ہے،بلکہ طلبِ فہم کے بغیر محض الفاظِ قرآن کو اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں یہ تلاوت قرآن کا تیسرا درجہ ہے
تلاوت قرآن کے آداب: تلاوت قرآن کےکچھ آداب ہیں ، تلاوت کرنے والے کو ان آداب کی رعایت کرنی چاہئیے تا کہ قراءت اللّٰہ کی بارگاہ میں مقبول اور باعثِ ثواب ہو،
مشائخِ کرام نے تلاوت کے چھ آداب ظاہری اور چھ آداب باطنی ارشاد فرمائے ہیں

تلاوت کے ظاہری آداب
۔(۱) قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے
۔(۲) پڑھنے میں جلدی نہ کرے ، ترتیل و تجوید سے پڑھے
۔(۳) رونے کی کوشش کرے ،چاہے بہ تکلّف ہی کیوں نہ ہو

۔(۴) آیاتِ رحمت پر دعائے مغفرت و رحمت مانگے، اور آیت عذاب پر اللّٰہ سے پناہ مانگے
۔(۵) اگر ریا کا احتمال ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا اندیشہ ہو تو آہستہ آہستہ ،ورنہ آواز سے پڑھے!
۔(۶) خوش الحانی[ اچھی آواز ]سے پڑھے، کیونکہ خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی بہت سی حدیثوں میں تاکید آئی ہے

تلاوت کے باطنی آداب

۔(۱) قرآن کی عظمت دل میں رکھے کہ کیسا بلندمرتبہ کلام ہے
۔(۲) اللّٰہ تعالیٰ کی علوِّشان اوررفعت وکبریائی کودل میں رکھے کہ جس کا کلام ہے
۔(۳) دل کو وسوسوں اور خطرات سے پاک رکھے
۔(۴) معانی پر غور و خوض کرے اوردلجوئی کے ساتھ پڑھے، حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پوری رات ایک ہی آیت کو پڑھ کر گزار دی، جس آیت کا ترجمہ یہ ہے “اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انکی مغفرت فرما دے توتو عزت والا ہے”
۔(۵) جن آیتوں کی تلاوت کر رہا ہے دل کو ان کاتابع وفرمانبردار بنادے، جیسے اگر آیتِ رحمت زبان پرہے تو دل سرورِمحض بن جائے،اورآیتِ عذاب اگر آگئی تودِل لرز جائے
۔(۶) کانوں کواس درجہ متوجہ بنا دے گویا خود اللّٰہ تعالیٰ کلام فرما رہا ہے اور یہ سن رہا ہے

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مشائخ کے بیان فرمودہ ان آداب کے ساتھ ہمیں تلاوت قرآن زیادہ سے زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

توہین رسالت کا مرتکب کافر ہے*#خلیل احمد فیضانی

توہین رسالت کا مرتکب اجماعی کافر ہے,
بلکہ جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے…مرتکب توہین شخص, فورًا دین اسلام سے خارج ہوگیا اور اس کی بیوی بھی اس کے نکاح سے نکل گئی..
قرآن مقدس میں ہے:لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم(سورةالتوبه,آية:٦٥)
اس کے تحت جلالین میں ہے:ای ظھر کفرکم بعد الایمان یعنی تم اپنے اپنے ایمان کے اظہار کے بعد کافر ہوگئے-
نیز بیشتر مفسرین کرام نے اس آیت کریمہ کے تحت یہی فرمایا ہے کہ”قد کفرتم)قد اظھرتم الکفر بایذاء الرسول والطعن فیه-
ترجمہ:تم آقاﷺ کو تکلیف دےکر اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر طعن وتشنیع کرکے کفر کا ارتکاب کرچکے-
تمہید الایمان میں شفا شریف ,بزازیہ ,درر وغرر و فتاوی خیریہ کے حوالے سے ہے :اجمع المسلمون ان شاتمه صلي الله تعالي عليه وسلم كافر ومن شك في عذابه و كفره كفر(ص:٥٣)
ترجمہ: تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آقاﷺ کی توہین کرنے والا کافر ہے اور جس نے اس کے عذاب و کفر میں شک کیا وہ بھی کافر ہے-
المعتقد المنتقد میں فتاوی قاضی خاں کے حوالے سے ہے:لو عاب الرجل النبیﷺ فی شئی کان کافرا ولذا قال بعض العلماء لوقال لشعرالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شعیرفقد کفر(المعتقد المنتقد,ص:١٤٥)
ترجمہ: اگر کسی نے آقاﷺ کو عیب لگایا خواہ کسی بھی چیز کے حوالے سے ہو, وہ کافر ہے -اور اسی وجہ سے بعض علما کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے آقاﷺ کے بال مبارک کے لیے “بالیا” یعنی بہ غرض حقارت تصغیر کا صیغہ استعمال کیا وہ بھی کافر ہے –
نیز بزرگان یہ بھی فرماتے ہیں کہ:”من قال لنعل نعیل فقد کفر”
ترجمہ:جس نے آقاﷺ کی نعلین پاک کے لیے بھی توہین آمیز کلمہ استعمال کیا وہ بھی کافر ہوگیا
اسی طرح کسی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منسوب جس چیز کی بھی توہین کی وہ فورا ہی مرتد و کافر ہوگیا و من شک فی عذابه وكفره فقد كفر ,جس نے اس کے کفر و عذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہوگیا…

رحمت عالم اور شب قدر۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں :

            ”وما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم وما کان اللّٰہ لیعذبھم و ھم یستغفرون“(انفال /۳۳)

            ترجمہ :

اور اللہ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انھیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہوں
(کنز الایمان)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے کئی امتیں آئیں ۔ان میں سے اگر کوئی امت برائیوں میں مبتلا ہوئی اور باوجود تنبیہ کے اگر گناہوں سے باز نہ آئی تو اس پر خدائے قہار نے عذاب نازل فرمایا۔
کبھی سیلاب کی صورت میں عذاب نازل ہوا تو کبھی قوم بدکار کو بندر کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔
کبھی انھیں سمندر میں غرق کردیا گیا تو کبھی انھیں خوفناک بیماریوں میں مبتلا کیا گیا ۔
کبھی قحط سالی کا عذاب دیا گیا تو کبھی اموال و پیداوار میں کمی کی گئی۔
کبھی ایک سخت اور ہولناک آواز کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا تو کبھی ان کی بستیوں میں پتھر کی بارش برسائی گئی۔

لیکن سرکار صلی اللہ علیہ کے وجود مقدس کی وہ برکت ہے کہ قرآن فرماتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم قوم میں موجود ہیں ، خدا عذاب نازل نہیں فرمائےگا۔

اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کا باعث کہا گیا ہے۔قرآن خود فرماتا ہے:
وما ارسلناک الا رحمت اللعالمین
(الانبیاء/١٠٧)
ترجمہ :
اور ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
(کنز الایمان)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالم کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا صدقہ ہے کہ ہمارا نیلا سیارہ خوشگوار موسم سے مزین ہے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے روز اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور سب کو آزاد کر دیا۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر ہے کہ بغیر تلوار کے زور سے، فقط تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ پورے عالم میں خدا کی وحدانیت کا پیغام پہنچ گیا اور لوگ اسلام کے پر سکون دامن میں سماتے گیے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ کی امت کو کچھ راتیں ایسی دی گئیں جن کی برکت سے مسلمان خدا کی عبادت کرکے اور توبہ و استغفار کرکے پاک دامن ہوجائیں۔انھی راتوں میں سے ایک رات شب قدر ہے۔

آج سورج غروب ہونے کے بعد جو رات آنے والی ہے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔اس رات کی ہمیں قدر کرنی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنا ہے۔

اس رات کی شروعات کیسے کی جائے۔یہ رات شروع تو نماز مغرب کے وقت سے ہی ہوجاتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ جس نے شب قدر کو مغرب کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا آدھی شب قدر پالی۔پھر اگلا مرحلہ نماز عشا کا ھے ۔حدیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے شب قدر میں نماز عشاء مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا شب قدر کا نصف حصہ پالیا۔ ویسے بھی ہر نماز فرض باجماعت پڑھنا واجب ہے۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نماز تراویح کے بعد نوافل کا اہتمام کریں ، لیکن اس سے پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھیں ۔مسجدوں کو آباد کریں ۔آج اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ ہم اس پابندی کے خلاف آواز ضرور بلند کریں ، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کے چند ممالک آج بھی ایسے ہیں جہاں برسوں سے لاؤڈ سپیکر میں اذان کی پابندی چلی آرہی ہے، جیسے: آسٹریلیا۔لیکن یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ آسٹریلیا میں اگرچہ اذان لاؤڈ سپیکر سے نہیں ہوتی ، وہاں مسجد میں نمازیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ہندوستان میں لاؤڈ سپیکر میں اذان دی جارہی ہے ، لیکن مسجد میں آکر نماز باجماعت پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اب بھی وقت ہے مسلمان فرائض اور واجبات کے پابند ہوجائیں۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں زیر نہیں کرسکتی۔

بہر حال ، آئیے پتہ لگاتے ہیں کہ شب قدر اس قدر اہمیت کی حامل کیوں ہے ۔

لیلۃالقدر کا مطلب ہے عظیم رات، عظمت والی رات ۔یہ رات اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس رات میں قران مقدس لوح محفوظ سے پہلے آسمان کی بیت العزت میں یک بارگی نازل ہوا، پھر حکمت خداوندی کے مطابق آیتیں زمین میں رفتہ رفتہ اترتی رہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
انا انزلناہ فی لیلۃالقدر
بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔

لیلۃالقدر کی عظمت کا اندازہ اس آیت سے ہوسکتا ہے:
لیلۃالقدر خیر من الف شھر
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر
اس کا مفہوم یہ ہے کہ شب قدر میں عمل کرنا ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو ۔
کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر نہیں ہے کہ ہم ایک شب ہی عبادت کریں اور ہمیں تقریباً تیاسی سال کا ثواب ملے ؟ بیشک یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا پرنور اثر ہے ، کیونکہ بنی اسرائیل کے ایک شخص بنام شمعون نے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ایک ہزار مہینے تک عبادت کی تھی ۔حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام نے اسی برس تک اللہ کی عبادت کی۔ یہ اللہ کا بے پایاں احسان ہے کہ امت محمدی کے لیے سورہء قدر نازل فرمائی جس سے ایک مسرت‌ افزا مژدہ ملا کہ شب قدر میں اگر مسلمان اللہ کی عبادت کریں تو انھیں ایک ہزار مہینہ / تقریباً تیاسی سال کی عبادت کا ثواب ملےگا۔ یقینا” ہمیں یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ملی ہے۔

شب قدر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک فرشتے اور حضرت جبریل علیہ السلام زمین پر اترتے رہتے ہیں اور مسلمانوں اور نمازیوں کے لیے سلامتی کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی رات شب قدر ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کیا جائے۔ اکیسویں ، تیسویں، پچیسویں، ستائیسویں ، انتیسویں راتوں میں سے کوئی بھی رات شب قدر ہوسکتی ہے۔لیکن ان تاریخوں میں سب سے زیادہ مشہور ستائیسویں شب ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہے۔

چونکہ شب قدر بہت متبرک رات ہے ، اس لیے مسلمان اس رات مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں اور رات بھر خدا کی عبادت کرتے ہیں ، توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اپنے رب سے اپنی اور اپنے‌ اہل و عیال کی عافیت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔

شب قدر کے موضوع پر راقم الحروف کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

خدا کی خوشی کا وسیلہ شب قدر
بڑھاتی ہے نیکی کا جذبہ شب قدر

معاف اس میں ہوتے ہیں سب اپنے عصیاں
ہے فیض و کرم کا ادارہ شب قدر

زمیں پر اتر آتی ہے فوج قدسی
ہے تقدیس کا اک جزیرہ شب قدر

کرو دور آپس کے تم بغض و کینہ
نوازے گی تم کو زیادہ شب قدر

ہوئی عفو کی گونج‌ ہر ایک جانب
بنی موجب کیف عشرہ شب قدر

رہوگے اگر محو حمد و ثنا تم
خدا سے کریگی نہ شکوہ شب قدر

ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے عینی
ہے رب کا گراں قدر تحفہ شب قدر

افسوس کہ آج اپنے ملک عزیز کے ماحول کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔کبھی حجاب پر پابندی تو کبھی حلال پر۔ کبھی اذان پر پابندی تو کبھی مدرسوں کو بند کرنے کی سازش۔صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے سیکولرزم کے ڈھانچے کو ڈھا کر ملک کو کسی مخصوص دھرم کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ جب تک سیکولرزم تھا ، درست تھا ۔ جب تک سیکولرزم ہے ، درست ہے۔لیکن جب ملک کو کسی ایک مخصوص دھرم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں بھی جاگ جانا چاہیے، ہمیں بھی یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ اپنے ملک میں اسلامی حکومت ہو ، ہمیں بھی رب سے یہ دعا کرنا چاہیے کہ ملک میں اسلامی شریعت کا راج ہو ۔ آج یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے تو ہمیں یہ بھی منظور ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ کوڈ ہمارا ہوگا ، کوڈ شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا ۔خدا بہت بڑا کار ساز ہے۔کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئیگی ان شا ء اللہ۔اسلامی حکومت کے لیے راہ ہموار ہوجائےگی ان شاء اللہ۔لیکن شرط ہے کہ ہم خود صاحب عمل اور صاحب کردار ہوجائیں، اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق سنوارلیں۔آج شب قدر ہے جو دعا کی مقبولیت کی رات ہے ۔آئیے ہم سب مل کر رحمت عالمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے رو رو کر ، خدا کے آگے گڑگڑا کر یہ دعا کریں :
یا اللہ اپنے ملک عزیز سے ظلم و ستم کا خاتمہ فرمادے۔
یا اللہ مسلم قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت فرما۔
یا اللہ مسلم قوم کو انسان نما درندوں کی درندگی سے محفوظ فرما ۔
یا اللہ مسلم قوم کے جان و مال اور ایمان کی حفاظت فرما۔
یا اللہ کاش کوئی ایسی راہ ہموار ہوجائے جس سے اپنے ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور امن و اماں کی فضا پھر سے استوار ہوجائے

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے
یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں
پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج
مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں
(سید عینی)

شیطان کا خط قوم مسلم کے نام!✍️آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662📲

اے قوم مسلم! میرے خط کا مضمون دیکھ کر آپ کو پتہ ہوگیا ہوگا کہ اگر یہ خط کس کا ہے۔ آپ قطعی پریشان نہ ہوں ہم آپ کو بہکانے پھسلانے کے لیے یہ خط نہیں لکھ رہے ہیں۔ میں کون ہوں؟ کیا شان تھی میری، میرا مسکن کیا تھا،کیسا تھا، میں کیوں دھتکارا گیا یہ سب کچھ آپ کو پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ آخر اس مقدس مہینہ رمضان کریم میں میں کہاں ہوں، میری کیفیت کیا ہے، میرے گلے میں کیسا طوق پڑا ہے۔ بروز حشر میری کیا حالت ہوگی اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔!!!!لیکن میں آپ لوگ کو آگاہ کرنے کے لیے یہ خط لکھا ہوں کہ کبھی کبھی ہم بھی اچھا کام کر جاتے ہیں جیسے کہ یہی میرا نصیحت آمیز خط لے لیجئے۔ رمضان شریف اللہ عزوجل کے نزدیک اس قدر باعظمت و متبرک ہے کہ خدا نے اس ماہ میں پورا قرآن ہی نازل فرما دیا۔ گویا اپنے بندوں کو معصیت سے بچانے کے لیے ان کو راہ نجات کا سائیکلوپیڈیا عطا فرما دیا۔ اور اس ماہ میں اپنی رحمت و برکت نیز مغفرت و بخشش کا بیش بہا خزانہ ہی کھول دیا۔ لوگ خود گناہ کر کے اس نحوست کا مورد الزام جسے ٹھہراتے تھے رب تعالیٰ نے اسے بھی ازسرنو اس ماہ میں ختم فرمادیا یعنی مجھ شیاطین کو مع اہل و عیال قید و بند میں ڈال دیا، تاکہ تم راہ مستقیم سے بھٹک نہ سکو تم سے گناہ سرزد نہ ہو، تم خالص اپنے رب کی رضا جوئی میں مست و مگن رہو۔ تصور گناہ بھی تمہارے قریب پھٹکنے نہ پاۓ۔ اے قوم مسلم! تم معصیت کے بعد مجھے یا تو اپنے نفس کی شامت گردانتے تھے۔ تمہارے رب نے تم پر اپنا اتنا فضل فرمایا کہ روزے کو فرض قرار دے دیا۔ تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔ روزہ رکھنے سے آدمی کو سب سے اہم فائدہ ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ نفس امارہ اس کا اس قدر پژمردہ ہوجاتا ہے کہ اس کا ایک بھی ہتھکنڈا اپنے مالک پر کارگر نہیں ہوتا۔ گویا رب تعالیٰ اپنے مومن بندے سے تصورگناہ کا زاویہ اور اس کے رموز کا بالکلیہ خاتمہ فرمادیتا ہے۔ اس قید و بند میں رہ کر ہم سبھی شیاطین اتنا غمزدہ نہیں ہیں جتنا کہ میرے بغیر تمہارا شیطانی کام مجھے غمزدہ کر رکھا ہے۔ اس ماہ کی عظمت و برکت خود تمہاری بداعمالیوں کی بدولت روٹھی ہے۔ تمہاری بد اعمالیوں پر کبھی کبھی ہم شیاطین آپس میں خوب ٹھٹھابازی کرتے ہیں اور کبھی کبھی افسوس کے مارے ٹینشن میں ایک دوسرے کو نوچنا شروع کردیتے ہیں کہ آخر قوم مسلم کو ہو کیا گیا ہے، ہم سے بڑے شیطان تو یہ خود بنے بیٹھے ہیں اگر ایک سال ہم لوگ یوں ہی نظر بند رہیں تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ باوجود اس کے بھی تم اپنی نازیبا حرکتوں اور بداعمالیوں نیز گھناؤنے کرتوتوں سے جہنم کا ایندھن بن جاؤگے۔ دیکھتا ہوں کہ تندرست و توانا صحت مند ہونے کے باوجود بھی مسلمان روزہ نہیں رکھتا، نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ اے قوم مسلم! میں اگرچہ شیطان ہوں لیکن آج آپ لوگوں کے نام اس خط کو لکھنے کی غایت یہ ہے کہ یہ مہینہ جس قدر رحمت و برکت سے لبریز اور معطر ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیت میں ڈوبے رہنے والے مسلمانوں کے لیے قہر و غضب بھی ہے۔ الے لوگو! یاد رکھنا اس ماہ کا حساب و کتاب بڑا سخت ہوگا، اس وقت نہ مجھے مورد الزام ٹھہرا پاؤگے اور نہ ہی اپنے نفس کو۔ کیوں کہ اس کا شافی حل تمہارے رب نے تمہیں پہلے ہی عطا فرما دیا، مجھے قید کرکے اور روزے سے نفس کو مقید کرکے۔ تو اس وقت جب تم سے رب رمضان المبارک کے متعلق سوال کریگا کبھی اپنی بیش قیمت رحمتوں کو یاد دلا کر، تو کبھی مغفرت و بخشش کی مقدس ساعتوں کو یاد دلاکر اور جہنم سے بالکلیہ آزاد ہو جانے کے لیے ہم نے تمہیں پورے کے پورے دس دن عطا فرماۓ (یہاں تک کہ پورا رمضان اس قدر عظمتوں والا ہے کہ بنی آدم اگر فرمان خدا وندی کا پختہ عامل ہو جائے تو وہ خالص اسی ماہ میں اپنے گناہوں کو بخشوا سکتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے) تو اس وقت رب کی بارگاہ میں تم سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ میں بھی تمہاری طرح اپنے رب کا فرمان نہ مانا تھا ہمیشہ اپنے نفس کے بہکاوے میں مست و مگن رہتا تھا جیسا کہ اس وقت آپ لوگ ہیں۔ میرے رب نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا وہ تم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جانتے ہوۓ اور دیکھتے ہوۓ کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ کیسا غضب ناک معاملہ فرماتا ہے۔ پھر بھی تم لوگ اس پاکیزہ ماہ میں گناہوں میں ملوث ہو۔ میری بات سمجھ میں آگئی ہو تو خدارا ابھی وقت ہے اپنے اعمال کو درست کرلو، گناہوں سے باز آجاؤ تاکہ تمہارا رب تم سے راضی ہوجائے۔ رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ مجھے قید میں ڈال کر تم پر مہربانی فرما رہا ہے۔ روزے کی فرضیت سے نفس امارہ کو مقید کرکے تم پر مہربانی فرمارہا۔ اب تو معصیت کو چھوڑ دو، روزہ رکھ کر نمازوں کی پابندی کرکے رمضان کا احترام کرلو۔ اسی میں زندگی کی ساری سعادتیں اور بہاریں مضمر ہیں۔ رب راضی ہوگیا تو دوجہاں کا ذرہ ذرہ آپ سے راضی ہوجائے گا۔ اپنے رسول کے قول و فعل کی توقیر کیا کرو، ان کی تعظیم سے سر منہ نہ پھیرنا، کیوں کہ بارگاہ خدا وندی سے میرے دھتکارے جانے کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ پیغمبر خدا (حضرت) آدم (علیہ السلام) کی میں نے تعظیم نہ کی تھی۔

نوٹ: اے لوگو! میرے اس ناصحانہ خط کو اطمنان و سکون سے پڑھنا اور بار بار پڑھنا، عمل میں لانا۔ ہرگز ہرگز یہ تصور کرکے میرا خط پھاڑ(ڈلیڈ) نہ دینا کہ یہ ایک شیطان کا خط ہے۔ فقط مع السلام خدا حافظ

نسخہ اتحاد و اختلاف-📝حسن نوری گونڈوی

کسی منتشر قوم کو جمع کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کے دل میں کسی کا خوف ڈالنا ہوگا اسے ہر وقت یہ بتانا ہوگا کہ فلاں تمہارے پیچھے ہے یا تمہارے خلاف سازش کر رہا ہے، یا تمہاری نقل و حرکت پر اس کی گہری نظر، یا ذرا سی غلطی کی تو فلاں تم سے حساب لے گا یہ حساب انتہائی سخت ہوگا، یہ خوف اس حد تک ہو کہ کھاتے پیتے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس پر سوار ہو حتی کہ اسے یہ ذہن نشین کرا دیا جائے کہ آپ کی معمولی سے غلطی آپ کے لیے بہت بھاری پڑ سکتی ہے ذرا سا کوتاہی آپ کو بڑے مشکل میں ڈال سکتی ہے کسی لالچ میں آکر یہ غلطی کہ دردناک سزاؤں کے لیے تیار ہو قوم کے بچہ بچہ کو یہ باور کرا دیا جائے کہ تمہارا دشمن، مخالف ہر گھڑی تمہاری تاک میں ہے یاد رہے منتشر قوم کو جمع کرنے کا یہ نسخہ پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے کبھی خیالی دشمن پیدا کرکے اپنی قوم کے اتحاد کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے تو کبھی جان بوجھ کر دشمن پیدا کیا جاتا ہے تاکہ ہماری قوم ہر وقت تیار اور متحرک رہے جہاں اور جب بھی جمود دیکھا فوراً اسی خوف کو تازہ کیا جاتا ہے

دوسرا نسخہ
کسی متحد قوم کو منتشر کرنا ہو تو سب سے اہم نسخہ یہ ہے کہ ان کے آپسی اختلاف کو ہوا دی جائے، ان کے لوگوں میں لالچ اور شک پیدا کیا جائے، قوم کے ہر فرد کو خود سر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، ان کے دلوں سے اطاعت و اتباع نکالنے کے لیے اطاعت و اتباع کو غلامی بناکر پیش کیا جائے، ان کے ہر فرد کو یہ باور کرا دیا جائے کہ تم غلام ہو حقیقی آزادی کچھ اور ہے ان کے ہر قول و فعل کے “قبح” کو بیان کیا جائے جبکہ “حسن” سے چشم پوشی کی جائے، انہیں باور کرایا جائے کہ تم خود مختار بنو، تم وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں جو تمہارے پیشوا میں ہیں، متحد قوم کو منتشر کرنے کے لیے ان کے پیشوا کو ذلیل اور عامی کو عزت دار بنایا جائے (کیونکہ جب راعی نہ رہے گا تو رعایا کا شکار آسان ہوتا ہے) قوم اور قوم کے رہنما کے درمیان سد سکندری قائم کی جائے، اتحاد بکھیرنے کے لیے انہیں ہر وقت کوسا جائے، معمولی جرم کو بڑا اور بڑے جرم کو معمولی بنا کر پیش کیا جائے، ان کے دلوں سے خوف نکال کر آزادی، عیش، اور خود مختاری پیدا کی جائے

اے مسلمان! اچھی طرح غور کرو کیا ہمیں متحد رہنے کے لیے اللہ کا خوف کافی نہیں ہمیں کسی اور سے ڈرنے کے بجائے اپنے رب سے ڈرنا چاہیے، امیر کی اطاعت، پیشوا کی اطاعت، اپنے بڑوں کی پیروی یہ سب اتحاد کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے کافی ہے آج ہم میں اطاعت و اتباع نہیں بلکہ خود سری، خود مختاری، اور فرضی آزادی کی دھن ہے،

متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام
منتشر ہو تو پھر اشک بہاتے کیوں ہو؟

📝حسن نوری گونڈوی امام نورانی مسجد بیگم باغ کالونی اجین ایم پی

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا-تبصرہ – از قلم : سید خادم رسول عینی

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی راقم الحروف کے نعتیہ مجموعہء کلام” رحمت و نور کی برکھا ” کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :

” اگر صحیح معنوں میں نعت گوئی کا سلیقہ و قرینہ چاہیے تو سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے مجموعہء کلام حدائق بخشش کا مطالعہ کرنا بے حد مفید و سود مند ثابت ہوگا۔میں نے جب نعت گوئی کا آغاز کیا تو مجھے ایسا کوئی مخلص استاد نہیں ملا کہ جس کی رہنمائی میں اپنا نعتیہ فکری سفر جاری رکھ سکوں ۔ تو ایک دن‌ ابی الشفیق والمحترم حضور مفتیِ اعظم‌ اڑیسہ علامہ سید شاہ عبد القدوس علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں اپنے تردد کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری نعت گوئی کی مکمل رہنمائی کے لیے سیدی اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان حد ایق بخشش کافی ہے۔لہذا تم اس کے مطالعے کو اپنا معمول بنالو۔آپ‌ نے مزید فرمایا کہ حدائق بخشش تمھیں شاعری کے رموز و اسرار بتائیگی اور شاعری کے قواعد و ضوابط بھی سکھائے گی۔شریعت کی پاسداری کے موثر طریقوں سے آشنا کرائیگی۔ عقائد و اعمال کی اصلاح کا سبق بھی پڑھائیگی، بد‌ مذہبوں اور بد عقیدوں سے دور و نفور رہنے کی ترغیب عطا کریگی اور احقاق حق و ابطال باطل کا جذبہ بھی اجاگر کریگی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہی کتاب تمھیں آداب نعت گوئی کے ساتھ ساتھ عشق رسول اور نور ایماں کی لازوال نعمت سے ہم کنار بھی کرےگی” ۔

جب ہم حدائقِ بخشش کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے جس نعتیہ گلدستے کی زیارت ہوتی ہے اس کا مطلع یوں ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اس سے پہلے کہ ہم شعر کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں آئیے عروضی ضاویے سے شعر پر تبصرہ کرتے ہیں :

عروض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس کلام کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
مطلع کے دوسرے مصرع میں افاعیل یوں ہے:
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
گویا اعلیٰ حضرت نے اپنے نعتیہ دیوان کے پہلے شعر میں ہی زحاف(خبن) کا استعمال کیا ہے۔
اس سے علم عروض پر آپ کی استادانہ مہارت کا پتہ چلتا ہے

اعلیٰ حضرت کے دوسرے کلاموں کے اشعار میں بھی زحاف خبن کا استعمال ملتا ہے ، جیسے:
شب اسریٰ کے دولھا پہ دایم درود
اس مصرع کے افاعیل ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلان
جب کہ مطلع کے مصرعوں کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان۔

اگر علم عروض کے زاویے سے حدائق بخشش کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے کلاموں میں کئی مقامات پر مختلف زحافات کا استعمال فرماکر اشعار کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
مثال کے طور پر:
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود۔
اس کلام کے کئی اشعار میں آپ نے زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے، ضرب و عروض میں بھی اور حشو میں بھی۔مثلا”
کیا ہیں جو بےحد ہیں لوث تم تو ہو غیث اور غوث

تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث

وہ شب معراج راج وہ صف محشر کا تاج

لحت فلاح الفلاح رحت فراح المراح

جان و جہان مسیح داد کہ دل ہے جریح

اف وہ رہ سنگلاخ آہ یہ پا شاخ شاخ

تم سے کھلا باب جود تم سے ہے سب کا وجود

خستہ ہوں اور تم معاذ بستہ ہوں اور تم ملاذ

مندرجہ بالا مصرعوں کے افاعیل یوں ہیں:
مفتعلن فاعلان مفتعلن فاعلان
جب کہ مطلع
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود
کے افاعیل یوں ہیں :
مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلان
گویا اعلیٰ حضرت نے مندرجہ بالا مصرعوں کے حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے‌۔
اور اعلی’حضرت کا ایسا استعمال دلیل ہے کہ حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال درست ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اعلیٰ حضرت کے اس شعر میں بلاغی حسن ہے۔
شعر کئی صنعتوں کے جمال سے مزین ہے:

صنعت تلمیح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر میں ایک مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ ایک سائل سرکار سے طلب کرتا رہا اور سرکار عطا فرماتے رہے اور آپ نے کبھی لا نہیں فرمایا۔

صنعت تکریر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کا دوبار آنا شعر کے حسن کو دوبالا کررہا ہے

صنعت تجنیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے نہیں کا مطلب ہے No
,دوسرے نہیں کا مطلب ہے not، لہذا شعر تجنیس تام‌ کے category میں آیا۔

جملہء خبریہ vs جملہء انشاءیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعر میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ اولی’ انشاءیہ جملہ ہے اور ثانی جملہء خبریہ۔ جملہء خبریہ کے ساتھ ساتھ انشاءیہ جملہ کے استعمال نے شعر میں مقناطیسیت پیدا کی ہے اور اثر انگیزی بھی ۔

دعویٰ vs دلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر میں مزید خوبی یہ ہے کہ پہلے جملے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم صاحب جود و کرم ہیں اور ثانی میں ایک واقعے کو بیان کرکے دعوے کی دلیل بھی پیش کردی گئی۔

لفظ تیرا کی افادیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمھارا / آپ کا کے عوض تیرا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ لفظ تو / تیرا میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہے اور تو / تیرا کے استعمال میں اقرار بے مثلیت ذات محمدی بھی ہے ۔صلی اللہ علیہ وسلم

تفہیم
۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ شعر ایک حدیث کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔وہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس کا مفہوم یوں ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی ہیں ۔آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی زیادہ جاری ہے۔آپ نے کبھی کسی سوالی کو خالی واپس نہیں لوٹایا یعنی لا نہیں فرمایا۔

اسی لیے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا تھا :

ما قال لا قط الا فی تشھدہ
لولا التشھد کانت لا وہ نعم‌

سخاوت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک کئی واقعات مشہور ہیں ۔
صحابیء رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کبھی سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں نہ نہیں کہا ۔

تبھی تو ‌اعلی’ حضرت فرماتے ہیں:
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

جود vs کرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرم کے ساتھ جود کا لفظ بھی لایا گیا ہے کیونکہ جود ، کرم سے اعلیٰ ہے ، higher category کے کرم کو جود کہا جاتاہے ۔ کرم مانگنے پر عطا کرنے کو کہتے ہیں اور جود بے مانگے دینے کو کہتے ہیں ۔آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق سخاوت لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا باعث بن گیا ۔ مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بخالت کا مظاہرہ نہ کریں ، بلکہ اسوہء حسنہ پہ عمل کرتے ہوئے سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ۔مال سے محبت نہ کریں بلکہ جس نے مال دیا ہے اس سے محبت کریں ، یعنی خداوند قدوس سے محبت کریں اور خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرتے رہیں

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!